بزم خیال
محفلین
تکمیل ذات و خیال کا ایسا بھنور ہے جس سے نکلنے کے لئے جسم و جاں تنکے کے سہارے کی اُمید بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ پانا اور دینا حرف غلط کی مثل رہ جاتے ہیں۔ دراصل جینا اور مٹنا جسم و جاں کے باہمی تعلق کو سانس کی زندگی تک زندہ رکھتے ہیں۔ مٹے بنا جینا کھل کر سامنے نہیں آتا۔ ذات ایک ایسا بلیک ہول ہے جو قریب آنے والی تحسین و پزیرائی کو جزب کرتا ہے۔خیال مخالف کو آلارم بجا بجا دور بھگاتا ہے۔مکمل حیات جاودانی کے منظر احساس کو چھو جاتے ہیں۔جسے مکمل جانا نہ جا سکے اسے مکمل پایا نہیں جا سکتا۔
بچپن لڑکپن جوانی کے حالات کہانیوں کے کرداروں سے مطابقت پیدا کر لیتے ہیں۔ پھر وہی کردار زندگی میں رنگ بھرنے کے لئے تلاش کے سفر کا آغاز کرتے ہیں۔یہ سفر صرف خوشبو کا سفر ہی رہتا ہے۔جسے محسوس کیا جا سکے لیکن جب پانے کی خواہش میں قریب ہونا چاہیں تو کانٹے دامن سے اُلجھنے تک آ جاتے ہیں۔حسن و خوبصورتی پائیں یا دامن بچائیں۔پھر کانٹوں سے بچنا ہی تلاش سفر کا انجام رہ جاتا ہے۔زندگی اپنے ارد گرد حفاظتی حصار بنائے رکھتی ہے۔جو نہ ہی فاصلے کم ہونے دیتی ہے۔ نہ ہی دور بھٹکنے دیتی ہے۔ لیکن جو کشش سے آزادی چاہتے ہیں وہ بندش خلا میں کھو جاتے ہیں۔ پھر وہ روشن رہیں یا تاریک نظر میں نہیں رہتے۔
انسان تاروں کی طرح چمکنا اور روشن رہنا چاہتا ہے۔ تاکہ دیکھنے والے نظر اُٹھا کر ہی دیکھ پائیں۔جن کا حاصل ، لا حاصل ہےکیونکہ جو کوشش سے بھی نہ پائے جا سکیں ۔ ان کے لئے دعائیں بھی کارآمد نہیں ہوتی۔
ہیرے سونے کو پانے سے آرزؤں کی تشنگی کم ہوتی ہےمگر ان کی تلاش میں تہہ زمین پتھروں کوئلوں تک پہنچنے کی جستجو نہیں کی جاتی۔زندگی بھر کی کوشش میں بھی شائد گلے کا ہار بھی ہاتھ نہ لگ سکے۔صرف وہی پانے کی کوشش کی جاتی ہے جس کا حاصل آسان ہو۔ مشکل ہدف اکثر نشانے سے چوک جاتے ہیں ۔
زندگی کو جاننے کے لئے کہانیوں داستانوں کتابوں سے رہنمائی لی جاتی ہے۔مگر نشانیاں عقل والوں کے لئے ہیں۔کائنات میں پھیلی ہر شے اپنی اپنی جگہ ایک الگ داستان کی غماز ہے۔صرف دیکھنے والی نظر چاہیئے۔کون کس سے کیا پا رہا ہے۔انسان خیر و شر کے امتزاج سے ہی اشرف المخلوقات کے درجہ تک پہنچا ۔چاہے وہ خیر میں بندگی کرے یا شر میں زندگی بسر کرے۔
انسان تکمیل کی منازل لینے اور دینے سے طے کرتا ہے۔یہ جاننا ضروری نہیں کہ کوئی کیا دینا چاہتا ہے ۔ یہ ضروری ہے کہ لیا کیا جا رہا ہے۔کیونکہ دو مخالف اجزا ایک ساتھ سامنے آتے ہیں جنہیں کبھی ہاں سے قبول کرتے ہیں تو کبھی نا ں سے دور کرتے ہیں۔ باتیں جب سمجھنے میں مشکل ہو جائیں تو فطرت میں چلے جانا چاہیئے کیونکہ فطرت سے زیادہ خوبصورت جواب کہیں اور سےشائد نہ مل پائے۔
گلستانوں میں کھلتے پھول کیڑے مکوڑوں بھنوروں اور شہد کی مکھیوں کے لئے یکساں دعوت قربت کا اہتمام رکھتے ہیں۔چشمہ کے بہتے پانی پینے میں خوش ذائقہ اور میٹھے ہوتے ہیں مگر ان پر سفر نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح سمندر کے پانی سفر کی تھکان نہیں ہونے دیتے پر سکون رکھتے ہیں مگر پیاس بجھانے کی قدرت نہیں رکھتے۔جنہیں جو چاہیئے انہیں اسی کا قصد کرنا ہوتا ہے۔
