الف نظامی
لائبریرین
اردو ادب میں ضیاءالنبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی منفرد خصوصیات
پروفیسر محمد عبداللہ صالح عبداللہ شعبہ علوم اسلامیہ گورئمنٹ کالج بھکر
"سیرت نگاری کوئی انسانی کمال نہیں بلکہ یہ بارگاہِ رسالت ماب صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں شرفِ قبولیت ہے۔یہ وہ خوش بختی ہے جس پر جتنا فخر کیا جائے کم ہے۔حسان بن ثابت کے ایک نعتیہ شعر کا مفہوم ہے پروفیسر محمد عبداللہ صالح عبداللہ شعبہ علوم اسلامیہ گورئمنٹ کالج بھکر
،لوگ اگر مجھ سے محبت کرتے ہیں تو اس لیے کہ میں نے سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ذکر کیا ہے، لوگوں میں اگر کہیں میرا تذکرہ ہے تو فقط اس واسطے کہ میں نے سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شان تحریر کرنے کا اعزاز حاصل کیا ہے، جب تک سازِ حیات بجتا رہے اس کے تاروں سے محبتِ رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہی سنائی دے"
(ضیاء النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تعارفی تقریب سے پیر محمد کرم شاہ الازہری کا خطاب)
اللہ تعالی نے قرآنِ حکیم میں اپنے حبیب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شان بیان کرتے ہوئے فرمایا
"ورفعنا لک ذکرک" کہ ہم نے آپ کے ذکر مبارک کو بلند کیا۔
رفع ذکر کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ آپ کا تذکرہ کیا جائے، اخلاق و عادات کو نمایاں کیا جائے ،شمائل کو بیان کیا جائے اور آپ کی حیاتِ طیبہ اور اسوہ حسنہ کے مختلف پہلووں کو اجاگر کیا جائے۔
مسلمانوں کیلیے و ذکرِ حبیب باعثِ افتخار و اعزاز اور ذریعہ نجات ہے۔ غیر مسلم بھی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے تذکرے کو باعثِ شرف سمجھتے ہیں چناچہ آکسفورذ یونیورسٹی (برطانیہ) کے پروفیسر مارگولیتھ (d.s Margoliouth) نے 1905 میں حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کےحالات پر اپنی کتاب محمد اور ظہورِ اسلام (muhammad And The Rise Of Islam) کے نام سے لکھی تو اس کا آغاز ہی ان الفاظ سے کیا۔
"اگرچہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سیرت نگاروں کا سلسلہ اتنا طویل ہے کہ گس کی انتہا ناممکن ہے ۔ لیکن اس میں جگہ پانا باعثِ عزت وشرف ہے"
تصنیف و تالیف سیرت کا یہ سلسلہ جس کی طرف پروفیسر موصوف نے اشارہ کیا بدستور جاری ہے اور جاری رہے گا۔اس رواں صدی کے اختتامی عشرے میں چمنستانِ سیرت میں ایک خوبصورت و معطر، گلِ سرسبد کا اضافہ "ضیا النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم"(پیر محمد کرم شاہ الازہری) کی صورت میں ہوا ہے جس کا لفظ لفظ روشنی ، حرف حرف خوشبو اور سطر سطر اجالا ہے۔ یہ ایک عاشقِ رسول کا والہانہ لگاو اور اظہارِ عقیدت ہے۔ قلب و دماغ کی اثر انگیزی اورعشق مستی سے سرشار قلم سے صفحہ سیرت پر گلکاری ہے۔ کتاب کے مصنف جناب پیر محمد کرم شاہ صاحب الازہری نے الفاظ نہیں موتی پروئے ہیں جملے نہیں ہیرے تراشے ہیں کہ سرمایہ حیات یہی ہے۔
