محترم محمد خلیل الرحمن صاحب کا انٹرویو

وااہ
ہاہا!
خرم بھائی آپ نے تو محاورے کا اچار بناڈالا۔

کمال ہے، یعنی کہ برس ہا برس اس محاورے میں رہ کر دکھ سہیں اور انڈے سیویں بی فاختہ اور آج آپ کے محاورے میں آکر طوطے میاں اپنے منہ میاں مٹھو بننے چلے ہیں۔

یہ سخن گسترانہ بات تو آپ کے استعمال شدہ محاورے میں آن پڑی تھی ورنہ حقیقت یہی ہے کہ وہ دن گئے جب خلیل خاں فاختہ اڑایا کرتے تھے یعنی راوی چین ہی چین لکھتا تھا۔ اب تو اس نے قسمت میں ایسے بکھیڑے لکھ دیئے ہیں کہ ہم اس سے استدعا کرتے نہیں تھکتے کہ

قسمت میں مری چین سے جینا لکھ دے
واہ کمال ہے۔ آپ سے ایسے حقیقت پسندانہ جواب کی ہی توقع تھی۔ سدا سلامت رہیے۔ویسے ہمیں پختہ یقین تھا کہ آپ اس اچار میں تڑکا ضرور لگائیں گے۔ :)
 

نور وجدان

لائبریرین
حاضرین و ناظرین ! محترم خلیل الرحمن پھر سے تشریف لاچکے ہیں ، جلد ہی ان کے مزیدار جوابات سنیں گے ۔۔ آپ ان کے جوابات سن کے لوٹ پوٹ کے ہوجائیں گے اور یہ ہنساتے ہی جائیں گے ۔ ان کا کام محبت کرنا ہے اور محبت بانٹنا ہے ۔ یہ محبت بانٹتے میں تخصیص کے قائل نہیں ہے ۔ اپنی سیاحت کی داستان تو آپ کو سُنا چکے ہیں ،کبھی اس نگر ،تو کبھی اس نگر ،یوں لگے جیسے پاؤں ایک مقام پر رکنے کے لیے نہیں بلکہ جا جا پھرنے کے لیے ہے ۔۔۔ یہ خاموش ہوتے ہیں تو محفل سونی سونی سی ہوتی ہے اور جب یہ بولتے ہیں تو محفل میں چراغاں کا سمان ہوتا ہے ، محفل میں قمقموں کی کمی ان مزیدار مزیدار باتیں پورا کردیتی ہیں ۔ ان کی سب سے اچھی بات ہے کہ یہ سنجیدہ زندگی کو ہلکا لیتے ہیں ۔ ان سے زندگی کے اس گُر کو سیکھنے کا ہر کوئی خواہش مند ہوگا ۔ محفل میں سالگرہ کے موقع پر ان کی ایسی ویسی تحریر دیکھنے کو کوئی نہیں ملی :) اس لیے یہیں پر اسکی کمی پوری کردی ہے :) محترم محمد خلیل الرحمٰن آپ کا بیتابی سے انتظار ہورہا ہے
 
سوالنمبر 5: سوانح حیات لکھنے کا محرک

جواب:
واضح رہے کہ یہ جو سوانح ہم نے لکھی ہے وہ خود نوشت نہیں بلکہ ہمارے والد صاحب کی سوانح ہے۔ اس کی کہانی بھی بہت دلچسپ ہے۔ ہم بچپن سے اپنے والد کے یہ محیر العقل واقعات خود اُن کی زبانی سنتے آئے تھے۔ والد کی بیماری کے دنوں میں ایک مرتبہ ذہنی رو نے پلٹا کھایا تو خیال آیا کہ ابا جان کی زندگی کے ایک واقعے یعنی ان کے پاکستان پہنچنے کی روداد کو قلمبند کیا جائے۔

