محفل لائبریری اور نئے اراکین

بہت ہی مختصر عرصے میں محفل لائبریری کو بہت سے نئے اراکین ملے ہیں جس سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کسی نے لائبریری میں نئی روح پھونک دی ہو۔ نئے اراکین کی شرکت کے باوجود لگتا ایسے ہے کہ کئی اراکین ایسے ہیں جو شاید محفل لائبریری کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں یا اس کا حصہ بننا چاہتے ہیں مگر ان کے ذہن میں سوالات موجود ہیں یا انہیں کسی قدر ترغیب کی ضرورت ہے یا شاید وہ ایک دعوت عام کا انتظار کر رہے ہیں۔ اس لڑی کامکا ہے آپ سب لوگ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے شرکت کریں ،سوالات اٹھائیں، اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر کوئی ممبر بننا چاہتا ہے تو وہ بھی بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اس کا اظہار کرے ۔
 
آخری تدوین:

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
مجھے بھی کچھ محفلین کا انتظار ہے کہ وہ آئیں اور لائیبریری میں شامل ہو جائیں ان کی صلاحیتوں سے بھر پور استفادہ ہو سکے :)
 

مومن فرحین

لائبریرین
اوہ آپ نے مجھے اس قابل سمجھا ممنون ہوں ۔ لیکن میں ہمیشہ نہیں کر سکوں گی کبھی مجھے بلکل فرصت نہیں ہوتی کبھی فرصت ہی فرصت ۔ آپ بتائیں کیسے مدد کر سکتی ہوں ۔
 

نور وجدان

لائبریرین
اوہ آپ نے مجھے اس قابل سمجھا ممنون ہوں ۔ لیکن میں ہمیشہ نہیں کر سکوں گی کبھی مجھے بلکل فرصت نہیں ہوتی کبھی فرصت ہی فرصت ۔ آپ بتائیں کیسے مدد کر سکتی ہوں ۔
کوئی نہیں، ہم سے سب اسی روٹین سے دوچار ہیں، جب تک وقت ساتھ دے، تب تک بہتر ہے:) کیوں محب علوی بھائی
 

نور وجدان

لائبریرین
کوئی نہیں، ہم سے سب اسی روٹین سے دوچار ہیں، جب تک وقت ساتھ دے، تب تک بہتر ہے:) کیوں محب علوی بھائی
بالکل جو جتنا کر سکے اتنا کافی سمجھا جاتا ہے۔ ظاہر ہے ہر وقت ایک جیسی مصروفیت ہوتی ہے نہ فراغت۔ اس لیے زیادہ لوگوں کی ٹیم ہے تاکہ کسی پر زیادہ بوجھ نہ پڑے۔
 
251
نو طرز مرصع
جو شجاع الدولہ کی فیاضیوں کی بدولت مرجع انام بنا ہوا تھا۔ وہاں جا کر دربار سے وابستہ ہو گئے۔ ایک دن موقع پاکر انہوں نے چند مقامات اس داستان کے شجاع الدولہ کو سنائے ۔ اس نے سن کر اسے بہت پسند کیا اورحکم دیا کہ اسے لکھ کرمکمل کرو۔ چنانچہ یہ اس کی تکمیل میں مصروف ہو گئے۔ کچھ دنوں بعد وہ اسے ختم کر کے شجاع الدولہ کی خدمت میں پیش کرتا ہی چاہتے تھے کہ ان کا انتقال ہو گیا اور تحسین بقول خود " لاچار پائے تردد و تلاش کا بیچ دامن قناعت کے کھینچ کر بیچ کنج خموشی کے چپکاہور ہا۔ اب آصف الدول تخت نشین ہوئے تو انہوں نے سوچا کہ اس تصنیف کو ان کے حضور میں گزرانیں ۔ چنانچہ دیباچے میں چندکلمات توصیف کے اور ایک قصیدہ ان کی تعریف میں بڑھا کر آصف الدولہ کے حضور میں پیش کیا اور کامیاب وکامگار ہوئے۔

