متلاشی
محفلین
السلام علیکم !
تمام اساتذانِ سخن و ناقدانِ سخن کی خدمت میں اپنی تازہ یک نشتی غزل پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں ۔۔۔ امید ہے میری اس جسارت کو آپ معاف کریں گے۔۔۔!
تمام اساتذانِ سخن و ناقدانِ سخن کی خدمت میں اپنی تازہ یک نشتی غزل پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں ۔۔۔ امید ہے میری اس جسارت کو آپ معاف کریں گے۔۔۔!
محبت میں بھلا درد و اَلم کیا کم نہیں ملتا
کہیں ملتا ہے غم تو پھر شریکِ غم نہیں ملتا
رَقیبوں کے جھمیلے میں سَدا ہے وہ گھرا رہتا
اکیلے میں کبھی بھی وہ مجھے باہم نہیں ملتا
خیالوں کے لبادے میں چھپا رہتا ہے ہر پل وہ
مجسم بن کے وہ پیکر مجھے تاہم نہیں ملتا
سُناؤں حالِ دل کس کو؟ دِکھاؤں زخمِ دل کس کو
کہ دشمن شہر ہے سارا، کوئی ہمدم نہیں ملتا
یہ کہہ کر مجھ کو دھتکارا ، مسیحائے زمانہ نے
مریضِ عشق کو یاں پر کوئی مرہم نہیں ملتا
یہ رازِ عشق آخر میں کہوں تو پھر کہوں کس سے
بھری دنیا میں مجھ کو تو کوئی محرم نہیں ملتا
اُسی کے خواب ہیں میرا سہارا آج تک ورنہ
یہاں دم کے نکلنے کو بھی کوئی دم نہیں ملتا
18/02/12
(محمد ذیشان نصر )