فرخ منظور
(اعتبار ساجد کے شعر میں تبدیلی کے ساتھ)
دھیمے لہجے کا سخنور ہوں میں فرخ منظور
خود میں گم رہنا تو عادت ہے پرانی میری
بھیڑ میں بھی تمہیں مل جاؤں گا آسانی سے
کھویا کھویا ہوا رہنا ہے نشانی میری
فرخ منظور
(اعتبار ساجد کے شعر میں تبدیلی کے ساتھ)
دھیمے لہجے کا سخنور ہوں میں فرخ منظور
خود میں گم رہنا تو عادت ہے پرانی میری
بھیڑ میں بھی تمہیں مل جاؤں گا آسانی سے
کھویا کھویا ہوا رہنا ہے نشانی میری
جاسمن
بٹیا کے نام
محبت ذات ہوتی ہے
محبت ذات کی تکمیل ہوتی ہے
کوئی جنگل میں جا ٹھہرے، کسی بستی میں بس جائے
محبت ساتھ ہوتی ہے
محبت خوشبوؤں کی لَے
محبت موسموں کا دَھن
محبت جیت ہوتی ہے
محبت مات ہوتی ہے
محبت ذات ہوتی ہے
صابرہ امین
مرے بے خبر تجھے کیا پتہ
تری آرزوؤں کے دوش پر
تری کیفیات کے جام میں
میں جو کتنی صدیوں سے قید ہوں
ترے نقش میں ترے نام میں
مرے خواب میری کہانیاں
مرے زائچے مرے راستے
مرے لیکھ کی یہ نشانیاں
تری چاہ میں ہیں رکی ہوئی
کبھی آنسوؤں کی قطار میں
کبھی پتھروں کے حصار میں
کبھی دشت ہجر کی رات میں
کبھی بدنصیبی کی گھات میں
کئی رنگ دھوپ سے جل گئے
کئی چاند شاخ سے ڈھل گئے
کئی تن سلگ کے پگھل گئے
تری الفتوں کے قیام میں
ترے درد کے در و بام میں
کوئی کب سے ثبتِ صلیب ہے
تری کائناتوں کی رات میں
ترے اژدھام کی شام میں
تجھے کیا خبر تجھے کیا پتہ