طارق شاہ
محفلین
غزل
مُحسن احسان
بُجھا کے رکھ دے، یہ کوشش بہت ہوا کی تھی
مگر چراغ میں، کچھ روشنی انا کی تھی
مِری شکست میں کیا کیا تھے مُضمَرات نہ پوچھ
عدو کا ہاتھ تھا، اور چال آشنا کی تھی
فقیہہ شہر نے بیزار کردیا، ورنہ
دِلوں میں قدر بہت خانۂ خُدا کی تھی
ابھی سے تم نے دُھواں دھار کردیا ماحول
ابھی تو سانس ہی لینے کی اِبتدا کی تھی
شکست وہ تھی، کہ جب میری سربلندی کی
مِرے عدو نے مِرے واسطے دعا کی تھی
اب ہم غبارِ مہ وسال کے لپیٹ میں ہیں
ہمارے چہرے پہ رونق کبھی بلا کی تھی
مُحسن احسان