جیسے تیسے کرکے اس مضمون کو مکمل کیا اور اباجان کے پاس پہنچ گئے۔ انہیں بتایا تو انہوں نے اس مضمون کو ہماری زبانی سننے کی فرمائش کی۔ اباجان سے متعلق لکھنا اور انہیں پڑھنے کے لیے تھمادینا اور بات تھی لیکن ان کے سامنے بیٹھ کر خود انہیں سنانا؟ بہر حال مرتا کیا نہ کرتا، حکم کی تعمیل کی اور شروع میں کچھ مشکل کے ساتھ لیکن جوں جوں صفحات آگے بڑھے، پڑھنے میں مزہ آنے لگا۔ خوب مزے لے لے کر سنایا۔ اس دوران اباجان کچھ نہ بولے اور خاموشی کے ساتھ سنتے رہے۔ ہماری کہانی ختم ہوئی تو بس اتنا کہا کہ ’’ابے! اپنے باپ کو کچھ زیادہ ہی بڑھا چڑھا کر بیان کیا ہے۔‘‘ کچھ دیر بعد چند ایک واقعات کی معمولی تصحیح کی اور بس۔


ہمارے تو وارے نیارے ہوگئے۔ لکھنے کے لیے ایک نیا خیال دستیاب ہوچکا تھا۔ اب ہمیں لکھنے سے کوئی نہیں روک سکتا! لیکن وا حسرتا کہ اباجان کی زندگی کے چند دن جو باقی رہ گئے تھے ، ان میں ہم مزید ایک لفظ بھی نہ لکھ سکے۔ وہ مزہ جو اباجان کو ان ہی کی زندگی کے واقعات سنانے میں آیا تھا، دوبارہ اس کا لطف نہ اٹھاسکے۔ اباجان کی طبیعت خراب سے خراب ہوتی چلی گئی ۔ اس دوران ایک مرتبہ بہت سخت دل کا دورہ بھی پڑا۔ کچھ دن ہسپتال رہ کر آئے تو بستر کے ہوکر رہ گئے۔


اباجان کے انتقال کا تیسرا دن تھا ، ہم سب گھر والے قرآن خوانی میں مصروف تھے کہ اباجان کے ایک قریبی دوست مولانا عزیز الرحمٰن صاحب تشریف لائے۔ ان سے ملاقات کے دوران انہیں اپنا لکھا ہوا مضمون دکھایا۔ بہت خوش ہوئے اور کہا کہ اس داستان کو مکمل کیجیے ہم اپنے رسالے میں چھاپ دیں گے۔ اس وقت تو نہ اس بات کی سنجیدگی کا احساس ہوا اور نہ اس پراجیکٹ کی وسعت کا، بس سُن کر رہ گئے۔ جس وقت مولانا کو یہ مضمون دکھایا تھا، شاید ذہن میں یہ بات بھی تھی کہ اس مضمون کے رسالے میں چھپوانے کی کوئی صورت ہوجائے۔ اب یہ صورت تھی کہ انہوں نے ہمیں ایک بہت بڑے کام کے کرنے کا کہہ دیا تھا۔ ہم کیونکر اباجان کی زندگی کو صفحہٗ قرطاس پر منتقل کر پائیں گے۔ کرپائیں گے بھی یا نہیں؟ اسی گو مگو کے عالم میں کئی دن گزر گئے۔


پھر ایک دن یوں ہوا کہ اکبر چچا گھر تشریف لائے۔ ہم نے بھی موقع غنیمت جانا اور اپنا وائس ریکارڈر سنبھال کر ان کے ساتھ صوفے پر بیٹھ گئے اور ان کا ایک طویل انٹرویو لے ڈالا۔ یہ انٹرویو کئی دن چلا اور اس میں ہم کرید کرید کر چچا سے اباجان کی زندگی کے واقعات سے متعلق پوچھتے رہے اور اکبر چچا نہایت سکون و اطمینان سے ہمارے سوالوں کے جواب دیتے رہے۔


