سردار محمد نعیم
محفلین
.
کنکروں کا تیرے اعجاز سے وہ بول اٹھنا
وہ درختوں کا تیری دید پہ جھوما کرنا
مجھ پہ بھی چشمِ کرم اے مِرے آقا! کرنا
حق تو میرا بھی ہے رحمت کا تقاضہ کرنا
میں کہ ذرہ ہُوں مجھے وسعتِ صحرا دےدے
کہ ترے بس میں ہے قطرے کو بھی دریا کرنا
میں ہوں بےکس ، تیرا شیوہ ہے سہارا دینا
میں ہوں بیمار ، تیرا کام ہے اچھا کرنا
تو کسی کو بھی اٹھاتا نہیں اپنے در سے
کہ تری شان کے شایاں نہیں ایسا کرنا
تیرے صدقے ، وہ اُسی رنگ میں خود ہی ڈوبا
جس نے ،جس رنگ میں چاہا مجھے رُسوا کرنا
یہ ترا کام ہے اے آمنہ کے درِ یتیم!
ساری امت کی شفاعت، تنِ تنہا کرنا
کثرتِ شوق سے اوسان مدینے میں ہیں گم
نہیں کُھلتا کہ مجھے چاہیے کیا کیا کرنا
یہ تمنائے محبت ہے کہ اے داورِ حشر!
فیصلہ میرا سپردِ شہِ بطحا کرنا
آل و اصحاب کی سنت ، مرا معیارِ وفا
تری چاہت کے عوض ، جان کا سودا کرنا
شاملِ مقصدِ تخلیق یہ پہلو بھی رہا
بزمِ عالم کو سجا کر تیرا چرچا کرنا
یہ صراحت ورفعنالک ذکرک میں ہے
تیری تعریف کرانا ،تجھے اُونچا کرنا
تیرے آگے وہ ہر اک منظرِ فطرت کا ادب
چاند سورج کا وہ پہروں تجھے دیکھا کرنا
طبعِ اقدس کے مطابق وہ ہواؤں کا خرام
دھوپ میں دوڑ کے وہ ابر کا سایہ کرنا
دشمن آجائے تو اٹھ کر وہ بچھانا چادر
حُسنِ اخلاق سے غیروں کو وہ اپنا کرنا
کوئی فاروق سے پوچھے کہ کسے آتا ہے
دل کی دنیا کو نظر سے تہہ وبالا کرنا
اُن صحابہ کی خوش اطو ار نگاہوں کو سلام
جن کا مسلک تھا، طوافِ رخِ زیبا کرنا
حق تو میرا بھی ہے رحمت کا تقاضہ کرنا
میں کہ ذرہ ہُوں مجھے وسعتِ صحرا دےدے
کہ ترے بس میں ہے قطرے کو بھی دریا کرنا
میں ہوں بےکس ، تیرا شیوہ ہے سہارا دینا
میں ہوں بیمار ، تیرا کام ہے اچھا کرنا
تو کسی کو بھی اٹھاتا نہیں اپنے در سے
کہ تری شان کے شایاں نہیں ایسا کرنا
تیرے صدقے ، وہ اُسی رنگ میں خود ہی ڈوبا
جس نے ،جس رنگ میں چاہا مجھے رُسوا کرنا
یہ ترا کام ہے اے آمنہ کے درِ یتیم!
ساری امت کی شفاعت، تنِ تنہا کرنا
کثرتِ شوق سے اوسان مدینے میں ہیں گم
نہیں کُھلتا کہ مجھے چاہیے کیا کیا کرنا
یہ تمنائے محبت ہے کہ اے داورِ حشر!
فیصلہ میرا سپردِ شہِ بطحا کرنا
آل و اصحاب کی سنت ، مرا معیارِ وفا
تری چاہت کے عوض ، جان کا سودا کرنا
شاملِ مقصدِ تخلیق یہ پہلو بھی رہا
بزمِ عالم کو سجا کر تیرا چرچا کرنا
یہ صراحت ورفعنالک ذکرک میں ہے
تیری تعریف کرانا ،تجھے اُونچا کرنا
تیرے آگے وہ ہر اک منظرِ فطرت کا ادب
چاند سورج کا وہ پہروں تجھے دیکھا کرنا
طبعِ اقدس کے مطابق وہ ہواؤں کا خرام
دھوپ میں دوڑ کے وہ ابر کا سایہ کرنا
دشمن آجائے تو اٹھ کر وہ بچھانا چادر
حُسنِ اخلاق سے غیروں کو وہ اپنا کرنا
کوئی فاروق سے پوچھے کہ کسے آتا ہے
دل کی دنیا کو نظر سے تہہ وبالا کرنا
اُن صحابہ کی خوش اطو ار نگاہوں کو سلام
جن کا مسلک تھا، طوافِ رخِ زیبا کرنا
کنکروں کا تیرے اعجاز سے وہ بول اٹھنا
وہ درختوں کا تیری دید پہ جھوما کرنا
وہ تیرا درس کہ جھکنا تو خدا کے آگے
وہ تیرا حکم کہ خالق کو ہی سجدہ کرنا
وہ تیرا حکم کہ خالق کو ہی سجدہ کرنا
چاند کی طرح تیرے گرد وہ تاروں کا ہجوم
وہ تیرا حلقہ اصحاب میں بیٹھا کرنا
وہ تیرا حلقہ اصحاب میں بیٹھا کرنا
قاب قوسین کی منزل پہ یکایک وہ طلب
شبِ اسرا وہ بلانا ، تجھے دیکھا کرنا
شبِ اسرا وہ بلانا ، تجھے دیکھا کرنا
مجھ پہ محشر میں نصیر اُن کی نظر پڑ ہی گئی
کہنے والے اسے کہتے ہیں "خدا کا کرنا"
(بحوالہ: دِیں ہمہ اُوست، مجموعہ حمد و نعت از سید نصیر الدین نصیر ، صفحہ 326 ، سن طباعت مئی 2012)
نوٹ: شعر نمبر 17 تا 19 "دِیں ہمہ اُوست" میں شامل نہیں ہیں شاید یہ اشعار بعد میں لکھے گئے ہیں جن کی تصدیق کلیاتِ نصیر میں سے دیکھ کر کی جا سکتی ہے کہ یہ اشعار سید نصیر الدین نصیر کے ہی ہیں یا نہیں۔
کہنے والے اسے کہتے ہیں "خدا کا کرنا"
(بحوالہ: دِیں ہمہ اُوست، مجموعہ حمد و نعت از سید نصیر الدین نصیر ، صفحہ 326 ، سن طباعت مئی 2012)
نوٹ: شعر نمبر 17 تا 19 "دِیں ہمہ اُوست" میں شامل نہیں ہیں شاید یہ اشعار بعد میں لکھے گئے ہیں جن کی تصدیق کلیاتِ نصیر میں سے دیکھ کر کی جا سکتی ہے کہ یہ اشعار سید نصیر الدین نصیر کے ہی ہیں یا نہیں۔
مدیر کی آخری تدوین: