۔
(4)
[align=justify:43b1ebd27a]رضیہ علی الصباح میکے پہنچی ۔ باپ کی حالت اور مفصل کیفیت سن کر اُلٹے پاؤں واپس گئی ۔ رات کے دَس بجے تھے ، احسن یہ سن کر کہ محسن نے روپیہ دینے سے انکار کردیا ، انگاروں پر مُرغِ بِسمل کی طرح تڑپ رہا تھا۔ مگر مجبُور تھا کہ ہلنے کی طاقت نہ تھی اور کوئی دَم کا مہمان تھا ، آنکھیں بند تھیں کہ ایک ہاتھ نے اُس کا مفلوج ہاتھ اُٹھا کر اپنی آنکھوں سے لگایا ۔ احسن نے آنکھ کھولی تو دیکھا رضیہ سامنے کھڑی ہے اور آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں۔[/align:43b1ebd27a]
وہ یہ سمجھ کر کہ باپ کو میری صُورت سے تکلیف نہ ہو ہاتھ جوڑتی ہوئی پیچھے ہٹنے لگی تو صفیہ نے کہا،
” رضیہ یہ چار ہزار روپے لائی ہے اور کہتی ہے کہ میں نے جو پانچ ہزار روپے اُس کو نقد دیئے تھے اس میں سے یہ لے لیجئے اور علاج کیجئے۔“
[align=justify:43b1ebd27a]جس رضیہ کی صُورت سے باپ کو نفرت تھی ، جس پر ایک پیسہ بھی صرف کرنا گراں تھا ، اُس کا سر اس وقت باپ کے قدموں میں تھا اور زبان سے یہ الفاظ نکل رہے تھے،[/align:43b1ebd27a]
اباجان ! یہ آپ ہی کا رُوپیہ ہے ، میرا نہیں ہے۔“
[align=justify:43b1ebd27a]آج احسن کو معلوم ہوا کہ بھولی بھالی بچیاں کیا چیز ہیں ، اُس نے بچی کو بُلا کر اپنے سینے سے لگایا اور آنکھ سے آنسو جاری ہوگئے۔[/align:43b1ebd27a]
------------------------
فروری 1923ء
------------------------