بڑی جانفشانی کے ساتھ اس انٹرویو کو ریکارڈر سے اپنے لیپ ٹاپ پر منتقل کیا اور ٹائپنگ کے لیے تیار ہوگئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ابھی یونی کوڈ میں ٹائپنگ شروع نہیں کی تھی اور ان پیج ہی استعمال کرتے تھے۔


سب سے پہلے تو اس پہلی داستان کو ٹائپ کیا ۔ پھر اباجان کی زندگی کے مختلف ادوار کو اسی ترتیب سے ابواب بنا کر ان کے الگ الگ عنوانات لکھ لیے تاکہ بعد میں ان ابواب کی تفصیل لکھ دیں۔ کام بہت بڑا تھا اور اندازہ تھا کہ اب پوری زندگی کا احاطہ کرنا ہے تو ضخامت بھی اسی حساب سے تقریباً سوا سو سے ڈیڑھ سو صفحات تو ہونی ہی چاہیے۔تفصیلات اچھی خاصی تو اکبر چچا کے بیانیے سے مل رہی تھیں، پھر سوچ سوچ کر اباجان کی سنائی ہوئی کہانیوں کو ذہن میں لاتے اور انہیں صفحہٗ قرطاس پر بکھیرتے چلے گئے۔ ادھر وقت بھی کم تھا۔ یہ نہ ہو کہ ہم کتاب بنا کر مولانا کے پاس پہنچیں اور اُدھر وہ کہیں کہ بھئی اب بہت دیر ہوگئی۔ ڈیڑھ دو ماہ کی مسلسل اور انتھک محنت اور کوشش سے کتاب کا مسودہ تیار ہوگیا۔


ہم نے کمپیوٹر کی اس فائل کو اپنی پین ڈرائیو میں ڈالا اور دن ٹہلتے ہوئے مولانا کے پاس پہنچ گئے۔ لیجیے جناب مکمل داستان تیار ہے۔ انہوں نے فائل اپنے پاس کاپی کرلی اور ہمیں جلد شائع کرنے کی یقین دہانی کے ساتھ رخصت کیا۔


اب ہمارا انتظار شروع ہوا او ر کوئی دن جاتا تھا کہ ہم ڈاکیے کی راہ نہ دیکھتے ہوں۔ مولانا سے پوچھنے کا یارا نہ تھا۔ُ سبک سر بن کے کیا پوچھتے کہ جناب ہماری کتاب کب شائع ہورہی ہے، لیکن انتظار تھا کہ ختم ہونے کا نام ہی نہ لیتا تھا۔ قاتل انتظار!


بالآخر ایک طویل اور نہ ختم ہونے والے انتظار کے بعد ایک دن ہم مولانا کے پاس پہنچے تو انہوں نے ماہ نامہ تعمیرِ افکار کا مولانا محمد اسمٰعیل آزاد نمبر ہمارے سامنے رکھ دیا۔ شاید وہ دن ہماری زندگی کا خوبصورت ترین دن تھا جب ہماری لکھی ہوئی اباجان کی ناقابلِ یقین داستانِ حیات چھپ کر نہ صرف ہمارے ہاتھوں میں تھی بلکہ اسے تقسیم کرنے کی ذمہ داری بھی ہماری نہ تھی۔ مولانا خود اس ماہنامے کو مارکیٹ میں اور دیگر دینی اداروں میں تقسیم کرتے تھے۔ ہم نے بھی ان سے سو کاپیاں وصول کیں اور خوشی سے جھومتے ہوئے گھر پہنچے۔


بھائیوں کو کتاب دکھائی تو ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی۔ گھر والوں کو ہرگز یقین نہ تھا کہ دن رات جس کام کی تگ و دو میں ہم لگے ہوئے تھے وہ اتنے خوبصورت انداز میں سامنے آجائے گا۔
 
ہماری کافی سے محبت:

