عاطف بٹ
محفلین
محبت کے عوض رہنے لگے ہر دم خفا مجھ سے
کہو تو ایسی کیا سرزد ہوئی آخر خطا مجھ سے
ملیں بھی وہ تو کیونکر آرزو برآئے گی دل کی
نہ ہوگا خود خیال ان کو، نہ ہوگی التجا مجھ سے
قرار آتا نہیں دل کو کسی عنوان پہلو میں
ہوا ہے آشنا جب سے وہ کافر ماجرا مجھ سے
غنیمت ہے جہانِ عاشقی میں ذات دونوں کی
کہ نامِ جور قائم تم سے ہے، رسمِ وفا مجھ سے
فلک سے بھی ہے کیا بڑھ کر بلندی بامِ جاناں کی
یہ پوچھا کرتی ہے اکثر مری آہِ رسا مجھ سے
مگر سیرِ چمن کو آج پھر وہ آنے والے ہیں
ابھی کچھ کہہ رہی تھی کان میں بادِ صبا مجھ سے
محبت بھی عجب شے ہے کہ باوصفِ شناسائی
نہیں ہوتی مخاطب وہ نگاہِ آشنا مجھ سے
سکونِ قلب کی امید اب کیا ہو کہ رہتی ہے
تمنا کی دوچار اک ہر گھڑی برقِ بلا مجھ سے
تقاضا ہے یہی خوئے نیازِ عشق بازی کا
نہ ہوگا اس سراپا ناز کا حسرت گِلا مجھ سے