فاتح
لائبریرین
محترم چور صاحب قبلہ ۔ از احمد ندیم قاسمی
سنا ہے کہ تلاشِ گم شدہ کے بعض اشتہارات بہت نتیجہ خیز ثابت ہوتے ہیں۔ مثلاً مشہور ہے کہ ایک شخص کا بریف کیس چوری ہو گیا۔ اس نے پولیس میں رپورٹ لکھوانے کی بجائے اخبار میں ایک اشتہار دیا جس کا مضمون کچھ اس طرح کا تھا:
محترم چور صاحب قبلہ! السلام علیکم! آپ نے میرا بریف کیس چرایا ہے، اس میں میرے پاسپورٹ کے سوا جو کچھ بھی ہے وہ بریف کیس سمیت اپنے پاس رکھیے مگر کسی طرح یہ پاسپورٹ مجھے بھجوا دیجیے۔ چند اور کاغذات بھی ہیں۔ ان کاغذات میں سو سو چھ نوٹ بھی شامل ہیں۔ یہ بھی اپنی کام میں لائیے۔ بریف کیس پرانا ہے اس لیے آپ کو اٹھاتے ہوئے شرم آئے گی کیونکہ جب آپ چوری سے اتنا کچھ کما لیتے ہیں تو سوسائٹی میں آپ ماشاء اللہ بڑے معزز ہوں گے۔ چنانچہ اگر آپ کا کوئی برخوردار پرائمری میں پڑھتا ہے تو بریف کیس میری دعا اور پیار کے ساتھ اسے دے دیجیے۔ مجھے صرف میرا پاسپورٹ درکار ہے۔
اور سنا ہے کہ دوسرے ہی روز اس شخص کو اس کا پاسپورٹ رجسٹرڈ پارسل کے ذریعے موصول ہو گیا تھا۔
البتہ جب ہم مطالعے کی عینک بروقت رکشا حاصل کرنے کی خوشی میں، رکشا میں ہی چھوڑ کر اتر گئے تھے تو ہم نے رکشا ڈرائیور کو مخاطب کر کے متعدد کالم لکھے۔ پھر ان سواریوں کو مخاطب کیا جو ہمارے بعد اس رکشا میں بیٹھی ہوں گی۔ ہم نے ان کی شرافت و نجابت کے قصیدے پڑھے اور انھیں یہ بھی سمجھایا کہ اگر وہ ہماری عینک کو اپنے استعمال میں لائے تو انھیں اپنی آنکھوں کا نمبر بدلوانے کا تردد کرنا پڑے گا۔ مگر افسوس کہ کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی اور ہم اپنی اس یادگار عینک سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو گئے۔
اب ہمارے ایک کرم فرما جناب محمد علی چوہدری نے، جو ایف سی کالج لاہور میں شعبہ فلسفہ کے صدر ہیں، ہمیں مطلع کیا ہے کہ دو ماہ سے زیادہ عرصہ گزرا ان کا بریف کیس ایک دوست کی بظاہر مقفل گاڑی میں سے پولیس چوکی سمن آباد سے تین چار فرلانگ کے فاصلے پر چوری ہو گیا۔ اخبارات میں اشتہارات دیے، انعامات کا بھی اعلان کیا لیکن بریف کیس نہ ملا۔ چوہدری صاحب فرماتے ہیں کہ بریف کیس میں نہایت قیمتی کاغذات تھے۔ اگر یہ کاغذات ہی کسی طرح انھیں واپس مل جاتے تو چوری کے دکھ میں معتدبہ افاقہ ہو جاتا۔ ان کی خواہش پر ہم محترمی چور صاحب سے اپیل کرتے ہیں کہ بریف کیس بے شک اپنے پاس رکھیے مگر چوہدری صاحب کے کاغذات واپس فرما دیجیے۔ آپ عند اللہ ماجور ہوں گے۔
