سید عاطف علی
لائبریرین
سبھی کو ۔ اصل بات انداز بیاں کی قوت کو زندہ کرنا ہے۔جوآج کچھ ضعف زدہ نظر آتی ہے۔اگر کسی قدیم صنفِ شاعری کو دوبارہ سے زندہ کرنے کا موقع ملے تو کس کا انتخاب کریں گے؟
سبھی کو ۔ اصل بات انداز بیاں کی قوت کو زندہ کرنا ہے۔جوآج کچھ ضعف زدہ نظر آتی ہے۔اگر کسی قدیم صنفِ شاعری کو دوبارہ سے زندہ کرنے کا موقع ملے تو کس کا انتخاب کریں گے؟
اس کا جواب کچھ تحقیق طلب ہے شاید ۔آپ کے خیال میں مثنوی، قصیدہ اور شہر آشوب وغیرہ کے زوال کا سبب کیا بنا اور اردو غزل آج تک دلوں پر راج کیوں کر رہی ہے؟
جدت کا عنصر ایک مسلسل ارتقاء کا لازمی عنصر ہے ۔ اس کی مخالفت میں سخت رویے اختیار نہیں کیے جانے چاہیئں ۔ کل کی جدت آج کی روایت ہی کی شکل ہے البتہ روایتی اقدار اور مسلمہ تلمیحات کی بنیاد پر استوار ہوئی جدت ایک تخلیقی قدر ہوتی ہے اور اگر جدت روایتی تواریخ سے ہر طرح بے نیاز رہ جائے تو ایک ناکام تجربہ بن کر اپنی موت آپ مر جاتی ہے ۔ البتہ یہ ایک مختصر سی عمومی رائے ہے اس میں کئی عوامل تفصیل سے بحث میں آنے چاہیئں ۔اردو اصناف میں جدت کے حوالے سے کیا نظریات ہیں ؟ ہمیں کس حد تک اسے قبول کرنا چاہیے یا رد و قبول کا کیا معیار ہونا چاہیے؟
آپ کی زندگی میں اردو تنقید کا کیا کردار ہے ؟ اردو تنقید سے کسی قسم کی دلچسپی ؟ پسندیدہ نقاد؟
تنقید سے زیادہ دلچسپی تو نہیں لیکن اس کی اہمیت سے انکار نہیں معیاراتکو برقرار رکھنے میں تنقید ایک مثبت کام ہے ۔ کئی برس پہلے کچھ کتب پڑھی تھیں جس وقت ہماری ایک بڑی بہن اردو میں ایم اے کررہی تھیں ان کے نصاب میں شامل تھیں ۔ان میں ابواللیث صدیقی صاحب کی تحریریں اچھی لگتی تھیں ۔ پھر اس کے بعد تنقید سے زیادہ ربط نہ رہا۔اردو تحقیق سے کبھی دلچسپی پیدا ہوئی ہو یا کوئی کتاب کبھی زیرِ مطالعہ رہی ؟ پسندیدہ محقق؟
واہ ماشا اللہ کیا کہنے۔ یہ مرض نہیں موروثی ذوق ہے اور عطا ہے اللہ تعالیٰ کی۔ دوسری بات یہ کہ یہاں غالب سے براہِ راست فیض جاری ہے جو نصیب والوں کو ملتا ہے ۔ تلامذہ غالب میرے پاس موجود ہے بڑی مشکل سے ملی تھی میں نے فوراً نقل کروالی۔ میں دیکھوں گا انشا اللہ۔یہ تعلق تو جب آنکھ کھولی تب سے ہی ہے ۔ بلکہ اسے جینیٹک مرض کہا جا ئے تو زیادہ بجا ہوگا۔
