رانا
محفلین
اس دھاگے میں ہم ان خواتین و حضرات سے مخاطب ہیں جنہیں شاعری سے کوئی دور کا بھی علاقہ نہیں۔ کبھی زندگی میں کوئی شعر نہیں کہا کبھی عروض کا کوئی سبق نہیں لیا۔ لیکن اس سب کے باوجود ان میں شاعری کی اصلاح کے ایسے جراثیم چھپے ہوئے ہیں جن تک سیف گارڈ کی ابھی تک رسائی نہیں ہوئی۔ ان سب بھائیوں اور بہنوں کو دعوت دی جاتی ہے کہ ہم وہ مظلوم طبقہ ہیں جنہیں کوئی اصلاح سخن میں گھسنے نہیں دیتا۔ حالانکہ ہمارا بھی دل کرتا ہے کہ شاعرحضرات کے کلام کی اصلاح کرکے ادب کی خدمت میں اپنا حصہ ڈالیں۔ لہٰذا ہم نے گیارہویں سالگرہ پر یہ فیصلہ کیا ہے کہ اگر ہمیں کوئی اصلاح سخن میں گھسنے نہیں دیتا تو کوئی بات نہیں۔ ہم محفل کے شاعروں کو کھینچ کر اس دھاگے میں لائیں گے اور پھر جیسا دل کرے گا ان کی غزلوں پر من چاہی صلاح دیں گے۔
تو وہ سب صاحبان جنہیں شاعری کا کچھ پتہ نہیں وہ اس دھاگے میں آئیں اور اپنی مرضی سے کسی بھی شاعر کی کسی بھی غزل پر اصلاح فرما کر عنداللہ ماجور ہوں۔
تو سب سے پہلے اس انجمن اصلاح کاراں کے صدر نشین کی حیثیت سے ہم ہی ایک شاعر کو یہاں پکڑ کر لاتے ہیں۔ وہ ہیں جناب راحیل فاروق صاحب۔ ان کی درج زیل غزل پر ہمیں شدت سے اصلاح کی ضرورت محسوس ہورہی ہے۔
لے کر یہ محبت کے آزار کدھر جائیں؟
سر پھوڑ کے مر جائیں؟ سرکار، کدھر جائیں؟
بھائی یہ پہلا مصرعہ تو ہر کس و ناکس کو سمجھ میں ہی نہیں آسکتا۔ کس محبت کے ازار کی بات ہورہی ہے۔ یہاں حیدری مارکیٹ میں جو بڑے میاں ازاروں کے بنڈل لئے گھوم رہے ہوتے ہیں ان کا نام تو محبت ہو نہیں سکتا۔ اگر ہو بھی تو آپ کو حیدری مارکیٹ سے کیا سروکار۔ کہاں پنجاب اور کہاں کراچی کی حیدری مارکیٹ۔ اور یہ ازار کے الف پر مد کیوں لگادی۔ کیا سستا ازار لے لیا تھا؟ سستے ازار معمول سے زیادہ لمبے ہوتے ہیں کہ مد لگانی پڑے۔ اس مصرعے کو ایسے کردیں۔
لے کر یہ سستے سے ازار کدھر جائیں؟
سر پھوڑ کے مرجائیںَ سرکار، کدھر جائیں؟
ہاں یہ ٹھیک ہے۔ سستے سے ازار جب بیچ بازار میں دھوکا دے جائیں تو بندے کو پہلا خیال یہی آتا ہے کہ سر پھوڑ کے مرجائیں۔۔۔ا ب سمجھ میں بھی آرہا ہے اور پہلے مصرعے کا دوسرے سے لنک بھی بن رہا ہے۔
بیٹھیں تو کہاں بیٹھیں اس کوئے ملامت میں؟
اٹھ جائیں تو ہم اہلِ پندار کدھر جائیں؟
یہ کوئے ملامت کونسی جگہ ہے؟ اور یہ اہل پندار کا کیا مطلب ہوتا ہے؟ پہلے ان کی وضاحت کریں پھر ہم اس شعر پر اصلاح فرمائیں گے۔
مانا کہ مسیحا کو ہیں اور ہزاروں کام
یہ بھی تو کہو کوئی، بیمار کدھر جائیں؟