گرنہ خورشید جمال یار گشتے راہ نموں
از شبِ تاریک غفلت کس نبردے راہ بروں
ضیاءالامت پیر محمد کرم شاہ الازہری جنہوں نے سید الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شان میں ایک منفرد انداز سے قلم اٹھایا ہے آپ کو عربی فارسی اور اردو میں یکساں قدرت حاصل ہے ۔ مصنف نہ صرف مایہ ناز عالمِ دین۔ مفسرِ قرآن ، علومِ جدید و قدیم کے ماہر بلکہ تفقہ فی الدین میں خاصی مہارت رکھتے ہیں۔ قبل ازیں پانچ ضخیم جلدوں میں آپ کی معرکتہ الاراء تفسیر "ضیاالقرآن" اہل علم سے خراجِ تحسین وصول کر رہی ہے ۔ فتنہ انکارِ حدیث و سنت کے رد میں آپ کی شاہکار تصنیف "سنتِ خیر الانام" بھی نمایاں مقام کی حامل ہے۔ ہمارے پیشِ نظر آپ کی ہمہ گیر دینی ، تصنیفی خدمات کا استقصا نہیں بلکہ عصری ادب سیرت میں "ضیاءالنبی" کا تقابلی جائزہ لینا ہے۔از شبِ تاریک غفلت کس نبردے راہ بروں
مقصدِِ تالیف:
مصنف کتاب کے مقصدِ تالیف کے بارے میں رقمطراز ہیں۔
"سیرتِ طیبہ کے موضوع پر آج کل جو لٹریچر بازار میں آرہا ہے ان میں عام طور پر کمالاتِ محمدی اور شمائلِ مصطفوی کے ذکر میں بخل سے کام لیا جانے لگا ہے۔ اس لیے عصر جدید کی کتبِ سیرت کا مطالعہ کرنے سے واقعات تو اپن تاریخی تسلسل کے ساتھ ذہن نشین ہو جاتے ہیں ان کا باہمی ربط و ضبط بھی کافی حد تک سمجھ آجاتا ہے ۔ مخالفین کی طرف سے اٹھائے گئے اعتراضات کے معقول جوابات پر بھی آگاہی ہو جاتی ہے لیکن عام طور پر قاری مطالعہ سیرت کی روح سے بے بہرہ رہتا ہے ۔ محبتِ نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا جذبہ طوفان بن کر اس کے سینے میں امڈ کر نہیں آتا۔ دل بے قرار ہو کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نقشِ پا کو غیر مشروط طور پر اپنا خضرِ راہ بنانے کلیے آمادہ نیہں ہوتا۔
میری تمنا ہے کی میرے خالقِ کریم، میرے معبودِ برحق نے کمالِ فیاضی سے اپنے حبیب اور ہمارے محبوب کو جن کمالات، خوبیوں اور صفاتِ حمیدہ سے مزین کیا ہے اور اس کے اسوہ حسنہ کو جن دلآویزیوں اور رعنائیوں کا پیکرِ جمیل بنایا ہے حتی الامکان ان کو بیان کرنے کی کوشش کروں تاکہ اس ذاتِ قدسی صفات، اس طور تجلیات رحمانی کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کرنے کی جسے سعادت نصیب ہو اس کا دماغ بھی اس منبع انوار کے جلووں سے روشن ہو اور اس کا دل بھی اس کی از حد حسن اداوں پر فریفتہ ہو"(ضیاءالنبی489/10)
کتاب کے آغاز میں ہی مصنف"دعا" کے عنوان سے رقمطراز ہیں:۔
"الہی جو شان، جو فضل و کمال، جو حسن و جمال جو صوری و معنوی خوبیاں تو نے اپنے حبیبِ مکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو عطا فرمائی ہیں ان کا صحیح عرفان اور پہچان بھی نصیب فرما اور ان کو اس طرح سے بیان کرنے کی توفیق مرحمت فرما جس کے مطالعہ سے تاریک دل روشن ہوجائیں، مردہ روحیں زندہ ہوجائیں ذوق و شوق کی دنیا آباد ہو جائے، جہاں غفلت کی تاریکیاں پھیلی ہوئی ہیں وہاں تیرے ذکرِ پاک اور تیرے محبوبِ مکرم کی مبارک یاد کی قندیلیں فروزاں ہو جائیں"