تصانیف حسین

تحسین نے نو طرز مرصع میں اپنی تین اور کتابوں کا ذکر کیا ہے جو اس نے فارسی زبان میں ’’نوطرز مرصع سے پہل لکھی تھیں ۔ تاریخ قاسمی ، ضوابط انگریزی اور انشاے تحسین وغیرہ وغیرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے کچھ اور بھی کتابیں تصنیف کی تھیں جن کو غیر اہم سمجھ کر نظر انداز کردیا۔ یہ کتابیں اب کہیں نہیں ملتیں صرف ان کے نام باقی ہیں ۔ ایک بات البته لائق تحقیق ہے یعنی" تواریخ قاسمی‘‘ کے بجائے اکثر نسخوں میں " تاریخ فارسی“ کا ذکر ملتا ہے۔ سید سجاد صاحب کا یہ خیال درست ثابت ہوگیا کہ تاریخ فارسی تو کوئی چیز نہیں مکن ہے کہ تواریخ یا تاریخ قاسمی نام ہو اور اس میں نواب قاسم علی خان کا ذکر ہو جن کو چند سال پہلے 1760 ء میں بنگال، بہار اور اڑیسہ کی مسند نیابت ملی تھی۔ یہ تحسین کے ہمعصر بھی تھے اور ممکن ہے کہ جب تحسین بنگال گئے ہوں تو وہ ان کے مربی بھی رہے ہوں ۔ ضوابط انگریزی بظاہر انگریزی کی گرامر معلوم ہوتی ہےممکن ہے کہ اس میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے کچھ ضوابط وغیرہ درج ہوں، صحیح طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا


252
لبعض قدیم تذکروں اور " نو طرز مرصع‘‘ کے پرانے نسخوں میں کتاب کا نام " انشاء نو طرز مرصع" ہے لیکن بعد کے نسخوں میں صرف نو طرز مرصع باقی رہ گیا ہے۔ بات یہ ہےکہ پرانے زمانے میں انشاء کا لفظ ہر اس شر کے ساتھ استعمال کیا جا تا تھا جس میں اسلوب بیان کی کچھ ندرت ہوتی تھی۔ بعد میں کاتبوں کے سہو سے یا عمداً ناشرین نے یہ لفظ اڑادیا
اور ویسے دیکھئے تو یہ لفظ تھا بھی کچھ بیکارہی کیوں کہ نو طرز مرصع کے معنی ہی میں اسلوب بیان کی طرف واضح اشارہ ملتا ہے۔
”نو طرز مرصع‘ کی تاریخ تدوین کے سلسلے میں ناقدوں اور تذکرہ نویسوں نے بڑی غلطیاں کی ہیں ۔ ڈاکٹر سید سجاد صاحب نے اس کی تصنیف کی صحیح تاریخ دریافت کرنے میں قابل تعریف کاوش کی ہے ان کی تحقیق کا خلاصہ یہ ہے :
آزاد نے اس کا سال تصنیف جیسا کہ اوپر لکھا جا چکا ہے 1798ء قرار دیا تھا۔ چنانچہ بلوم ہارٹ اور بعض تذکرہ نویسوں مثلاً تنها، صاحب گل رعنا اور بیلی وغیرہ نے بھی یہی تسلیم کرلیا لیکن چونکہ چوبیس برس بعد بلوم ہارٹ نے دوبارہ جب اس کتاب کے دیباچے پر نظر ڈالی اور اسے اپنی غلطی نظر آئی تو اس نے انڈیا آفس کی فہرست مخطوطات میں نو طرز مع‘‘ کے باب میں نوٹ بڑھادیا:۔
آزاد کے بیان کے مطابق ( آب حیات ص ۲۴) یہ تصنیف ۱۲۱۳ھ مطابق ١٧٩٨ء میں مکمل ہوئی لیکن غلط ہے کیونکہ مصنف کے دیباچے کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب اس نے شجاع الدولہ کے انتقال کے وقت ( تقریبا۱۷۷۵) ختم کر لی تھی اور آصف الدولہ کے انتقال (۱۷۹۰ء) سے تو بہت پہلے ختم ہو چکی تھی، اس لیے تاریخ تصنيف ١٧٨٠ء کے قریب ہوگی۔ "
یہ بیان آزاد کے بیان سے زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے پھربھی اس میں ایک کمی رہ گئی ہے وہ یہ کہ در حقیقت به استثنا قصيدة مدح آصف الدول خود تحسین کے بیان کے مطابق پوری