جو مکھی پھول سے رس لیتی ہے وہ اسے چھتوں میں بھر دیتی ہے۔وہ شہد کی مکھی کہلائے یا ہنی بی اپنی افادیت کی وجہ سے پہچان میں رہتی ہے۔ انہی پھولوں سے پانی لینے والے حشرات ایک نظر نہیں بھاتے۔کیونکہ وہ صرف اپنی ذات کے لئے پھولوں میں سے پانی چوسنے آتے ہیں۔پانی پیا اور اپنی راہ لی۔اگر رس لینے والے نہ پہنچ پائیں تو پھول رس کے خشک ہونے پر اپنا وجود تحیل کر دیتے ہیں۔
دیکھنا تو یہ ہے کہ پانی لینے والے اور رس حاصل کرنے والے ایک ہی طریقہ کار پر عمل پیرا ہیں۔لیکن ان کی شناخت الگ الگ ہے جسے صرف نظر کی پہچان سے شناخت کیا جا سکتا ہے۔ ایک اپنی تشنگی مٹانے کے لئے پھول کا پانی پانے آتے ہیں۔ اگر ان کی تعداد بڑھتی جائے تو بہت جلد پھول کا رس خشک ہونے لگتا ہے ۔شہد کی مکھی کے پہنچنے سے پہلے وہ پھول رس کو اپنے وجود میں سمیٹ کر دفن ہو جاتا ہے۔
ہماری زندگی پھول کی مانند ہے اللہ کی محبت رس کی صورت میں اور دنیا کی آرزؤئیں پانی کی صورت میں لینے والوں کو دی جاتی ہیں۔اللہ کی محبت رکھنے والے اللہ کی محبت پانے کے لئے پھولوں سے محبت کا وہ رس لے کر چھتوں میں بھر بھر غلاف عشق بنا دیتے ہیں۔ جہاں عشق کے متوالے سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں اکٹھے رہ کر محبت کے رس نچوڑ لیتے ہیں جس میں شفا بھی ہے اور حکمت بھی۔دوسری طرف ایک ایک رہنے والے لاکھوں کروڑوں دنیاوی محبت کے حصول کے لئے پانی پی پی کر پھول کی ذات فنا کر دیتے ہیں۔
جن پھولوں کی قسمت میں غلاف عشق میں محبت کے رس بھرنا لکھا ہو۔محبت کی متوالی مکھیاں ان پھولوں تک رسائی پا لیتی ہیں۔
تحریر: محمودالحق
بچپن لڑکپن جوانی کے حالات کہانیوں کے کرداروں سے مطابقت پیدا کر لیتے ہیں۔ پھر وہی کردار زندگی میں رنگ بھرنے کے لئے تلاش کے سفر کا آغاز کرتے ہیں۔یہ سفر صرف خوشبو کا سفر ہی رہتا ہے۔جسے محسوس کیا جا سکے لیکن جب پانے کی خواہش میں قریب ہونا چاہیں تو کانٹے دامن سے اُلجھنے تک آ جاتے ہیں۔حسن و خوبصورتی پائیں یا دامن بچائیں۔پھر کانٹوں سے بچنا ہی تلاش سفر کا انجام رہ جاتا ہے۔زندگی اپنے ارد گرد حفاظتی حصار بنائے رکھتی ہے۔جو نہ ہی فاصلے کم ہونے دیتی ہے۔ نہ ہی دور بھٹکنے دیتی ہے۔ لیکن جو کشش سے آزادی چاہتے ہیں وہ بندش خلا میں کھو جاتے ہیں۔ پھر وہ روشن رہیں یا تاریک نظر میں نہیں رہتے۔
انسان تاروں کی طرح چمکنا اور روشن رہنا چاہتا ہے۔ تاکہ دیکھنے والے نظر اُٹھا کر ہی دیکھ پائیں۔جن کا حاصل ، لا حاصل ہےکیونکہ جو کوشش سے بھی نہ پائے جا سکیں ۔ ان کے لئے دعائیں بھی کارآمد نہیں ہوتی۔
ہیرے سونے کو پانے سے آرزؤں کی تشنگی کم ہوتی ہےمگر ان کی تلاش میں تہہ زمین پتھروں کوئلوں تک پہنچنے کی جستجو نہیں کی جاتی۔زندگی بھر کی کوشش میں بھی شائد گلے کا ہار بھی ہاتھ نہ لگ سکے۔صرف وہی پانے کی کوشش کی جاتی ہے جس کا حاصل آسان ہو۔ مشکل ہدف اکثر نشانے سے چوک جاتے ہیں ۔
