یہ لیجیے جناب خط اور تبصرہ آپ کے لیے ، اگرچہ اس میں وہ لطف نہیں ہوگا جو سن کر محسوس کیا جاسکتا ہے
پروگرام :
حسبِ حال ، دنیا ٹی وی
بتاریخ:
25-03-2011
آغاز 3:40
ناجیہ : اگلی ای میل ہمیں موصول ہوئی ہے اٹک شہر سے سید شاکر القادری لکھتے ہیں:-
محترم جنید سلیم ، میڈم ناجیہ اور عزیزِ من عزیزی
سلام مسنون!
ایک عرصے سے آپ کا پروگرام حسب حال دیکھ رہا ہوں۔ اس
دورِ پرآشوب [اٹک اٹک کر پڑھتے ہوئے] میں آپ تینوں کا وجود غنیمت سے کم نہیں۔ آپ تینوں مل کر تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی ، لیکن ہمارے چہروں پر
شدتِ کرب سے پیدا شدہ تناو [اٹک اٹک کر پڑھتے ہوئے] کو ختم کر کے ---
عزیزی : ایک منٹ ایک منٹ سانس لے لو ، ذرا جبڑوں کو ریسٹ دے دو۔ اگر زیادہ وزنی تحریر آگئی ہے تو سانس بھی لیتے ہیں بیچ میں۔
تناو کے پرکشش آشوب چشم کے پیدا شدہ پیچ و تاب ، مکرمِ عالی کے عزیز من ، جنبش قلم کے ساتھ جو آپ نے سماعتی تاثرات کے ساتھ ہمیں جنونِ آفتاب کیا ہے۔
ناجیہ : آگے میل پڑھ لوں عزیزی صاحب؟
عزیزی : پڑھو جی پڑھو ، میں تو خود منتظر و متجسس ہوں
ناجیہ : اچھا جی ،لکھتے ہیں:
--- شدت کرب سےپیدا شدہ تناو کو ختم کر کے مسکراہٹوں کا سامان پیدا کر دیتے ہیں۔
عزیزی : اللہ رحمت کرے ، اللہ رحمت کرے
ناجیہ : عزیزی آپ کے بے ساختہ جملوں کی داد کیسے دوں۔ اس دور میں بھی بامقصد مزاح کو قائم رکھا ہے۔ اللہ آپ سب کو خوش رکھے۔
عزیزی : یہ کہاں سے آیا ہے جی خط؟
ناجیہ :یہ اٹک شہر سے جی
عزیزی : اچھا اسی لیے اٹک اٹک کر پڑھ رہی ہو ، میں نے تو اردو سنڑ (سن) کر سمجھا تھا کہ لکھنو سے آیا ہے ، کیا نام ہے حضور کا؟
ناجیہ : سید شاکر القادری
عزیزی : جناب سید شاکر القادری صاحب میں تہہ دل سے مشکور و ممنون و مفکور ہوں کہ آپنڑے (آپ نے) ہمیں داد سے نوازا ہے اور ہماری حوصلہ افزائی کے پیچ و تاب---
جنید سلیم : بس بس بس کرو او بس کرو یار رحم کرو اردو پہ
عزیزی : ٹکر پہ آنا ہو تا ہے یار --
جنید سلیم : تھوڑا سا رحم کرو اردو پہ
عزیزی : یرا (یار) اگلا بندہ یہ ہی نہ سمجھے کہ نلیق (نالائق) بیٹھے ہوئے ہیں۔
اختتام 5:40