عاطف بٹ
محفلین
السلام علیکم!
گزشتہ روز سید زبیر صاحب کی محبت اور شفقت کے ساتھ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد، کا تحقیقی و تنقیدی مجلہ ’معیار‘ موصول ہوا۔ معیار کے ابتدائیہ میں درج ذیل اقتباس پڑھ کر بہت افسوس ہوا:
”پاکستان میں اردو اگرچہ آئین کے مطابق قومی زبان ہے لیکن اردو کو دفتری زبان بنانے کے لیے ہمارے قومی نمائندوں نے جو منفی کردار ادا کیا ہے ان کی روداد ’معیار‘ کے گزشتہ شماروں میں چھپ چکی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے قومی نمائندوں کا نفاذ اردو کے حوالے سے کیا رویہ رہا ہے۔ حال ہی میں قومی اسمبلی میں ایک بل پیش کیا گیا ہے جس کے مطابق اردو کو قومی زبان کی بجائے دوسری پاکستانی زبانوں کے ساتھ شامل کر کے سب کو پاکستان زبانیں کہا گیا ہے اور تجویز کیا گیا ہے کہ جب تک یہ زبانیں ترقی یافتہ صورت اختیار نہیں کرتیں انگریزی متبادل زبان کے طور پر دفاتر میں رائج رہے گی۔ اگر یہ بل منظور ہوجاتا ہے اور جس کی ابھی تک کوئی مخالفت نہیں ہوئی تو پاکستان میں اردو کے نفاذ کے امکانات ہمیشہ کے لیے معدوم ہوجائیں گے۔ اردو سے محبت رکھنے والوں کے لیے یہ لمحہء فکریہ ہے!“
[’ابتدائیہ‘ (معیار - جنوری۔جون2013ء)]
گزشتہ روز سید زبیر صاحب کی محبت اور شفقت کے ساتھ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد، کا تحقیقی و تنقیدی مجلہ ’معیار‘ موصول ہوا۔ معیار کے ابتدائیہ میں درج ذیل اقتباس پڑھ کر بہت افسوس ہوا:
”پاکستان میں اردو اگرچہ آئین کے مطابق قومی زبان ہے لیکن اردو کو دفتری زبان بنانے کے لیے ہمارے قومی نمائندوں نے جو منفی کردار ادا کیا ہے ان کی روداد ’معیار‘ کے گزشتہ شماروں میں چھپ چکی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے قومی نمائندوں کا نفاذ اردو کے حوالے سے کیا رویہ رہا ہے۔ حال ہی میں قومی اسمبلی میں ایک بل پیش کیا گیا ہے جس کے مطابق اردو کو قومی زبان کی بجائے دوسری پاکستانی زبانوں کے ساتھ شامل کر کے سب کو پاکستان زبانیں کہا گیا ہے اور تجویز کیا گیا ہے کہ جب تک یہ زبانیں ترقی یافتہ صورت اختیار نہیں کرتیں انگریزی متبادل زبان کے طور پر دفاتر میں رائج رہے گی۔ اگر یہ بل منظور ہوجاتا ہے اور جس کی ابھی تک کوئی مخالفت نہیں ہوئی تو پاکستان میں اردو کے نفاذ کے امکانات ہمیشہ کے لیے معدوم ہوجائیں گے۔ اردو سے محبت رکھنے والوں کے لیے یہ لمحہء فکریہ ہے!“
[’ابتدائیہ‘ (معیار - جنوری۔جون2013ء)]
× × × × ×
پاکستان کی قومی اسمبلی میں اس نوعیت کا بل پیش کیا جانا انتہائی افسوسناک اور قابلِ مذمت بات ہے۔ وہ اسمبلی جس میں مذکورہ بل پیش کیا گیا تھا اپنی آئینی مدت مکمل کرنے کے بعد ختم ہوچکی ہے اور ضوابط کے مطابق آئندہ اسمبلی گزشتہ اسمبلی کے ادھورے کام اور غیرمنظورشدہ بلوں کو نئے سرے سے ایجنڈے کا حصہ نہیں بناسکتی، تاہم اس بات پر کوئی پابندی نہیں ہے کہ ایک ہی نوعیت کے دو بل دو اسمبلیوں میں پیش نہیں کیے جاسکتے۔ بناءبریں، خیال یہ ہے کہ وہ گروہ یا لابی جس نے گزشتہ اسمبلی میں اردو کو دیگر علاقائی زبانوں کے برابر قرار دے کر اس کے نفاذ کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی تھی، آئندہ اسمبلی میں بھی اس طرح کی کوئی حرکت کرسکتی ہے اور گزشتہ اسمبلی میں تو مذکورہ بل اسمبلی کی مدت کم رہ جانے کی وجہ سے منظور نہیں ہوپایا تھا مگر آئندہ اسمبلی کے پاس تو آئینی طور پر پانچ سال کی مدت ہوگی اور اتنی طویل مدت میں اس نوعیت کے کسی بل کو سہولت سے منظور کیا جاسکتا ہے۔ اردو سے محبت رکھنے والے ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ اپنی سطح پر اس عمل کی شدید مذمت کرے!