محرم الحرام 1436 ہجری۔۔۔ شہدائے کربلا کو خراج عقیدت

حسینی

محفلین
ہر سال نئے اسلامی سال کے آغاز میں ہی نواسہ رسول ، جگر گوشہ بتول حضرت امام حسین علیہ السلام کا غم مسلمانوں کو آگھیرتا ہے۔۔۔ امام عالی مقام اور ان کے جانثار ساتھیوں اور اہل بیت کرام کے دوسرے افراد کی یاد میں شہر شہر، جگہ جگہ مجالس عزا اور جلوسوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔۔ اور تاریخ کے اس نقطہ عطف میں دی جانی والی عظیم قربانی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ سوز ،سلام، منقبت، نوحے ، وعظ، نصیحت، مصائب کے ذریعے کربلا کے اصل پیغام کو ساری دنیا تک پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اس لڑی میں آپ لوگ بھی محرم الحرام اور شہدائے کربلا کے حوالے سے اپنے جذبات، احساسات اور قلبی کیفیت کا اظہار کر سکتے ہیں۔ برائے مہربانی اختلافی باتوں سے گریز کرتے ہوئے صرف خراج عقیدت کے پھول نچھاور کریں۔۔۔
 

نایاب

لائبریرین
سر داد نہ داد دست در دست یزید
حقا کہ بنا لا الٰہ است حُسین
کاش کہ ہمیں کربلا کا پیغام ہمہ وقت یاد رہے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

حسینی

محفلین
سلام (محسن نقوی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر آیا ہے محرم کا مہینہ
لٹاو پھر سے اشکوں کا خزینہ

چمن والوعلی اصغر سے سیکھو
خزاں میں مسکرانے کا قرینہ

یہ کس پیاسے نے ٹھکرایا ہے پانی؟
کہ دریا کی جبیں پر ہے پسینہ

ہوا، عباس کا چہر ہ چھپا لے
کہ مقتل میں چلی آئی سکینہ

بنا لے بادباں زینب ردا کو
تلاطم میں ہے نبیوں کا سفینہ

نشان ماتم ابن علی ہے
معلی بن گیا ہے اپنا سینہ

غم شبیر کے لطف وکرم سے
ہر اک آنسو ہے جنگ کا نگینہ

دمکتا ہے سدا اشکوں کی مے سے
دل مومن کا نازک آبگینہ

سدا ملتی رہے محسن کو مولا
تری دہلیز سے نان شبینہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

حسینی

محفلین
سلام (استاد قمر جلالوی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غریب وبے کس ومظلوم وتشنہ کام سلام
علی کے چاند، نبی کے مہہ تمام سلام

اثر ہے یہ ترے اک کربلا کے سجدے کا
نماز ہوگئی قائم مرے امام سلام

رسول زادے ہو جبریل کے ہوشہزادے
فرشتے بھیج رہے ہیں بہ احترام سلام

تمہیں کو حق نے عطا کی ہے آسماں جاہی
کریں نہ کیوں مہہ وخورشید صبح وشام سلام

ادب حسین کا کرتے تھے اس طرح عباس
کہ اپنے آقا کو جیسے کرے غلام سلام

اشارہ کرنا وہ ساقی کا مجھ کو کوثر کا
ادب کے ساتھ وہ میرا اٹھا کے جام سلام

قصیدہ پڑھنے جو بیٹھا میں بزم ساقی میں
تو میکشوں میں اٹھا غل ، قمر سلام سلام

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
 

حسینی

محفلین
مرثیہ۔۔۔۔۔۔۔۔ "میر دبیر"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب کہ تیروں سے بدن شاہ کا غربال ہوا ۔۔۔۔۔ جان زہرا و محمد کا عجب حال ہوا
خون سے ملبوس ِرسول ِعربی لال ہوا۔۔۔۔۔۔جاں بلب پیاس سے وہ صاحبِ اقبال ہوا
غل تھا اب کوئی نہیں شاہ کے غم خواروں میں
گھیر لو فاطمہ کے لا ل کو تلواروں میں

