سید عمران
محفلین
احسان اللہ صاحب کی ایک لڑی سے متاثر ہوکر کچھ لکھ دیا۔ ۔۔
کہا سنا معاف!!!
ماشاء اللہ بہت اچھی طرح مضمون کو سمیٹا ہے۔ اصل میں شیعوں کا ہو یا سنیوں کا، کوئی بھی موضوع حساس نہیں ہے، محض جذباتی ہے۔ شیعہ ہوں یا سنی ان میں محقق کم ہوتے ہیں اور عوام زیادہ، جو سطحی مطالعہ اور اپنے مسلک کے ساتھ فطری و جذباتی لگاؤ رکھتے ہیں۔ یہ اگر صحیح بات بھی سنتے ہیں تو اسی جذباتی تعصب کی وجہ سے یا تو اصل حقیقت کو سرے سے تسلیم نہیں کرتے یا دور از کار تاویلات کرکے زبردستی اپنے مؤقف کو صحیح ثابت کرنے کی سعی مذمومہ کرتے ہیں۔ اگرچہ یہ صفت دنیا کے ہر انسان میں ہے لیکن یہاں ہم موضوع بحث صرف شیعہ و سنی کو رکھیں گے۔ کیوں کہ یہ ہم سے متعلقہ موضوع ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ شیعہ اور سنی دونوں ابن سبا کے ڈسے ہوئے ہیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کے لیے تلوار کا جو پہلا وار ہوا اصل میں ابن سبا کی سازشوں کا پہلا کاری وار تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ جو ساری صورت حال کا بغور معائنہ کررہے تھے ان کی تحقیقات و تفتیشات سے ابن سبا کی ساری سازشیں طشت از بام ہوگئیں، اور جب انہیں اقتدار ملا تو موقع مناسب دیکھ کر سازش کی اس جڑ کا جڑ سے خاتمہ کردیا، لیکن تب تک اس کے نظریات جن کانوں نے سن کر دلوں میں اتار لیے تھے ان کی آہستہ آہستہ کھچڑی پکتی رہی، یہاں تک کہ آج چودہ سو سال بعد جو صورت حال ہے وہ سب کے سامنے ہے۔
ابن سبا کی موشگافیاں ہوں یا فاطمیوں کے دور کی بدعات انہوں نے عوام کی ناسمجھی کے بگاڑ سے پیوند لگا کر شیعوں اور سنیوں دونوں کو اصل دین سے اس قدر دور کردیا کہ سچ جھوٹ کی دھند میں دھندلا کر رہ گیا۔ اگر دونوں درمیان میں آئی صدیوں کی گرد کا پردہ چاک کرکے اصل دین پر عمل کریں تو دیکھیں گے کہ دونوں میں کیا فرق رہ جاتا ہے؟ کوئی فرق نہیں۔ سب کا دین ایک، خدا ایک، رسول ایک، قرآن ایک حتیٰ کہ عظمت صحابہ ایک۔ دیکھ لیں صحابہ کی عظمت کو داغدار کرنے کی کاوشوں کی ابتداء کہاں سے ہوئی؟ جہاں سے ہوئی یہ ہم میں سے کسی کے دین کی اصل نہیں۔
عقل سے کام لے کر دیکھیں کہ ہم صحابہ کی عظمتوں کو داغدار کس وجہ سے کررہے ہیں؟ جس وجہ سے کررہے ہیں وہ وجہ تو خود ان کی عظمتوں کے منافی ہے۔ وہ وجہ سراسر دنیا پرستی ہے۔ حضرت فاطمہ سردار جنت کو کیسا بنا کر پیش کیا جارہا ہے جیسے وہ جائیداد کے لیے بے چین تھیں، دنیا کے لیے لڑ رہی تھیں۔ ایسا تو بالکل نہ تھا، انہوں نے محض اپنا شرعی حق سمجھ کر ایک نکتہ اٹھایا اور جب بات واضح ہوگئی تو دنیا کے لیے بالکل نہ لڑیں۔ جنہوں نے ساری عمر اپنے بچوں کے ساتھ فاقوں میں گزاری، چکی چلانے کی مشقتیں اٹھائیں، دنیا کے سب سے عظیم پیغمبر کے سب سے زیادہ پیار کی حقدار بنیں وہ ذرا سی جائیداد پر کیسے لڑ سکتی تھیں؟ حضرت علی نے بھی خلیفہ بننے کے بعد، سیاہ و سفید کا مالک بننے کے بعد اس جائیداد کو اس کے حال پر چھوڑ دیا تھا اور کسی قسم کا کوئی تعرض کیا نہ زندگی بھر اس کی بابت کوئی بات کی۔ پھر ہم یہ بات کیوں کررہے ہیں؟ معاملہ کسی کا مدعی کوئی اور۔ اور یہ بھی دیکھیں کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بھی جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ تھیں جائیدادِ نبی سے وراثت کے نام پر ایک پیسہ تک نہیں دیا۔ اصول سب کے لیے برابر کیا۔ عمر بھر کوئی بددیانتی نہیں کی۔ عمر میں بڑا ہونے کے باوجود ہمیشہ آلِ رسول کے سامنے کندھے جھکا کر رہے۔ خلیفہ وقت ہونے کے باوجود حضرت علی کے ایک اشارے پر ان کے گھر دوڑے چلے آئے۔ بے ساختگی میں کی گئی بھول چوک پر بھی حضرت علی کی توجہ دلانے پر دیر تک روتے رہے اور کسی قسم کی کوئی تاویل پیش نہیں کی۔ حالاں کہ افراتفری اور ہنگامی نوعیت کے اس سانحہ پر حواس مختل ہونے اور بھول جانے کا حقیقی عذر پیش کرسکتے تھے، پر وہ بھی نہ کیا۔
چند کم علم مبلغوں نے حضرت علی کو خلافت نہ ملنے کے واقعہ پر نفرتیں پھیلانے کا کام ایسے کیا جیسا خود حضرت علی نے نہیں کیا تھا۔ اگر یہ لوگ خلافت ملنے کو ایسا سمجھ رہے ہیں جیسا آج کل کی حکومتیں کہ حکمران بنو اور عوام کے پیسہ پر عیش کرو تو یہ حضرت علی کی شان عالی مقام پر ایک عظیم الزام ہے۔ یہ تو وہ ذات تھی جو دنیا کو کہتی تھی : ’’میں نے تجھے تین طلاقیں دیں، جا کسی اور کو جا کر اپنے دھوکہ میں لا۔‘‘ وہ بیت المال کے مال پر عیش کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ اور اگر بغیر کسی عیش و آسانی کے اسلامی مملکت کے انتظام کو سنبھالنے کی بات ہے تو کسی پُرکشش پیشکش کے بغیر کون اس وادی خار زار میں قدم رکھنے کو تیار ہو؟
چاروں خلفاء راشدین اسی لیے خلافت کی طرف نہیں آتے تھے کہ نری مشقت ہی مشقت ہے، آسائش نام کو نہیں۔ حضرت ابوبکر نے تین دن تک اپنے گھر کے دروازے بند کیے رکھے کہ انہیں خلافت کی ذمہ داری نہ سونپ دی جائے۔ اور جب خلیفہ بنے تو کھانے پہننے کو زندگی کی کم ترین سطح پر لے آئے کہ ایک درہم بھی اپنی ذات پر ایسا خرچ نہ ہوجائے جس پر آخرت میں پکڑ ہو۔ خلافت خود حضرت عمر کی بھی ذاتی چوائس نہیں تھی، ان کو زبردستی سونپ دی گئی تھی۔ اور انہوں نے زمانہ خلافت میں کیسی فاقہ زدہ اور کسمپرسی کی زندگی گزاری، جب آئے دن قیصر و کسریٰ سے سونے چاندی، ہیرے جواہرات سے لدی سواریاں بیت المال کو بھر رہی تھیں عین اس وقت خلیفہ وقت باسی سوکھی روٹی زیتون کے تیل میں بھگو کر کھارہے تھے۔ اور آخر وقت میں یہ دعا کرتے تھے کہ یااللہ میں بوڑھا اور ضعیف ہوگیا ہوں، خلافت کا بار اٹھانے کی ہمت نہیں ہے، اب مجھے اٹھا لے۔ اور حضرت عثمان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا کہ اگر تمہیں قمیض پہنائی جائے (یعنی خلافت دی جائے۔ غور طلب بات کہ خلافت لی نہیں جائے دی جائے) تو اس قمیض کو خود سے مت اتارنا۔ چناں چہ آپ کے گھر کا محاصرہ کیا گیا، آپ پر کھانا پانی بند کردیا گیا اور فاقہ کشی کے شکار اسی سالہ ضعیف بوڑھے آدمی پر جس کی گود میں قرآن کھلا رکھا تھا، اس پر تلوار چلاتے کسی کو رحم نہ آیا۔
