محسن وقار علی
محفلین
جاتے جاتے، صدرغلام اسحاق خان نے ایک بڑا اور یادگار کام یہ کیا کہ ایک بڑی خوبصورت اور بین الا قوامی معیار کی یونیورسٹی اپنے علاقے میں بنوا گئے، جو ملک کے لاکھوں ذہین بچوں کو فائدہ پہنچا رہی ہے
واشنگٹن — اپنے پچھلے بلاگ میں ذکر کیا تھا جناب نواز شریف کے دورہٴجرمنی کا اور بتایا تھا کہ اُس دورے سے واپسی کے چند ہی روز بعد، صدر غلام اسحاق خان نےاپنے خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے اُن کی حکومت کو برطرف کردیا تھا۔
اُس مضمون میں میاں صاحب کی سادگی کا ذکر تھا کہ باوجود وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہونے کے، وہ بےحد منکسرالمزاج ہیں اور بات چیت میں بھی وہ اپنے مخاطب پر خوامخواہ کا رعب ڈالنے کی کوشش نہیں کرتے۔
لیکن، اِس نرم روی، نرم گفتاری اور سادہ دلی سے یہ غلط فہمی بھی نہیں ہونی چاہئیے کہ وہ کوئی کمزور شخصیت کےمالک ہیں۔
یاد رہے کہ وہ 25 دسمبر کو پیداہوئے تھے، جو قائدِ اعظم محمد علی جناح کا بھی یومِ پیدائش ہے۔ اِس حساب سے، اُن کا بُرج جدّی ہے۔ اتفاق سے میرا بھی یہی بُرج ہے۔لیکن میرا یومِ پیدائش 24 دسمبر ہے۔ اِس لئے، مجھےاندازہ ہے کہ اندر سے یہ لوگ بہت مضبوط دل و دماغ کے مالک ہوتے ہیں، جو ارادہ کر لیں یا مقصد حاصل کرنا چاہیں، اس کے لئے بڑے صبر سے جدوجہد کرتے رہتے ہیں اور بالاآخر اپنی منزل کو پالیتے ہیں۔
اِس حساب سے، ہم دیکھتے ہیں کہ میاں صاحب نے اپنی مضبوط قوّتِ ارادی سے بڑے بڑے فیصلے بھی کئے، جِن میں ایٹمی دھماکہ کرنے سے موٹر وے بنانے تک کا فیصلہ شامل ہے۔
اُن کی دو مرتبہ وزارتِ عظمیٰ سے جبری رخصتی بھی اُن کی اِس طبیعت کا شاخسانہ ہے۔ ورنہ، اگر وہ صدر غلام اسحاق خان کے سامنے دبے رہتے تو اُن کی ایک ڈھیلی ڈھالی حکومت چلتی رہتی جس کے اصل حکمراں اسحاق خان ہی ہوتے۔مگر شاید میاں صاحب کو یہ گوارا نہ تھا اور اُن کے دوستوں نے بھی اُ نہیں جوش دلایا ہوگاکہ،’ میاں صاب، تسی وزیراعظم او، جناب۔۔شیر بنو شیر‘۔ اور پھر میاں صاحب جن کا انتخابی نشان بھی شیر ہے،حقیقت میں شیر بن گئے اورٹکر لے لی،سخت گیر قسم کے منتظم حکمراں غلام اسحاق سے،جو تحصیلدار کے منصب سے صدر کے عہدے پر پہنچے تھے اور ایوب خان،یحیی خان،بھٹّو اور ضیاالحق جیسے حکمرانوں کے اقتدار میں شامل بھی رہے اور خاموشی سے انہیں رخصت ہوتے بھی دیکھتے رہے۔اقتدار کی اس اونچ نیچ کو دیکھنے کے وہ اس قدر عادی ہو چکے تھے کہ بےنظیر کو بیٹی کہہ کر وزارتِ عظمیٰ کی کرسی پر بٹھایا ،جو ایک وقت میں ان کی سخت مخالف سمجھی جاتی تھیں، اور پھر انہیں بڑی منصوبہ بندی سے رخصت بھی کر دیا۔اور پھر نواز شریف کو اُسی کرسی پر بٹھایا،شاید یہ سوچتے ہوئے کہ وہ نرم طبیعت آدمی ہیں قابو میں رہیں گے،لیکن، اُن کی سب تدبیریں الٹی ہو گئیں۔