253
تصنیف شجاع الدولہ کی وفات (۱٧۷۵ء) سے پہلے ختم ہو چکی تھی بلکہ اس کا شروع کا کچھ حصہ تو بہت پہلے لکھا جا چکا تھا، چونکہ قیام پٹنہ کے زمانے میں یہ کام ملتوی ہوگیا تھا، ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس قصہ کی داغ بیل ١٧٧۵ء سے بہت پہلے پڑ چکی تھی البتہ ختم ١٧٧۵ء سے کچھ پہلے ہوا لیکن شجاع الدولہ کی وفات کی وجہ سے پیش نہ کیا جاسکا اور آصف الدولہ کی تخت نشینی کے بعد ان کی مدح میں قصیدہ بڑھا کر اسے تحسین نے بعد میں پیش کر دیا۔

اب اگر ہم کسی صورت سے یہ پتہ لگائیں کہ تحسین کو کلکتے کا سفرکشتی کے ذریے کب پیش آیا تھا تو اس کے پہلے حصہ کی تاریخ تر تیب صحیح طور پر مرتب کی جاسکتی ہے۔
دیباچے میں تحسین نے ایک انگریز مسمی بہ جنرل اسمتھ کا ذکر کیا ہے جن کے ساتھ یہ کشتی میں کلکتہ گئے۔ یہ جنرل اسمتھ کون تھے اس زمانے میں یہ ہندوستان میں رہے اور کب کلکتے سے انگلستان گئے۔ ان کو خطابات مبارز الملک، افتخار الدولہ ، صولت جنگ کس نے دیے؟ کلکتہ کا سفر انہوں نے کب اور کیوں کیا؟ اگر یہ سب باتیں تاریخ سے معلوم
ہوسکیں تو یہ عقدہ تحسین نے کب یہ قصہ لکھنا شروع کیا حل ہوجائے گا، ڈاکٹر سجاد نے اس
سلسلہ میں بڑی تحقیق اور جستجو اور محنت سے کام لیا ہے اور انڈیا آفس وغیرہ کی لائبریریوں کی
تمام وہ مشہور و مستند کتابیں دیکھ لیں جن میں ان انگریز افسروں کا ذکر ملتا ہے جو ایسٹ انڈیا کمپنی کے عہد میں یہاں ملازم رہے۔ ایک کتاب میں ایک شخص جنرل جوزف اسمتھ کا پتہ چلا جو تقریبا حسین کا ہمعصر تھا لیکن یہ افسر زیادہ تر دکن میں ملازم رہا تھا اور شمالی ہند کی کسی سرکار سے اس کو ہندوستانی خطابات نہیں ملے تھے اس لیے اسے بھی نظرانداز کر دینا پڑا۔ انجام کار انڈیا آفس کے متفرق ریکارڈ کے کاغذات میں ایک دوسرے شخص رچرڈ اسمتھ کا پتہ چلا۔ اس شخص کی زندگی کا بیشتر حصہ شمالی ہند میں خاص کر دہلی اور کلکتے میں گزرا تھا اور شمالی ہند کی سرکاروں سے اسے ہندوستانی خطابات بھی ملے تھے ،مزیدتحقیق سے شاہ عالم کے ایسے خطوط ملے جن میں سے ایک میں اس کا ذکر کرنل اسمتھ بہادر کے نام سے تھا اور
دوسرے میں (جو گورنر فورٹ ولیم کے نام ہے اس کا ذکر مبارز الملک اور صولت جنگ کے