ہمیں یقین ہے کہ جب چور صاحب ان کاغذات کی تفصیل سنیں گے تو ان کی واپسی کے لیے بے چین ہو جائیں گے۔ بات یہ ہے کہ جناب محمد علی چوہدری شاعر بھی ہیں۔ چنانچہ وہ اپنی تقریباً تین درجن غزلوں کو بھی قیمتی کاغذات میں شامل فرماتے ہیں۔ ستم یہ ہے کہ یہ سبھی غزلیں غیر مطبوعہ ہیں اور ستم بالائے ستم یہ کہ شاعر کے ذہن سے یہ غزلیں محو ہو چکی ہیں۔ چنانچہ ان کا وجود اگر کہیں ہے تو اس بریف کیس میں ہے جو شاعر صاحب سے چور صاحب کو منتقل ہو چکا ہے۔
ہم اس اپیل میں اپنی طرف سے یہ اضافہ کرنا چاہتے ہیں کہ اگر چور اتفاق سے شاعر بھی ہے تو مقطع میں اپنا تخلص داخل کر کے انھیں کم سے کم چھپوا ہی دے تا کہ چوہدری صاحب کو یہ تسلی ہو کہ ان کی کاوش مکمل طور پر غارت نہیں ہو گئی۔ البتہ چور کو اپنا تخلص داخل کرتے ہوئے عجلت سے کام نہیں لینا چاہیے جیسے ایک شاعر متخلص بہ "گنہگارؔ" نے لیا تھا کہ ایک پرانے شاعر مصحفیؔ کی غزل چرائی اور اپنا تخلص یوں شامل کیا کہ مصرع بحر سے خارج ہو کر ساحل پر جا پڑا۔ مصحفیؔ کا مصرع تھا:
ہم نے چند روز قبل چوہدری صاحب کی ایک غزل محفل میں ارسال کی تھی جس پر سخنور (فرخ منظور) نے چوہدری صاحب کے متعلق استفسار فرمایا تھا۔ ان کا یہی سوال یہ کالم ارسال کرنے کا باعث بنا۔
سنا ہے کہ تلاشِ گم شدہ کے بعض اشتہارات بہت نتیجہ خیز ثابت ہوتے ہیں۔ مثلاً مشہور ہے کہ ایک شخص کا بریف کیس چوری ہو گیا۔ اس نے پولیس میں رپورٹ لکھوانے کی بجائے اخبار میں ایک اشتہار دیا جس کا مضمون کچھ اس طرح کا تھا:
محترم چور صاحب قبلہ! السلام علیکم! آپ نے میرا بریف کیس چرایا ہے، اس میں میرے پاسپورٹ کے سوا جو کچھ بھی ہے وہ بریف کیس سمیت اپنے پاس رکھیے مگر کسی طرح یہ پاسپورٹ مجھے بھجوا دیجیے۔ چند اور کاغذات بھی ہیں۔ ان کاغذات میں سو سو چھ نوٹ بھی شامل ہیں۔ یہ بھی اپنی کام میں لائیے۔ بریف کیس پرانا ہے اس لیے آپ کو اٹھاتے ہوئے شرم آئے گی کیونکہ جب آپ چوری سے اتنا کچھ کما لیتے ہیں تو سوسائٹی میں آپ ماشاء اللہ بڑے معزز ہوں گے۔ چنانچہ اگر آپ کا کوئی برخوردار پرائمری میں پڑھتا ہے تو بریف کیس میری دعا اور پیار کے ساتھ اسے دے دیجیے۔ مجھے صرف میرا پاسپورٹ درکار ہے۔
اور سنا ہے کہ دوسرے ہی روز اس شخص کو اس کا پاسپورٹ رجسٹرڈ پارسل کے ذریعے موصول ہو گیا تھا۔
البتہ جب ہم مطالعے کی عینک بروقت رکشا حاصل کرنے کی خوشی میں، رکشا میں ہی چھوڑ کر اتر گئے تھے تو ہم نے رکشا ڈرائیور کو مخاطب کر کے متعدد کالم لکھے۔ پھر ان سواریوں کو مخاطب کیا جو ہمارے بعد اس رکشا میں بیٹھی ہوں گی۔ ہم نے ان کی شرافت و نجابت کے قصیدے پڑھے اور انھیں یہ بھی سمجھایا کہ اگر وہ ہماری عینک کو اپنے استعمال میں لائے تو انھیں اپنی آنکھوں کا نمبر بدلوانے کا تردد کرنا پڑے گا۔ مگر افسوس کہ کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی اور ہم اپنی اس یادگار عینک سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو گئے۔