حضرت علی سمیت کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ نوبت قتلِ عثمان تک پہنچ جائے گی، سب یہی سمجھ رہے تھے کہ فسادی اپنے مطالبات منوانے پر محاصرہ ختم کردیں گے۔ یہی وجہ تھی کہ جب حضرت علی کو شہادت عثمان کی خبر ملی تو آپ آکر شدت غم سے حضرت عثمان کی لاش پر گرگئے، اس حالت کو اتنی دیر گزر گئی کہ لوگ تذبذب میں پڑ گئے کہ کہیں آپ بھی تو دنیا سے رخصت نہیں ہوگئے۔ تو اہل بیت پر دنیا پرستی و دنیا طلبی کا الزام لگانا عقل سے ماوراء بات ہے۔ وہ حُبِّ دنیا سے کوسوں دور تھے، نہ اہل بیت اس مردہ دنیا کے طالب تھے نہ باقی خلفاء راشدین۔ خلافت کا یہ بارِ گراں اٹھانا کبھی بھی کسی کے لیے باعث کشش نہ تھا۔
حضرت علی کی شہادت کے بعد حضرات حسنین کا کیا عمل تھا اور ان دونوں کی شہادت کے بعد ان کی آل اولاد خاص کر حضرت زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ نے کس طرح زندگی گزاری، ہماے لیے ان حضرات کا اسوہ قابل عمل ہے یا جھوٹے واعظوں کا؟
مصائب و آلام کی گھڑی میں تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ اللہ کے نازل کردہ امر پر صبر وتحمل سے کام لیں اور انا للہ و انا ا لیہ راجعون پڑھ کر اجر وثواب کے مستحق ہوں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:” ہم کسی نہ کسی طرح تمہاری آزمائش ضرور کریں گے، دشمن کے ڈر سے، بھوک و پیاس سے، مال وجان اور پھلوں کی کمی سے، اور ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجئے جنہیں جب کوئی مصیبت آتی ہے تو کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم تو صرف اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں، اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں، ان پر ان کے رب کی نوازشیں اور رحمتیں ہیں اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔‘‘(سورة البقرة: ١٥٥۔١٥٧)
جس نبی کے نواسے کا غم ہم حد غلو پار کرکے منائیں گے تو یاد رکھیں کہ ایسے مواقع پر خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل کیا تھا؟ آپ کا جو عمل تھا بس وہ ہمارے لیے اسوۂ حسنہ اور اتباع کے لیے کافی ہے۔ جب آپ کے کم سن بیٹوں کا انتقال ہوا، جب آپ کی شادی شدہ بیٹیوں کا انتقال ہوا تو آپ نے کوئی ماتم نوحہ نہیں کیا، کوئی سوگ نہیں منایا، کوئی سینہ کوبی نہیں کی بلکہ اپنی اولاد کی خود نماز جنازہ پڑھی اور خود ان کو قبروں میں اتارا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے نواسے یعنی بیٹی حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے لڑکے کی وفات کی خبر پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پیغام بھیجا:”یہ اللہ کی امانت تھی جو اس نے واپس لے لی اور جو کچھ اس نے دے رکھا ہے وہ بھی اسی کا ہے اور ہر ایک کے لیے اس کے پاس ایک مقررہ وقت ہے ، پس تم صبر سے کام لو اور اس پر اللہ سے ثواب کی امید رکھو۔‘‘ (صحیح بخاری ومسلم)
