بہت عمدہ جناب ، اب تو آئن سٹائن کے نظریہ اضافت کی بھی ایسی تشریح درکار ہے۔
نیوٹن کے نظریہ کشش ثقل پر بھی کچھ روشنی ڈالیں۔
نیوٹن کا ’’عالمی نظریہ تجازبِ محبت‘‘
از: محمد خلیل الرحمٰن
محبت یا عشق کی کشش وہ قوت ہے جس سے دو دِل رکھنے والے اجسام ایک دوسرے کو اپنی جانب کھینچتے ہیں۔اس سلسلے میں بے شمار نظریات ملتے ہیں لیکن سائینس میں دو شخصیات یعنی نیوٹن اور آئن اسٹائن نے محبت کے سفلی نظریات ثقلی نظریات پیش کرکے اہلِ دنیا کو بہت پریشان کیا۔
نیوٹن کا ’’عالمی نظریہ تجازبِ محبت‘‘ اور آئن اسٹائن کا ’’نظریہ اضافی محبت‘‘ نے قبولِ عام کا درجہ حاصل کیا ؛
وجہ :محبت کے ان نظریات کو سمجھنا انسانی ذہن کے لیے اتنا ہی مشکل تھا جتنا کہ اہلِ تصوف کے سوقیانہ (یا صوفیانہ) عشقِ حقیقی و مجازی اور فرائڈ کے نظریہِ نفسیاتی محبت کو سمجھنا۔
عام زندگی میں اس قوت کا حساس ہمیں عاشقوں کے گھڑمس اور حسن والوں کے غرور سے ہوتا ہے۔ جناب خالد مسعود صاحب اس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں
ہیر کے بوئے اگے ویکھ کے عاشقوں کا گھڑمس
رانجھا تخت ہزارے ٹُر گیا، پھڑ کے پہلی بس
ادھر یہی قوتِ عشق وہ قوت ہے جس کے بارے میں کسی منچلے نے علامہ صاحب کے شعر کا کیا خوب بتنگڑ بنایا ہے۔
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کردے
دہر میں عشق کی طاقت سے اُجالا کردے
جتنے عاشق ہیں زمانے میں مرادیں پاجائیں
اور منہ ان کے رقیبوں کا تو کالا کردے
نیوٹن کا قانون عالمی محبت (Newton's law of universal Love )
یہ قانون نیوٹن سال 1687ء میں پیش نہ کرسکے اور باقی ساری عمر پچھتایا کیے،
یہاں تک کہ آئن اسٹائن نے آکر ان کے پیش کردہ قوانین کا تیا پانچا کردیا۔
اِس قانون کے مطابق:
حسابی طور پر اِسے یوں لکھا جاتا ہے:
محبّت ∞m1m2/ r2
یا محبت= Gm1m2/ r2
محبتدونوں نقاطی محبتوں کے درمیان کششِ عشق کی مقدار ہے,
§G ثقلی دائم ہے, جسے عرفِ عام میں رقیب کہتے ہیں
§m1پہلے محبتی نقطہ کی کشش,
§m2دوسرے محبتی نقطہ کی کشش
§rدونوں محبت کرنے والوں کا درمیانی فاصلہ.