تشنہ وبے کس وبے پر ہیں خبابِ شبیر۔۔۔۔۔۔ زخم بازو پہ ہیں اب کھینچ سکے گی شمشیر
علی اکبر کے جواں مرنے سے حالت ہے تغییر۔۔۔۔۔ہاں برابر سے چلیں برچھیاں اور دور سے تیر
ٹکڑے زہرا وپیمبر کا جگر ہوئے ہوگا
اب علمدار نہیں جو سپر ہوئے ہوگا

چار جانب سے ستم گا ر سمٹ کر آئے۔۔۔۔۔ کتنے پہلو کی طرف کھینچ کے خنجر آئے
برچھیاں تو ل کے خونخوار برابر آئے۔۔۔۔۔ ایک پیاسے کے لئے لاکھ ستم گر آئے
شور تھا ابنِ ید اللہ کو مہلت نہ دے
مارے تلواروں کے دم لینے کی فرصت نہ دے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
 

arifkarim

معطل
اس لڑی میں آپ لوگ بھی محرم الحرام اور شہدائے کربلا کے حوالے سے اپنے جذبات، احساسات اور قلبی کیفیت کا اظہار کر سکتے ہیں۔
قلبی کیفیت تو ایسی ہے کہ اسبارہ لکھتے ہوئے ہاتھ کپکپاتے ہیں۔ میدان کربلا عراق میں جہاں آج سے 1334 سال قبل آل رسول صللہعلیہسلم کے معصوم افراد کیساتھ مظالم ڈھائے گے وہاں آج بھی داعش کے دہشت گرد بے گناہوں کے گلے کاٹ رہے ہیں۔ اور وہ بھی اسلام کے نام پر۔ ایسا کب تک جاری رہے گا؟ آخرکب سرزمین عراق کو امن نصیب ہوگا؟
 

سید ذیشان

محفلین
اچھا دھاگہ شروع کیا ہے۔ میں محفل پر پہلے بھی یہاں مصطفیٰ زیدی کا یہ کلام پیش کر چکا ہوں، مجھے کافی پسند ہے۔

ہر دور میں مظلومیت کی داستاں لکھی گئی
تادیبِ جبر و سلطنت کے درمیاں لکھی گئی
لمحوں کی زنجیروں میں سطرِ جاوداں لکھی گئی
تشریحِ بے عنواں، زبانِ بے زباں لکھی گئی
جتنا شعارِ محتسب دشوار تر ہوتا گیا
اتنا ہی ذکرِ خونِ ناحق مشتہر ہوتا گیا

اشکوں سے طغیانی اٹھی، آہوں سے افسانے بنے
جلتے ہوئے حرفوں کے خاکستر سے پروانے بنے
ہر خاکِ خوں آلود سے تسبیح کے دانے بنے
ہر تشنگی سے ساقیِ کوثر کے میخانے بنے
تردید کی تکرار میں حق کی صدا بڑھتی گئی
جبر و تشدد میں نوائے بے نوا بڑھتی گئی

تیغوں کا جوہر جل گیا جھنکار باقی رہ گئی
سیلاب کا رخ مڑ گیا دیوار باقی رہ گئی
شامِ وفا دارانِ طوق و دار باقی رہ گئی
صبحِ اذانِ سیدِ ابرار باقی رہ گئی
سقراط کے ہونٹوں کو چھو کر زہرِ قاتل مر گیا
کیلوں کا چھوٹا پن صلیبوں کو نمایاں کر گیا

سو داستانوں کا سبب اجڑے ہوئے لوح و قلم
پتھر کی رگ رگ میں ہزاروں نا تراشیدہ صنم
اونچی فصیلیں، جست کرتے حوصلوں کے، قد سے کم
مہوش کے زینے پر فروزاں ماہِ تاباں سے قدم
فاتح کے چہرے پر حزیمت کے نشاں اترے ہوئے
مفتوح کے در پر زمین و آسماں اترے ہوئے

خونِ شہیداں کو خراج اہلِ حق ملتا رہا
لیکن شہادت سے تو ہے مظلومیت کی ابتدا
بعدِ امامِ لشکرِ تشنہ دہاں جو کچھ ہوا
کس سے کہوں، کیسے کہوں، اے کربلا، اے کربلا
گردِ لب و مژگاں نہیں کربِ حلیمِ دل ہے یہ
لوح و قلم کے عجز کی سب سے بڑی منزل ہے یہ

