محدود اور لامحدود

نئی گاڑی خریدنے کا ارداہ کیا تو اکثر دوستوں نے مشورہ دیا کہ فلاں گاڑی کی کلومیٹرز فی لیٹر اوسط سب سے زیادہ ہے اس لیے وہی لینی چاہیے۔ میں نے جب مزید تحقیق کی تو پتا چلا کہ کمپنی کی طرف سے جو اوسط بتائی گئی ہے اس کے لیے کئی شرائط ہیں۔ جیسے آپ موٹر وے جیسی روڈ پر سفر کررہے ہوں، آپ کی رفتار ایک خاص رینج میں رہے، آر پی ایم ایک حد سے زیادہ نہ ہو وغیرہ، ورنہ اوسط برقرار نہیں رہے گی۔عام لوگ ان شرائط کے بارے میں نہیں جانتے یا جاننے کی کوشش نہیں کرتے اور محدود علم کی بنیاد پر دعوٰی کردیتے ہیں جو کہ ظاہر ہے عام حالات میں صحیح نہیں ہوتا۔ یہ تو عام لوگوں کی بات ہوگئی۔ اب ہم ذرا ہٹ کر بات کرتے ہیں:

ایک بندہ کہتا ہے کہ فلاں وقت پر میں نے کوئی آواز نہیں سنی۔ انسان کی سننے کی ایک خاص فریکوئنسی رینج ہے۔ کوئی انسان سننے یا نہ سننے کا دعوٰی اسی محدود رینج کی بنیاد پر کرتا ہے۔ لیکن بہت سی آوازیں اس رینج سے باہر بھی ہوتی ہیں جو ظاہر ہے انسان نہیں سن سکتا۔ اس لیے اس کا دعوٰی محدود علم کی بنیاد پر کیا گیا ہوتا ہے جو ظاہر ہے کہ حقیقتِ مطلق نہیں۔

ایک بندہ کہتا ہے تاحدِ نگاہ میں نے کسی جانور کو نہیں دیکھا۔ یہاں بھی حدِ نگاہ کی محدودیت ہے ۔ یعنی اس حد سے آگے بہت سے جانور ہیں لیکن اسے چونکہ نظر نہیں آرہے اس لیے اس نے کوئی جانور نہ دیکھنے کا دعوٰی کیا ہے۔

کوئی کہتا ہے کہ میں نے فٹ بال کے سائز کے برابر ایک پھل دیکھا۔ یہاں بھی اس کا دعوٰی اس عدسے کی بنیاد پر ہے جو اس کی آنکھ میں فکس ہے۔جس کا سائز کم یا زیادہ کرنے سے نظر آنے والی چیزوں کا سائز بھی کم یا زیادہ ہو سکتا ہے۔ فٹبال کا اصل سائز کیا ہے کوئی نہیں جانتا۔

اب ہم سائنس کے دعووں کی طرف آتے ہیں:

سائنس کہتی ہے کہ کسی چیز کا وزن کششِ ثقل ( کسی چیز کو زمین کا اپنے مرکز کی طرف کھینچنا) کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہ فارمولا یا دعوٰی درست ہے لیکن ایک دائرے کے اندر کام کرتا ہے۔ وہ دائرہ جس میں کششِ ثقل موجود ہے لیکن کائنات اس دائرے کے مقابلے میں لامحدود ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ دعوٰی بھی بہت ہی محدود ہے۔

سائنسدان زمین کے حرکت کرنے کی ایک رفتار بتاتے ہیں۔ لیکن یہ رفتار کسی خاص ریفرنس کے مطابق ہے اگر ریفرنس تبدیل ہوجائے گا تو رفتار کی مقدارکم یا زیادہ ہوجائے گی۔ (جیسے ایک گاڑی کی رفتار 100 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔ لیکن اگر اس کی رفتار اس کے ساتھ سفر کرتی گاڑی جس کی اپنی رفتار بھی سو کلومیٹر فی گھنٹہ ہے کے ریفرنس سے ناپی جائے گی تو وہ صفر ہوگی) تو یہ دعوٰی بھی مطلق نہ ہوا۔