غلام اسحاق خان،ملک کے وزیرِ خزانہ اور وزیرِمنصوبہ بندی بھی رہے تھے۔ اِس لئے، پیسے بچانے میں اور احتیاط سے خرچ کرنے میں وہ پکےّ مُنشی تھے اور ان کے ہوتے کوئی خزانے سے ایک دھیلا نہیں لے جاسکتا تھا۔دوسری طرف، میاں صاحب ایک تاجر، ایک کاروباری تھے، جو کہتا ہےکہ لگانے سے ملے گا۔ سرمایہ لگاؤ گے تو وہ سرمائے کو کھینچے گا۔طبیعت کے اِسی تضاد نے دونوں کے درمیان کھچاؤ پیدا کیا، جو خلیج بنتا چلا گیا اور کہتے ہیں کہ پاکستان موٹر وے کا منصوبہ بھی وجہٴ نزع بنا۔
صدر اسحاق نے نئے وزیرِاعظم کو اپنے انگوٹھے تلے دبانے کی کوشش کی۔ لیکن، اُنہیں معلوم نہیں تھا کہ اِس مرتبہ اُن کا سابقہ ایک ایسےنوجوان سے پڑ گیا ہے جو بظاہر تر نوالہ نظر آتا ہے، لیکن ہڈّی کی طرح اُن کے حلق میں پھنس جائیگا۔لہٰذا، نواز شریف نے صدر کی طرف سے اپنی حکومت توڑنے کے اقدام کوسپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا، اور پھر بڑی دلچسپ کارروائی جاری رہی،اور آخر میں عدالت نے فیصلہ میاں صاحب کے حق میں دے دیا۔
اُنہوں نے اپنی شیروانی دوبارہ نکال لی اور اس سے پہلے کہ وہ فاتح کی حیثیت سے وزیراعظم ہاؤس میں داخل ہوتے، فوج کے سربراہ بیچ میں آگئے اور بوڑھے صدر صاحب کی آخر عمر میں عزت خراب ہونے سے بچالی۔آخر کو وہ ان کے پٹھان بھائی بھی تھے۔
بہر حال، فوج کی اِس مداخلت سےملک ایک بڑے سیاسی بحران سے بچ گیا اور فیصلہ ہوا کہ صدر اور وزیراعظم دونوں اپنے اپنے گھروں کو چلے جائیں۔
لیکن، جاتے جاتے،صدر اسحاق نے ایک بڑا اور یادگار کام یہ کیا کہ ایک بڑی خوبصورت اور بین الا قوامی معیار کی یونیورسٹی اپنے علاقے میں بنوا گئے، جو ملک کے لاکھوں ذہین بچوں کو فائدہ پہنچا رہی ہے۔
یہاں امریکہ کی تاریخ پر جب ہم نظر ڈالتے ہیں تو دیکھتے ہیں ہر دوسرا صدر قائدِاعظم تھا اور وہ اپنی یادگاری تختی کسی سڑک پر نہیں لگواتا تھاکہ دوسرا آنے والا صدر اسے اکھاڑکر باہر پھینکے اور اپنی تختی لگوالے،یا اپنی اور اپنے بچوں کی جائداد بنانے کی فکر میں رہتا، بلکہ وہ اس ملک کے تمام بچوں کا سوچتا تھا اور اسے معلوم تھا کہ تعلیم ایسا زیور ہےجو ہمیشہ رہنے والا ہے اور جو اس ملک کی ترقی کا زینہ ہے،جو اسے بھی زندہ رکھے گا اور اس ملک کو بھی۔ اِسی لئے، آپ دیکھئے کہ جتنی مشہور درسگاہیں ،کالج،یونی ورسٹیاں ہیں وہ انہی صدر صاحبان کی کاوشوں کا نتیجہ ہیں۔بلکہ، کچھ تو اپنا اقتدار چھوڑ کر پڑھانے نکل پڑےاور کسی دور دراز جگہ ایک چھوٹا سا تعلیمی ادارہ بنا لیا،جو آج ایک عالمی درسگاہ ہے،جیسے تھامس جیفرسن،جنکی بنائی ہوئی یونیورسٹی آف ورجینیا،کیسی اعلیٰ یونیورسٹی ہے۔
لیکن، ہماری GIK یونیورسٹی بھی کسی سے کم نہیں۔اس کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب میری ایک بھانجی فاریہ نے وہاں سے ڈگری حاصل کی۔ اس کے والد بھی حیات نہیں تھے اور اس نے اپنی ٕمحنت سے پڑھا اور ٕمیرٹ کی بنیاد پر بغیر کسی سفارش کے وہاں داخلہ حاصل کیا اور مجھےاس کی گریجویشن تقریب اور یہاں امریکہ میں اپنے بچوں کی گریجویشن تقریب میں کوئی فرق نظر نہیں آیا۔
اِس لحاظ سے، غلام اسحاق خان کا نام پاکستان کی تاریخ میں ہمیں ایک دیانتدار،مخلص اور دیندار سربراہ کی حیثیت سے چمکتا نظر آتا ہے،جنہوں نے ذاتی دھن دولت اور اپنی اولاد کے لئے بڑی جائیداد نہیں ، بلکہ ملک کے بچوں کے لئے ایک عظیم تعلیمی ورثہ چھوڑا ۔ اس کاوش میں ڈاکٹر قدیر خان کا بھی بڑا حصہ تھا،جنہوں نےاپنے ذاتی تعلقات سے ،بیرونی ممالک سے ان کے لئے فنڈ اکٹھا کیا اور ان کے خواب کو پایہٴ تکمیل تک پہنچایا۔
میں نےجناب اسحاق کو و یسے تو کئی سرکاری تقریبات میں دیکھا تھا،لیکن پہلی اور آخری بالمُشافہ ملاقات اُس وقت ہوئی جب حکومتِ پاکستان نے براڈکاسٹنگ کے شعبے میں خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے،کمال مہربانی فرمائی اور مجھے تمغہٴ حسنِ کارکردگی سے نوازا۔اتفاق ایسا ہے کہ جب پاکستان ٹیلی وژن نے میرے لئے اِس تمغے کی سفارش وزیر اعظم اور صدر کو بھیجی تو بے نظیر بھٹّو وزیراعظم تھیں۔ اُن کی منظوری کے بعد جب صدر تک یہ فائل پہنچی تو وقت بدل چکا تھا اور جب میں تمغہ وصول کر رہا تھا تو نواز شریف صدر کے پیچھے کھڑے مسکرا رہے تھے۔
23مارچ 1991ء کو ایک پُر وقار تقریب ’ ایوانِ صدر‘ میں منعقد ہوئی جِس میں یہ اعزاز عطا ہوا۔
مجھے خوشی اِس لئے زیادہ ہوئی کہ دونوں وزرائے اعظم کی آشیرباد اِس میں شامل تھی۔ پھر یہ کہ اُسی تقریب میں ہردلعزیز شاعرہ پروین شاکر،مقبول اداکار مرزا نذیر بیگ عرف ندیم، معروف لوک فنکار شوکت علی اور دھیمے لہجے کے بلند پایہ شاعر افتخار عارف کو بھی یہ تمغے پہنائےگئے۔