ضیاالنبی کی نمایاں خصوصیات:۔
قبل اس کے کہ ہم عصرِ حاضر کی جدید اسلوب کی حامل منفرد تصنیفِ لطیف"ضیاءالنبی" کی امتیازی اور تقابلی خصوصیات کا احاطہ کریں مناسب یہ ہوگا کہ اب تک اردو سیرت نگاری کے رجحانات واسلوب پر ایک اجمالی نظر ڈالی جائے ۔اب تک اردو ادب سیرت میں مندرجہ ذیل پہلووں اور رجحانات کے حوالوں سے کام ہوا ہے۔
1۔ سیرت نگاری بہ اسلوب دائرۃ المعارف
2۔سیرت نگاری بہ اسلوب سوانح بہ ترتیبِ زمانی
3۔سیرت نگاری بہ اسلوب شمائل و اخلاقِ نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم
4۔سیرت نگاری بہ اسلوب متعلقات سیرت یا موضوعاتی مطالعہ
5۔سیرت نگاری بہ اسلوب ادب و انشاء
ان تمام رجحانات کو مدنظر رکھتے ہوے اگر ضیاءالنبی کے اسلوب و منہج کو دیکھا جائے تو یہ تمام رجحانات و مناہج کی جامع کتاب ہے۔
مثلا کتاب کی پہلی جلد دائرۃ المعارف کے اسلوب پر لکھ گئی ہے۔
دوسری سے چوتھی جلد تک آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کےحالات و واقعات کو تاریخ نویسی کے انداز پر مستند ماخذ کے ساتھ مرتب کیا گیا ہے۔
پانچویں جلد مکمل طور پر شمائلِ نبوی پر مشتمل ہے۔
چھٹی اور ساتویں جلد سیرت کے موضوعاتی اسلوب کی حامل ہے۔جہاں تک سیرت نگاری کے ادبی اسلوب کا تعلق ہے تو یہ پہلو نہ صرف پوری کتاب میں نمایاں ہے بلکہ حرف حرف اور سطر سطرادبی چاشنی سے بھرپور ہے۔ان رجحانات سے بڑھ کرایک اہم پہلو سیرت نگاری کےجمالیاتی و تجزیاتی اسلوب کا ہےجو ابھی تک کتبِ سیرت میں مفقود ہے۔آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کےحسن سیرت کے ساتھ ساتھ حسنِ صورت کی بھی عکاسی ہے۔سیرت کے کسی واقعہ کے ظاہری پہلو کے ساتھ ساتھ باطنی خوبیوں کا بھی تذکرہ ہےاور ساتھ ہی محبت و اطاعت اور عشقِ حبیب صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے معمور قلم جب رواں ہوتا ہے تو اس روانی میں مصنف کے ساتھ ساتھ قاری بھی بہتا ہے اور یوں مردہ روحیں زیدہ ہوتی ہیں اور ذوق و شوق کی دنیا آباد ہوتی ہے۔
سیرت کے جمالیاتی پہلو کی عکاسی:۔
مصنف نے کتاب کے آغازہی میں بارگاہ الہ میں خصوصی طور پر اس عاجزانہ و دردمندانہ خواہش کا اظہار کیا ہے
"الہی جو شان، جو فضل و کمال، جو حسن و جمال جو صوری و معنوی خوبیاں تو نے اپنے حبیبِ مکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو عطا فرمائی ہیں ان کا صحیح عرفان اور پہچان بھی نصیب فرما اور ان کو اس طرح سے بیان کرنے کی توفیق مرحمت فرما جس کے مطالعہ سے تاریک دل روشن ہوجائیں، مردہ روحیں زندہ ہوجائیں ذوق و شوق کی دنیا آباد ہو جائے، جہاں غفلت کی تاریکیاں پھیلی ہوئی ہیں وہاں تیرے ذکرِ پاک اور تیرے محبوبِ مکرم کی مبارک یاد کی قندیلیں فروزاں ہو جائیں"
مصنف نے ان خیالات کی ترجمانی بھرپور انداز میں "ضیاءالنبی" میں کی ہے۔جابجا ذوق و شوق کی دنیا آباد کی ہے ہر صفحہ تاریک دلوں میں زندگی کا پیامی ہے ہر لفظ مردہ روحوں کو حیاتِ جاودانی بخشتا ہے۔ سیرت کے اس جمالیاتی پہلو کا اظہار بعض دیگر سیرت نگاروں نے بھی کیا ہے مگر زیرِ نظر تصنیف میں اس پہلو کو بطورِ خاص مدنظر رکھا گیا ہے۔