لامحدود کائنات میں مختلف دائروں میں مختلف سائنسی اصول کام کررہے ہیں۔ماہرینِ علم کسی اصول کو دریافت کرتے ہیں اسے کام میں بھی لاتے ہیں۔لیکن یہ اصول کائنات کے مقابلے میں صرف ایک نہ ہونے کے برابر دائرے میں کام کرتے ہیں۔اس لیے ماہرین کا علم بھی صرف ایک چھوٹے سے دائرے تک محدود ہوتا ہے مطلق علم نہیں ہوتا۔

اس ناقص اور (لامحدود کے مقابلے میں ) نہ ہونے کے برابر علم پر اگر کوئی تکبر کرے تو یہ اسے زیب نہیں دیتا۔ہم خدا پر یقین رکھتے ہیں اور ہمارا ایمان ہے کہ غرور اور تکبر صرف اس ذات کی صفت ہے جو لامحدود اور مطلق علم کامالک اور لامحدود اختیار رکھتاہے۔

نوٹ: یہ تحریر بچے کا تسلسل ہے۔
 

زیک

مسافر
محترم زیک صاحب!
اتنا مختصر کمنٹ!
اگر تھوڑی وضاحت کردیںتےتو مجھےاپنی جہالت سدھارنے کا موقع مل جاتا۔اور آپ کو اس کا ثواب۔
آپ خدا، ایمان، سائنس، علم سب کو خلط ملط کر رہے ہیں۔ پھر خدا اور ایمان کو اونچا کرنے کے لئے باقی سب کو بغیر سمجھے نیچا کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ اس سے علم کا کچھ نہیں بگڑتا بس جہلِ مذہب نظر آتا ہے
 

جاسمن

لائبریرین
مجھے تو آپ کی سب باتیں ٹھیک لگ رہی ہیں۔ :)
آپ نے درست نتیجہ نکالا ہے۔ ہمیں خود کو فخر اور غرور سے بچانا چاہیے۔ غرور اسے زیبا ہے جو ہر شے پہ قادر ہے اور ہر شے کا علم رکھتا ہے۔
ہم اگر یہی جان لیں کہ کچھ نہیں جانتے تو بہت بڑی کامیابی ہے۔
جزاک اللہ خیرا کثیرا
ماشاءاللہ آپ بہت سوچنے اور غور و فکر کرنے والے مثبت سوچ کے حامل بندے ہیں۔
اللہ پاک آپ کا حامی و ناصر ہو۔ آمین!
 
مجھے تو آپ کی سب باتیں ٹھیک لگ رہی ہیں۔ :)
آپ نے درست نتیجہ نکالا ہے۔ ہمیں خود کو فخر اور غرور سے بچانا چاہیے۔ غرور اسے زیبا ہے جو ہر شے پہ قادر ہے اور ہر شے کا علم رکھتا ہے۔
ہم اگر یہی جان لیں کہ کچھ نہیں جانتے تو بہت بڑی کامیابی ہے۔
جزاک اللہ خیرا کثیرا
ماشاءاللہ آپ بہت سوچنے اور غور و فکر کرنے والے مثبت سوچ کے حامل بندے ہیں۔
اللہ پاک آپ کا حامی و ناصر ہو۔ آمین!
رائے دینے کا شکریہ!آپ کی تعریف میرے لیے میڈل ہے! دراصل خود آپ میں چونکہ یہ خوبیاں موجود ہیں اس لیے آپ نے اس انداز سے تعریف کی ہے۔
 
