عمر سیف
محفلین
مجھے اکثر یہ کہتی تھی محبت کچھ نہیں ہوتی
ہجر کا خوف بے مطلب‘ وصل کے خواب بے معنی
کوئی صورت نگاہوں میں کہاں دن رات رہتی ہے
اسے کیوں خامشی کہیے کہ جس میں بات رہتی ہے
یہ آنسو بے زباں آنسو بھلا کیا بول سکتے ہیں
کہاں دل میں کسی کی یاد سے طوفان اٹھتے ہیں
کہاں پلکوں کے سائے میں نمی دن رات رہتی ہے
کہاں ہوتی ہیں وہ آنکھیں جہاں برسات رہتی ہے
مجھے اکثر یہ کہتی تھی محبت کچھ نہیں ہوتی!
مگر جب آج برسوں بعد میں نے اُس کو دیکھا ہے
کہ اُس کی جھیل آنکھوں میں ہجر کا خوف رہتا ہے
وصل کے خواب رہتے ہیں وہاں برسات رہتی ہے
یوں لگتا ہے کئی راتوں سے وہ سوئی نہیں شاید
یوں لگتا ہے کسی کی یاد اب دن رات رہتی ہے
اور اس کی نرم پلکوں کے حسیں سائے بھی گیلے ہیں
اور اُس کی خامشی ایسی کہ جس میں بات رہتی ہے
مجھے اب وہ نہیں کہتی محبت کچھ نہیں ہوتی
کہ اب شاید محبت کی وہ سب رمزیں سمجھتی ہے
ہجر کا خوف بے مطلب‘ وصل کے خواب بے معنی
کوئی صورت نگاہوں میں کہاں دن رات رہتی ہے
اسے کیوں خامشی کہیے کہ جس میں بات رہتی ہے
یہ آنسو بے زباں آنسو بھلا کیا بول سکتے ہیں
کہاں دل میں کسی کی یاد سے طوفان اٹھتے ہیں
کہاں پلکوں کے سائے میں نمی دن رات رہتی ہے
کہاں ہوتی ہیں وہ آنکھیں جہاں برسات رہتی ہے
مجھے اکثر یہ کہتی تھی محبت کچھ نہیں ہوتی!
مگر جب آج برسوں بعد میں نے اُس کو دیکھا ہے
کہ اُس کی جھیل آنکھوں میں ہجر کا خوف رہتا ہے
وصل کے خواب رہتے ہیں وہاں برسات رہتی ہے
یوں لگتا ہے کئی راتوں سے وہ سوئی نہیں شاید
یوں لگتا ہے کسی کی یاد اب دن رات رہتی ہے
اور اس کی نرم پلکوں کے حسیں سائے بھی گیلے ہیں
اور اُس کی خامشی ایسی کہ جس میں بات رہتی ہے
مجھے اب وہ نہیں کہتی محبت کچھ نہیں ہوتی
کہ اب شاید محبت کی وہ سب رمزیں سمجھتی ہے
عاطف سیعد