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اولادوں کے انتقال پر شریعت کی کسی حد کو پامال نہیں کیا، ہر حال میں اللہ کی رضا پر، آخرت کے اجر پر نظر رکھی پھر ہم کس منہ سے آپ کی اولاد کی محبت میں اتنا آگے بڑھ سکتے ہیں کہ خود اللہ کے رسول کی بتائی ہوئی تمام حدود کو پار کر جائیں۔ کیا آپ کی اولاد سے متعلق ہمارے پاس آپ علیہ السلام کا اسوہ حسنہ موجود نہیں ہے جس کی ہم اتباع کریں؟
غور طلب بات یہ ہے کہ وہ تمام باتیں جو خرابیوں کی وجہ ہیں ان کو کوئی بھی دین کا حصہ نہیں سمجھتا صرف گرد و پیش کے ماحول سے متاثر ہوکر ان پر عمل کرتے ہیں۔ نہ شیعہ سمجھتے ہیں کہ ماتم کرنا، نوحہ کرنا، جلسے جلوس نکالنا دین کی اصل ہیں، نہ سنی سمجھتے ہیں کہ میلاد منانا، بارہ ربیع الاول کے جلوس نکالنا، عرس منانا دین کی اصل ہیں۔ سب کے پاس ان کو کرنے کی محض تاویلات ہیں، صحیح سند سے کچھ ثابت نہیں، البتہ صحیح سند سے ان اعمال کے کرنے پر وعیدیں ضرور موجود ہیں۔
ان تمام خرابیوں سے پرے ایک جہاں ہے جہاں امن و سکون ہے، باہمی محبتیں ہیں، نفرتوں کا وجود تک نہیں ہے۔ وہ قرآن و سنت کا جہاں ہے ، جہاں ہر شے صاف شفاف ہے، کسی دھندلکے کا دھندلا سا بھی اثر نہیں ہے۔ یہاں یک جہتی ہے، فتح و کامرانی ہے، جنت کا نشان ہے، باقی سب جگہیں فرقہ پرستی کا مکاں ہے، نفرتیں ہیں، بدامنی ہے، بے سکونی ہے اور آگ کی راہگزر ہے ۔
پاکستان میں اسلامی نظریاتی کونسل اس لیے قائم ہوئی تھی کہ تمام مسالک فکر کے علماء آپس میں مل بیٹھ کر غور و فکر کریں اور ایسا نظام لائیں جس پر سب لوگ متفق ہوں۔ لیکن جب شیعہ، سنی، دیو بندی بریلوی اور اہل حدیث علماء جمع ہوئے، مباحث چھڑیں، دین کی اصل بنیاد یعنی قرآن و حدیث کو موضوع بحث بنایا گیا تو سب حیران رہ گئے کہ ہمارے درمیان تو کوئی ایسا بڑا فقہی اختلاف نہیں جو باعثِ نزاع ہو۔
معلوم ہوا کہ فتنہ و فساد کی ہوا محض شریر لوگ چلاتے ہیں، گلی محلہ کی مسجدوں میں، گھروں میں مجالس چمکانے کے لیے جو کم علم ذاکر و جھوٹے مولوی غلط اور عین موقع پر تراشی ہوئی روایات بیان کرتے ہیں وہ دین کا نہیں اپنا نام روشن کرتے ہیں کہ یہ مولوی یا یہ ذاکر کیا کمال کی بات کرتا ہے۔ اسی کو بلواؤ، اسی سے بیان کرواؤ، یہی مجلس لوٹ لیتا ہے۔ یہ نہیں معلوم کہ یہ مجلس کیا لوٹتا ہے دین لوٹ لیتا ہے۔
نفرتوں کے یہ پیامبر چند ہزار روپوں کے لیے امت محمدیہ کے جو ٹکڑے کررہے ہیں کل ان کا گریبان ہوگا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ ہوگا۔ جہاں بڑے بڑے گنہگار کو معافی ملنے کی آس ہوگی وہاں ان کو رحمت و مغفرت سے دھتکار دیا جائے گا۔
ہوسکتا ہے یہ موضوع کچھ جذباتیت کا شکار ہوگیا ہو، لیکن جذبات کے اس بہاؤ میں بہہ کر کوئی غلط جذبات کے دھارے سے نکل آئے، اصل دین پر آجائے، امت محمدیہ کے لیے محبتوں کے ایکا پر آجائے تو اس دیوانگی پہ ہزاروں فرزانگیاں قربان!!!