اپنے اپنے فن میں یکتا، اِن شخصیات کے ہمراہ کھڑا ہونا،بذاتِ خود ایک بڑا اعزاز تھا۔اور پھر پروین شاکر کی اس دنیا سے یوں اچانک رخصتی نے ان لمحات کو اور بھی یادگار بنا دیا۔
صدر صاحب سے مصافحہ کرتے ہوئے میں فخر اور تشکر کے جذبات سے مغلوب تھاکہ میرے سامنے وہ شخصیت تھی جس نے ایک چھوٹے سے شمالی علاقے میں جنم لیا اور پھر اس پٹھان بچے نے محض ا پنی محنت سےعلم حاصل کیا اور نائب تحصیلدار کے عہدے سے درجہ بدرجہ ترقی کرتے، سب سے اعلیٰ مقام تک پہنچا۔جس نے ملک کی تاریخ بنتے اور بگڑتے دیکھی اور حکومتوں اور شخصیتوں کا عروج و زوال بہت قریب سے دیکھا۔کاش، وہ اپنی یادداشتیں قلمبند کرتے تو پوری تاریخ سامنے آجاتی۔
آپ سوچ رہے ہونگے کہ نواز شریف سے بات اپنے تمغے تک کیسے آگئی۔ تو جناب، ذکر تھا صدر غلام اسحاق خان کا۔ تو اُن کے حوالے سے یہ سار اقصہ یاد آگیا۔ مگر ، نواز شریف کو کیسے بھلایا جاسکتا ہےجنہوں نے موٹر وے کی صورت میں قوم کو ایک خوبصورت تحفہ دیا اور اِس کے افتتاح پر انہوں نے اسلام آباد سے لاہور تک ایک بڑے قافلے کے ساتھ سفر کیا۔
ریڈیو اور ٹیلی وژن نے اس سفر کی روداد براہِ راست نشر کی۔بھیرہ سیکشن پر ریڈیو کے بوتھ میں رواں تبصرہ کرتے ہوئے ،میں نے اپنی آنکھوں سے یہ منظر دیکھاجِس کی تفصیل، انشاآللہ، آئندہ نشست میں۔
بہ شکریہ اردو وی او اے
واشنگٹن — اپنے پچھلے بلاگ میں ذکر کیا تھا جناب نواز شریف کے دورہٴجرمنی کا اور بتایا تھا کہ اُس دورے سے واپسی کے چند ہی روز بعد، صدر غلام اسحاق خان نےاپنے خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے اُن کی حکومت کو برطرف کردیا تھا۔
اُس مضمون میں میاں صاحب کی سادگی کا ذکر تھا کہ باوجود وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہونے کے، وہ بےحد منکسرالمزاج ہیں اور بات چیت میں بھی وہ اپنے مخاطب پر خوامخواہ کا رعب ڈالنے کی کوشش نہیں کرتے۔
لیکن، اِس نرم روی، نرم گفتاری اور سادہ دلی سے یہ غلط فہمی بھی نہیں ہونی چاہئیے کہ وہ کوئی کمزور شخصیت کےمالک ہیں۔
یاد رہے کہ وہ 25 دسمبر کو پیداہوئے تھے، جو قائدِ اعظم محمد علی جناح کا بھی یومِ پیدائش ہے۔ اِس حساب سے، اُن کا بُرج جدّی ہے۔ اتفاق سے میرا بھی یہی بُرج ہے۔لیکن میرا یومِ پیدائش 24 دسمبر ہے۔ اِس لئے، مجھےاندازہ ہے کہ اندر سے یہ لوگ بہت مضبوط دل و دماغ کے مالک ہوتے ہیں، جو ارادہ کر لیں یا مقصد حاصل کرنا چاہیں، اس کے لئے بڑے صبر سے جدوجہد کرتے رہتے ہیں اور بالاآخر اپنی منزل کو پالیتے ہیں۔
