فرحان دانش
محفلین
تحریر: خلیل احمد نینی تال والا
صوبہ سندھ میں کوٹہ سسٹم کی بنیاد ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں رکھی گئی اور وجہ یہ بتائی گئی کہ شہری علاقے کے لوگوں کو چونکہ اچھی تعلیم کے مواقع حاصل ہیں جبکہ دیہی علاقے کے نوجوان اس سے محروم ہیں اور احساس محرومی کا شکار ہیں لہٰذا 10سال کیلئے حصول روزگار میں دیہی علاقے کے باشندوں کیلئے کوٹہ رکھا گیا جس سے شہری اور دیہی تفریق کی بنیاد رکھ دی گئی ۔ شہر کے لوگوں نے خیر سگالی کے جذبے کے تحت اس 10سال کے کوٹہ سسٹم کو قبول کر لیا مگر بعد کی آنے والی حکومتوں نے اس کوٹہ سسٹم میں مسلسل اضافہ کرنا شروع کر دیا اور اس دفعہ تو حد ہی کر دی گئی کہ ایک دن اچانک اس بل کو قومی اسمبلی میں پیش کر دیا گیا اور آناً فاناً یہ بل منظور کر کے ایک مرتبہ پھر شہری نوجوانوں کو سرکاری دفاتر میں 20سال کیلئے نوکریوں سے محروم کر دیا گیا۔ صوبہ سندھ کی آبادی کا اگر جائزہ لیا جائے تو اس میں 45فیصد سندھی بولنے والے رہتے ہیں اور 55فیصد دیگر زبانیں بولنے والے ۔ایک محتاط اندازے کے مطابق 45فیصدسندھی بولنے والے چھوٹے چھوٹے شہروں اور دیہاتوں میں رہتے ہیں جبکہ 45فیصد اردو بولنے والے ، جن کو اصطلاح میں مہاجر کہا جاتا ہے ، بڑے شہروں میں رہتے ہیں اور 10فیصد پاکستان کے دیگر صوبوں سے آنے والے بھی زیادہ تر شہروں میں رہتے ہیں۔ گویا اردو بولنے والوں اور سندھی بولنے والوں کی آبادی کا تناسب کم و بیش برابر ہو چکا ہے ۔ موجودہ حکومت نے اس سال مردم شماری کرائی اور نہ جانے کس مصلحت کے تحت آج تک اس کے نتائج کا اعلان نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے مردم شماری کا مقصد فوت ہو کر رہ گیا ہے ۔ اس کے اعداد و شمار حکومت کی توقع کے خلاف سامنے آئے ہیں جن میں ردو بدل کیا جارہا ہے۔ جہاں تک صوبہ سندھ کا تعلق ہے اصولاً اردو اور سندھی زبان بولنے والوں کو مساوی نوکریاں ملنی چاہئے تھیں ، مگر ایسا نہیں ہوا ۔ شروع ہی سے تقریبا ً 80فیصد سرکاری نوکریاں سندھی بولنے والوں کو ملتی رہیں اور 20فیصد اردو بولنے والوں کے حصے میں آئیں ۔ کوٹہ سسٹم کے رائج ہونے کے بعد صرف 10فیصد اردو بولنے والوں کو سرکاری نوکریاں مل رہیں ہیں ۔ اس کی زندہ مثال حکومت سندھ کے کسی بھی ادارہ میں چوکیدار ، چپڑاسی ، نائب قاصد یا شازو نادر کلرک ، اردو بولنے والے ملیں تو ملیں آفیسر گریڈ کا کوئی نوجوان نہیں ملے گا ۔ اب صرف چند سیکریٹری اور انتظامیہ کے چند افسران رہ گئے ہیں جو کہ ریٹائرمنٹ کے نزدیک ہیں کیونکہ بھرتی کے وقت باپ ، دادا اور پر دادا کا خانہ پر کرتے وقت یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ نوکری کا طلبگار کس طبقہ سے تعلق رکھتا ہے اور اس پر نوکریوں کے دروازے کسی نہ کسی بہانے بند کر دیئے گئے ہیں۔ اس سلسلے میں اگر تصویر کا دوسرا رخ دیکھا جائے تو یہ بات بھی کھل کر سامنے آتی ہے کہ ایسے اچھے غیر سرکاری اداروں میں جہاں ملازمت کا معیار صرف اہلیت ہوتا اور کام چوری اور سستی ایک لمحے کو بھی برداشت نہیں کی جاتی۔ سندھی بولنے والوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے ، اردو بولنے والے نوجوانوں سے سرکاری سطح پر روا رکھی گئی یہ نا انصافی ہی ہے جس کی وجہ سے ان میں مایوسی پھیلی اور مایوس اور بے روزگاری کے مارے یہ نوجوان منشیات ، اسلحہ اور دیگر غیر قانونی حربوں میں ملوث ہوئے ۔ سندھ کا امن و امان خطرے میں پ۔ڑگیا مفاد پرست لوگوں نے ان سے غلط کام لیئے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔ شہروں میں قانون نام کی کوئی شے باقی نہ رہی اور گروپوں کی شکل میں ایک دوسرے کے مد مقابل آکر شہروں کے سکون کوختم کر دیا۔
آج تک یہ منطق سمجھ میں نہیں آسکی ہے کہ پاکستان کے چاروں صوبوں میں سے صرف سندھ ہی کو کوٹہ کیلئے کیوں مقرر کیا گیا ہے جبکہ سرحد ، بلوچستان اور پنجاب کیساتھ بھی تو دیہی آبادیاں ہیں وہاں کوٹہ سسٹم کیوں نافذ نہیں کیا گیا جبکہ اسلام آباد میں اس قسم کی تفریق کو منع کیا گیا ہے اور ہماری وفاقی شرعی عدالت اور شرعی ایپلٹ بورڈ بھی اس کو غیر شرعی اور غیر انسانی قرار دے چکے ہیں تو پھر کیا وجہ تھی کہ نواز شریف حکومت نے ایک مرتبہ پھر عجلت میں قومی اسمبلی میں اکثریت کے بل پر کراچی اور حیدر آباد کے نوجوانوں پر یہ فیصلہ مسلط کر کے ان کو سرکاری نوکریوں سے محروم کر دیا تھا ۔ میرے خیال میں عجلت میں یہ فیصلہ اس لئے کیا گیا ہو گا کہ تاکہ کالا باغ ڈیم پر دیہی علاقوں کو تنقید کو کم کیا جا سکے اور ان کو یہ باور کرایا جائے کہ ہم نے دیہی علاقے کے نوجوانوں کیلئے سرکاری روزگار کے مواقع پھر فراہم کر دیئے ہیں۔ مگر وہ اس بات کو بھول گئے کہ شہری نوجوان جنہیں تعلیم مکمل کرنے کے بعد پہلے ہی سرکاری نوکری نہیں ملتی تھی اب اس بے روزگاری سے تنگ آکر کوئی غلط قدم بھی اٹھا سکتے ہیں۔ لہٰذا حکومت کو چاہئے کہ پہلے سرکاری مر دم شماری کے درست اعداد و شمار سامنے لائے اور بعد ازاں کوٹہ سسٹم کو ہمیشہ ہمیشہ ختم کر کے میرٹ کی بنیاد پر شہری اور دیہی نوجوانوں کو تعلیم و روزگا ر کے یکساں مواقع فراہم کرے اور غیر منصفانہ فیصلے کو واپس لے جس طرح مرحوم بھٹو صاحب کے دورِ حکومت میں جو تعلیمی ادارے قومیائے گئے تھے وہ واپس ہو گئے اور قومیائے گئے بنک ، انشورنس کمپنیاں نجی اداروں کو بیچ دی گئیں ۔ آج کے جدید دور میں کوٹہ سسٹم جیسا فرسودہ نظام واپس لے کر پی پی پی کی حکومت جو آج تک سندھ کے شہری علاقوں میں مقبول نہیں ہو سکی اس فعال فیصلے سے کراچی ، حیدرآباد کے شہریوں کا دل جیت سکتی ہے۔