کیسے رقم ہو بے کسی، بے حرمتی کی داستاں
اک کنبہِ عالی نسب کی در بدر رسوائیاں
اک اشک جس کو کر گئی سیراب تیروں کی زباں
اک سبز پرچم جھک گیا جو خاک و خوں کے درمیاں
اک آہ جو سینے سے نکلی اور فضا میں کھو گئی
اک روشنی جو دن کی ڈھلتی ساعتوں میں کھو گئی

وہ اہلبیتِ ہاشمی ہر لمحہ جن پر بار تھا
وہ عترتِ اطہار جن کو ہر نفس آزار تھا
جس ہاتھ سے تھپڑ پڑے وہ ہاتھ اک کردار تھا
عارض سکینہ کے نہ تھے تاریخ کا رخسار تھا
حرفِ تپاں اسلام کا منشور بن کر رہ گیا
جو زخم تھا تہذیب کا ناسور بن کر رہ گیا

وہ شامِ خونِ بے وطن، وہ شام ملبوسِ کہن
شورش، تحیر، رستخیزی، جاں کنی،دیوانہ پن
تضحیک، نفرت، طنطنہ، تعریض، عیاری، جلن
الٹی قناتوں کا سماں، لٹتی رداؤں کا چلن
الٹی قناتوں میں رواں آتش یزیدی جاہ کی
لٹتی صفوں میں در بدر عترت رسول اللہ (ص) کی

وہ جرمنی کا آشویز (Auschwitz) جاپان کا ہیروشیما
ان کی بھیانک نزع کی آواز کو کس نے سنا؟
ان کے تو لاکھوں دوست تھے لیکن یہ خونی سانحہ
ان کے لئے علمی مباحث کے سوا کچھ بھی نہ تھا
اپنی ذہانت کے علاوہ سب سے پردہ پوش تھے
سب جیسپر، سب مارکاوو، سب سارتھر خاموش تھے


سارے جرائم سے بڑی ہے یہ مہذب خامشی
اس کے تو آگے ہیچ ہے قاتل کی زہریلی ہنسی
اس علم کے ساغر میں شامل ہے ہلاکت علم کی
اس سے زیادہ اور کیا سنگین ہو گی دوستی
تاریخ پوچھے گی کہ جب مہمان ویرانے میں تھے
کوفے کے سارے مرد کس گھر کے نہاں خانے میں تھے؟

اور یاد رکھنا اے میرے ہم عصر، اربابِ ذکا
ہم پر بھی گر طاری رہا ہے عالم سنہرے خواب کا
کل ہم بھی ہوں گے رو برو ہم سے بھی پوچھا جائے گا
سننا پڑے گا ہم سب ہی کو کربلا کا فیصلہ
قاتل تو شائد عفو کے قابل ہوں وہ مجبور تھے
ہم دوست ہو کر کیوں ضمیرِ ارتقا سے دور تھے؟

وہ دود نعرہ حیدری کی آلِ پیغمبر کی لاش
وہ آیتوں کی گود میں سوئے ہوئے اکبر کی لاش
وہ اک بریدہ بازووں والے علم پرور کی لاش
وہ دودھ پیتے لوریاں سنتے علی اصغر کی لاش
معصوم بچے وحشیوں کی جھڑکیاں کھائے ہوئے
عون و محمد چھوٹے چھوٹے ہاتھ پھیلائے ہوئے

ابرِ کرم، میساں قدم، کہسار قامت، آدمی
گلشن بہ کف، گوہر بہ لب، بارانِ رحمت، آدمی
لوحِ صداقت آدمی، مہرِ نبوت آدمی
دار الامارت کے ولی، درویش سیرت آدمی
وہ تشنہِ لب جو سمندر کا دہانہ پاٹ دیں
وہ موم جیسے دل جو تلواروں کا لوہا کاٹ دیں

اور اس کے بعد ایسی گھٹا ٹوپ آندھیوں کا قافلہ
تپتی ہوئی ریگِ رواں، جلتا ہوا دشتِ بلا
خونی چٹانیں، ناچتے شعلے، گرجتا زلزلہ
سفاک آنکھیں، سرخ تلواریں، کف آلودہ خلا
کالی فصیلیں، آتش و آہن کا منہ کھولے ہوئے
وحشی عناصر آبنوسی برچھیاں تولے ہوئے