آپ خدا، ایمان، سائنس، علم سب کو خلط ملط کر رہے ہیں۔ پھر خدا اور ایمان کو اونچا کرنے کے لئے باقی سب کو بغیر سمجھے نیچا کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ اس سے علم کا کچھ نہیں بگڑتا بس جہلِ مذہب نظر آتا ہے
آپ آخری ڈیڑھ سطر کو چھوڑ دیں (کیونکہ صرف اسی میں خدا، ایمان اور مذہب کا ذکر ہے) اور باقی تحریر کو ایک دفعہ پھر پڑھیں ۔ پھر بتائیں کہ کہاں پر سمجھے بغیرعلم کو نیچا دکھانے کی کوشش کی گئی ہے؟
صرف حقیقت بیان کی گئی ہے کسی کو اونچا یا نیچا کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ میں خود بھی سائنس کا طالب علم رہا ہوں اور سائنس کے کارناموں کو تحسین کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
آپ نے بہت گہری بات کو عمدہ اور موئثر انداز میں بیان کیا ہےاور روزمرہ کی مثالوں جیسے گاڑی کی اوسط، انسان کی سننے یا دیکھنے کی حدود، اور سائنسی دعووں کی حدود کے ذریعے بڑے پیچیدہ تصورات کو بہت آسانی سے سمجھایا ہے۔ خلاصہ یہ کہ انسان کا علم محدود ہے اور اس محدود علم کی بنیاد پر غرور یا تکبر نہیں ہونا چاہیے۔
علم کی جستجو انسان کا فطری حق اور ضرورت ہے، لیکن اس کے ساتھ یہ تسلیم کرنا بھی لازم ہے کہ ہم ایک محدود دائرے میں رہ کر ہی علم حاصل کر سکتے ہیں۔ اس لیے تکبر اور غرور کی بجائے عاجزی اور شکرگزاری اپنانی چاہیے۔ مطلق حقیقت کو صرف وہی ذات جانتی ہے جو کائنات کو تخلیق کرنے والی ہے۔
اس ناقص اور (لامحدود کے مقابلے میں ) نہ ہونے کے برابر علم پر اگر کوئی تکبر کرے تو یہ اسے زیب نہیں دیتا۔ہم خدا پر یقین رکھتے ہیں اور ہمارا ایمان ہے کہ غرور اور تکبر صرف اس ذات کی صفت ہے جو لامحدود اور مطلق علم کامالک اور لامحدود اختیار رکھتاہے۔
بے شک۔ مطلق علم اور اختیار صرف خدا کی ذات کے پاس ہے، جو لامحدود ہے۔
 
آپ خدا، ایمان، سائنس، علم سب کو خلط ملط کر رہے ہیں۔ پھر خدا اور ایمان کو اونچا کرنے کے لئے باقی سب کو بغیر سمجھے نیچا کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ اس سے علم کا کچھ نہیں بگڑتا بس جہلِ مذہب نظر آتا ہے
آپ آخری ڈیڑھ سطر کو چھوڑ دیں (کیونکہ صرف اسی میں خدا، ایمان اور مذہب کا ذکر ہے) اور باقی تحریر کو ایک دفعہ پھر پڑھیں ۔ پھر بتائیں کہ کہاں پر سمجھے بغیرعلم کو نیچا دکھانے کی کوشش کی گئی ہے؟
صرف حقیقت بیان کی گئی ہے کسی کو اونچا یا نیچا کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ میں خود بھی سائنس کا طالب علم رہا ہوں اور سائنس کے کارناموں کو تحسین کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔
جناب زیک صاحب! جہالت کافتوٰی صادر کرنے میں آپ نے دیر نہیں لگائی لیکن وہ بات جس سے اصلاح ہو سکتی تھی یعنی دیے گئے حقائق میں غلطی کیا تھی یہ آپ نے ابھی تک نہیں بتایا۔
 
آپ نے بہت گہری بات کو عمدہ اور موئثر انداز میں بیان کیا ہےاور روزمرہ کی مثالوں جیسے گاڑی کی اوسط، انسان کی سننے یا دیکھنے کی حدود، اور سائنسی دعووں کی حدود کے ذریعے بڑے پیچیدہ تصورات کو بہت آسانی سے سمجھایا ہے۔ خلاصہ یہ کہ انسان کا علم محدود ہے اور اس محدود علم کی بنیاد پر غرور یا تکبر نہیں ہونا چاہیے۔
علم کی جستجو انسان کا فطری حق اور ضرورت ہے، لیکن اس کے ساتھ یہ تسلیم کرنا بھی لازم ہے کہ ہم ایک محدود دائرے میں رہ کر ہی علم حاصل کر سکتے ہیں۔ اس لیے تکبر اور غرور کی بجائے عاجزی اور شکرگزاری اپنانی چاہیے۔ مطلق حقیقت کو صرف وہی ذات جانتی ہے جو کائنات کو تخلیق کرنے والی ہے۔

بے شک۔ مطلق علم اور اختیار صرف خدا کی ذات کے پاس ہے، جو لامحدود ہے۔
آپ کی طرف سے ایسے ہی جاندار تجزیے اور تبصرے کی توقع تھی۔ آپ کا بہت شکریہ!
 