اب ہمارے ایک کرم فرما جناب محمد علی چوہدری نے، جو ایف سی کالج لاہور میں شعبہ فلسفہ کے صدر ہیں، ہمیں مطلع کیا ہے کہ دو ماہ سے زیادہ عرصہ گزرا ان کا بریف کیس ایک دوست کی بظاہر مقفل گاڑی میں سے پولیس چوکی سمن آباد سے تین چار فرلانگ کے فاصلے پر چوری ہو گیا۔ اخبارات میں اشتہارات دیے، انعامات کا بھی اعلان کیا لیکن بریف کیس نہ ملا۔ چوہدری صاحب فرماتے ہیں کہ بریف کیس میں نہایت قیمتی کاغذات تھے۔ اگر یہ کاغذات ہی کسی طرح انھیں واپس مل جاتے تو چوری کے دکھ میں معتدبہ افاقہ ہو جاتا۔ ان کی خواہش پر ہم محترمی چور صاحب سے اپیل کرتے ہیں کہ بریف کیس بے شک اپنے پاس رکھیے مگر چوہدری صاحب کے کاغذات واپس فرما دیجیے۔ آپ عند اللہ ماجور ہوں گے۔
ہمیں یقین ہے کہ جب چور صاحب ان کاغذات کی تفصیل سنیں گے تو ان کی واپسی کے لیے بے چین ہو جائیں گے۔ بات یہ ہے کہ جناب محمد علی چوہدری شاعر بھی ہیں۔ چنانچہ وہ اپنی تقریباً تین درجن غزلوں کو بھی قیمتی کاغذات میں شامل فرماتے ہیں۔ ستم یہ ہے کہ یہ سبھی غزلیں غیر مطبوعہ ہیں اور ستم بالائے ستم یہ کہ شاعر کے ذہن سے یہ غزلیں محو ہو چکی ہیں۔ چنانچہ ان کا وجود اگر کہیں ہے تو اس بریف کیس میں ہے جو شاعر صاحب سے چور صاحب کو منتقل ہو چکا ہے۔
ہم اس اپیل میں اپنی طرف سے یہ اضافہ کرنا چاہتے ہیں کہ اگر چور اتفاق سے شاعر بھی ہے تو مقطع میں اپنا تخلص داخل کر کے انھیں کم سے کم چھپوا ہی دے تا کہ چوہدری صاحب کو یہ تسلی ہو کہ ان کی کاوش مکمل طور پر غارت نہیں ہو گئی۔ البتہ چور کو اپنا تخلص داخل کرتے ہوئے عجلت سے کام نہیں لینا چاہیے جیسے ایک شاعر متخلص بہ "گنہگارؔ" نے لیا تھا کہ ایک پرانے شاعر مصحفیؔ کی غزل چرائی اور اپنا تخلص یوں شامل کیا کہ مصرع بحر سے خارج ہو کر ساحل پر جا پڑا۔ مصحفیؔ کا مصرع تھا:
مصحفیؔ! ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہو گا کوئی زخم
آپ نے اسے یوں اپنایا:
گنہگارؔ! ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہو گا کوئی زخم
جناب محمد علی چوہدری فلسفی ہیں اس لیے سادہ مزاج ہیں۔ سو فرماتے ہیں کہ ممکن ہے چور صاحب نے یہ کاغذات بریف کیس میں سے نکال کر پھینک دیے ہوں اور کسی راہ چلتے کو مل گئے ہوں، چنانچہ ان راہ چلتے صاحب سے بھی گزارش ہے کہ اگر وہ یہ کاغذات اور مسودات چوہدری صاحب کو واپس کر دیں تو وہ ان انعامات کے مستحق ہوں گے جن کا اس سے قبل چوری کے اشتہار میں اعلان کیا جا چکا ہے۔
کچھ کر لو نوجوانو! اٹھتی جوانیاں ہیں
(امروز۔ 28 ستمبر 1977ء)
ہم نے چند روز قبل چوہدری صاحب کی ایک غزل محفل میں ارسال کی تھی جس پر سخنور (فرخ منظور) نے چوہدری صاحب کے متعلق استفسار فرمایا تھا۔ ان کا یہی سوال یہ کالم ارسال کرنے کا باعث بنا۔