محبت ایک پودا ہے

ابن رضا

لائبریرین
عرض کیا ہے

محبت ایک پودا ہے
جو بے حد نرم و نازک ہے
اسے موسم کی سختی سے
بچا کر رکھنا پڑتا ہے
ہواؤں کے تھپیڑوں سے
چھپا کر رکھنا پڑتا ہے
سبھی لہجے بہت اس پر
اثر انداز ہوتے ہیں
یہ پل میں سوکھ جاتا ہے

اسےشیریں لب و لہجے
اسے الفاظ کا پانی
اسے احساس کی حدت
اسے جذبات کی شدت

بہت کومل، ترو تازہ
بہت شاداب رکھتی ہے
اسے بے موت مرنے سے
بچانے کا فریضہ بھی
نہایت جاں فشانی سے
یہ سر انجام دیتے ہیں
لگا کر دل کے آنگن میں

اسے جو چھوڑ دے تنہا
اگر صرفِ نظر کرلے
تو اس بے اعتنائی پر
یہ شور و غل ، کوئی گریہ
کوئی ماتم نہیں کرتا
یہ بےحد صبر کرتا ہے
کسی حد تک،مگر کب تک؟
یہ آخر سوکھ جاتا ہے.....


برائے توجہ اساتذہ
محمد یعقوب آسی صاحب و الف عین صاحب
 
آخری تدوین:
اچھی نظم ہے، سادہ اور مضبوطی سے بُنی ہوئی۔ ایک دو سطریں ایسی ہیں جنہیں مزید نکھارنے کی گنجائش ہے۔

اسے لہجوں کی شیرینی
اسے لفظوں کا پانی اور
اسے احساس کی حدت

اکیلا چھوڑ دے کوئی
یا پھرصرفِ نظر کرلے

یہ بےحد صبر کرتا ہے
کسی حد تک،مگر کب تک؟

بہت شکریہ۔
 

ابن رضا

لائبریرین
اچھی نظم ہے، سادہ اور مضبوطی سے بُنی ہوئی۔ ایک دو سطریں ایسی ہیں جنہیں مزید نکھارنے کی گنجائش ہے۔

اسے لہجوں کی شیرینی
اسے لفظوں کا پانی اور
اسے احساس کی حدت

اکیلا چھوڑ دے کوئی
یا پھرصرفِ نظر کرلے

یہ بےحد صبر کرتا ہے
کسی حد تک،مگر کب تک؟

بہت شکریہ۔

ممنون ہوں سر!! پسندآوری پر تشکر بسیار۔ غور جاری ہے۔ سلامت رہیے۔
 

الف عین

لائبریرین
میرے خیال میں اسے ارکان کی تعداد میں قید نہ کر کے آزاد نظم بنا دی جائے تو مزید نکھر سکتی ہے۔
یا پھر صرف نظر۔۔ والا مصرع چست نہیں۔ محض اگر صرف۔۔۔ کر لیں تو بہتر ہے۔
 

ابن رضا

لائبریرین
میرے خیال میں اسے ارکان کی تعداد میں قید نہ کر کے آزاد نظم بنا دی جائے تو مزید نکھر سکتی ہے۔
یا پھر صرف نظر۔۔ والا مصرع چست نہیں۔ محض اگر صرف۔۔۔ کر لیں تو بہتر ہے۔
بہت شکریہ سر۔ اگر ہی کر دیا ہے۔ سلامت رہیے
 
Top