خرم شہزاد خرم
لائبریرین
اعوذباللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حمدِ باری تعالیٰ
تصور سے بھی آگے تک درو دیوار کُھل جائیں
میری آنکھوں پہ بھی یا رب تیرے اسرار کُھل جائیں
میں تیری رحمتوں کے ہاتھ خود کو بیچنے لگوں
مری تنہائیوں میں عشق کے بازار کُھل جائیں
جوارِ عرشِ اعظم اس قدر مجھ کو عطا کردے
مرے اندر کے غاروں پر ترے انوار کُھل جائیں
اتاروں معرفت کی ناؤ جب تیرے سمندر میں
تو مجھ پر باد بانوں کی طرح منجدھار کُھل جائیں
اندھیروں میں بھی تو اتنا نظر آنے لگے مجھ کو
کہ سناٹے بھی مانندِ لبِ اظہار کُھل جائیں
مرے مالک مرے حرفِ دعا کی لاج رکھ لینا
ملے تو بہ کو رستہ ، بابِ استغفار کُھل جائيں
مظفر وارثی کی اس قدر تجھ تک رسائی ہو
کہ اس کے ذہن پر سب معنیء افکار کُھل جائیں
مظفر وارثی
نعت
نہ میرے سخن کو سخن کہو
نہ مری نوا کو نوا کہو
میری جاں کو صحنِ حرم کہو
مرے دل کو غارِ حرا کہو
میں لکھوں جو مدحِ شہہِ اُمم
اور جبرائیل بنیں قلم
میں ہوں ایک ذرہء بےدرہم
مگر آفتابِ ثناء کہو
طلبِ شہہِ عربی کروں
میں طوافِ حُبِ نبی کروں
مگر ایک بےادبی کروں
مجھے اُس گلی کا گدا کہو
نہ دھنک، نہ تارا، نہ پھول ہوں
قدمِ حضور کی دُھول ہوں
میں شہیدِ عشقِ رسول ہوں
میری موت کو بھی بقا کہو
جو غریب عشق نورد ہو
اُسے کیوں نہ خواہشِ درد ہو
میرا چہرہ کتنا ہی زرد ہو
میری زندگی کو ہرا کہو
ملے آپ سے سندِ وفا
ہوں بلند مرتبہء صفا
میں کہوں محمدِ مصطفیٰ
کہو تم بھی صلے علیٰ کہو
وہ پیام ہیں کہ پیامبر
وہ ہمارے جیسا نہیں مگر
وہ ہے ایک آئینہء بشر
مگر اُس کو عکسِ خدا کہو
یہ مظفر ایسا مکین ہے
کہ فلک پہ جس کی زمین ہے
یہ سگِ براق نشین ہے
اسے شہسوارِ صبا کہو
مظفر وارثی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حمدِ باری تعالیٰ
تصور سے بھی آگے تک درو دیوار کُھل جائیں
میری آنکھوں پہ بھی یا رب تیرے اسرار کُھل جائیں
میں تیری رحمتوں کے ہاتھ خود کو بیچنے لگوں
مری تنہائیوں میں عشق کے بازار کُھل جائیں
جوارِ عرشِ اعظم اس قدر مجھ کو عطا کردے
مرے اندر کے غاروں پر ترے انوار کُھل جائیں
اتاروں معرفت کی ناؤ جب تیرے سمندر میں
تو مجھ پر باد بانوں کی طرح منجدھار کُھل جائیں
اندھیروں میں بھی تو اتنا نظر آنے لگے مجھ کو
کہ سناٹے بھی مانندِ لبِ اظہار کُھل جائیں
مرے مالک مرے حرفِ دعا کی لاج رکھ لینا
ملے تو بہ کو رستہ ، بابِ استغفار کُھل جائيں
مظفر وارثی کی اس قدر تجھ تک رسائی ہو
کہ اس کے ذہن پر سب معنیء افکار کُھل جائیں
مظفر وارثی
نعت
نہ میرے سخن کو سخن کہو
نہ مری نوا کو نوا کہو
میری جاں کو صحنِ حرم کہو
مرے دل کو غارِ حرا کہو
میں لکھوں جو مدحِ شہہِ اُمم
اور جبرائیل بنیں قلم
میں ہوں ایک ذرہء بےدرہم
مگر آفتابِ ثناء کہو
طلبِ شہہِ عربی کروں
میں طوافِ حُبِ نبی کروں
مگر ایک بےادبی کروں
مجھے اُس گلی کا گدا کہو
نہ دھنک، نہ تارا، نہ پھول ہوں
قدمِ حضور کی دُھول ہوں
میں شہیدِ عشقِ رسول ہوں
میری موت کو بھی بقا کہو
جو غریب عشق نورد ہو
اُسے کیوں نہ خواہشِ درد ہو
میرا چہرہ کتنا ہی زرد ہو
میری زندگی کو ہرا کہو
ملے آپ سے سندِ وفا
ہوں بلند مرتبہء صفا
میں کہوں محمدِ مصطفیٰ
کہو تم بھی صلے علیٰ کہو
وہ پیام ہیں کہ پیامبر
وہ ہمارے جیسا نہیں مگر
وہ ہے ایک آئینہء بشر
مگر اُس کو عکسِ خدا کہو
یہ مظفر ایسا مکین ہے
کہ فلک پہ جس کی زمین ہے
یہ سگِ براق نشین ہے
اسے شہسوارِ صبا کہو
مظفر وارثی
حمد و نعت کے بعد تمام خواتین و حضرات کو میری جانب سے اور اردو محفل کی جانب سے السلام علیکم اور خوش آمدید۔ امید ہے آپ سب صحت اور ایمان کی بہتریں حالت میں ہونگے۔ جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں آج کی یہ بزم جنابِ محترم م م مغل صاحب کے اعزاز میں منعقد کی جا رہی ہے۔ جس کے صدر جناب استادِ محترم اعجاز عبید صاحب ہیں اور مہمانِ خصوصی جناب شاکرالقادی صاحب اور مہمانِ اعزازی جناب م م مغل صاحب ہیں۔اس مشاعرے کی خاص بات کہ یہ مشاعرہ اردو محفل کی تین سالہ تاریخ کا پہلا مشاعرہ ہے(یہ میری ذاتی رائے ہے) اور یہ بات بتاتے ہوئے مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے کہ اردو محفل میں پوری دنیا سے استاد شعراءکرام تشریف لاتے ہیں اور یہی وجہ ہمیں مشاعرہ منعقد کرنے پر مجبور کرتی رہی۔ میں جناب صدرِ مشاعرہ کی اجازت سے اس مشاعرے کا باقاعدہ آغاز مشاعرے کی روایات کے مطابق اپنے کلام سے کرتا ہوں اور پھر اس کے بعد باری باری تمام شعراء اکرام کو دعوتِ کلام دیتا رہوں گا۔ آپ سب سے درخواست ہے مشاعرے کے دوران شاعر کی حوصلہ افزائی کے لیے صرف ”شکریہ“ کا بٹن ہی استعمال کرے۔ تمام شعراء کرام کو دعوت دو طرح دی جائے گی۔ایک تو یہاں اسی دھاگے میں اور دوسرا ان کو زپ کر کے دعوت کی اطلاع کی جائے گی۔ تمام شعراءکرام سے وقت کی پابندی کی درخواست کی جاتی ہے کہ وہ اپنی باری آنے پر جلد سے جلد اپنے کلام سے نوازے تانکہ مشاعرے کا ردم قائم رہے شکریہ۔