ذوالقرنین
لائبریرین
محبت بھی انسان پر کسی دن کے پہروں کی طرح وارد ہوتی ہے۔
محبت کا پہلا پہر ہمیشہ چبھن، تشنگی اور شدید پیاس لے کر آتا ہے۔ یہ وہ دور ہوتا ہے جب آپ کا محبوب آپ سے دور ہوتا ہے۔ آپ کے جذبے آپ ہی تک محدود ہوتے ہیں اور یک طرفہ محبت کی یہ تڑپ آپ کو ہر لمحہ کانٹوں پر چلنے کا احساس دلاتی ہے۔۔۔۔
پھر اظہار ہو جاتا ہے اور خوش قسمتی سے اگر اظہارِ قبولیت کا شرف بھی پالے تو محبت کا دوسرا پہر شروع ہوتا ہے۔ تب محبت کی اصل ٹھنڈی چھاؤں کا اور ابدی سکون کا احساس ہوتا ہے، تب تپتی دھوپ میں بھی ٹھنڈک ملتی ہے اور جلتا صحرا بھی نخلستان بن جاتا ہے۔ ایسا نخلستان جس کا ساکت رکا ہوا پانی بھی کسی میٹھے اور صاف بہتے جھرنے کی طرح محسوس ہوتا ہے۔
بہت کم خوش نصیب ایسے ہوتے ہیں جو محبت کے ان دو پہروں کو جھیل کر محبت کے تیسرے اور آخری پہر تک پہنچ جاتے ہیں۔ محبت کے تیسرے پہر میں پہلے پہر سے بھی زیادہ شدید تشنگی، شدید پیاس اور بے چینی ہوتی ہے۔ لیکن یہ تشنگی، یہ پیاس پا لینے کی پیاس ہوتی ہے۔۔۔۔ ہاں۔۔۔۔ پا لینے کی پیاس۔۔۔۔ جب آب حیات کا دریا سامنے بہہ رہا ہو تو کون ہوگا جو صرف ایک آدھ گھونٹ پر اکتفا کرے گا؟۔۔۔۔ پا لینے کی پیاس، جدائی کی پیاس سے کہیں زیادہ شدید ہوتی ہے۔۔۔۔ اور اگر یہ پیاس لگ جائے تو ملن جدائی سے زیادہ اذیت ناک بن جاتا ہے۔ لیکن افسوس ہماری محدود زندگی کبھی ہمیں اس دریا سے پوری طرح سیراب نہیں ہونے دیتی۔ ہم ابھی چند گھونٹ ہی حلق سے اتار پاتے ہیں کہ جانے کا وقت آ جاتا ہے۔
محبت کے تیسرے پہر سے گزرنے کے بعد انجام وہی ہوتا ہے جو کسی بھی بھرپور دن کا تینوں پہر گزرنے کے بعد ہو سکتا ہے۔۔۔۔ یعنی شام۔۔۔۔ تین پہروں کے بعد محبت کی بھی شام ہو جاتی ہے۔۔۔۔ خاموش۔۔۔۔ ٹھہری ہوئی اور ساکت سی اک خوبصورت شام۔۔۔۔ محبت کی شام۔۔۔۔
محبت کا پہلا پہر ہمیشہ چبھن، تشنگی اور شدید پیاس لے کر آتا ہے۔ یہ وہ دور ہوتا ہے جب آپ کا محبوب آپ سے دور ہوتا ہے۔ آپ کے جذبے آپ ہی تک محدود ہوتے ہیں اور یک طرفہ محبت کی یہ تڑپ آپ کو ہر لمحہ کانٹوں پر چلنے کا احساس دلاتی ہے۔۔۔۔
پھر اظہار ہو جاتا ہے اور خوش قسمتی سے اگر اظہارِ قبولیت کا شرف بھی پالے تو محبت کا دوسرا پہر شروع ہوتا ہے۔ تب محبت کی اصل ٹھنڈی چھاؤں کا اور ابدی سکون کا احساس ہوتا ہے، تب تپتی دھوپ میں بھی ٹھنڈک ملتی ہے اور جلتا صحرا بھی نخلستان بن جاتا ہے۔ ایسا نخلستان جس کا ساکت رکا ہوا پانی بھی کسی میٹھے اور صاف بہتے جھرنے کی طرح محسوس ہوتا ہے۔
بہت کم خوش نصیب ایسے ہوتے ہیں جو محبت کے ان دو پہروں کو جھیل کر محبت کے تیسرے اور آخری پہر تک پہنچ جاتے ہیں۔ محبت کے تیسرے پہر میں پہلے پہر سے بھی زیادہ شدید تشنگی، شدید پیاس اور بے چینی ہوتی ہے۔ لیکن یہ تشنگی، یہ پیاس پا لینے کی پیاس ہوتی ہے۔۔۔۔ ہاں۔۔۔۔ پا لینے کی پیاس۔۔۔۔ جب آب حیات کا دریا سامنے بہہ رہا ہو تو کون ہوگا جو صرف ایک آدھ گھونٹ پر اکتفا کرے گا؟۔۔۔۔ پا لینے کی پیاس، جدائی کی پیاس سے کہیں زیادہ شدید ہوتی ہے۔۔۔۔ اور اگر یہ پیاس لگ جائے تو ملن جدائی سے زیادہ اذیت ناک بن جاتا ہے۔ لیکن افسوس ہماری محدود زندگی کبھی ہمیں اس دریا سے پوری طرح سیراب نہیں ہونے دیتی۔ ہم ابھی چند گھونٹ ہی حلق سے اتار پاتے ہیں کہ جانے کا وقت آ جاتا ہے۔
محبت کے تیسرے پہر سے گزرنے کے بعد انجام وہی ہوتا ہے جو کسی بھی بھرپور دن کا تینوں پہر گزرنے کے بعد ہو سکتا ہے۔۔۔۔ یعنی شام۔۔۔۔ تین پہروں کے بعد محبت کی بھی شام ہو جاتی ہے۔۔۔۔ خاموش۔۔۔۔ ٹھہری ہوئی اور ساکت سی اک خوبصورت شام۔۔۔۔ محبت کی شام۔۔۔۔
(ماخوذ: خدا اور محبت)