زکریا اگر اس bright line کو ہم دیکھتے رہیں تو پھر کچھ بھی نہ لکھ سکیں گے ۔ اب میں آپ کو مثال دیتا ہوں پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ لاہور کی۔
گیارہویں جماعت کے لیے فلسفہ کی کتاب پر ان کاپی رائٹ نوٹس یہ ہیں۔
“ جملہ حقوق بحق پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ لاہور محفوظ ہیں۔ منظور کردہ وفاقی وزارت تعلیم (شعبہ نصاب سازی ) حکومتِ پاکستان ، اسلام آباد۔
اس کتاب کا کوئی حصہ نقل یا ترجمہ نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اسے ٹیسٹ پیپر ، گائیڈ بکس ، خلاصہ جات ، نوٹس یا امدادی کتب کی تیاری میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ “
اب حالت یہ ہے کہ یہ کتاب اب پورے پنجاب میں ڈھونڈتے رہیں ، آپ کو شاید کسی ردی کے ڈھیر ، کسی کتابوں کے شوقین کباڑیہ کی دکان یا اردو بازار کی پرانی کتابوں والی دکان سے مل جائے۔ آخری دفعہ یہ کتاب 2001 میں شائع ہوئی تھی اور 1000 کی تعداد میں۔ چار پانچ سال میں اس کتاب کے 5 نسخے تو میں حاصل کرچکا ہوں ، اب 995 رہ گئے ہوں گے جن میں جانے کتنی کچرے کے ڈھیر کی نذر اور جانے کتنی پھل فروٹ ، شکر قند، چنے ، چھلیوں کی ریڑھیوں میں کھپ گئی ہوں گی۔ بڑی جدوجہد سے مجھے یہ کتاب مل سکی دوبارہ اور اس کے کاپی رائٹ نوٹس کو دیکھ کر سوائے ہنسنے کے میں کچھ نہیں کرسکتا کیوں کہ یہ کتاب کسی کو ملے گی تو وہ اس کی نقل کر سکے گا۔ دوسرا اس کے نوٹس شاید کسی نے خیالی جنت میں بیٹھ کر لکھے تھے۔
“اس کتاب کا کوئی حصہ نقل یا ترجمہ نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اسے ٹیسٹ پیپر ، گائیڈ بکس ، خلاصہ جات ، نوٹس یا امدادی کتب کی تیاری میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ “
اس کتاب کا اگر کوئی حصہ ترجمہ ہو جائے تو کون کیسے پتہ چلائے گا۔ اس اگر امدادی کتب کی تیاری میں استعمال کرلیا جائے تو بھی کون کیسے اس کی تصدیق کرسکتا ہے جبکہ صاف صاف چوری کو ثابت کرنے میں دانتوں پسینہ آجاتا ہے۔
سب سے بڑھ کر اس میں کہیں بھی الیکڑانک شکل میں استعمال کرنے سے نہیں روکا گیا اور صرف اسی سقم سے باآسانی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ دوسرا قانونی پیچیدگیاں اور اتنی ہیں کہ اس کے لیے یہ پوسٹ ناکافی ہے وہ پھر کبھی سہی۔