IMG_20180712_171523.jpg
 
۴۔بچوں کو کہا نیاں پکڑا دیتے ہیں یا سناتے ہیں؟

۱۵۔بچوں کے بارے میں لکھنے کی کوئی خاص وجہ؟

۱۶۔ کس بیٹے یا بیٹی سے زیادہ پیار ہے؟




بچے من کے سچے ہوتے ہیں۔ لڑکپن میں ریڈیو پاکستان سے ایک ریڈیائی ڈرامہ سنا تھا جو آج تک یاد ہے۔ ایک شخص کے پاس کسی طرح سے لوگوں کے دل میں کہی ہوئی باتیں سننے کی طاقت آجاتی ہے۔ وہ اس طاقت کے ذریعے پہچان جاتا ہے اس دنیا میں سب لوگ مطلبی ہیں۔ بیوی، رشتے دار ، دوست، کاروباری متعلق سب کی زبان پر کچھ ہے لیکن دل میں کچھ اور ہے۔


سب سے مایوس ہوکر سمندر پر جاکر بیٹھ جاتا ہے۔ سمندر کی دونوں آوازیں ایک سی پاکر اسے ایک گونہ اطمینان ہوتا ہے کہ فطرت میں کھوٹ نہیں ورنہ ہر انسان کے دل میں کھوٹ ہے۔سب مطلبی ہیں۔


ایک ہارے ہوئے جواری کی طرح تھک ہار کر جب گھر واپس پہنچتا ہے تو اپنی چھوٹی بیٹی کو جاگتا پاکر اس سے باتیں کرنے لگتا ہے۔ بچی شکوہ کرتی ہے کہ ’’ پاپا آپ کہاں تھے ، میں آپ کا انتظار کرتے کرتے تھک گئی‘‘۔ اگلے ہی لمحے اس کی خوشی کی انتہا نہیں رہتی جب بچی کے دل سے بھی بعینہ وہی الفاظ نکلتے ہیں۔


جہاں ہم جوانوں میں جوان اور بوڑھوں میں بوڑھے بن جاتے ہیں وہیں ہم بچوں میں بالکل بچے بن جاتے ہیں۔ بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے اسی طرح شور مچاتے ہیں ، بات بات پر ناراض ہوجاتے ہیں اور پھر فوراً مان بھی جاتے ہیں۔

گھر پہنچتے ہیں تو ایک زور دار ’’السلام علیکم‘‘ کے ساتھ گھر والوں کی دل لبھاتے ہیں۔ یہ اور بات کہ ہمارے ان نعروں کی آواز دو منزل نیچے تک لازمی پہنچ جاتی ہے اورباہر گلی میں بھی سنائی دیتی ہے۔


بآوازِ بلند پڑھنے کا شوق ہمیں شاید بچپن ہی سے ہے۔ بچوں کو کہانی پڑھ کر سناتے وقت صوتی اثرات کا خاص خیال رکھتے ہیں۔


اب سے کچھ سال ادھر ، فضلی سنز نے غلام عباس کا ترتیب دیا ہوا بچوں کے رسالے پھول کا انتخاب دوبارہ شائع کیا، جسے دیکھتے ہی ہماری باچھیں کھل گئیں۔ ہمارا لڑکپن اپنی والدہ کے ماموں کے چار کمروں کے فلیٹ میں گزرا جس کی دیواروں میں چھت تک کتابوں کے شلیف لگے تھے جن میں اردو انگریزی ہر طرح کی کتابیں موجود تھیں۔ پھول کا پہلا ایڈیشن بھی وہیں ہمارے ہاتھ لگا اور اس کی ہر کہانی ، ہر نظم ہمیں ازبر تھی۔


پھول نے ہمیں بچوں کے ادب سے آشنا کیا ، اس و قت سے بچوں کے لیے لکھنے کا شوق ہمارے دل میں گھر کر گیا۔ خاص طور پر پھول کے مدیر مولوی ممتاز علی کی لکھنے والوں کو یہ نصیحت تو بہت بھائی،