کہا سنا معاف!!!
ماشاء اللہ بہت اچھی طرح مضمون کو سمیٹا ہے۔ اصل میں شیعوں کا ہو یا سنیوں کا، کوئی بھی موضوع حساس نہیں ہے، محض جذباتی ہے۔ شیعہ ہوں یا سنی ان میں محقق کم ہوتے ہیں اور عوام زیادہ، جو سطحی مطالعہ اور اپنے مسلک کے ساتھ فطری و جذباتی لگاؤ رکھتے ہیں۔ یہ اگر صحیح بات بھی سنتے ہیں تو اسی جذباتی تعصب کی وجہ سے یا تو اصل حقیقت کو سرے سے تسلیم نہیں کرتے یا دور از کار تاویلات کرکے زبردستی اپنے مؤقف کو صحیح ثابت کرنے کی سعی مذمومہ کرتے ہیں۔ اگرچہ یہ صفت دنیا کے ہر انسان میں ہے لیکن یہاں ہم موضوع بحث صرف شیعہ و سنی کو رکھیں گے۔ کیوں کہ یہ ہم سے متعلقہ موضوع ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ شیعہ اور سنی دونوں ابن سبا کے ڈسے ہوئے ہیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کے لیے تلوار کا جو پہلا وار ہوا اصل میں ابن سبا کی سازشوں کا پہلا کاری وار تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ جو ساری صورت حال کا بغور معائنہ کررہے تھے ان کی تحقیقات و تفتیشات سے ابن سبا کی ساری سازشیں طشت از بام ہوگئیں، اور جب انہیں اقتدار ملا تو موقع مناسب دیکھ کر سازش کی اس جڑ کا جڑ سے خاتمہ کردیا، لیکن تب تک اس کے نظریات جن کانوں نے سن کر دلوں میں اتار لیے تھے ان کی آہستہ آہستہ کھچڑی پکتی رہی، یہاں تک کہ آج چودہ سو سال بعد جو صورت حال ہے وہ سب کے سامنے ہے۔
ابن سبا کی موشگافیاں ہوں یا فاطمیوں کے دور کی بدعات انہوں نے عوام کی ناسمجھی کے بگاڑ سے پیوند لگا کر شیعوں اور سنیوں دونوں کو اصل دین سے اس قدر دور کردیا کہ سچ جھوٹ کی دھند میں دھندلا کر رہ گیا۔ اگر دونوں درمیان میں آئی صدیوں کی گرد کا پردہ چاک کرکے اصل دین پر عمل کریں تو دیکھیں گے کہ دونوں میں کیا فرق رہ جاتا ہے؟ کوئی فرق نہیں۔ سب کا دین ایک، خدا ایک، رسول ایک، قرآن ایک حتیٰ کہ عظمت صحابہ ایک۔ دیکھ لیں صحابہ کی عظمت کو داغدار کرنے کی کاوشوں کی ابتداء کہاں سے ہوئی؟ جہاں سے ہوئی یہ ہم میں سے کسی کے دین کی اصل نہیں۔
عقل سے کام لے کر دیکھیں کہ ہم صحابہ کی عظمتوں کو داغدار کس وجہ سے کررہے ہیں؟ جس وجہ سے کررہے ہیں وہ وجہ تو خود ان کی عظمتوں کے منافی ہے۔ وہ وجہ سراسر دنیا پرستی ہے۔ حضرت فاطمہ سردار جنت کو کیسا بنا کر پیش کیا جارہا ہے جیسے وہ جائیداد کے لیے بے چین تھیں، دنیا کے لیے لڑ رہی تھیں۔ ایسا تو بالکل نہ تھا، انہوں نے محض اپنا شرعی حق سمجھ کر ایک نکتہ اٹھایا اور جب بات واضح ہوگئی تو دنیا کے لیے بالکل نہ لڑیں۔ جنہوں نے ساری عمر اپنے بچوں کے ساتھ فاقوں میں گزاری، چکی چلانے کی مشقتیں اٹھائیں، دنیا کے سب سے عظیم پیغمبر کے سب سے زیادہ پیار کی حقدار بنیں وہ ذرا سی جائیداد پر کیسے لڑ سکتی تھیں؟ حضرت علی نے بھی خلیفہ بننے کے بعد، سیاہ و سفید کا مالک بننے کے بعد اس جائیداد کو اس کے حال پر چھوڑ دیا تھا اور کسی قسم کا کوئی تعرض کیا نہ زندگی بھر اس کی بابت کوئی بات کی۔ پھر ہم یہ بات کیوں کررہے ہیں؟ معاملہ کسی کا مدعی کوئی اور۔ اور یہ بھی دیکھیں کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بھی جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ تھیں جائیدادِ نبی سے وراثت کے نام پر ایک پیسہ تک نہیں دیا۔ اصول سب کے لیے برابر کیا۔ عمر بھر کوئی بددیانتی نہیں کی۔ عمر میں بڑا ہونے کے باوجود ہمیشہ آلِ رسول کے سامنے کندھے جھکا کر رہے۔ خلیفہ وقت ہونے کے باوجود حضرت علی کے ایک اشارے پر ان کے گھر دوڑے چلے آئے۔ بے ساختگی میں کی گئی بھول چوک پر بھی حضرت علی کی توجہ دلانے پر دیر تک روتے رہے اور کسی قسم کی کوئی تاویل پیش نہیں کی۔ حالاں کہ افراتفری اور ہنگامی نوعیت کے اس سانحہ پر حواس مختل ہونے اور بھول جانے کا حقیقی عذر پیش کرسکتے تھے، پر وہ بھی نہ کیا۔
چند کم علم مبلغوں نے حضرت علی کو خلافت نہ ملنے کے واقعہ پر نفرتیں پھیلانے کا کام ایسے کیا جیسا خود حضرت علی نے نہیں کیا تھا۔ اگر یہ لوگ خلافت ملنے کو ایسا سمجھ رہے ہیں جیسا آج کل کی حکومتیں کہ حکمران بنو اور عوام کے پیسہ پر عیش کرو تو یہ حضرت علی کی شان عالی مقام پر ایک عظیم الزام ہے۔ یہ تو وہ ذات تھی جو دنیا کو کہتی تھی : ’’میں نے تجھے تین طلاقیں دیں، جا کسی اور کو جا کر اپنے دھوکہ میں لا۔‘‘ وہ بیت المال کے مال پر عیش کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ اور اگر بغیر کسی عیش و آسانی کے اسلامی مملکت کے انتظام کو سنبھالنے کی بات ہے تو کسی پُرکشش پیشکش کے بغیر کون اس وادی خار زار میں قدم رکھنے کو تیار ہو؟
چاروں خلفاء راشدین اسی لیے خلافت کی طرف نہیں آتے تھے کہ نری مشقت ہی مشقت ہے، آسائش نام کو نہیں۔ حضرت ابوبکر نے تین دن تک اپنے گھر کے دروازے بند کیے رکھے کہ انہیں خلافت کی ذمہ داری نہ سونپ دی جائے۔ اور جب خلیفہ بنے تو کھانے پہننے کو زندگی کی کم ترین سطح پر لے آئے کہ ایک درہم بھی اپنی ذات پر ایسا خرچ نہ ہوجائے جس پر آخرت میں پکڑ ہو۔ خلافت خود حضرت عمر کی بھی ذاتی چوائس نہیں تھی، ان کو زبردستی سونپ دی گئی تھی۔ اور انہوں نے زمانہ خلافت میں کیسی فاقہ زدہ اور کسمپرسی کی زندگی گزاری، جب آئے دن قیصر و کسریٰ سے سونے چاندی، ہیرے جواہرات سے لدی سواریاں بیت المال کو بھر رہی تھیں عین اس وقت خلیفہ وقت باسی سوکھی روٹی زیتون کے تیل میں بھگو کر کھارہے تھے۔ اور آخر وقت میں یہ دعا کرتے تھے کہ یااللہ میں بوڑھا اور ضعیف ہوگیا ہوں، خلافت کا بار اٹھانے کی ہمت نہیں ہے، اب مجھے اٹھا لے۔ اور حضرت عثمان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا کہ اگر تمہیں قمیض پہنائی جائے (یعنی خلافت دی جائے۔ غور طلب بات کہ خلافت لی نہیں جائے دی جائے) تو اس قمیض کو خود سے مت اتارنا۔ چناں چہ آپ کے گھر کا محاصرہ کیا گیا، آپ پر کھانا پانی بند کردیا گیا اور فاقہ کشی کے شکار اسی سالہ ضعیف بوڑھے آدمی پر جس کی گود میں قرآن کھلا رکھا تھا، اس پر تلوار چلاتے کسی کو رحم نہ آیا۔
