محبتوں کے نا ہم کو پلاؤ جام ابھی
کہیں نہ قرب سے عادت خراب ہوجائے

نشہ نہ دید کا ہوجائے ہم کو اس درجہ
فراق ہو کہ یہ جیون عذاب ہوجائے

تمہاری دید سے ہم دور ہی بھلے رہتے
یہی تھا ڈر کہ نہ ہم پہ عتاب ہو جائے

کہو نا تم کچھ بھی سچ سے ہم کو خطرہ ہے
کہیں نا گلشن الفت سراب ہو جائے

تم اپنے دل سے کوئی ایسی بات کہ دو لئیق
جو ہر سوال کا عمدہ جواب ہو جائے!
 
یہ غزل میں نے کسی خاص شخصیت کو زہن میں رکھ کر نہیں کہی، یہ اس زمانے کی بات ہے جب مجھے یوں لگتا تھا جیسے میں ایک بیگار کیمپ میں قید ہوں اور زندگی بہت مشکل میں آگئی ہے۔ :)
 
ہاہا
لئیق بھائی بھی شاعری کرتے ہیں ۔
اس کی پردہ داری اب تک کیوں تھی بھائی ۔
:(
پردہ داری نہیں تھی۔ بس اب شاعری ہوتی نہیں مجھ
کچھ پرانے اشعار وقتاً فوقتاً میں لکھتا رہتا ہوں۔ اور نئے بھی بعض اوقات لکھتا رہتا ہوں۔
آپ کو یہ غزل کیسی لگی؟
 
Top