اِس حساب سے، ہم دیکھتے ہیں کہ میاں صاحب نے اپنی مضبوط قوّتِ ارادی سے بڑے بڑے فیصلے بھی کئے، جِن میں ایٹمی دھماکہ کرنے سے موٹر وے بنانے تک کا فیصلہ شامل ہے۔
اُن کی دو مرتبہ وزارتِ عظمیٰ سے جبری رخصتی بھی اُن کی اِس طبیعت کا شاخسانہ ہے۔ ورنہ، اگر وہ صدر غلام اسحاق خان کے سامنے دبے رہتے تو اُن کی ایک ڈھیلی ڈھالی حکومت چلتی رہتی جس کے اصل حکمراں اسحاق خان ہی ہوتے۔مگر شاید میاں صاحب کو یہ گوارا نہ تھا اور اُن کے دوستوں نے بھی اُ نہیں جوش دلایا ہوگاکہ،’ میاں صاب، تسی وزیراعظم او، جناب۔۔شیر بنو شیر‘۔ اور پھر میاں صاحب جن کا انتخابی نشان بھی شیر ہے،حقیقت میں شیر بن گئے اورٹکر لے لی،سخت گیر قسم کے منتظم حکمراں غلام اسحاق سے،جو تحصیلدار کے منصب سے صدر کے عہدے پر پہنچے تھے اور ایوب خان،یحیی خان،بھٹّو اور ضیاالحق جیسے حکمرانوں کے اقتدار میں شامل بھی رہے اور خاموشی سے انہیں رخصت ہوتے بھی دیکھتے رہے۔اقتدار کی اس اونچ نیچ کو دیکھنے کے وہ اس قدر عادی ہو چکے تھے کہ بےنظیر کو بیٹی کہہ کر وزارتِ عظمیٰ کی کرسی پر بٹھایا ،جو ایک وقت میں ان کی سخت مخالف سمجھی جاتی تھیں، اور پھر انہیں بڑی منصوبہ بندی سے رخصت بھی کر دیا۔اور پھر نواز شریف کو اُسی کرسی پر بٹھایا،شاید یہ سوچتے ہوئے کہ وہ نرم طبیعت آدمی ہیں قابو میں رہیں گے،لیکن، اُن کی سب تدبیریں الٹی ہو گئیں۔
غلام اسحاق خان،ملک کے وزیرِ خزانہ اور وزیرِمنصوبہ بندی بھی رہے تھے۔ اِس لئے، پیسے بچانے میں اور احتیاط سے خرچ کرنے میں وہ پکےّ مُنشی تھے اور ان کے ہوتے کوئی خزانے سے ایک دھیلا نہیں لے جاسکتا تھا۔دوسری طرف، میاں صاحب ایک تاجر، ایک کاروباری تھے، جو کہتا ہےکہ لگانے سے ملے گا۔ سرمایہ لگاؤ گے تو وہ سرمائے کو کھینچے گا۔طبیعت کے اِسی تضاد نے دونوں کے درمیان کھچاؤ پیدا کیا، جو خلیج بنتا چلا گیا اور کہتے ہیں کہ پاکستان موٹر وے کا منصوبہ بھی وجہٴ نزع بنا۔
صدر اسحاق نے نئے وزیرِاعظم کو اپنے انگوٹھے تلے دبانے کی کوشش کی۔ لیکن، اُنہیں معلوم نہیں تھا کہ اِس مرتبہ اُن کا سابقہ ایک ایسےنوجوان سے پڑ گیا ہے جو بظاہر تر نوالہ نظر آتا ہے، لیکن ہڈّی کی طرح اُن کے حلق میں پھنس جائیگا۔لہٰذا، نواز شریف نے صدر کی طرف سے اپنی حکومت توڑنے کے اقدام کوسپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا، اور پھر بڑی دلچسپ کارروائی جاری رہی،اور آخر میں عدالت نے فیصلہ میاں صاحب کے حق میں دے دیا۔