زیک

مسافر
سائنس کہتی ہے کہ کسی چیز کا وزن کششِ ثقل ( کسی چیز کو زمین کا اپنے مرکز کی طرف کھینچنا) کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہ فارمولا یا دعوٰی درست ہے لیکن ایک دائرے کے اندر کام کرتا ہے۔ وہ دائرہ جس میں کششِ ثقل موجود ہے لیکن کائنات اس دائرے کے مقابلے میں لامحدود ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ دعوٰی بھی بہت ہی محدود ہے۔
یہ آپ کی لاعلمی یا کم علمی یا کج فہمی ہے۔
 

زیک

مسافر
آپ آخری ڈیڑھ سطر کو چھوڑ دیں (کیونکہ صرف اسی میں خدا، ایمان اور مذہب کا ذکر ہے) اور باقی تحریر کو ایک دفعہ پھر پڑھیں ۔ پھر بتائیں کہ کہاں پر سمجھے بغیرعلم کو نیچا دکھانے کی کوشش کی گئی ہے؟
باقی تحریر صرف آپکی محدودیت پر مبنی ہے اور آخری پیرے میں آپ نے خدا کو خواہ مخواہ بیچ میں ڈالنے کی ناکام سی کوشش کی ہے
 
سائنس کہتی ہے کہ کسی چیز کا وزن کششِ ثقل ( کسی چیز کو زمین کا اپنے مرکز کی طرف کھینچنا) کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہ فارمولا یا دعوٰی درست ہے لیکن ایک دائرے کے اندر کام کرتا ہے۔ وہ دائرہ جس میں کششِ ثقل موجود ہے لیکن کائنات اس دائرے کے مقابلے میں لامحدود ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ دعوٰی بھی بہت ہی محدود ہے۔
یہ آپ کی لاعلمی یا کم علمی یا کج فہمی ہے۔
جناب زیک صاحب! یہ میرا گھڑا ہوا علم نہیں ہے بلکہ سائنس ہمیں یہی بتاتی ہے۔آپ ظاہر ہے مجھ پر اعتبار نہیں کریں گے اس لیے آپ کے لیےچیٹ جی پی ٹی کا جواب نقل کردیتے ہیں:

آپ کا وزن وہ قوت ہے جس کے ساتھ کشش ثقل آپ کی کمیت (ماس) کو کھینچتی ہے۔ اور اس کا انحصار اس کشش ثقل کے میدان پر ہے جس میں آپ ہیں۔ لہٰذا، اگر آپ ہماری کہکشاں سے باہر نکلتے ہیں-یعنی کہ گلیکسیز کے درمیانی خلا میں جاتے ہیں تو آپ کا وزن بنیادی طور پر نہ ہونے کے برابر ہو جائے گا۔
 
فٹبال کا اصل سائز کیا ہے کوئی نہیں جانتا۔
یہ آپ کی لاعلمی یا کم علمی یا کج فہمی ہے۔
پہلے بھی عرض کیا گیا ہے کہ چیزیں ہمیں جیسے نظر آتی ہیں وہ قدرت کی بنائی آنکھ کی سیٹنگ کی وجہ سے ہے - قدرت یعنی کہ خدا جس کا ذکر کرنے سے آپ کی طبیعت پر اچھا اثر نہیں پڑتا۔
اس سیٹنگ میں آنکھ کا سائز ، آنکھ کے عدسے کا سائز، عدسے کی پوزیشن وغیرہ شامل ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کی سیٹنگ تبدیل ہونے سے چیزیں ویسی نظر نہیں آئیں گی جیسے عام طور پر نظر آتی ہیں۔
عام سی مثال یہ ہے کہ آپ آنکھ کے سامنے موٹا عدسہ لگاتے ہیں تو چیزیں بڑی نظر آتی ہیں ۔ چیز وہی ہوتی ہے لیکن بڑی نظرآتی ہے۔ اسی طرح آنکھ میں بھی عدسہ لگا ہے جو قدرت نے لگایا ہے۔
ہم چیز کا اصل سائز اسے کہتے ہیں جو تندرست آنکھ سے نظر آتا ہے۔ لیکن کیا یہی مطلق سائز ہے؟ کیونکہ اس کا انحصار آنکھ کی سیٹنگ پر ہے۔
 