بھائی پہلی بات تو یہ کہ عام لوگ مسیحا کا لفظ اب استعمال نہیں کرتے۔ اس کا استعمال متروک ہوچکا ہے۔ اگر آپ نے بڑا شاعرواعر بننا ہے تو متروک الفاظ استعمال کرنے سے پرہیز کیجئے۔ اب لفظ ڈاکٹر استعمال ہوتا ہے۔ کاش آپ کچھ دن ہماری صحبت میں رہے ہوتے تو متروک اور مروج الفاظ ہی سیکھ جاتے۔ اب بھی کچھ نہیں بگڑا۔ فاتح بھائی بھی اتنی بڑی عمر میں ہماری شاگردی میں آئے تھے اب دیکھیں کیسے پٹر پٹر شعر کہتے پھرتے ہیں۔ ہاں تو مصرعہ کچھ یوں بنے گا
مانا کہ ڈاکٹر کو ہیں او ر ہزاروں کام
یہ بھی تو کہو کوئی، بیمار کدھر جائیں؟
دوسرا مصرعہ کچھ گڑ بڑ کررہا ہے۔ یہ ایسے ظاہر کررہا ہے جیسے ہمارے لوگوں کو یہ بھی نہیں پتہ کہ ڈاکٹر مصروف ہو تو کہاں جایا جائے۔ حالانکہ سب کو پتہ ہے کہ پھر کمپاؤنڈر کے پاس جاتے ہیں۔ وہ مصروف ہو تو سیدھا میڈیکل اسٹور والے کو علامات بتا کر دوائی لے لی جاتی ہے۔ اس مصرعے کو تبدیل کرنا پڑے گا۔ اب شعر کچھ یوں بنے گا۔
مانا کہ ڈاکٹر کو ہیں اور ہزاروں کام
بیٹا تو پھر کیوں نہ ہم کمپونڈر کے پاس جائیں؟
اب ٹھیک ہے۔ سمجھ میں تو آرہا ہے نا۔ ۔۔ وزن کچھ گڑبڑ کرگیا ہے وہ تو امید ہے آپ ٹھیک کرہی لیں گے۔۔۔ اب ہم اصلاح کے ساتھ وزن بھی ٹھیک کرتے پھریں۔۔۔ کتنی بُری بات ہے۔
یہ کرب، یہ سناٹا، یہ رنگ کی ننگی لاش
لالے تو گئے صاحب! گلزار کدھر جائیں؟
توبہ توبہ توبہ کتنا فحش شعر ہے۔ ننگی لاش وہ بھی رنگ کی اور سناٹے میں۔ اسے بدلیں فورا ۔۔۔ آپ تو منٹو کے قدموں پر چلنے کی کوشش کررہے ہیں۔ چھی چھی ۔۔۔
اندھوں کو بتا دینا، باہر بھی اندھیرے ہیں
بے فائدہ کیا گھومیں؟ بے کار کدھر جائیں؟
ذرا پہلے مصرعے کی فاش غلطی ملاحظہ فرمائیں۔ بھائی جان اندھوں کو یہ بتانے کا کیا فائدہ کہ باہر اندھیرا ہے!!! بھائی اندر باہر جتنی بھی روشنی بھی ہو اس بیچارے کے لئے تو اندھیرا ہی ہےنا۔ آپ کسی اندھے کو یہ بتا کر تو دیکھیں کہ بھائی باہر مت جانا اندھیرا ہے گر پڑو گے۔۔۔ پھر دیکھیں وہ کیسی آپ کی عزت افزائی کرتا ہے۔ ۔۔ بہرحال یہ مصرعہ بدلیں فورا سے پیشتر۔ لوگ کیا کہیں گے اس شاعر کو بنیادی باتیں بھی نہیں پتہ۔۔۔ پہلے آپ مصرعہ نیا بنائیں پھر ہم دوسرےمصرعے کی اصلاح کریں گے۔
کس اینٹ پہ سر پٹکیں؟ کس در پہ کریں گریہ؟
راحیل ؔ بتا، تیرے غم خوار کدھر جائیں؟
یہ شعر بالکل ٹھیک ہے ہمارے جذبات کی مکمل ترجمانی کررہا ہے۔ توبہ توبہ اتنی غلطیاں ایک غزل میں۔ ہم کس در پہ جاکر گریہ کریں۔۔ کس اینٹ سے سر پھوڑیں ۔۔ کہاں تک اصلاح کریں ۔۔۔ بتا اے راحیل تیرا یہ غمخوار صلاح کار کدھر جائے۔ خیر کوئی بات نہیں فاتح بھائی کو بھی نکھارا تھا اب آپ کو بھی نکھاریں گے۔ بس اپنی نئی غزلیں پوسٹ کرنے سے پہلے چھپر میں ہمارے پاس آکراصلاح لے لیا کیجئے ہم کسی کو نہیں بتائیں گے کہ آپ کو نکھارنے میں ہمارا ہاتھ ہے۔ فاتح بھائی سے پوچھ لیں کبھی ہم نے محفل پر بھولے سے بھی ذکر کیا کہ ان کی ہر نئی غزل محفل پر آنے سے پہلے ہمارے زیر غور رہتی ہے۔ آجکل کیوں وہ نئی غزلیں نہیں لکھ رہے؟؟؟ وجہ یہی کہ ہم ذرا مصروف زیادہ ہوگئے ہیں اس لئے ان کی نئی غزلوں کو وقت نہیں دے پارہے ورنہ وہ بےچارے تو پورا پلندہ لئے کتنے ہی چکر لگاچکے ہماری طرف لیکن ہائے ری ہماری مصروفیت۔