اُنہوں نے اپنی شیروانی دوبارہ نکال لی اور اس سے پہلے کہ وہ فاتح کی حیثیت سے وزیراعظم ہاؤس میں داخل ہوتے، فوج کے سربراہ بیچ میں آگئے اور بوڑھے صدر صاحب کی آخر عمر میں عزت خراب ہونے سے بچالی۔آخر کو وہ ان کے پٹھان بھائی بھی تھے۔
بہر حال، فوج کی اِس مداخلت سےملک ایک بڑے سیاسی بحران سے بچ گیا اور فیصلہ ہوا کہ صدر اور وزیراعظم دونوں اپنے اپنے گھروں کو چلے جائیں۔
لیکن، جاتے جاتے،صدر اسحاق نے ایک بڑا اور یادگار کام یہ کیا کہ ایک بڑی خوبصورت اور بین الا قوامی معیار کی یونیورسٹی اپنے علاقے میں بنوا گئے، جو ملک کے لاکھوں ذہین بچوں کو فائدہ پہنچا رہی ہے۔
یہاں امریکہ کی تاریخ پر جب ہم نظر ڈالتے ہیں تو دیکھتے ہیں ہر دوسرا صدر قائدِاعظم تھا اور وہ اپنی یادگاری تختی کسی سڑک پر نہیں لگواتا تھاکہ دوسرا آنے والا صدر اسے اکھاڑکر باہر پھینکے اور اپنی تختی لگوالے،یا اپنی اور اپنے بچوں کی جائداد بنانے کی فکر میں رہتا، بلکہ وہ اس ملک کے تمام بچوں کا سوچتا تھا اور اسے معلوم تھا کہ تعلیم ایسا زیور ہےجو ہمیشہ رہنے والا ہے اور جو اس ملک کی ترقی کا زینہ ہے،جو اسے بھی زندہ رکھے گا اور اس ملک کو بھی۔ اِسی لئے، آپ دیکھئے کہ جتنی مشہور درسگاہیں ،کالج،یونی ورسٹیاں ہیں وہ انہی صدر صاحبان کی کاوشوں کا نتیجہ ہیں۔بلکہ، کچھ تو اپنا اقتدار چھوڑ کر پڑھانے نکل پڑےاور کسی دور دراز جگہ ایک چھوٹا سا تعلیمی ادارہ بنا لیا،جو آج ایک عالمی درسگاہ ہے،جیسے تھامس جیفرسن،جنکی بنائی ہوئی یونیورسٹی آف ورجینیا،کیسی اعلیٰ یونیورسٹی ہے۔
لیکن، ہماری GIK یونیورسٹی بھی کسی سے کم نہیں۔اس کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب میری ایک بھانجی فاریہ نے وہاں سے ڈگری حاصل کی۔ اس کے والد بھی حیات نہیں تھے اور اس نے اپنی ٕمحنت سے پڑھا اور ٕمیرٹ کی بنیاد پر بغیر کسی سفارش کے وہاں داخلہ حاصل کیا اور مجھےاس کی گریجویشن تقریب اور یہاں امریکہ میں اپنے بچوں کی گریجویشن تقریب میں کوئی فرق نظر نہیں آیا۔
اِس لحاظ سے، غلام اسحاق خان کا نام پاکستان کی تاریخ میں ہمیں ایک دیانتدار،مخلص اور دیندار سربراہ کی حیثیت سے چمکتا نظر آتا ہے،جنہوں نے ذاتی دھن دولت اور اپنی اولاد کے لئے بڑی جائیداد نہیں ، بلکہ ملک کے بچوں کے لئے ایک عظیم تعلیمی ورثہ چھوڑا ۔ اس کاوش میں ڈاکٹر قدیر خان کا بھی بڑا حصہ تھا،جنہوں نےاپنے ذاتی تعلقات سے ،بیرونی ممالک سے ان کے لئے فنڈ اکٹھا کیا اور ان کے خواب کو پایہٴ تکمیل تک پہنچایا۔