یاسر شاہ

محفلین
نئی گاڑی خریدنے کا ارداہ کیا تو اکثر دوستوں نے مشورہ دیا کہ فلاں گاڑی کی کلومیٹرز فی لیٹر اوسط سب سے زیادہ ہے اس لیے وہی لینی چاہیے۔ میں نے جب مزید تحقیق کی تو پتا چلا کہ کمپنی کی طرف سے جو اوسط بتائی گئی ہے اس کے لیے کئی شرائط ہیں۔ جیسے آپ موٹر وے جیسی روڈ پر سفر کررہے ہوں، آپ کی رفتار ایک خاص رینج میں رہے، آر پی ایم ایک حد سے زیادہ نہ ہو وغیرہ، ورنہ اوسط برقرار نہیں رہے گی۔عام لوگ ان شرائط کے بارے میں نہیں جانتے یا جاننے کی کوشش نہیں کرتے اور محدود علم کی بنیاد پر دعوٰی کردیتے ہیں جو کہ ظاہر ہے عام حالات میں صحیح نہیں ہوتا۔ یہ تو عام لوگوں کی بات ہوگئی۔ اب ہم ذرا ہٹ کر بات کرتے ہیں:

ایک بندہ کہتا ہے کہ فلاں وقت پر میں نے کوئی آواز نہیں سنی۔ انسان کی سننے کی ایک خاص فریکوئنسی رینج ہے۔ کوئی انسان سننے یا نہ سننے کا دعوٰی اسی محدود رینج کی بنیاد پر کرتا ہے۔ لیکن بہت سی آوازیں اس رینج سے باہر بھی ہوتی ہیں جو ظاہر ہے انسان نہیں سن سکتا۔ اس لیے اس کا دعوٰی محدود علم کی بنیاد پر کیا گیا ہوتا ہے جو ظاہر ہے کہ حقیقتِ مطلق نہیں۔

ایک بندہ کہتا ہے تاحدِ نگاہ میں نے کسی جانور کو نہیں دیکھا۔ یہاں بھی حدِ نگاہ کی محدودیت ہے ۔ یعنی اس حد سے آگے بہت سے جانور ہیں لیکن اسے چونکہ نظر نہیں آرہے اس لیے اس نے کوئی جانور نہ دیکھنے کا دعوٰی کیا ہے۔

کوئی کہتا ہے کہ میں نے فٹ بال کے سائز کے برابر ایک پھل دیکھا۔ یہاں بھی اس کا دعوٰی اس عدسے کی بنیاد پر ہے جو اس کی آنکھ میں فکس ہے۔جس کا سائز کم یا زیادہ کرنے سے نظر آنے والی چیزوں کا سائز بھی کم یا زیادہ ہو سکتا ہے۔ فٹبال کا اصل سائز کیا ہے کوئی نہیں جانتا۔

اب ہم سائنس کے دعووں کی طرف آتے ہیں:

سائنس کہتی ہے کہ کسی چیز کا وزن کششِ ثقل ( کسی چیز کو زمین کا اپنے مرکز کی طرف کھینچنا) کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہ فارمولا یا دعوٰی درست ہے لیکن ایک دائرے کے اندر کام کرتا ہے۔ وہ دائرہ جس میں کششِ ثقل موجود ہے لیکن کائنات اس دائرے کے مقابلے میں لامحدود ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ دعوٰی بھی بہت ہی محدود ہے۔

سائنسدان زمین کے حرکت کرنے کی ایک رفتار بتاتے ہیں۔ لیکن یہ رفتار کسی خاص ریفرنس کے مطابق ہے اگر ریفرنس تبدیل ہوجائے گا تو رفتار کی مقدارکم یا زیادہ ہوجائے گی۔ (جیسے ایک گاڑی کی رفتار 100 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔ لیکن اگر اس کی رفتار اس کے ساتھ سفر کرتی گاڑی جس کی اپنی رفتار بھی سو کلومیٹر فی گھنٹہ ہے کے ریفرنس سے ناپی جائے گی تو وہ صفر ہوگی) تو یہ دعوٰی بھی مطلق نہ ہوا۔

لامحدود کائنات میں مختلف دائروں میں مختلف سائنسی اصول کام کررہے ہیں۔ماہرینِ علم کسی اصول کو دریافت کرتے ہیں اسے کام میں بھی لاتے ہیں۔لیکن یہ اصول کائنات کے مقابلے میں صرف ایک نہ ہونے کے برابر دائرے میں کام کرتے ہیں۔اس لیے ماہرین کا علم بھی صرف ایک چھوٹے سے دائرے تک محدود ہوتا ہے مطلق علم نہیں ہوتا۔

