محبت کے موضوع پر اشعار!

شمشاد

لائبریرین
اس تھریڈ پر بھی کوئی توجہ نہیں دے رہا۔


محبت میں دیکھاوے کی دوستی نہ ملا
اگر گلے نہیں ملاتا تو ہاتھ بھی نہ ملا
(بشیر بدر)
 

ماوراء

محفلین

جو صرف اور صرف اپنی ذات سے محبت کرتا تھا
سُنو ، ایک ایسے پتھر کو محبت ہوگئی ہے تُم سے


 

شمشاد

لائبریرین
محبت میں کریں کیا کچھ کسی سے ہو نہیں سکتا
میرا مرنا بھی تو میری خوشی سے ہو نہیں سکتا

نہ رونا ہے طریقے کا، نہ ہنسنا ہے سلیقے کا
پریشانی میں کوئی کام جی سے ہو نہیں سکتا
(داغ دہلوی)
 

شمشاد

لائبریرین
محبت میں وفاداری سے بچیئے
جہاں تک ہو اداکاری سے بچیئے

ہر اک صورت بھلی لگتی ہے کچھ دن
لہو کی شعبدہ کاری سے بچیئے
(ندا فاضلی)
 

شمشاد

لائبریرین
ستارے جو دمکتے ہیں
کسی کی چشمِ حیراں میں
ملاقاتیں جو ہوتی ہیں
جمالِ ابر و باراں میں

یہ نا آباد وقتوں میں
دلِ ناشاد میں ہو گی
محبت اب نہیں ہو گی
یا کچھ دن بعد میں ہو گی

گزر جائیں گے جب یہ دن
یہ ان کی یاد میں ہو گی
(امجد اسلام امجد)
 

تیشہ

محفلین
مجھے کانٹا چبھے اور تیری آنکھوں سے لہو ٹپکے
تعلق ہو تو ایسا ہو، محبت ہو تو ایسی ہو ۔
 

شمشاد

لائبریرین
بوچھی نے کہا:
مجھے کانٹا چبھے اور تیری آنکھوں سے لہو ٹپکے
تعلق ہو تو ایسا ہو، محبت ہو تو ایسی ہو ۔

بوچھی صاحبہ یہ شعر آپ 29 دسمبر بروز جمعرات پہلے بھی سنا چکی ہیں - اب کوئی اور سنائیے۔

اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
 

شمشاد

لائبریرین
صرف دو ہی تو صفحے ہیں جن میں چند اُشعار ہیں، ان کو پڑھنے میں چند منٹ لگتے ہیں۔

یہ دل کبھی نہ محبت میں کامیاب ہوا
مجھے خراب کیا، آپ بھی خراب ہوا

اجل میں، زیست میں، ترابت میں، حشر میں ظالم
تیرے ستم کے لیئے میں ہی انتخاب ہوا
(بیخود دہلوی)
 

شمشاد

لائبریرین
یہ حسنِ راز محبت چھپا رہا ہے کوئی
ہے اشک آنکھوں میں اور مسکرا رہا ہے کوئی

یہ حسن و عشق کی تصویر کہ ہیں دو منظر
کہ رو رہا ہے کوئی، مسکرا رہا ہے کوئی

‘قدیر‘ حشر میں پہنچے تو ہم نے کیا دیکھا
کسی کے ہاتھ سے دامن چھڑا رہا ہے کوئی
(قدیر)
 

شمشاد

لائبریرین
اب تک اس کی محبت کا نشہ طاری ہے
پھول باقی نہیں خشبو کا سفر جاری ہے

سحر لگتا ہے پسینے میں نہایہ ہوا جسم
یہ عجب خواب میں ڈوبی ہوئی بیداری ہے
(شہزاد احمد)
 

ماوراء

محفلین
فسانے میں حقیقت ہوگئی تو
ہمیں تُم سے محبت ہوگئی تو
ملا نہ کرو ہم سے روز آکر
تمہارے دل کو عادت ہوگئی تو
ہمیں تُم آگہی کا درس نہ دو
زمانے سے بغاوت ہوگئی تو
چراغوں کو سرِ شام جلایا نہ کرو
ہواؤں کو اگر عداوت ہوگئی تو
 

شمشاد

لائبریرین
دل میں اب دردِ محبت کے سوا کچھ بھی نہیں
زندگی میری عبادت کے سوا کچھ بھی نہیں

میں تیری بارگاہِ ناز میں کیا پیش کروں
میری جھولی میں محبت کے سوا کچھ بھی نہیں
(ساحر بھوپالی)
 

شمشاد

لائبریرین
مریضِ محبت اُنہی کا فسانہ
سناتا رہا دم نکلتے نکلتے
مگر ذکر شام الم جب کے آیا
چراغ سحر بجھ گیا جلتے جلتے
(قمر جلالوی)
 

الف نظامی

لائبریرین
گفتگوئے شہ ﷺ ابرار بہت کافی ہے
ہو محبت تو یہ گفتار بہت کافی ہے
یادِ محبوبﷺ میں جو گزرے وہ لمحہ ہے بہت
اس قدر عالم انوار نہت کافی ہے
مدح سرکار ﷺ میں یہ کیف، یہ مستی ،یہ سرور
میری کیفیتِ سرشاربہت کافی ہے
للہ الحمد کہ ہم سوختہ جانوں کیلیے
شاہﷺ کا سایہ دیوار بہت کافی ہے
کاش اک اشک بھی ہو جائے قبولِ شہﷺ دیں
ایک بھی گوھرِ شہوار بہت کافی ہے
نصرتِ اہل ہمم کی نہیں حاجت مجھ کو
مددِ احمدِمختار ﷺ بہت کافی ہے
بے ادب ! دیکھ نہ یوں روضے کی جالی سے لپٹ
کم نظر! بوسہ دیوار بہت کافی ہے
روبرو رہتے ہیں انوارِ مدینہ مظہر
حسرتِ جلوہ دیدار بہت کافی ہے
از حافظ مظہر الدین مظہر
 
Top