’’ پھول میں وہ مضامین نہیں چھاپے جاتے جن میں مشکل الفاظ یا مشکل خیالات ہوں یا بے جا مبالغہ ہو۔ بہت سے مضمون نویس آسان لفظ تو لکھ دیتے ہیں مگر یہ خیال ذرا نہیں کرتے کہ کہ جو باتیں انہوں نے لکھی ہیں یا جو خیالات انہوں نے ظاہر کیے ہیں، ایسے خیالات بچوں کے دماغ میں کبھی آتے اور ویسے الفاظ ان کی زبان سے کبھی بولے جاتے ہیں یا کوئی بچہ اپنی بول چال میں اتنا مبالغہ کبھی کرتا ہے!‘‘

ہم نے اپنے بچوں کے ساتھ ہمیشہ پیار کا رشتہ رکھا۔ ہمارا کوئی بچہ ہم سے ڈرنے کا تصور تک نہیں کرسکتا۔ بچوں کو ڈانٹنے کا محکمہ ہم نے اپنی نصف بہتر کے سپرد کررکھا ہے۔ہمارے گھر میں یہ بات ایک کھلا راز ہے کہ ہمیں سب سے زیادہ محبت اپنی سب سے بڑی بیٹی سے ہے دوسرے نمبر ہماری سب سے چھوٹی بیٹی ہے ۔ دونوں بیٹے جو ان بیٹیوں کے درمیان ہیں ان کا نمبر ان دونوں بیٹیوں کے بعد آتا ہے۔
(جاری ہے)
 

نور وجدان

لائبریرین
جانے کیا نایاب لفظ تھے جو بن کہے ادا ہوئے. سامعین نہ سن سکے، نہ واہ واہ کو تالی بجا سکے اس امید پر کہ ان کہی کو کہ دیا جائے. خاموشی کے قفل کو توڑ کے ہمیں کچھ سیکھنے کا موقع دیا جائے ...زندگی کو مزاح کے رنگ میں کیسے رنگنا ہے اسکا سلیقہ بھی مل سکے
 

جاسمن

لائبریرین
۴۔بچوں کو کہا نیاں پکڑا دیتے ہیں یا سناتے ہیں؟

۱۵۔بچوں کے بارے میں لکھنے کی کوئی خاص وجہ؟

۱۶۔ کس بیٹے یا بیٹی سے زیادہ پیار ہے؟




بچے من کے سچے ہوتے ہیں۔ لڑکپن میں ریڈیو پاکستان سے ایک ریڈیائی ڈرامہ سنا تھا جو آج تک یاد ہے۔ ایک شخص کے پاس کسی طرح سے لوگوں کے دل میں کہی ہوئی باتیں سننے کی طاقت آجاتی ہے۔ وہ اس طاقت کے ذریعے پہچان جاتا ہے اس دنیا میں سب لوگ مطلبی ہیں۔ بیوی، رشتے دار ، دوست، کاروباری متعلق سب کی زبان پر کچھ ہے لیکن دل میں کچھ اور ہے۔


سب سے مایوس ہوکر سمندر پر جاکر بیٹھ جاتا ہے۔ سمندر کی دونوں آوازیں ایک سی پاکر اسے ایک گونہ اطمینان ہوتا ہے کہ فطرت میں کھوٹ نہیں ورنہ ہر انسان کے دل میں کھوٹ ہے۔سب مطلبی ہیں۔


ایک ہارے ہوئے جواری کی طرح تھک ہار کر جب گھر واپس پہنچتا ہے تو اپنی چھوٹی بیٹی کو جاگتا پاکر اس سے باتیں کرنے لگتا ہے۔ بچی شکوہ کرتی ہے کہ ’’ پاپا آپ کہاں تھے ، میں آپ کا انتظار کرتے کرتے تھک گئی‘‘۔ اگلے ہی لمحے اس کی خوشی کی انتہا نہیں رہتی جب بچی کے دل سے بھی بعینہ وہی الفاظ نکلتے ہیں۔