اس ناقص اور (لامحدود کے مقابلے میں ) نہ ہونے کے برابر علم پر اگر کوئی تکبر کرے تو یہ اسے زیب نہیں دیتا۔ہم خدا پر یقین رکھتے ہیں اور ہمارا ایمان ہے کہ غرور اور تکبر صرف اس ذات کی صفت ہے جو لامحدود اور مطلق علم کامالک اور لامحدود اختیار رکھتاہے۔

نوٹ: یہ تحریر بچے کا تسلسل ہے۔
بہت خوب، اچھی تحریر ہے۔
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ :):):)
 

الف نظامی

لائبریرین
جہاں مادہ موجود ہے وہاں کشش ثقل موجود ہے۔

یہ قوت دو اجسام کمیتوں /ماسز /masses کی ضرب کے راست متناسب ہے اور اُن کے درمیانی فاصلے کے مربع کے بالعکس متناسب ہے۔



محدودیت:
جہاں تک انسان کی محدودیت کا سوال ہے تو وہ دو طرح کی ہے:
تجزیاتی محدودیت - Analytic limitation
تجرباتی محدودیت - Experimental limitation

تجزیاتی محدودیت کے لیے یہ جان لینا کافی ہے کہ ہم ہر ڈیفرینشل ایکویشن/میتھیمیٹکل ماڈل کا تجزیاتی حل معلوم نہیں کر سکتے اور کہیں نمیرکل سلویشن معلوم کرنا بھی کمپیوٹیشن کے دائرہ سے باہر ہے۔ اسی طرح گوڈیل کا ادھورے پن کا تھیورم بھی ریاضی پر حدود لاگو کرتا ہے۔

تجرباتی محدودیت کا تعلق پیمائشی آلات کی پیمائش کی حد سے ہے۔

اس کے علاوہ نہایت عرفان کے بارے میں بھی دو اقوال ہیں:
العجز عن درک الادراک ادراک (کہیں یہ قول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے اور کہیں مولا علی کرم اللہ وجہہ سے منسوب کیا جاتا ہے )
حقیقت تمام تر مدرک نہیں ہوتی (کشکول کلیمی ، الشیخ کلیم اللہ جہاں آبادی)
 
آخری تدوین:
جہاں مادہ موجود ہے وہاں کشش ثقل موجود ہے۔

یہ قوت دو اجسام کمیتوں /ماسز /masses کی ضرب کے راست متناسب ہے اور اُن کے درمیانی فاصلے کے مربع کے بالعکس متناسب ہے۔

محترم الف نظامی صاحب! توجہ فرمانے کا شکریہ!
جب ایک جسم پر مختلف اجسام مختلف سمتوں میں قوت لگاتے ہیں تو ایسا ہو سکتا ہے کہ تمام قوتوں کا حاصل صفر ہو جائے۔ جیسے اسلم کا ایک ہاتھ احمد اور دوسرا ہاتھ امجد کے ہاتھ میں ہو۔اور دونوں برابر قوت سے اسلم کو اپنی اپنی طرف (مخالف سمتوں میں)کھینچیں۔ تو اسلم وہیں کھڑا رہے گا اور کسی سمت میں حرکت نہیں کرے گا۔
 

الف نظامی

لائبریرین
محترم الف نظامی صاحب! توجہ فرمانے کا شکریہ!
جب ایک جسم پر مختلف اجسام مختلف سمتوں میں قوت لگاتے ہیں تو ایسا ہو سکتا ہے کہ تمام قوتوں کا حاصل صفر ہو جائے۔ جیسے اسلم کا ایک ہاتھ احمد اور دوسرا ہاتھ امجد کے ہاتھ میں ہو۔اور دونوں برابر قوت سے اسلم کو اپنی اپنی طرف (مخالف سمتوں میں)کھینچیں۔ تو اسلم وہیں کھڑا رہے گا اور کسی سمت میں حرکت نہیں کرے گا۔
جی ایسا equilibrium ممکن ہے ، توازن کے لیے۔
بہت شکریہ ۔
 
Top