اب دیگر محفلین سےگزارش ہے کہ اپنی مرضی کے کسی بھی شاعر کی غزل اٹھا کر یہاں اس علاقہ غیر میں لے آئیں۔ کوئی یہاں دم نہیں مارسکتا۔ پھر جی بھر کر جیسے چاہیں صلاح دیں۔
تو وہ سب صاحبان جنہیں شاعری کا کچھ پتہ نہیں وہ اس دھاگے میں آئیں اور اپنی مرضی سے کسی بھی شاعر کی کسی بھی غزل پر اصلاح فرما کر عنداللہ ماجور ہوں۔
تو سب سے پہلے اس انجمن اصلاح کاراں کے صدر نشین کی حیثیت سے ہم ہی ایک شاعر کو یہاں پکڑ کر لاتے ہیں۔ وہ ہیں جناب راحیل فاروق صاحب۔ ان کی درج زیل غزل پر ہمیں شدت سے اصلاح کی ضرورت محسوس ہورہی ہے۔
لے کر یہ محبت کے آزار کدھر جائیں؟
سر پھوڑ کے مر جائیں؟ سرکار، کدھر جائیں؟
بھائی یہ پہلا مصرعہ تو ہر کس و ناکس کو سمجھ میں ہی نہیں آسکتا۔ کس محبت کے ازار کی بات ہورہی ہے۔ یہاں حیدری مارکیٹ میں جو بڑے میاں ازاروں کے بنڈل لئے گھوم رہے ہوتے ہیں ان کا نام تو محبت ہو نہیں سکتا۔ اگر ہو بھی تو آپ کو حیدری مارکیٹ سے کیا سروکار۔ کہاں پنجاب اور کہاں کراچی کی حیدری مارکیٹ۔ اور یہ ازار کے الف پر مد کیوں لگادی۔ کیا سستا ازار لے لیا تھا؟ سستے ازار معمول سے زیادہ لمبے ہوتے ہیں کہ مد لگانی پڑے۔ اس مصرعے کو ایسے کردیں۔
لے کر یہ سستے سے ازار کدھر جائیں؟
سر پھوڑ کے مرجائیںَ سرکار، کدھر جائیں؟
ہاں یہ ٹھیک ہے۔ سستے سے ازار جب بیچ بازار میں دھوکا دے جائیں تو بندے کو پہلا خیال یہی آتا ہے کہ سر پھوڑ کے مرجائیں۔۔۔ا ب سمجھ میں بھی آرہا ہے اور پہلے مصرعے کا دوسرے سے لنک بھی بن رہا ہے۔
بیٹھیں تو کہاں بیٹھیں اس کوئے ملامت میں؟
اٹھ جائیں تو ہم اہلِ پندار کدھر جائیں؟
یہ کوئے ملامت کونسی جگہ ہے؟ اور یہ اہل پندار کا کیا مطلب ہوتا ہے؟ پہلے ان کی وضاحت کریں پھر ہم اس شعر پر اصلاح فرمائیں گے۔
مانا کہ مسیحا کو ہیں اور ہزاروں کام
یہ بھی تو کہو کوئی، بیمار کدھر جائیں؟
بھائی پہلی بات تو یہ کہ عام لوگ مسیحا کا لفظ اب استعمال نہیں کرتے۔ اس کا استعمال متروک ہوچکا ہے۔ اگر آپ نے بڑا شاعرواعر بننا ہے تو متروک الفاظ استعمال کرنے سے پرہیز کیجئے۔ اب لفظ ڈاکٹر استعمال ہوتا ہے۔ کاش آپ کچھ دن ہماری صحبت میں رہے ہوتے تو متروک اور مروج الفاظ ہی سیکھ جاتے۔ اب بھی کچھ نہیں بگڑا۔ فاتح بھائی بھی اتنی بڑی عمر میں ہماری شاگردی میں آئے تھے اب دیکھیں کیسے پٹر پٹر شعر کہتے پھرتے ہیں۔ ہاں تو مصرعہ کچھ یوں بنے گا
مانا کہ ڈاکٹر کو ہیں او ر ہزاروں کام
یہ بھی تو کہو کوئی، بیمار کدھر جائیں؟
