مجھ سے بھی آ کے مل تَو ذرا زندگی کبھی

نوید ناظم

محفلین
طرحی مشاعرے میں کہی گئی غزل۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پوچھوں کہ مجھ سے کیوں نہ تری بن سکی کبھی
مجھ سے بھی آ کے مل تَو ذرا زندگی کبھی

صدقہ اتار دوں گا اندھیروں کا اس سے میں
جو میرے گھر میں آ بھی گئی روشنی کبھی

لگتا ہے صاف اب بھی کناروں کو دیکھ کر
دریا سے، پیاس تھی جو کہ لڑتی رہی کبھی

آتا ہے یاد مجھ کو جو رویا تھا لگ کے ساتھ
دیوار میں اترتی ہے جب بھی نمی کبھی

اپنے بھی دل کی بستی سے واقف نہیں ہوں میں
لوگوں سے ہی سنا ہے کہ آباد تھی کبھی

واعظ کو اس طرح تو برا مت کہیں حضور
آتے ہیں میکدے میں یونہی بس کبھی کبھی

جس میں نوید ذکر نہ کرتا ہو آپ کا
ایسی غزل بھی اس سے' بتائیں سنی کبھی!
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے۔ ویسے کوئی خامی تو نہیں۔ لیکن بہتری تو لائی جا سکتی ہے۔جیسے
دریا سے، پیاس تھی جو کہ لڑتی رہی کبھی
÷÷الفاظ بدلنے سے بہتری آ سکتی ہے۔

آتا ہے یاد مجھ کو جو رویا تھا لگ کے ساتھ
۔۔لگ کے سات مجھے اچھا نہیں لگا

اور
اپنے بھی دل کی بستی سے واقف نہیں ہوں میں
۔۔یاں ’ہی‘ ہو اور دوسرے مصرع میں ’ہی‘ کا استعمال نہ کیا جائے تو بہتر ہو
 

نوید ناظم

محفلین
اچھی غزل ہے۔ ویسے کوئی خامی تو نہیں۔ لیکن بہتری تو لائی جا سکتی ہے۔جیسے
دریا سے، پیاس تھی جو کہ لڑتی رہی کبھی
÷÷الفاظ بدلنے سے بہتری آ سکتی ہے۔

آتا ہے یاد مجھ کو جو رویا تھا لگ کے ساتھ
۔۔لگ کے سات مجھے اچھا نہیں لگا

اور
اپنے بھی دل کی بستی سے واقف نہیں ہوں میں
۔۔یاں ’ہی‘ ہو اور دوسرے مصرع میں ’ہی‘ کا استعمال نہ کیا جائے تو بہتر ہو
بہت شکریہ سر۔۔۔

آتا ہے یاد مجھ کو جو رویا تھا لگ کے ساتھ
۔۔لگ کے سات مجھے اچھا نہیں لگا
اسے یوں کیا۔۔۔

رویا تھا اس کے سائے میں آتا ہے مجھ کو یاد
دیوار میں اترتی ہے جب بھی نمی کبھی

اپنے بھی دل کی بستی سے واقف نہیں ہوں میں
۔۔یاں ’ہی‘ ہو اور دوسرے مصرع میں ’ہی‘ کا استعمال نہ کیا جائے تو بہتر ہو

اسے اس طرح۔۔

اپنے ہی دل کی بستی سے واقف نہیں ہوں میں
لوگوں سے یہ سنا ہے کہ آباد تھی کبھی
 
Top