تیزی سے چکر کاٹتی وحشت زدہ گونگی زمیں
جیسے کسی شے میں کوئی معنی کوئی مقصد نہیں
بے صوت لہجے، بے صدا آواز، بے ایقاں یقیں
حفظِ مراتب بے محافظ، حفظِ ایماں بے امیں
بادِ حوس کی زد میں شمعِ آبرو آئی ہوئی
ہر آستیں الٹی ہوئی، ہر آنکھ گہنائی ہوئی

سجاد سے زینب کا یہ کہنا کہ مولا جاگیے
غفلت سے آنکھیں کھولیے لٹتا ہے کنبہ جاگیے
اُٹھتے ہیں شعلے دیکھیے، جلتا ہے خیمہ جاگیے
اے باقیِ ذریتِ یٰس و طٰحہ جاگیے
سارے محافظ سو رہے ہیں اشقیا بیدار ہیں
طوق و سلاسل منتظر ہیں بیڑیاں تیار ہیں

سونی ہیں ساری بارگاہیں، نوحہ خواں ہیں چوکھٹیں
اجڑے ہوئے ہیں بام و در، ویراں پڑی ہیں مسندیں
مدھم ہوئیں، پھر بجھ گئیں ساری چراغوں کی لویں
ہم پر یکایک اجنبی سی ہو گئیں سب سرحدیں
ذروں کے دل بڑھتے گرجتے زلزلوں سے بھر گئے
چمڑے کے ٹکڑوں پر نمازیں پڑھنے والے مر گئے
 

حسینی

محفلین
مرگ سرخ

بزرگ فلسفۀ قتل شاه دین این است
که مرگ سرخ , بِه از زندگی ننگین است

حسین مظهر آزادگی و آزادی ست
خوشا کسی که چنینش مرام و آئین است

نه ظلم کن به کسی , نه به زیر ظلم برو
که این مرام حسین است و منطق دین است

همین نه گریه بر آن شاه تشنه لب کافی ست
اگرچه گریه بر آلام قلب تسکین است

ببین که مقصد عالی وی چه بُد ای دوست
که درک آن سبب عز و جاه و تمکین است

ز خون سرخ شهیدان کربلا "خوشدل"
دهان غنچه و دامان لاله رنگین است
 

واصل محمود

محفلین
بسم اللہ الر حمن الرحیم​

محرام الحرام کا مہینہ

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؑ فرماتے ہیں:۔

"یہ محرم کا مہینہ بڑا مبارک مہینہ ہے ۔ ترمذی میں اس کی فضیلت کی نسبت آنحضر ت صلی الله علیہ وسلم سے یہ حدیث لکھی ہے کہ فیہ یوم تاب الله فیہ علٰی قومٍ ویتوب فیہ علٰی قوم اٰ خرین یعنی محرم میں ایک ایسا دن ہے جس میں خدا نے گزشتہ زمانہ میں ایک قوم کو بلا سے نجات دی تھی اور مقدر ہے کہ ایسا ہی اسی مہینہ میں ایک بلا سے ایک اور قوم کو نجات ملے گی ۔ کیا تعجب کہ اس بلا سے طاعون مراد ہو اور خدا کے مامور کی اطاعت کر کے وہ بلا مُلک سے جاتی رہے۔"

[روحانی خزائن جلد18 دافع البلاءص 223)

حضرت اما م حسین رضی اللہ عنہ کی شان

محرم الحرام کا مہینہ اسلامی تاریخ کا ایک المناک باب ہے۔جس میں نبی کریمﷺ کے جگر کے ٹکڑوں کو یزید پلید نے بے دردی سے شہید کیا۔لیکن اس مرد مؤمن کے پائے ثبات میں لغزش نہ آئی۔ایک ایسی اندوہ ناک اور جگر شکن داستان جس کے سننے سے سر تا پا لغزش کھانے لگتے ہیں۔اس مضمون کے ذریعہ آج حضرت امام حسینؓ اور حضرت امام حسن ؓ کا مقام بیان کرنا مقصود ہے۔

حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺسے پوچھا گیا کہ آپ کے اہل بیت میں سے آپ کو سے سب سے زیادہ کون پیارا ہے۔تو آپ ؐنے فرما یا حسن اور حسین۔آپ ؐحضرت فاطمہؓ سے فرما یا کرتے تھے میرے بیٹوں کو بلاؤ۔پھر آپ ان دونوں کو گلے سے لگاتے اور بوسہ دیتے تھے۔