ماخذ
صوبہ سندھ میں کوٹہ سسٹم کی بنیاد ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں رکھی گئی اور وجہ یہ بتائی گئی کہ شہری علاقے کے لوگوں کو چونکہ اچھی تعلیم کے مواقع حاصل ہیں جبکہ دیہی علاقے کے نوجوان اس سے محروم ہیں اور احساس محرومی کا شکار ہیں لہٰذا 10سال کیلئے حصول روزگار میں دیہی علاقے کے باشندوں کیلئے کوٹہ رکھا گیا جس سے شہری اور دیہی تفریق کی بنیاد رکھ دی گئی ۔ شہر کے لوگوں نے خیر سگالی کے جذبے کے تحت اس 10سال کے کوٹہ سسٹم کو قبول کر لیا مگر بعد کی آنے والی حکومتوں نے اس کوٹہ سسٹم میں مسلسل اضافہ کرنا شروع کر دیا اور اس دفعہ تو حد ہی کر دی گئی کہ ایک دن اچانک اس بل کو قومی اسمبلی میں پیش کر دیا گیا اور آناً فاناً یہ بل منظور کر کے ایک مرتبہ پھر شہری نوجوانوں کو سرکاری دفاتر میں 20سال کیلئے نوکریوں سے محروم کر دیا گیا۔ صوبہ سندھ کی آبادی کا اگر جائزہ لیا جائے تو اس میں 45فیصد سندھی بولنے والے رہتے ہیں اور 55فیصد دیگر زبانیں بولنے والے ۔ایک محتاط اندازے کے مطابق 45فیصدسندھی بولنے والے چھوٹے چھوٹے شہروں اور دیہاتوں میں رہتے ہیں جبکہ 45فیصد اردو بولنے والے ، جن کو اصطلاح میں مہاجر کہا جاتا ہے ، بڑے شہروں میں رہتے ہیں اور 10فیصد پاکستان کے دیگر صوبوں سے آنے والے بھی زیادہ تر شہروں میں رہتے ہیں۔ گویا اردو بولنے والوں اور سندھی بولنے والوں کی آبادی کا تناسب کم و بیش برابر ہو چکا ہے ۔ موجودہ حکومت نے اس سال مردم شماری کرائی اور نہ جانے کس مصلحت کے تحت آج تک اس کے نتائج کا اعلان نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے مردم شماری کا مقصد فوت ہو کر رہ گیا ہے ۔ اس کے اعداد و شمار حکومت کی توقع کے خلاف سامنے آئے ہیں جن میں ردو بدل کیا جارہا ہے۔ جہاں تک صوبہ سندھ کا تعلق ہے اصولاً اردو اور سندھی زبان بولنے والوں کو مساوی نوکریاں ملنی چاہئے تھیں ، مگر ایسا نہیں ہوا ۔ شروع ہی سے تقریبا ً 80فیصد سرکاری نوکریاں سندھی بولنے والوں کو ملتی رہیں اور 20فیصد اردو بولنے والوں کے حصے میں آئیں ۔ کوٹہ سسٹم کے رائج ہونے کے بعد صرف 10فیصد اردو بولنے والوں کو سرکاری نوکریاں مل رہیں ہیں ۔ اس کی زندہ مثال حکومت سندھ کے کسی بھی ادارہ میں چوکیدار ، چپڑاسی ، نائب قاصد یا شازو نادر کلرک ، اردو بولنے والے ملیں تو ملیں آفیسر گریڈ کا کوئی نوجوان نہیں ملے گا ۔ اب صرف چند سیکریٹری اور انتظامیہ کے چند افسران رہ گئے ہیں جو کہ ریٹائرمنٹ کے نزدیک ہیں کیونکہ بھرتی کے وقت باپ ، دادا اور پر دادا کا خانہ پر کرتے وقت یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ نوکری کا طلبگار کس طبقہ سے تعلق رکھتا ہے اور اس پر نوکریوں کے دروازے کسی نہ کسی بہانے بند کر دیئے گئے ہیں۔ اس سلسلے میں اگر تصویر کا دوسرا رخ دیکھا جائے تو یہ بات بھی کھل کر سامنے آتی ہے کہ ایسے اچھے غیر سرکاری اداروں میں جہاں ملازمت کا معیار صرف اہلیت ہوتا اور کام چوری اور سستی ایک لمحے کو بھی برداشت نہیں کی جاتی۔ سندھی بولنے والوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے ، اردو بولنے والے نوجوانوں سے سرکاری سطح پر روا رکھی گئی یہ نا انصافی ہی ہے جس کی وجہ سے ان میں مایوسی پھیلی اور مایوس اور بے روزگاری کے مارے یہ نوجوان منشیات ، اسلحہ اور دیگر غیر قانونی حربوں میں ملوث ہوئے ۔ سندھ کا امن و امان خطرے میں پ۔ڑگیا مفاد پرست لوگوں نے ان سے غلط کام لیئے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔ شہروں میں قانون نام کی کوئی شے باقی نہ رہی اور گروپوں کی شکل میں ایک دوسرے کے مد مقابل آکر شہروں کے سکون کوختم کر دیا۔
آج تک یہ منطق سمجھ میں نہیں آسکی ہے کہ پاکستان کے چاروں صوبوں میں سے صرف سندھ ہی کو کوٹہ کیلئے کیوں مقرر کیا گیا ہے جبکہ سرحد ، بلوچستان اور پنجاب کیساتھ بھی تو دیہی آبادیاں ہیں وہاں کوٹہ سسٹم کیوں نافذ نہیں کیا گیا جبکہ اسلام آباد میں اس قسم کی تفریق کو منع کیا گیا ہے اور ہماری وفاقی شرعی عدالت اور شرعی ایپلٹ بورڈ بھی اس کو غیر شرعی اور غیر انسانی قرار دے چکے ہیں تو پھر کیا وجہ تھی کہ نواز شریف حکومت نے ایک مرتبہ پھر عجلت میں قومی اسمبلی میں اکثریت کے بل پر کراچی اور حیدر آباد کے نوجوانوں پر یہ فیصلہ مسلط کر کے ان کو سرکاری نوکریوں سے محروم کر دیا تھا ۔ میرے خیال میں عجلت میں یہ فیصلہ اس لئے کیا گیا ہو گا کہ تاکہ کالا باغ ڈیم پر دیہی علاقوں کو تنقید کو کم کیا جا سکے اور ان کو یہ باور کرایا جائے کہ ہم نے دیہی علاقے کے نوجوانوں کیلئے سرکاری روزگار کے مواقع پھر فراہم کر دیئے ہیں۔ مگر وہ اس بات کو بھول گئے کہ شہری نوجوان جنہیں تعلیم مکمل کرنے کے بعد پہلے ہی سرکاری نوکری نہیں ملتی تھی اب اس بے روزگاری سے تنگ آکر کوئی غلط قدم بھی اٹھا سکتے ہیں۔ لہٰذا حکومت کو چاہئے کہ پہلے سرکاری مر دم شماری کے درست اعداد و شمار سامنے لائے اور بعد ازاں کوٹہ سسٹم کو ہمیشہ ہمیشہ ختم کر کے میرٹ کی بنیاد پر شہری اور دیہی نوجوانوں کو تعلیم و روزگا ر کے یکساں مواقع فراہم کرے اور غیر منصفانہ فیصلے کو واپس لے جس طرح مرحوم بھٹو صاحب کے دورِ حکومت میں جو تعلیمی ادارے قومیائے گئے تھے وہ واپس ہو گئے اور قومیائے گئے بنک ، انشورنس کمپنیاں نجی اداروں کو بیچ دی گئیں ۔ آج کے جدید دور میں کوٹہ سسٹم جیسا فرسودہ نظام واپس لے کر پی پی پی کی حکومت جو آج تک سندھ کے شہری علاقوں میں مقبول نہیں ہو سکی اس فعال فیصلے سے کراچی ، حیدرآباد کے شہریوں کا دل جیت سکتی ہے۔
ماخذ