دوسرا مصرعہ کچھ گڑ بڑ کررہا ہے۔ یہ ایسے ظاہر کررہا ہے جیسے ہمارے لوگوں کو یہ بھی نہیں پتہ کہ ڈاکٹر مصروف ہو تو کہاں جایا جائے۔ حالانکہ سب کو پتہ ہے کہ پھر کمپاؤنڈر کے پاس جاتے ہیں۔ وہ مصروف ہو تو سیدھا میڈیکل اسٹور والے کو علامات بتا کر دوائی لے لی جاتی ہے۔ اس مصرعے کو تبدیل کرنا پڑے گا۔ اب شعر کچھ یوں بنے گا۔
مانا کہ ڈاکٹر کو ہیں اور ہزاروں کام
بیٹا تو پھر کیوں نہ ہم کمپونڈر کے پاس جائیں؟
اب ٹھیک ہے۔ سمجھ میں تو آرہا ہے نا۔ ۔۔ وزن کچھ گڑبڑ کرگیا ہے وہ تو امید ہے آپ ٹھیک کرہی لیں گے۔۔۔ اب ہم اصلاح کے ساتھ وزن بھی ٹھیک کرتے پھریں۔۔۔ کتنی بُری بات ہے۔
یہ کرب، یہ سناٹا، یہ رنگ کی ننگی لاش
لالے تو گئے صاحب! گلزار کدھر جائیں؟
توبہ توبہ توبہ کتنا فحش شعر ہے۔ ننگی لاش وہ بھی رنگ کی اور سناٹے میں۔ اسے بدلیں فورا ۔۔۔ آپ تو منٹو کے قدموں پر چلنے کی کوشش کررہے ہیں۔ چھی چھی ۔۔۔
اندھوں کو بتا دینا، باہر بھی اندھیرے ہیں
بے فائدہ کیا گھومیں؟ بے کار کدھر جائیں؟
ذرا پہلے مصرعے کی فاش غلطی ملاحظہ فرمائیں۔ بھائی جان اندھوں کو یہ بتانے کا کیا فائدہ کہ باہر اندھیرا ہے!!! بھائی اندر باہر جتنی بھی روشنی بھی ہو اس بیچارے کے لئے تو اندھیرا ہی ہےنا۔ آپ کسی اندھے کو یہ بتا کر تو دیکھیں کہ بھائی باہر مت جانا اندھیرا ہے گر پڑو گے۔۔۔ پھر دیکھیں وہ کیسی آپ کی عزت افزائی کرتا ہے۔ ۔۔ بہرحال یہ مصرعہ بدلیں فورا سے پیشتر۔ لوگ کیا کہیں گے اس شاعر کو بنیادی باتیں بھی نہیں پتہ۔۔۔ پہلے آپ مصرعہ نیا بنائیں پھر ہم دوسرےمصرعے کی اصلاح کریں گے۔
کس اینٹ پہ سر پٹکیں؟ کس در پہ کریں گریہ؟
راحیل ؔ بتا، تیرے غم خوار کدھر جائیں؟
یہ شعر بالکل ٹھیک ہے ہمارے جذبات کی مکمل ترجمانی کررہا ہے۔ توبہ توبہ اتنی غلطیاں ایک غزل میں۔ ہم کس در پہ جاکر گریہ کریں۔۔ کس اینٹ سے سر پھوڑیں ۔۔ کہاں تک اصلاح کریں ۔۔۔ بتا اے راحیل تیرا یہ غمخوار صلاح کار کدھر جائے۔ خیر کوئی بات نہیں فاتح بھائی کو بھی نکھارا تھا اب آپ کو بھی نکھاریں گے۔ بس اپنی نئی غزلیں پوسٹ کرنے سے پہلے چھپر میں ہمارے پاس آکراصلاح لے لیا کیجئے ہم کسی کو نہیں بتائیں گے کہ آپ کو نکھارنے میں ہمارا ہاتھ ہے۔ فاتح بھائی سے پوچھ لیں کبھی ہم نے محفل پر بھولے سے بھی ذکر کیا کہ ان کی ہر نئی غزل محفل پر آنے سے پہلے ہمارے زیر غور رہتی ہے۔ آجکل کیوں وہ نئی غزلیں نہیں لکھ رہے؟؟؟ وجہ یہی کہ ہم ذرا مصروف زیادہ ہوگئے ہیں اس لئے ان کی نئی غزلوں کو وقت نہیں دے پارہے ورنہ وہ بےچارے تو پورا پلندہ لئے کتنے ہی چکر لگاچکے ہماری طرف لیکن ہائے ری ہماری مصروفیت۔
اب دیگر محفلین سےگزارش ہے کہ اپنی مرضی کے کسی بھی شاعر کی غزل اٹھا کر یہاں اس علاقہ غیر میں لے آئیں۔ کوئی یہاں دم نہیں مارسکتا۔ پھر جی بھر کر جیسے چاہیں صلاح دیں۔
آخری تدوین: