فرقان احمد
محفلین
کوئی سال پہلے کا واقعہ ہے۔ مصطفیٰ زیدی کا ایک شعر تلاش کرتے ہوئے نیٹ گردی کے دوران ہماری نظر جناب پپو کے ایک مراسلے پر پڑی؛ مراسلے میں تو ایسی کوئی خاص بات نہ تھی تاہم ، ہمیں یک گونہ حیرانی تب ہوئی جب ہم نے دیکھا کہ موصوف پپو (طارق سلیم صاحب) نے اپنے دستخط میں اس شعر کو جگہ دے رکھی ہے۔ شعر کچھ یوں تھا؛
پپو میاں تو جانے کہاں گئے،زمانے کی بھیڑ میں شاید کہیں گم ہو گئے تاہم، ہمارا پسندیدہ شعر ان کے دستخط کی صورت میں آج بھی موجود ہے جس کا تاثر بڑا گہرا ہے؛ خدا جانے،کیوں؟ آج بھی جب کبھی ہم محفل کے ویران اور بے آباد گوشوں کی سیاحت کو جاتے ہیں اور یہ شعر دکھائی پڑ جائے توہمیں وہ دن یاد آ جاتے ہیں جب ہم محفل کا حصہ بنے تھے۔
کیا آپ کے ذہن میں بھی محفل سے جڑی ہوئی ایسی کوئی یاد ہے۔۔۔!
مت پوچھ کہ ہم ضبط کی کس راہ سے گزرے
یہ دیکھ کہ تجھ پر کوئی الزام نہ آیا
یہ دیکھ کہ تجھ پر کوئی الزام نہ آیا
پپو میاں تو جانے کہاں گئے،زمانے کی بھیڑ میں شاید کہیں گم ہو گئے تاہم، ہمارا پسندیدہ شعر ان کے دستخط کی صورت میں آج بھی موجود ہے جس کا تاثر بڑا گہرا ہے؛ خدا جانے،کیوں؟ آج بھی جب کبھی ہم محفل کے ویران اور بے آباد گوشوں کی سیاحت کو جاتے ہیں اور یہ شعر دکھائی پڑ جائے توہمیں وہ دن یاد آ جاتے ہیں جب ہم محفل کا حصہ بنے تھے۔
کیا آپ کے ذہن میں بھی محفل سے جڑی ہوئی ایسی کوئی یاد ہے۔۔۔!