جہاں ہم جوانوں میں جوان اور بوڑھوں میں بوڑھے بن جاتے ہیں وہیں ہم بچوں میں بالکل بچے بن جاتے ہیں۔ بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے اسی طرح شور مچاتے ہیں ، بات بات پر ناراض ہوجاتے ہیں اور پھر فوراً مان بھی جاتے ہیں۔

گھر پہنچتے ہیں تو ایک زور دار ’’السلام علیکم‘‘ کے ساتھ گھر والوں کی دل لبھاتے ہیں۔ یہ اور بات کہ ہمارے ان نعروں کی آواز دو منزل نیچے تک لازمی پہنچ جاتی ہے اورباہر گلی میں بھی سنائی دیتی ہے۔


بآوازِ بلند پڑھنے کا شوق ہمیں شاید بچپن ہی سے ہے۔ بچوں کو کہانی پڑھ کر سناتے وقت صوتی اثرات کا خاص خیال رکھتے ہیں۔


اب سے کچھ سال ادھر ، فضلی سنز نے غلام عباس کا ترتیب دیا ہوا بچوں کے رسالے پھول کا انتخاب دوبارہ شائع کیا، جسے دیکھتے ہی ہماری باچھیں کھل گئیں۔ ہمارا لڑکپن اپنی والدہ کے ماموں کے چار کمروں کے فلیٹ میں گزرا جس کی دیواروں میں چھت تک کتابوں کے شلیف لگے تھے جن میں اردو انگریزی ہر طرح کی کتابیں موجود تھیں۔ پھول کا پہلا ایڈیشن بھی وہیں ہمارے ہاتھ لگا اور اس کی ہر کہانی ، ہر نظم ہمیں ازبر تھی۔


پھول نے ہمیں بچوں کے ادب سے آشنا کیا ، اس و قت سے بچوں کے لیے لکھنے کا شوق ہمارے دل میں گھر کر گیا۔ خاص طور پر پھول کے مدیر مولوی ممتاز علی کی لکھنے والوں کو یہ نصیحت تو بہت بھائی،

’’ پھول میں وہ مضامین نہیں چھاپے جاتے جن میں مشکل الفاظ یا مشکل خیالات ہوں یا بے جا مبالغہ ہو۔ بہت سے مضمون نویس آسان لفظ تو لکھ دیتے ہیں مگر یہ خیال ذرا نہیں کرتے کہ کہ جو باتیں انہوں نے لکھی ہیں یا جو خیالات انہوں نے ظاہر کیے ہیں، ایسے خیالات بچوں کے دماغ میں کبھی آتے اور ویسے الفاظ ان کی زبان سے کبھی بولے جاتے ہیں یا کوئی بچہ اپنی بول چال میں اتنا مبالغہ کبھی کرتا ہے!‘‘

ہم نے اپنے بچوں کے ساتھ ہمیشہ پیار کا رشتہ رکھا۔ ہمارا کوئی بچہ ہم سے ڈرنے کا تصور تک نہیں کرسکتا۔ بچوں کو ڈانٹنے کا محکمہ ہم نے اپنی نصف بہتر کے سپرد کررکھا ہے۔ہمارے گھر میں یہ بات ایک کھلا راز ہے کہ ہمیں سب سے زیادہ محبت اپنی سب سے بڑی بیٹی سے ہے دوسرے نمبر ہماری سب سے چھوٹی بیٹی ہے ۔ دونوں بیٹے جو ان بیٹیوں کے درمیان ہیں ان کا نمبر ان دونوں بیٹیوں کے بعد آتا ہے۔
(جاری ہے)

منتظر۔۔۔۔۔
 
Top