منیب فیض
محفلین
محبت ہوتے ہوتے، اک ندامت ہو گئی آخر
ندامت ہوتے ہوتے، اک اذیت ہو گئی آخر
عجب انداز سے طے مرحلے دل کے کیے ہم نے
جو دل کی نازبرداری تھی، نفرت ہو گئی آخر
بھلا معلوم کیا ہوگا اسے، اس کی جدائی میں
ہمیں خود اپنے شکووں سے، شکایت ہو گئی آخر
کمینے ہو گئے جذبے، ہوئے بدنام خواب اپنے
کبھی اس سے، کبھی اس سے، محبت ہو گئی آخر
سپہر خامشی ہے، شام ہے اور صحن ویرانی
وہ شام فصل سرسبزی، حکایت ہو گئی آخر
جدائی جو کبھی تھی اک عذاب جاودان جاں
گلہ یہ ہے وہی دل کی سہولت ہو گئی آخر
نہ جانے محمل لیلیٰ نے کیا دستور اپنایا
کہ دل کو قیس کے صحرا سے وحشت ہو گئی آخر
نہیں اس کی فریبائی ذرا بھی ذکر کے قابل
کہ برہم خود فریب دل کی صحبت ہو گئی آخر
مناؤ جان جاں! اب جشن تم اپنی فراغت کا
کہ ہوتے ہوتے حالت دل کی، رخصت ہو گئی آخر
ہے کیا شوق ہمیشہ اور کیا عشق ہمیشہ ہے
کہ تھا اک حال سا پھر ایک حالت ہو گئی آخر
گماں دل سے گئے سو دل گیا اپنے گمانوں سے
دریغا! پھر تو بس فرصت ہی فرصت ہو گئی آخر
وبائیں پھیلتی رہتی تھیں دل بستی میں پر یاراں!
پھر اس بستی کو ناگاہاں شریعت ہو گئی آخر
فراق وصل کا تھا کیا زمانہ کیا کہوں یعنی
فقط اک آن تھی جو بے نہایت ہو گئی آخر
مکانوں اور دکانوں پر عجب اک سانحہ گزرا
ضرورت کی ہر اک شے بے ضرورت ہو گئی آخر
چلے تھے ہم شمال تیرہ سبز خواب خواباں سے
ہماری سمت جبر زرد قسمت ہو گئی آخر
نہ کوئی حال دل تھا اور نہ کوئی حالت جاں تھی
ہمیں اس سے، اسے ہم سے، محبت ہو گئی آخر
سنائی اور رومی ایسے زہری تھے کہ مت پوچھو
غم دل کوچہ پر دانش کی رحلت ہو گئی آخر
میاں جب ہفت شہر عشق میں عطار گھوم آیا
ازاں بعد ان پہ برپا اک قیامت ہو گئی آخر
غبار روشنی میں بود نے کاٹی شب ہجرت
شب ہجرت، دوام صبح ہجرت ہو گئی آخر
جون ایلیا
ندامت ہوتے ہوتے، اک اذیت ہو گئی آخر
عجب انداز سے طے مرحلے دل کے کیے ہم نے
جو دل کی نازبرداری تھی، نفرت ہو گئی آخر
بھلا معلوم کیا ہوگا اسے، اس کی جدائی میں
ہمیں خود اپنے شکووں سے، شکایت ہو گئی آخر
کمینے ہو گئے جذبے، ہوئے بدنام خواب اپنے
کبھی اس سے، کبھی اس سے، محبت ہو گئی آخر
سپہر خامشی ہے، شام ہے اور صحن ویرانی
وہ شام فصل سرسبزی، حکایت ہو گئی آخر
جدائی جو کبھی تھی اک عذاب جاودان جاں
گلہ یہ ہے وہی دل کی سہولت ہو گئی آخر
نہ جانے محمل لیلیٰ نے کیا دستور اپنایا
کہ دل کو قیس کے صحرا سے وحشت ہو گئی آخر
نہیں اس کی فریبائی ذرا بھی ذکر کے قابل
کہ برہم خود فریب دل کی صحبت ہو گئی آخر
مناؤ جان جاں! اب جشن تم اپنی فراغت کا
کہ ہوتے ہوتے حالت دل کی، رخصت ہو گئی آخر
ہے کیا شوق ہمیشہ اور کیا عشق ہمیشہ ہے
کہ تھا اک حال سا پھر ایک حالت ہو گئی آخر
گماں دل سے گئے سو دل گیا اپنے گمانوں سے
دریغا! پھر تو بس فرصت ہی فرصت ہو گئی آخر
وبائیں پھیلتی رہتی تھیں دل بستی میں پر یاراں!
پھر اس بستی کو ناگاہاں شریعت ہو گئی آخر
فراق وصل کا تھا کیا زمانہ کیا کہوں یعنی
فقط اک آن تھی جو بے نہایت ہو گئی آخر
مکانوں اور دکانوں پر عجب اک سانحہ گزرا
ضرورت کی ہر اک شے بے ضرورت ہو گئی آخر
چلے تھے ہم شمال تیرہ سبز خواب خواباں سے
ہماری سمت جبر زرد قسمت ہو گئی آخر
نہ کوئی حال دل تھا اور نہ کوئی حالت جاں تھی
ہمیں اس سے، اسے ہم سے، محبت ہو گئی آخر
سنائی اور رومی ایسے زہری تھے کہ مت پوچھو
غم دل کوچہ پر دانش کی رحلت ہو گئی آخر
میاں جب ہفت شہر عشق میں عطار گھوم آیا
ازاں بعد ان پہ برپا اک قیامت ہو گئی آخر
غبار روشنی میں بود نے کاٹی شب ہجرت
شب ہجرت، دوام صبح ہجرت ہو گئی آخر
جون ایلیا