ہمارے والد صاحب سید خورشید علی متخلص ضیاء مشق سخن جنوبی ہند کے شہر جے پور میں فرمایا کرتے تھے ۔ اپنے نام کے ساتھ عزیزی ضرور لگایا کرتے تھے کہ جےپور کے ہی ایک استاد یوسف علی عزیز کے تلمذ رکھتے تھے۔ محفل میں والد صاحب کا کافی کلام میں نے شیئر کیا ہوا ہے ۔ اور باذوق محفلین نے انتہائی دل سے پذیرائی بھی فرمائی ہے۔
ہمیں بتایا کرتے تھے کہ عزیز صاحب کو جن سے تلمذ تھا ان کا تعلق مرزا غالب سے برراہ راست تھا جن کا نام رضا دھلوی تھا اور متخلص بہ آگاہ تھے۔ (ایک کتاب تلامذہ غالب میں آگاہ صاحب کا تذکرہ اور نمونہ کلام دیکھا تھا ) ۔
محفلین کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ اپنی تہی دامنی کے عیب کو ایک خوش نصیبی کے اتفاق سے ڈھانپنے کی کوشش کر رہا ہوں ۔ اس کے علاوہ تو اس سلسلے میں کچھ قابل ذکر نہیں سوائے اس کے کہ کبھی کبھار یہی موروثی جراثیم کے زیر اثرکبھار کچھ کلمات موزوں ہو جاتے ہیں شاعری کا الزام لگ جاتا ہے ۔
جی بہتر۔تنقید سے زیادہ دلچسپی تو نہیں لیکن اس کی اہمیت سے انکار نہیں معیاراتکو برقرار رکھنے میں تنقید ایک مثبت کام ہے ۔ کئی برس پہلے کچھ کتب پڑھی تھیں جس وقت ہماری ایک بڑی بہن اردو میں ایم اے کررہی تھیں ان کے نصاب میں شامل تھیں ۔ان میں ابواللیث صدیقی صاحب کی تحریریں اچھی لگتی تھیں ۔ پھر اس کے بعد تنقید سے زیادہ ربط نہ رہا۔
عین درست۔جدت کا عنصر ایک مسلسل ارتقاء کا لازمی عنصر ہے ۔ اس کی مخالفت میں سخت رویے اختیار نہیں کیے جانے چاہیئں ۔ کل کی جدت آج کی روایت ہی کی شکل ہے البتہ روایتی اقدار اور مسلمہ تلمیحات کی بنیاد پر استوار ہوئی جدت ایک تخلیقی قدر ہوتی ہے اور اگر جدت روایتی تواریخ سے ہر طرح بے نیاز رہ جائے تو ایک ناکام تجربہ بن کر اپنی موت آپ مر جاتی ہے ۔ البتہ یہ ایک مختصر سی عمومی رائے ہے اس میں کئی عوامل تفصیل سے بحث میں آنے چاہیئں ۔
جی ہاں۔لیکن کچھ عمومی خیالات ؟اس کا جواب کچھ تحقیق طلب ہے شاید ۔
اجمالی حیثیت سے ادب پرور ماحول کا فقدان اور ساز گار ماحول کی عدم فراہمی بھی سبب کہی جاسکتی ہے۔جی ہاں۔لیکن کچھ عمومی خیالات ؟
ضرور کیوں نہیں ۔ انشاء اللہ پیش کروں گا۔اپنے والدِ محترم کی شاعری یہاں شامل کیجیے گا۔
تحقیق کا کام تو بہت دلچسپ اورانتہائی جانفشانی کا متقاضی ہوتا ہے ۔ اس کے لیے سب سے بہتر ہے اس کے لیے کہ آپ کا میدان عمل آپ کی دلچسپی کے ساتھ ہم آہنگ ہو ۔اس معاملے میں میں بدنصیب بلکہ بے نصیب کہنا چاہیئے کہ بد نصیبی سے ناشکرا پن ظاہر ہوتا ہے ،واقع ہوا ہوں کہ میری اولین دلچسپی علم حیاتیات میں تھی (علم و ادب تو جزو لاینفک تھا ہی) لیکن علم ہندسہ کی کوئی لہر مجھے کہیں بہا کر لے گئی اور پھر بہت سے چراغ جن میں تیل بھرا تھا روشن نہ ہو سکے ۔ ۔ ۔اردو تحقیق سے کبھی دلچسپی پیدا ہوئی ہو یا کوئی کتاب کبھی زیرِ مطالعہ رہی ؟ پسندیدہ محقق؟
