محبّت ہو گئی تم سے بتانا بھول جاتا ہوں

الف عین
عظیم
شکیل احمد خان23
خورشیداحمدخورشید
--------
محبّت ہو گئی تم سے بتانا بھول جاتا ہوں
مگر آنکھیں بتاتی ہیں چھپانا بھول جاتا ہوں
-----------
شرارت دل میں آتی ہے مگر میں کر نہیں پاتا
تمہارا دیکھ کر چہرہ ستانا بھول جاتا ہوں
----------
محبّت کا تقاضا ہے محبّت ہو نگاہوں میں
نگاہیں تم پہ جمتی ہیں جھکانا بھول جاتا ہوں
-----------
مری آنکھوں میں رہتی ہے تری معصوم سی صورت
بھلانا بھی اگر چاہوں بھلانا بھول جاتا ہوں
----------
کبھی دل میں یہ آتا ہے تجھے میں بے وفا کہہ دوں
وفائیں دیکھ کر تیری جتانا بھول جاتا ہوں
----------
کبھی لمحے محبّت کے مجھے جب یاد آتے ہیں
جدائی میں تری پھر مسکرانا بھول جاتا ہوں
-------------
تمہارے ہجر نے ارشد مری حالت بگاڑی ہے
دوائیں دل کی لاتا ہوں پہ کھانا بھول جاتا ہوں
-----------
 
محبّت ہو گئی تم سے بتانا بھول جاتا ہوں
مگر آنکھیں بتاتی ہیں چھپانا بھول جاتا ہوں مگر جوآنکھیں کہتی ہیں چھپانا بھول جاتا ہوں
-----------
شرارت دل میں آتی ہے مگر میں کر نہیں پاتاشرارت کو یہ جی چاہے مگر نازک ہے دل تیرا/مگر نازک ہے تُو ایسا
تمہارا دیکھ کر چہرہ ستانا بھول جاتا ہوں نزاکت دیکھ کر تیری ستانا بھول جاتا ہوں
----------
محبّت کا تقاضا ہے محبّت ہو نگاہوں میں محبت کا تقاضا ہے کہ باتیں ہوں نگاہوں سے
نگاہیں تم پہ جمتی ہیں جھکانا بھول جاتا ہوں سو تم کو دیکھ کر آنکھیں جھکانا بھول جاتا ہوں
-----------
مری آنکھوں میں رہتی ہے تری معصوم سی صورت سدا آنکھوں میں رہتا ہے ترا معصوم سا چہرہ
بھلانا بھی اگر چاہوں بھلانا بھول جاتا ہوں میں اس چہرے سے نظروں کا ہٹانا بھول جاتا ہوں
----------
کبھی دل میں یہ آتا ہے تجھے میں بے وفا کہہ دوں کبھی جی چاہتا ہے بیوفا کہدوں تجھے ظالم
وفائیں دیکھ کر تیری جتانا بھول جاتا ہوں مگر یہ بات جانے کیوں جتا نا بھول جاتا ہوں
----------
کبھی لمحے محبّت کے مجھے جب یاد آتے ہیں جو تیرے ساتھ گزرے دن وہ جب بھی یادآتے ہیں
جدائی میں تری پھر مسکرانا بھول جاتا ہوں کسی کے ساتھ پھر ہنسنا ہنسانا بھول جاتا ہوں
-------------
تمہارے ہجر نے ارشد مری حالت بگاڑی ہے اب اُس کے ہجر میں ارؔشد ہوا ہے حال یہ اپنا
دوائیں دل کی لاتا ہوں پہ کھانا بھول جاتا ہوں دوائے دردِ دل لا کر میں کھانا بھول جاتا ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غزل۔۔۔
محبت تم سے ہے تم کو بتانا بھول جاتا ہوں
مگر آنکھیں جو کہتی ہیں چھپانا بھول جاتا ہوں
شرارت کو یہ جی چاہے مگر نازک ہے تو اتنا
نزاکت دیکھ کر تیری ستانا بھول جاتا ہوں
محبت کا تقاضا ہے کہ باتیں ہوں نگاہوں سے
سو تم کو دیکھ کر آنکھیں جھکانا بھول جاتا ہوں
سدا آنکھوں میں رہتا ہے ترا یہ چاند سا چہرہ
نظر اِس چاند چہرے سے ہٹانا بھول جاتا ہوں
کبھی جی چاہتا ہے بیوفا کہدوں تجھے ظالم
مگر یہ بات جانے کیوں جتانا بھول جاتا ہوں
جو تیرے ساتھ گزرے تھے وہ دن جب یاد آتے ہیں
تو کتنی دیر تک ہنسنا ہنسانا بھول جاتا ہوں
اب اُس کے ہجر میں ارؔشد ہوا ہے حال یہ میرا
دوائے دردِ دل لاکر میں کھانا بھول جاتا ہوں


،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
 
آخری تدوین:

فاخر

محفلین
بہت عمدہ، شکیل صاحب نے جو مشورہ دیا ہے، وہ قابل غور ہے، اس پر توجہ فرمائیں، بقیہ تمام اشعار دل پذیر ہیں ۔ مبارک باد قبول فرمائیں ۔
 

الف عین

لائبریرین
ارشد بھائی ، ایسے ہی اصلاح قبول مت کیجیے۔ غور کیجیے کہ کوئی تبدیلی کی گئی ہے تو کیوں کی گئی ہے۔ شکیل احمد خان23 کا سٹائل مجھ سے بالکل الٹا ہے، میں اسقام دکھا کرچھوڑدیتا ہوں، شکیل میاں سقم بتاتے نہیں، محض درست تجویز دے دیتے ہیں
 
Top