(جامع ترمذی باب المنا قب مناقب الحسن و الحسین۔حدیث 3705)​

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؑ فرماتے ہیں:۔

’’ حسین رضی اللہ عنہ طاہر ومطہّر تھا اور بلاشبہ ان برگزیدوں میں سے ہے جن کو خدا تعالیٰ اپنے ہاتھ سے صاف کرتا ہے اور اپنی محبت سے معمور کرتا ہے ۔ اور بلاشبہ وہ سرداران بہشت میں سے ہے اور ایک ذرّہ کینہ رکھنا اس سے ، موجبِ سلبِ ایمان ہے اور اس امام کا تقویٰ اور محبت اور صبر اور استقامت اور زہد اور عبادت ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہے اور ہم اس معصوم کی ہدایت کی اقتداء کرنے والے ہیں جو اس کو ملی تھی۔ تباہ ہوگیا وہ دل جو اس شخص کا دشمن ہے اور کامیاب ہو گیا وہ دل جو عملی رنگ میں اس کی محبت ظاہر کرتاہے اور اس کے ایمان اور اخلاق اور شجاعت اور تقویٰ اور استقامت اور محبتِ الٰہی کے تمام نقوش انعکاسی طور پر کامل پیروی کے ساتھ اپنے اندر لیتا ہے جیسا کہ ایک صاف آئینہ ایک خوبصورت انسان کا نقش ۔ یہ لوگ دنیا کی آنکھوں سے پوشیدہ ہیں، کون جانتا ہے ان کی قدر مگر وہی جو انہی میں سے ہے ۔ دنیا کی آنکھ ان کو شناخت نہیں کر سکتی کیونکہ وہ دنیا سے بہت دور ہیں۔ یہی وجہ حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی تھی کیونکہ وہ شناخت نہیں کیا گیا ۔ دنیا نے کس پاک اور برگزیدہ سے اس کے زمانہ میں محبت کی تا حسین رضی اللہ عنہ سے بھی محبت کی جاتی۔ ‘‘

(فتاویٰ احمدیہ ۔ حصہ دوم صفحہ 42)​

پھر فرمایا :۔

’’ حضرت امام حسین اور امام حسن رضی اللہ عنہما خدا کے برگزیدہ اور صاحبِ کمال اور صاحبِ عفت اور عصمت اور ائمّۃ الہدٰی تھے اور وہ بلاشبہ دونوں معنوں کے رو سے آنحضرت ﷺ کے آل تھے۔ ‘‘

(تریاق القلوب ۔ روحانی خزائن جلد 15صفحہ 365,364 حاشیہ)​
 
مدیر کی آخری تدوین:

سادات

محفلین
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی قربانی ایک عظیم الشان قربانی تھی ۔ آپؓ نے ہمیں یہ سبق دیا کہ سچ اور حق ہمیشہ باطل کے سامنے سینہ سَپر ہو جاتے ہیں ۔ آپؓ نے اپنے نانا آنحضرت ﷺ کی اتباع میں جھکنے سے انکار کر دیا ۔ آپؓ کی شہادت ایک بہت بڑا سانحہ ہے اور ایسا واقعہ ہے جو رہتی دنیا تک حق اور سچ کے پرستاروں کے لئے شمع ہدایت فراہم کرتا رہے گا۔ آپؓ کی یہ بہادری اس یقین کی بدولت تھی جو آپؓ کو اللہ تعالیٰ کی ذات پر تھا اور اس ایمان قوی کی بدولت تھی جو آپؓ کو آنحضرت ﷺ کی ذات ِ بابرکت پر تھی ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس عظیم الشان شہادت سے سبق حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم ہمیشہ آنحضرت ﷺ اور آپؐ کی آل پر درود و سلام بھیجنے والے ہوں۔ آمین۔ اللھم صل علی محمد وعلی آل محمد۔ﷺ۔
 

طاہر نذیر

محفلین
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی قربانی ایک عظیم الشان قربانی تھی ۔ آپؓ نے ہمیں یہ سبق دیا کہ سچ اور حق ہمیشہ باطل کے سامنے سینہ سَپر ہو جاتے ہیں ۔
 
Top