اچھی طرح تو اب یاد تو نہیں البتہ اردو نثری کتب میں کلاسیکی ہی پڑھا ہے اور وہی پسند بھی تھا ۔ مثلا میر امن ۔ رجب علی ۔محمد حسین آزاد ۔ڈپٹی نذیر۔ شبلی ۔ زبان و بیان میں یہ سب خاص ہیں ۔ باقی نوجوانی میں مطالعہ تصوف کی کتب زیر مطالعہ رہیں ۔آج تک اردو کی کتنی کتب سے فیض یاب ہوئے اور کس کتاب نے سب سے زیادہ متاثر کیا ؟
اب تو اردو محفل پر ہی بسیرا ہی ہے اور چند ایک ویب سائٹس وغیرہ ۔جو اچھا مل جائے پڑھنے کو ۔اردو ادب کے کونسے رسائل و جرائد کے قاری رہے اور ان میں پسندیدہ کونسا ہے ؟
میں کیوں کہ ماحول سے دور ہوں سو اس بارے میں کچھ اچھا کہنے سے قاصر ہوں البتہ دونوں جگہ ترقیاتی اور تحقیق کام ہو ضرور رہا ہے ۔آپ کے خیال میں اردو ادب کی خدمت کون زیادہ احسن انداز میں کر رہا ہے، بھارت یا پاکستان ؟
جی جناب راجستھان شمال مغرب ہند میں شمار ہوتا ہےہم نے تو خودکبھی نہیں دیکھا سنا ہی ہے ۔ راجھستان جنوبی ہند کہلاتاہے ۔ شاید غلط ہو۔آپ شاید انتہائی جنوب کی بات کر رہے ہیں جہاں اجنبی زبانیں رائج ہیں اردو والوں کی نسبت ۔
محفلین کے لیے مشورہ کیا ہونا چاہیئے ؟ اس سلسلے میں یہ کہوں گا کہ محفل اور انٹرنیٹ پر وسائل وذرائع کا ذخیرہ موجود ہے کتب کے ساتھ اساتذہ اور دیگر محفلین کا پرخلوص تعاون بھی حاضر ہے اور اس طرح محفل اردو کے وابستگان کے لیے یہ کسی خزانے سے کم نہیں ان کے ک جو کچھ پڑھیں اس کا اپنے خیالات کی روشنی میں مکمل تجزیہ کریں یعنی جو مطالعہ کریں انتہائی گہرائی سے کریں ایک ایک لفظ پر غور کریں کیوں لفظ سے ظاہر اور ان میں پوشیدہ معانی سے علم کے موتی اخذ کرنا بھی ایک ہنر ہے ۔اردو محفلین کے شعرا کےلیے کوئی مشورہ؟ نثر نگاروں کےلیے کوئی مشورہ ؟
جی شکریہ تصحیح کا ۔ماشاء اللہ خوب سلسلہ چل رہا ہے
جی جناب راجستھان شمال مغرب ہند میں ہی شمار ہوتا ہے
ڈراویڈین زبانیں جہاں استعمال ہوتی ہیں، اسے جنوبی ہند کہتے ہیں
اس شمال مغربی کہہ لیتے ہیں یہ ٹھیک ہوگا۔جےپور کو جنوبی ہند میں کب منتقل کیا؟
تصیح نہ سمجھیں دراصل میرا تعلق بھی جنوبی ہند سے ہے، اس لیے ذکر کیاجی شکریہ تصحیح کا ۔