254
خطابات سے ہے اس سے ظاہر ہو گیا کہ یہی جنرل اسمتھ بہادر تھے جن کے ہمراہ تحسین غالباً الہ آباد سے کلکتہ گئے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ سفر کب ہوا تھا تا کہ معلوم ہو جائے کہ صحیح تاریخ "نو طرز مرمع‘‘ کے شروع کرنے کی کیا ہے۔ دیباچے میں تحسین نے اسمتھ کے نام کے ساتھ "جزل“ کا لفظ استعمال کیا ہے جس سے ظاہر ہے کہ اسمتھ نے جزل ہونے کے
بعد کلکتے کا یہ سفر کیا۔ انڈیا آفس کے کاغذات سے معلوم ہوا کہ وہ ۲ نومبر 1768 میں جنرل بنایا گیا تھا لیکن اس سے پہلے کے ان دوخطوں سے جو اسمتھ نے انگلستان لکھے تھے معلوم ہوتا ہے کہ ابتداء میں وہ ۳۴ پیدل دستوں کا کمانڈر تھا اور فوجی افسروں کو اس وقت ہندوستانی لوگ بالعموم جنرل ہی کہتے تھے، اس لیے اگر تحسین نے اس کو واقعی جنرل ہونے
سے پہلے جزل لکھ دیا تو چنداں تعجب کی بات نہیں۔ اسمتھ کے مز ید خطوں سے جو سجاد صاحب
کو یورپین مخطوطات کے ایک پرانے بستے میں بندھے ہوئے ملے یہ پتہ چلا کہ اسمتھ یکم جنوری 1768ء سے ۱۹ ستمبر 1768 ء تک الہ آباد ، پٹنے اور کلکتے میں گھومتا رہا۔ اس سے تحسین کے بیان کی مطابقت ہوگی کہ تحسین اور ان کے ساتھی اس سفر میں گرفتگی دل کے باعث داستانیں سننے سنانے میں اپنا اور سب کا دل خوش کرتے رہے۔
بعض اور خطوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اسمتھ نے غالباً 1769ء کے آخر میں ہندوستان کو خیر باد کہا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب تحسین کلکتے سے پٹنہ آئے اور اسی جرنیل کی سفارش پر مقدمات نظامت کے مختار ہو گئے۔ دیباچے میں اصل عبارت یوں ہے:
بعدازاں جرنیل بہادر نے وقت روانگی ولایت کے اس بنده عاجز کے تئیں کلکتہ سے بہ سرفرازی بعضے خدمات عمدہ صوبہ عظیم آباد کے ومختاری مقدمات نظامت کے امتیاز بخشے‘‘۔
تقریبا ایک یا ڈیڑھ سال پٹنہ میں رہنے کے بعد تحسین فیض آباد آ گئے۔ تاریخ " عماد السعادت " سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ 1772 میں تحسین فیض آباد میں تھے اور کپتان ہار پر کی ملازمت میں تھے۔
اس تمام بحث سے یہ ثابت ہو گیا کہ تحسین نے " نو طرز مرصع " کا ابتدائی حصہ غالباً

255
1768ء کی ابتداء میں لکھنا شروع کیا ہوگا جب کہ انہوں نے سفر گنگا اختیار کیا اور اواخر 1769ء تک لکھا جا تارہا ہوگا جب کہ جنرل اسمتھ کلکتے سے انگلستان چلا گیا اور تحسین کوعظیم آباد میں مختار بنا گیا۔ ڈاکٹر سجاد " نوطرز مرصع " کے دیباچے سے یہ اندازہ لگاتے ہیں کہ سفر کشتی ہی کے درمیان یعنی 19 ستمبر 6817ء تک اس کا ابتدائی حصہ ضرور لکھ لیا ہو گا۔ یہ اندازه آزاد اور بلوم ہارٹ کے اندازوں سے ظاہر ہے کہ بہت زیادہ مستند ہے اب مختصرة
’’نو طرز مرصع " کی تاریخ تصنیف کے متعلق یہ کہا جاسکتا ہے کہ 1768 سے شروع ہوکر 1775ء میں تمام ہوئی اور دو ایک سال بعد بھی عبارتیں اور مدحیہ قصیدے میں شجاع الدولہ کے بجائے آصف الدولہ کا نام لکھ کر ان کے حضور میں پیش کر دی گئی ہوگی۔

