کیا اتفاق ہے، میں ایک سند کی تلاش میں تھا۔ شاید آپ مدد کر سکیں۔
أخبرني محمد بن المؤمل بن الحسن ، ثنا الفضل بن محمد الشعراني ، ثنا نعيم بن حماد ، ثنا بقية بن الوليد ، عن يزيد بن عبد الله الجهمي ، عن أنس بن مالك رضي الله عنه ، قال : دخلت على عائشة رضي الله عنها ورجل معها ، فقال الرجل : يا أم المؤمنين حدثينا حديثا عن الزلزلة ، فأعرضت عنه بوجهها ، قال أنس : فقلت لها : حدثينا يا أم المؤمنين عن الزلزلة ، فقالت : « يا أنس إن حدثتك عنها عشت حزينا ، وبعثت حين تبعث وذلك الحزن في قلبك » فقلت : يا أماه حدثينا ، فقالت : « إن المرأة إذا خلعت ثيابها في غير بيت زوجها هتكت ما بينها وبين الله عز وجل من حجاب ، وإن تطيبت لغير زوجها كان عليها نارا وشنارا (1) ، فإذا استحلوا الزنا وشربوا الخمور بعد هذا وضربوا المعازف غار الله في سمائه ، فقال للأرض : تزلزلي بهم ، فإن تابوا ونزعوا وإلا هدمها عليهم » فقال أنس : عقوبة لهم ؟ قالت : « رحمة وبركة وموعظة للمؤمنين ، ونكالا وسخطة (2) وعذابا للكافرين » قال أنس : « فما سمعت بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم حديثا أنا أشد به فرحا مني بهذا الحديث ، بل أعيش فرحا وأبعث حين أبعث وذلك الفرح في قلبي - أو قال : في نفسي - » « هذا حديث صحيح على شرط مسلم ، ولم يخرجاه » (المستدرك للحاكم)
کسی نے اس کا ترجمہ ایسے کیا ہوا ہے :
-----------------------------------------------------------
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے کسی نے پوچھا، زلزلے کیوں آتے ہیں؟
ارشاد فرمایا کہ :
جب عورتیں غیر مردوں کے لیے خوشبو استعمال کریں، جب عورتیں غیر محرم مردوں کے سامنے ننگی ہونے میں جھجک محسوس نہ کریں، یعنی زنا عام ہو جائے۔ جب شراب اور موسیقی عام ہو جائے تو زلزلہ کی توقع رکھنا۔"
--------------------------------------------------------------
پہلی بات یہ کہ کیا یہ صحیح ترجمہ ہے؟
دوسری بات یہ کہ کیا یہ صحیح سند یا صحیح حوالہ ہے؟
اگر آپ کے علم میں ہے تو میری مدد کر دیں۔
”سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اور میرے ساتھ ایک شخص سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے۔ میرے دوسرے ساتھی نے عرض کیا: ام المومنین ! ہمیں زلزلے کے بارے میں کچھ ارشاد فرمائیں۔ تو آپ نے جواب دینے کے بجائے چہرہ دوسری جانب پھیر دیا۔ سیدنا انس ؓ فرماتے ہیں کہ پھر میں نے عرض کیا: ام المومنین! زلزلے کے بارے میں کچھ ارشاد فرمائیں۔
تو فرمانے لگیں اے انس! اگر میں نے اس کے بارے میں کچھ بیان کیا تو تمہاری بقیہ زندگی غم میں گزرے گی اور غم ہی کی حالت میں تمہاری موت آئے گی اور مرنے کے بعد جب بھی تم اٹھائے جاؤ گے تو یہ غم تمہارے دل میں موجود ہوگا۔ عرض کیا اماں جان! جو کچھ بھی ہو ارشاد فرمائیں۔ تو آپ ؓ نے فرمایا:
”ایک عورت جب اپنے شوہر کے گھر کے علاوہ کسی دوسرے گھر میں لباس اتارتی ہے تو اس کے اور اللہ کے درمیان جو حجاب اور پردہ ہوتا ہے، اس کی بے حرمتی ہوجاتی ہے اور جب وہ شوہر کے علاوہ کسی دوسرے مرد کے لئے زینت کرتی اور خوشبو لگاتی ہے تو اس کا یہ فعل اس کے لئے آگ ہوگا اور اس کے لئے عیب اور رسوائی۔ پھر (نتیجتاً) جب وہ زنا میں مشغول ہوجاتے ہیں اور اس کے ساتھ شراب بھی پیتے ہیں اور گانا بجانا کرتے ہیں تو اللہ کریم ان کے اس فعل کی وجہ سے آسمان کے اوپر غیرت کھاتے ہوئے حکم فرماتے ہیں کہ ان پر ”زلزلہ“ آجائے۔ اگر وہ متنبہ ہوکر توبہ کرلیں اور اس حالت سے نکل آئیں تو ٹھیک ورنہ اللہ اس کو ان پر گرادیتے ہیں۔“ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ کیا یہ (زلزلہ) ان لوگوں پر بطور سزا کے آئے گا۔ آپ نے جواباً ارشاد فرمایا کہ:
”نہیں بلکہ یہ ایمان والوں کے لئے رحمت، برکت اور نصیحت ہوگی۔“
”اور کفار کے لئے عبرت ناک سزا، غصہ اور عذاب ہوگا۔“
سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد اس سے زیادہ خوش کردینے والی حدیث میں نے نہیں سنی۔ اب میں خوشی خوشی جیوں گا اور خوشی خوشی مروں گا اور جب بھی زندہ کرکے اُٹھایا جاؤں گا تو یہ خوشی میرے دل میں یا میری جان میں ہوگی۔“
یہ حدیث امام حاکم کی مستدرک میں ہے۔ اور امام حاکم نے اسے صحیح بھی کہا ہے۔ لیکن بعض محدثین نے راوی نعیم بن حماد پر کلام کیا ہے۔ اس کے علاوہ علامہ البانی نے بھی اس کو سلسلہ احادیث ضعیفہ میں ذکر کیا ہے۔ یعنی سند کے اعتبار سے یہ حدیث اتنی جاندار نہیں ہے۔