عمر سیف
محفلین
میں، مرے بعد ۔۔۔
میں، مرے بعد مٹ نہیں سکتی
میں نے اک لفظ اوڑھ رکھا ہے
جو ہے تجدید زندگانی کی
یہ زمان و مکان کچھ بھی نہیں
یہ زمیں، آسماں کچھ بھی نہیں
کچھ نہیں ہے یہ وصل اور فرقت
اور یقین و گمان کچھ بھی نہیں
آنکھ جھپکی تو گُم ہوا منظر
تیر کیا ہے؟ کمان کچھ بھی نہیں
جب بھی سورج کے تھال پر لمحہ،
موم بن کر پگھل رہا ہوگا
جس میں سایہ بھی جل رہا ہوگا
ہاں، مگر لفظ جی رہے ہونگے
موت لفظوں کو کھا نہیں سکتی
لفظ زندہ رہے گا، رہنا ہے
جس نے کہنا ہے ۔۔۔ اُس نے کہنا ہے
میں نے اک لفظ اوڑھ رکھا ہے
جو ہے تجدید زندگانی کی
میں، مرے بعد مٹ نہیں سکتی
میں، مرے بعد مٹ نہیں سکتی
میں نے اک لفظ اوڑھ رکھا ہے
جو ہے تجدید زندگانی کی
یہ زمان و مکان کچھ بھی نہیں
یہ زمیں، آسماں کچھ بھی نہیں
کچھ نہیں ہے یہ وصل اور فرقت
اور یقین و گمان کچھ بھی نہیں
آنکھ جھپکی تو گُم ہوا منظر
تیر کیا ہے؟ کمان کچھ بھی نہیں
جب بھی سورج کے تھال پر لمحہ،
موم بن کر پگھل رہا ہوگا
جس میں سایہ بھی جل رہا ہوگا
ہاں، مگر لفظ جی رہے ہونگے
موت لفظوں کو کھا نہیں سکتی
لفظ زندہ رہے گا، رہنا ہے
جس نے کہنا ہے ۔۔۔ اُس نے کہنا ہے
میں نے اک لفظ اوڑھ رکھا ہے
جو ہے تجدید زندگانی کی
میں، مرے بعد مٹ نہیں سکتی