علامہ شبلی نعمانی ہجرتِ مدینہ کا آغاز یوں کرتے ہیں:۔
"آفتاب کی روشنی دور پہنچ کر تیز ہوتی ہے شمیم گل باغ سے نکل کر عطر فشاں بنتی ہے۔آفتابِ اسلام طلوع مکہ میں ہوا لیکن کرنیں مدینہ کے افق پر چمکیں"(258/1)
صاحبِ ضیاءالنبی ہجرتِ مدینہ کی صبح کا آغاز یوں کرتے ہیں:۔
"آخر جمعۃ المبارک کی وہ صبح صادق طلوع ہوئی ہر طرف نور ہی نور پھیل رہا تھا ہر طرف اجالا ہی اجالا انسانیت کی شبِ تاریک کو روزِ روشن میں بدل رہا تھا اندھیروں کا طلسم ٹوٹ رہا تھا اس نیر آعظم کی نورانی شعاوں کی ہیبت سے ہر نوع کی تاریکیوں پر لرزہ طاری تھا ویسے تو ہرصبح کی روشنی زمین کے گوشہ گوشہ کو منور کرتی رہتی ہے لیکن آج کی صبح نرالی صبح تھی اس کے اجالوں میں اتنی شوخی وتابانی تھی کہ کوئی تاب نہ لاسکتا تھا"
قاضی محمد سلیمان منصور پوری حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مدینہ میں تشریف آوری کے منظر کو یوں نقل کرتے ہیں:۔
"داخلہ عجب شاندار تھا گلی کوچے تحمید و تقدیس کے کلمات سے گونج رہے تھے، مرد،عورت،بچے بوڑھے نورِ خدا کا جلوہ دیکھنے کیلیے سراپا چشم بن گئے تھے"
شبلی نعمانی اس منظر کو یوں بیان کرتے ہیں:۔
"لوگوں کو جب آپ کی تشریف آوری کی خبر ہوئی تو ہر طرف لوگ جوشِ مسرت سے پیش قدمی کے لیے دوڑے آپ کے ننھیالی رشتہ دار بنونجار ہتھیاروں سے سج سج کر آئے ۔قبا سے مدینہ تک دو رویہ جانثاروں کی صفیں تھیں راہ میں انصار کے خاندان آتے تھے ہر قبیلہ سامنے سےآکر عرض کرتا حضور یہ گھر حاضر ہے یہ مال حاضر ہےآپ مسرت کااظہارفرماتے اور دعائے خیر دیتے۔شہر قریب آگیاتو جوش کا یہ عالم تھابنو نجار کی بچیاں اور عورتیں چھتوں پر نکل آئیں اور گانے لگیں طلع البدر علینا من ثنیات الوداع "
ضیاءالنبی کا اندازِبیان ملاحظہ فرمائیے اور جلال و جمال کا اسلوب اور ذوق و شوق کی یہ داستان سنیے۔
"کیا سہانا منظر ہوگا۔غریب پرور اور دلنواز آقا کی سواری آگے بڑہ رہی ہے۔سراپا خلوص وایثار غلاموں کا جم غفیر اپنےآقا کے گردحلقہ باندھے ہے۔ سارے راستےاور گلیاں بھری ہوئی ہیں مکانوں کے صحن اور ان کی ساری چھتوں پر خواتین سراپا انتظار بنے وارفتگی شوق میں ایک دوسرے سے پوچھ رہی ہیں ایھم ھو؟ ایھم ھو؟ ہماری آنکھوں کا نوراور دلوں کا سرور کون سا ہے۔۔۔پل بھر میں بنونجار کی بچیاں دفیں لئےہوئے یہ شعر گاتی ہوئی اپنے محبوب نبی اور جلیل القدر مہمان کو مرحبا اور خوش آمدید کہنے کےلئے اکٹھی ہوگئیں۔
نحس جوار بنو نجار یا حبذا محمد من جار
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان بچیوں کا یہ محبت آگیں شعر سن کر ان سے پوچھااتحبنینی؟ کیا واقعی تم مجھ سے محبت کرتی ہو؟
قلن نعم،ہاں بیشک یارسول اللہ !ہم محبت کرتی ہیں
تو رحمتِ عالم نے ارشاد فرمایا:۔قلن نعم،ہاں بیشک یارسول اللہ !ہم محبت کرتی ہیں
بخدا میں بھی تم سے محبت کرتا ہوں۔ بخدا میں بھی تم سے محبت کرتا ہوں۔ بخدا میں بھی تم سے محبت کرتا ہوں۔(125/3)"