زندگی کو جاننے کے لئے کہانیوں داستانوں کتابوں سے رہنمائی لی جاتی ہے۔مگر نشانیاں عقل والوں کے لئے ہیں۔کائنات میں پھیلی ہر شے اپنی اپنی جگہ ایک الگ داستان کی غماز ہے۔صرف دیکھنے والی نظر چاہیئے۔کون کس سے کیا پا رہا ہے۔انسان خیر و شر کے امتزاج سے ہی اشرف المخلوقات کے درجہ تک پہنچا ۔چاہے وہ خیر میں بندگی کرے یا شر میں زندگی بسر کرے۔
انسان تکمیل کی منازل لینے اور دینے سے طے کرتا ہے۔یہ جاننا ضروری نہیں کہ کوئی کیا دینا چاہتا ہے ۔ یہ ضروری ہے کہ لیا کیا جا رہا ہے۔کیونکہ دو مخالف اجزا ایک ساتھ سامنے آتے ہیں جنہیں کبھی ہاں سے قبول کرتے ہیں تو کبھی نا ں سے دور کرتے ہیں۔ باتیں جب سمجھنے میں مشکل ہو جائیں تو فطرت میں چلے جانا چاہیئے کیونکہ فطرت سے زیادہ خوبصورت جواب کہیں اور سےشائد نہ مل پائے۔
گلستانوں میں کھلتے پھول کیڑے مکوڑوں بھنوروں اور شہد کی مکھیوں کے لئے یکساں دعوت قربت کا اہتمام رکھتے ہیں۔چشمہ کے بہتے پانی پینے میں خوش ذائقہ اور میٹھے ہوتے ہیں مگر ان پر سفر نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح سمندر کے پانی سفر کی تھکان نہیں ہونے دیتے پر سکون رکھتے ہیں مگر پیاس بجھانے کی قدرت نہیں رکھتے۔جنہیں جو چاہیئے انہیں اسی کا قصد کرنا ہوتا ہے۔
جو مکھی پھول سے رس لیتی ہے وہ اسے چھتوں میں بھر دیتی ہے۔وہ شہد کی مکھی کہلائے یا ہنی بی اپنی افادیت کی وجہ سے پہچان میں رہتی ہے۔ انہی پھولوں سے پانی لینے والے حشرات ایک نظر نہیں بھاتے۔کیونکہ وہ صرف اپنی ذات کے لئے پھولوں میں سے پانی چوسنے آتے ہیں۔پانی پیا اور اپنی راہ لی۔اگر رس لینے والے نہ پہنچ پائیں تو پھول رس کے خشک ہونے پر اپنا وجود تحیل کر دیتے ہیں۔
دیکھنا تو یہ ہے کہ پانی لینے والے اور رس حاصل کرنے والے ایک ہی طریقہ کار پر عمل پیرا ہیں۔لیکن ان کی شناخت الگ الگ ہے جسے صرف نظر کی پہچان سے شناخت کیا جا سکتا ہے۔ ایک اپنی تشنگی مٹانے کے لئے پھول کا پانی پانے آتے ہیں۔ اگر ان کی تعداد بڑھتی جائے تو بہت جلد پھول کا رس خشک ہونے لگتا ہے ۔شہد کی مکھی کے پہنچنے سے پہلے وہ پھول رس کو اپنے وجود میں سمیٹ کر دفن ہو جاتا ہے۔
ہماری زندگی پھول کی مانند ہے اللہ کی محبت رس کی صورت میں اور دنیا کی آرزؤئیں پانی کی صورت میں لینے والوں کو دی جاتی ہیں۔اللہ کی محبت رکھنے والے اللہ کی محبت پانے کے لئے پھولوں سے محبت کا وہ رس لے کر چھتوں میں بھر بھر غلاف عشق بنا دیتے ہیں۔ جہاں عشق کے متوالے سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں اکٹھے رہ کر محبت کے رس نچوڑ لیتے ہیں جس میں شفا بھی ہے اور حکمت بھی۔دوسری طرف ایک ایک رہنے والے لاکھوں کروڑوں دنیاوی محبت کے حصول کے لئے پانی پی پی کر پھول کی ذات فنا کر دیتے ہیں۔
جن پھولوں کی قسمت میں غلاف عشق میں محبت کے رس بھرنا لکھا ہو۔محبت کی متوالی مکھیاں ان پھولوں تک رسائی پا لیتی ہیں۔
تحریر: محمودالحق