میں نےجناب اسحاق کو و یسے تو کئی سرکاری تقریبات میں دیکھا تھا،لیکن پہلی اور آخری بالمُشافہ ملاقات اُس وقت ہوئی جب حکومتِ پاکستان نے براڈکاسٹنگ کے شعبے میں خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے،کمال مہربانی فرمائی اور مجھے تمغہٴ حسنِ کارکردگی سے نوازا۔اتفاق ایسا ہے کہ جب پاکستان ٹیلی وژن نے میرے لئے اِس تمغے کی سفارش وزیر اعظم اور صدر کو بھیجی تو بے نظیر بھٹّو وزیراعظم تھیں۔ اُن کی منظوری کے بعد جب صدر تک یہ فائل پہنچی تو وقت بدل چکا تھا اور جب میں تمغہ وصول کر رہا تھا تو نواز شریف صدر کے پیچھے کھڑے مسکرا رہے تھے۔
23مارچ 1991ء کو ایک پُر وقار تقریب ’ ایوانِ صدر‘ میں منعقد ہوئی جِس میں یہ اعزاز عطا ہوا۔
مجھے خوشی اِس لئے زیادہ ہوئی کہ دونوں وزرائے اعظم کی آشیرباد اِس میں شامل تھی۔ پھر یہ کہ اُسی تقریب میں ہردلعزیز شاعرہ پروین شاکر،مقبول اداکار مرزا نذیر بیگ عرف ندیم، معروف لوک فنکار شوکت علی اور دھیمے لہجے کے بلند پایہ شاعر افتخار عارف کو بھی یہ تمغے پہنائےگئے۔
اپنے اپنے فن میں یکتا، اِن شخصیات کے ہمراہ کھڑا ہونا،بذاتِ خود ایک بڑا اعزاز تھا۔اور پھر پروین شاکر کی اس دنیا سے یوں اچانک رخصتی نے ان لمحات کو اور بھی یادگار بنا دیا۔
صدر صاحب سے مصافحہ کرتے ہوئے میں فخر اور تشکر کے جذبات سے مغلوب تھاکہ میرے سامنے وہ شخصیت تھی جس نے ایک چھوٹے سے شمالی علاقے میں جنم لیا اور پھر اس پٹھان بچے نے محض ا پنی محنت سےعلم حاصل کیا اور نائب تحصیلدار کے عہدے سے درجہ بدرجہ ترقی کرتے، سب سے اعلیٰ مقام تک پہنچا۔جس نے ملک کی تاریخ بنتے اور بگڑتے دیکھی اور حکومتوں اور شخصیتوں کا عروج و زوال بہت قریب سے دیکھا۔کاش، وہ اپنی یادداشتیں قلمبند کرتے تو پوری تاریخ سامنے آجاتی۔
آپ سوچ رہے ہونگے کہ نواز شریف سے بات اپنے تمغے تک کیسے آگئی۔ تو جناب، ذکر تھا صدر غلام اسحاق خان کا۔ تو اُن کے حوالے سے یہ سار اقصہ یاد آگیا۔ مگر ، نواز شریف کو کیسے بھلایا جاسکتا ہےجنہوں نے موٹر وے کی صورت میں قوم کو ایک خوبصورت تحفہ دیا اور اِس کے افتتاح پر انہوں نے اسلام آباد سے لاہور تک ایک بڑے قافلے کے ساتھ سفر کیا۔
ریڈیو اور ٹیلی وژن نے اس سفر کی روداد براہِ راست نشر کی۔بھیرہ سیکشن پر ریڈیو کے بوتھ میں رواں تبصرہ کرتے ہوئے ،میں نے اپنی آنکھوں سے یہ منظر دیکھاجِس کی تفصیل، انشاآللہ، آئندہ نشست میں۔
بہ شکریہ اردو وی او اے