نو طرز مرصع کے قصے کا ماخذ

نو طرز مرصع میں چار درویش کا مشہور قصہ ہے ۔ یہ قصہ کہاں سے آیا۔ اس کے متعلق محمود شیرانی نے بڑی تحقیق کی ہے۔ اس جگہ انہیں کی تحقیق کا خلاصہ پیش کیا جا تا ہے ۲ قصہ دراصل پہلے فارسی میں لکھا گیا۔ فارسی کے قدیم مولفین میں سے دو نام ہم کو اب تک معلوم ہو سکے ایک تو حکیم محمد على المخاطب به معصوم علی خاں کا، دوسرے انجب جن کا ذکر مصحفی نے اپنے تذکرہ ’’عقد ثریا‘‘ میں کیا ہے۔ انجب کا قصہ چار درویش اب ناپید ہے۔ بعد کے مولفین میں میر احمد خلف شاہ محمد کی فارسی تالیف زیاد مشہور ہوئی اورکئی بار چھپ کر ملک میں رائج ہوئی لیکن ایک خاص فرق قدیم اور بعد کے مولفین میں یہ ہے کہ قدیمی مولفین کا اسلوب بیان بہت سادہ اور صاف زبان میں ہے اور بعد کے مولفین نے عبارت کو بہت رنگین اور شگفتہ بنادیا ہے۔ میر احمد خلف شاہ محمد کی تالیف کو پہلے قاضی محمد ابراہیم بن قاضی نور محمد نے چھاپا بعد کوشیخ الہی بخش محمد جلال احمد تاجر کتب کثیری بازار، لاہور نے شائع کیا اور یہی نسخہ بہ اختلاف قلیل مطبع محمدی بمبئی نے ۱۳۱۸ھ میں طبع کیا۔ میر احمد خلف شاہ محمد کی اس تالیف میں اس چہار درویش کے قصے کی تصنیف امیر خسرو کے نام منسوب کی گئی ہے۔
" باعث تصنیف این داستان از راز پژوهان اخبار پیشیاں بایں نوع مفہوم گردید
مقدس اس پوسٹ کو نو طرز مرصع دھاگے میں پہنچانا ہے۔ :)
 

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
اوہ آپ نے مجھے اس قابل سمجھا ممنون ہوں ۔ لیکن میں ہمیشہ نہیں کر سکوں گی کبھی مجھے بلکل فرصت نہیں ہوتی کبھی فرصت ہی فرصت ۔ آپ بتائیں کیسے مدد کر سکتی ہوں ۔

بے حد شکریہ فرحین، آپ کی صلاحیتوں سے محفلین ضرور فائدہ اٹھائیں گے۔ آپ بالکل بے فکر رہیے کیونکہ آپ لائبریری میں اپنی سہولت اور فرصت کے مطابق حصہ لے سکتی ہیں ۔:)
 

مومن فرحین

لائبریرین
بے حد شکریہ فرحین، آپ کی صلاحیتوں سے محفلین ضرور فائدہ اٹھائیں گے۔ آپ بالکل بے فکر رہیے کیونکہ آپ لائبریری میں اپنی سہولت اور فرصت کے مطابق حصہ لے سکتی ہیں ۔:)

شکریہ کہہ کر شرمندہ نہ کریں ۔ جی میں حصہ لیتی رہوں گی ۔:act-up:
 
Top