کاشفی
محفلین
غزل
(میلہ رام وفا)
محفل میں اِدھر اور اُدھر دیکھ رہے ہیں
ہم دیکھنے والوں کی نظر دیکھ رہے ہیں
عالم ہے ترے پَرتو رُخ سے یہ ہمارا
حیرت سے ہمیں شمس و قمر دیکھ رہے ہیں
بھاگے چلے جاتے ہیں اِدھر کو تو عجب کیا
رُخ لوگ ہواؤں کا جدھر دیکھ رہے ہیں
ہوگی نہ شبِ غم تو قیامت سے ادھر ختم
ہم شام ہی سے راہ سحر دیکھ رہے ہیں
وعدے پہ وہ آئیں یہ توقع نہیں ہم کو
رہ رہ کے مگر جانبِ در دیکھ رہے ہیں
شکوہ کریں غیروں کا تو کس منہ سے کریں ہم
بدلی ہوئی یاروں کی نظر دیکھ رہے ہیں
شاید کہ اسی میں ہو وفاؔ خیر ہماری
برپا جو یہ ہنگامۂ شر دیکھ رہے ہیں
(میلہ رام وفا)
محفل میں اِدھر اور اُدھر دیکھ رہے ہیں
ہم دیکھنے والوں کی نظر دیکھ رہے ہیں
عالم ہے ترے پَرتو رُخ سے یہ ہمارا
حیرت سے ہمیں شمس و قمر دیکھ رہے ہیں
بھاگے چلے جاتے ہیں اِدھر کو تو عجب کیا
رُخ لوگ ہواؤں کا جدھر دیکھ رہے ہیں
ہوگی نہ شبِ غم تو قیامت سے ادھر ختم
ہم شام ہی سے راہ سحر دیکھ رہے ہیں
وعدے پہ وہ آئیں یہ توقع نہیں ہم کو
رہ رہ کے مگر جانبِ در دیکھ رہے ہیں
شکوہ کریں غیروں کا تو کس منہ سے کریں ہم
بدلی ہوئی یاروں کی نظر دیکھ رہے ہیں
شاید کہ اسی میں ہو وفاؔ خیر ہماری
برپا جو یہ ہنگامۂ شر دیکھ رہے ہیں