حضرت علی سمیت کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ نوبت قتلِ عثمان تک پہنچ جائے گی، سب یہی سمجھ رہے تھے کہ فسادی اپنے مطالبات منوانے پر محاصرہ ختم کردیں گے۔ یہی وجہ تھی کہ جب حضرت علی کو شہادت عثمان کی خبر ملی تو آپ آکر شدت غم سے حضرت عثمان کی لاش پر گرگئے، اس حالت کو اتنی دیر گزر گئی کہ لوگ تذبذب میں پڑ گئے کہ کہیں آپ بھی تو دنیا سے رخصت نہیں ہوگئے۔ تو اہل بیت پر دنیا پرستی و دنیا طلبی کا الزام لگانا عقل سے ماوراء بات ہے۔ وہ حُبِّ دنیا سے کوسوں دور تھے، نہ اہل بیت اس مردہ دنیا کے طالب تھے نہ باقی خلفاء راشدین۔ خلافت کا یہ بارِ گراں اٹھانا کبھی بھی کسی کے لیے باعث کشش نہ تھا۔
حضرت علی کی شہادت کے بعد حضرات حسنین کا کیا عمل تھا اور ان دونوں کی شہادت کے بعد ان کی آل اولاد خاص کر حضرت زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ نے کس طرح زندگی گزاری، ہماے لیے ان حضرات کا اسوہ قابل عمل ہے یا جھوٹے واعظوں کا؟
مصائب و آلام کی گھڑی میں تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ اللہ کے نازل کردہ امر پر صبر وتحمل سے کام لیں اور انا للہ و انا ا لیہ راجعون پڑھ کر اجر وثواب کے مستحق ہوں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:” ہم کسی نہ کسی طرح تمہاری آزمائش ضرور کریں گے، دشمن کے ڈر سے، بھوک و پیاس سے، مال وجان اور پھلوں کی کمی سے، اور ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجئے جنہیں جب کوئی مصیبت آتی ہے تو کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم تو صرف اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں، اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں، ان پر ان کے رب کی نوازشیں اور رحمتیں ہیں اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔‘‘(سورة البقرة: ١٥٥۔١٥٧)
جس نبی کے نواسے کا غم ہم حد غلو پار کرکے منائیں گے تو یاد رکھیں کہ ایسے مواقع پر خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل کیا تھا؟ آپ کا جو عمل تھا بس وہ ہمارے لیے اسوۂ حسنہ اور اتباع کے لیے کافی ہے۔ جب آپ کے کم سن بیٹوں کا انتقال ہوا، جب آپ کی شادی شدہ بیٹیوں کا انتقال ہوا تو آپ نے کوئی ماتم نوحہ نہیں کیا، کوئی سوگ نہیں منایا، کوئی سینہ کوبی نہیں کی بلکہ اپنی اولاد کی خود نماز جنازہ پڑھی اور خود ان کو قبروں میں اتارا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے نواسے یعنی بیٹی حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے لڑکے کی وفات کی خبر پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پیغام بھیجا:”یہ اللہ کی امانت تھی جو اس نے واپس لے لی اور جو کچھ اس نے دے رکھا ہے وہ بھی اسی کا ہے اور ہر ایک کے لیے اس کے پاس ایک مقررہ وقت ہے ، پس تم صبر سے کام لو اور اس پر اللہ سے ثواب کی امید رکھو۔‘‘ (صحیح بخاری ومسلم)
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اولادوں کے انتقال پر شریعت کی کسی حد کو پامال نہیں کیا، ہر حال میں اللہ کی رضا پر، آخرت کے اجر پر نظر رکھی پھر ہم کس منہ سے آپ کی اولاد کی محبت میں اتنا آگے بڑھ سکتے ہیں کہ خود اللہ کے رسول کی بتائی ہوئی تمام حدود کو پار کر جائیں۔ کیا آپ کی اولاد سے متعلق ہمارے پاس آپ علیہ السلام کا اسوہ حسنہ موجود نہیں ہے جس کی ہم اتباع کریں؟
غور طلب بات یہ ہے کہ وہ تمام باتیں جو خرابیوں کی وجہ ہیں ان کو کوئی بھی دین کا حصہ نہیں سمجھتا صرف گرد و پیش کے ماحول سے متاثر ہوکر ان پر عمل کرتے ہیں۔ نہ شیعہ سمجھتے ہیں کہ ماتم کرنا، نوحہ کرنا، جلسے جلوس نکالنا دین کی اصل ہیں، نہ سنی سمجھتے ہیں کہ میلاد منانا، بارہ ربیع الاول کے جلوس نکالنا، عرس منانا دین کی اصل ہیں۔ سب کے پاس ان کو کرنے کی محض تاویلات ہیں، صحیح سند سے کچھ ثابت نہیں، البتہ صحیح سند سے ان اعمال کے کرنے پر وعیدیں ضرور موجود ہیں۔
ان تمام خرابیوں سے پرے ایک جہاں ہے جہاں امن و سکون ہے، باہمی محبتیں ہیں، نفرتوں کا وجود تک نہیں ہے۔ وہ قرآن و سنت کا جہاں ہے ، جہاں ہر شے صاف شفاف ہے، کسی دھندلکے کا دھندلا سا بھی اثر نہیں ہے۔ یہاں یک جہتی ہے، فتح و کامرانی ہے، جنت کا نشان ہے، باقی سب جگہیں فرقہ پرستی کا مکاں ہے، نفرتیں ہیں، بدامنی ہے، بے سکونی ہے اور آگ کی راہگزر ہے ۔
پاکستان میں اسلامی نظریاتی کونسل اس لیے قائم ہوئی تھی کہ تمام مسالک فکر کے علماء آپس میں مل بیٹھ کر غور و فکر کریں اور ایسا نظام لائیں جس پر سب لوگ متفق ہوں۔ لیکن جب شیعہ، سنی، دیو بندی بریلوی اور اہل حدیث علماء جمع ہوئے، مباحث چھڑیں، دین کی اصل بنیاد یعنی قرآن و حدیث کو موضوع بحث بنایا گیا تو سب حیران رہ گئے کہ ہمارے درمیان تو کوئی ایسا بڑا فقہی اختلاف نہیں جو باعثِ نزاع ہو۔
معلوم ہوا کہ فتنہ و فساد کی ہوا محض شریر لوگ چلاتے ہیں، گلی محلہ کی مسجدوں میں، گھروں میں مجالس چمکانے کے لیے جو کم علم ذاکر و جھوٹے مولوی غلط اور عین موقع پر تراشی ہوئی روایات بیان کرتے ہیں وہ دین کا نہیں اپنا نام روشن کرتے ہیں کہ یہ مولوی یا یہ ذاکر کیا کمال کی بات کرتا ہے۔ اسی کو بلواؤ، اسی سے بیان کرواؤ، یہی مجلس لوٹ لیتا ہے۔ یہ نہیں معلوم کہ یہ مجلس کیا لوٹتا ہے دین لوٹ لیتا ہے۔
نفرتوں کے یہ پیامبر چند ہزار روپوں کے لیے امت محمدیہ کے جو ٹکڑے کررہے ہیں کل ان کا گریبان ہوگا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ ہوگا۔ جہاں بڑے بڑے گنہگار کو معافی ملنے کی آس ہوگی وہاں ان کو رحمت و مغفرت سے دھتکار دیا جائے گا۔
ہوسکتا ہے یہ موضوع کچھ جذباتیت کا شکار ہوگیا ہو، لیکن جذبات کے اس بہاؤ میں بہہ کر کوئی غلط جذبات کے دھارے سے نکل آئے، اصل دین پر آجائے، امت محمدیہ کے لیے محبتوں کے ایکا پر آجائے تو اس دیوانگی پہ ہزاروں فرزانگیاں قربان!!!
آخری تدوین: