محبت فاتح عالم

با ادب

محفلین
انسانوں دنیا.میں رہتے ہوئے بظاہر مادی ضروریات کی تگ و دو میں مصروف رہتا ہے لیکن کچھ ضروریات اسکی بقا کے لیے بے حد اہم ہوتی ہیں ۔
ان ہی اہم ضروریات میں اسکی روحانیت ' لِلٰھیت اور نفسیات شامل ہیں ۔ زندگی میں ہموار راستے پہ سفر کرتے کرتے اچانک اسپیڈ بریکر آجاتے ہیں ۔ ان اسپیڈ بریکر پر آپ گاڑی کو سلو ڈاؤن کرتے ہیں اور آہستگی سے ان پر سے گزار لے جاتے ہیں ۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ آپ بہت تیز رفتاری سے آئیں اور اچانک بریک لگانے پہ آپکی گاڑی اسپیڈ بریکر کے پاس پہنچ کے بند ہو جائے ۔ اب اس گاڑی کو دوبارہ سے نئے سرے سے اسٹارٹ کرنا پڑتا ہے ۔ اکثر گاڑی اسٹارٹ ہو جاتی ہے اور آپ دھیرے سے بریکر کے اوپر سے گزار کر اسے لے جاتے ہیں ۔
یہ وہ عوامل ہیں جو ممکنہ طور پہ پیش آسکتے ہیں اور عمومی ہوتے ہیں ۔
بعض اوقات ایک گاڑی والا تیز رفتاری سے خالی سنسان سڑک پہ گاڑی دوڑاتا ہے اور وہ اس بریکر کو دیکھ ہی نہیں پاتا نتیجتاً وہ بیلنس برقرار نہیں رکھ پاتا ۔
اسی عدم توازن کی وجہ سے حادثات بھی جنم لے سکتے ہیں یہی عدم توازن کسی کو فقط وقتی طور پہ اچھال دیتا ہے اور سر گاڑی سے ٹکرا کے جھنجھنا اٹھتا ہے ۔ کوئی فقط اتنا سا ہی دھچکا کھا کے سنبھل جاتا ہے اور کوئی اتنے بھیانک حادثے کا شکار ہوجاتا ہے کہ موت کے منہ میں چلا جاتا ہے ۔ کبھی تو لوگ ریکور ہو کے صحتیاب ہو کے واپس آجاتے ہیں اور کبھی وہ دنیا سے چلے جاتے ہیں یا پھر کبھی تمام عمر معذوری کی زندگی گزارنے کے لیے رہ جاتے ہیں ۔
اور ایسے واقعات عمومی نہیں ہوتے یہ بس کچھ ایکسپشنل لوگوں کے ساتھ پیش آسکتے ہیں ۔
بالکل ایسے ہی تصادم انسان کی روحانی زندگی میں بھی واقع ہوتے ہیں ۔ کبھی اللہ سے تعلق مضبوط اور بہترین ہوجاتا ہے وہ زندگی کا سب سے بہترین فیز ہوتا ہے اور کبھی یہ تعلق ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کے بھی چلتا رہتا ہے اسکا تسلسل نہیں ٹوٹتا کم زیادہ تھوڑا بہت ..تناسب میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے لیکن تعلق بہر حال برقرار رہتا ہے ۔
اور سب سے خطرناک وہ موڑ ہوتا ہے جہاں بریکر کے پاس ایکسیڈنٹ ہوجاتا ہے ۔
ایک دھماکہ اور سب شعور کے کسی چھپے گوشے میں جا چھپتا ہے ۔
یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ آپ ایک کوما کی کیفیت میں ہوتے ہیں سب دیکھتے ہیں سنتے ہیں بس احساس مر جاتا ہے ۔
آپ تعلق جوڑنا چاہتے ہیں وہی پرانا تعلق جو آپکی روح کا اللہ سے تھا لیکن باوجود کوشش کے یہ جڑ نہیں پاتا ۔ اور یہ ایسی بیماری ہے جسکو پہلے تو کوئی سناتا ہی نہیں اگر سنا دے تو کوئی سمجھتا نہیں اور اگر سمجھ جائے تو غلط دوا تجویز کر دیتا ہے نتیجتاً سب الجھ جاتا ہے ۔
آپ کسی سے کہیے مجھے اللہ سے محبت نہیں محسوس ہوتی ... وہ ااپکو درزیدہ نگاہوں سے گھور کے آپکی ذہنی صحت پہ نہیں آپکے ایمان پہ شک کرے گا ۔ آپ اچانک ڈر کر خاموش ہو جائیں گے کہ کہیں آپکو کافر اور ملحد ہی نہ سمجھ لیا جائے ۔
لیکن کچھ مریض چپ نہیں ہوتے وہ بولتے ہیں کبھی بہت زیادہ کبھی نارمل اور کبھی بالکل ہی ہذیان بکنے لگتے ہیں. اب مریض تو مریض ہے اسکی اپنی اسٹیجز ہیں کہ وہ بیماری کی کس اسٹیج پہ ہے ۔
مجھے اس بیماری سے واسطہ رہا ۔ کافی لمبے عرصے تک ۔ گو صحتیابی ک عمل شروع ہوچکا ہے لیکن ابھی مکمل نہیں ہوا ۔
اللہ سے رابطہ جڑنے کے لیے جو راستے درکار ہوتے ہیں وہ میری چڑ بن گئے ۔ مجھے اللہ سے بے پناہ محبت لیکن للھیت روحانیت کی کمی ...یہ محبت محسوس کیوں نہیں ہوتی ..اس محبت کا وہ جذبہ کہاں ہے جہاں محبوب کے لیے سب کر گزرنے کو جی چاہتا ہے ۔ جہاں محبت اتنی پاورفل ہوتی ہے کہ گرمی سردی کا احساس ختم ہوجاتا ہے ..وہ لیول برقرار ہو ہی نہیں پاتا ۔
آپ ماں کو دیکھیے جو بچے کو چاہتی ہے اس سے پیار کرتی ہے تو ہمہ وقت اسکی فکر میں گھلتی رہتی ہے ..یہ کمزور کیوں ہوگیا؟
یہ کھاتا پیتا نہیں
اسے بھوک لگی ہے
ٹھنڈ تو نہیں لگ رہی کہیں
گرمی تو نہیں
پڑھائی ٹھیک سے کر رہا ہے
غرض ہمہ وقت وہ اسی کی فکر میں گھلتی رہتی ہے ۔
یہ ہوتی ہے محبت کہ آپ ہمہ وقت محبوب کی فکر میں رہیں ۔ ہر وقت اسکی پسند نا پسند کا خیال رکھیں ہر وقت اسے پاس رکھنا چاہیں اسکے پاس رہنا چاہیں ۔
جاری ہے
سمیرا امام
 
Top