الف نظامی

لائبریرین
آئینِ اکبری کے خطاط
محمد حسین کشمیری زریں رقم
خطِ نستعلیق میں انہیں بلند مقام حاصل تھا
تاریخ اسلام ایسے قابل ہنرمندوں سے بھری ہوئی ہے جن کا ذکر سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے۔ ہمارے وہ تمام حلقے جو اسلام کو بطور دین بہت پسند کرتے ہیں وہ بھی اسلام کے ثقافتی اور فنی سلسلے سے مکمل بے بہرہ ہیں اور یہ ہماری بے بسی ہے کہ انگریزوں نے اپنے ڈیڑھ سو سالہ اقتدار میں ہم سے سب کچھ چھین لیا ہے۔
محمد حسین زریں قم ایک بہت بڑا نام ہے۔ زریں قلم اپنے عہد کے نامور خطاط تھے۔ یہ بادشاہ ہمایوں کے ساتھ ساتھ رہے اور ہمایوں انہیں بہت پسند کرتا تھا۔ زریں قلم کے فن پارے اسلامی خطاطی کا بہت گراں قدر اثاثہ ہے۔ یہ ہفت قلم خطاط تھے۔ انہوں نے نہ صرف برصغیر بلکہ ایران سے بھی خطاطی کی تربیت حاصل کی تھی اور خط ثلث ، نسخ ، طغرا میں بھی کمال حاصل کیا تھا۔ روایت کے مطابق مسجد دائی انگہ لاہور میں بھی اُن کی خطاطی موجود ہے۔
محمد حسین زریں قلم نے ابتدائی تربیت مولانا عبد العزیز سے دہلی میں حاصل کی جو اپنے عہد کے نامور خطاط تھے۔ مولانا عبد العزیز نہ صرف خطاطی بلکہ عربی انشا میں بھی کمال مہارت رکھتے تھے اور ساتھ ہی وہ شعر و ادب سے بھی شغف رکھتے تھے۔ اس لیے اپنے فن پاروں میں ایسے الفاظ بکثرت استعمال کرتے تھے جن میں دائرے اور کشش بکثرت ہوتے تھے۔ اس لیے انہیں" معجز نگار" کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ چناچہ زریں قلم نے ان سے خطاطی کی تربیت لی اور ابتدائی تربیت حاصل کرنے کے بعد ایوان کا رخ کیا جو اُس دور میں بھی خطاطی اور علم و فن کا گہوارہ تھا۔ جہاں پر علی تبریزی اور سلطان علی مشہدی کے ایک نامور شاگرد ملاں میر علی کا بہت چرچا تھا اور اصفہان میں ان کی نشست گاہ کے باہر دور دراز سے خطاطی سیکھنے والوں کا ایک جم غفیر رہتا تھا۔چناچہ محمد حسین کشمیری نے اُن سے باقاعدہ خطاطی کی اصلاح کی درخواست کی جو منظور کر لی گئی اور زریں قلم کے سامنے حسن خط کا ایک نیا دروازہ کھل گیا۔ الفاظ و حروف ریشم کی طرح ملائم ہونے لگے۔ محمد حسین کا قلم واقعی زریں قلم بننے لگا۔
زریں قلم نے اصفہان میں موجود ماہرین سے آبِ زر یعنی سونے کے پانی سے لکھائی کا طریقہ بھی سیکھا اور روشنائی بنانے ، وصلی بنانے کے طریقے بھی سیکھے۔
اس طرح روایات کے مطابق انہوں نے مینا توری آرٹ میں نقاشی کے فن میں مہارت حاصل کی اور وہ یوں وہاں ہمایوں سے ملے جو ان دنوں ایران میں موجود تھا اور دوبارہ ہندوستان کا تخت حاصل کرنے کی کوششیں کر رہا تھا چناچہ جب ہمایوں واپس لشکر کے ساتھ ہندوستان آیا تو محمد حسین زریں قلم بھی ہمراہ تھے۔ ہمایوں کے بعد اکبر جب تخت نشین ہوا تو اُس نے بھی زریں قلم کی قدر دانی کی انتہا کر دی اور اُن کے فن پاروں کو نہ صرف امرا کو عنایت کرتا تھا بلکہ بیرونی ممالک سے آنے والے مہمانوں کو بھی بطور تحفہ دیا کرتا تھا۔
جن دنوں اکبر نے ابوالفضل اور فیضی سے اپنا علیحدہ آئین ، آئین اکبری نکالا تو اُس کی کتابت کا فریضہ بھی محمد حسین کشمیری زریں قلم کے سپرد کیا جو انہوں نے خوب نبھایا اور ایسا نستعلیق خط لکھا کہ دیکھنے والے حیران رہ گئے۔ اس کتاب میں معروف مصوروں بہزاد اور مانی کی خدمات بھی حاصل کی گئیں کہ جنہوں نے ایسی حیرت انگیز تصویریں بنائیں کہ یہ کتاب حسن و جمال کا مرقع بن گئی اور اُس دور میں اس کتاب کی تیاری پر تین لاکھ روپے خرچ ہوئے۔ یہ اتنی زیادہ رقم تھی کہ ایک طویل عرصہ بعد جب اورنگزیب عالمگیر نے شاہی مسجد بنوائی تو اُس پر ایک لاکھ روپے خرچ ہوئے جس سے آپ اخراجات کا خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔
مغلوں کے زوال کے بعد یہ نسخہ کسی نے قلعہ دہلی سے چوری کر کے کسی چینی کو صرف دس ہزار روپے میں فروخت کر دیا تھا۔ انگریزوں کو معلوم ہوا تو بہت تگ و دو اور طاقت کے استعمال سے یہ نسخہ انہوں نے حاصل کیا اور لندن میں برٹش میوزیم میں رکھوا دیا۔
محمد حسین کشمیری زریں قلم سے کثیر تعداد میں خطاطوں نے تربیت حاصل کی۔ ان کا ایک مخطوطہ "ہفت بند" کاشی لٹن لائبریری علی گڑھ میں محفوظ ہے جو مطلا ہے اور خط نستعلیق میں لکھا گیا ہے۔
محمد حسین کشمیری زریں قلم نے 1614ء میں وفات پائی اور آگرہ میں دفن ہوئے۔
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
نظامی صاحب! یہ پھول نے کوئی ’خطاطی نمبر‘ شائع کیا ہے بھلا؟
ماہنامہ پھول کے ہر شمارے میں ایک مضمون کسی خطاط کےتعارف پر مبنی ہوتا ہے جو خورشید عالم گوہر قلم تحریر کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ پھول خطاطی کلاس کے نام سے بھی ایک مستقل سلسلہ ہے۔
 

فلک شیر

محفلین
ماہنامہ پھول کے ہر شمارے میں ایک مضمون کسی خطاط کےتعارف پر مبنی ہوتا ہے جو خورشید عالم گوہر قلم تحریر کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ پھول خطاطی کلاس کے نام سے بھی ایک مستقل سلسلہ ہے۔
بہت اچھا سلسلہ ہے یہ تو.......
انشاءاللہ سکول کی لائبریری کے لیے لگواتے ہیں پھر اور گھرکے لیے بھی
 

الف نظامی

لائبریرین
آئینِ اکبری کے خطاط
محمد حسین کشمیری زریں رقم
خطِ نستعلیق میں انہیں بلند مقام حاصل تھا
تاریخ اسلام ایسے قابل ہنرمندوں سے بھری ہوئی ہے جن کا ذکر سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے۔ ہمارے وہ تمام حلقے جو اسلام کو بطور دین بہت پسند کرتے ہیں وہ بھی اسلام کے ثقافتی اور فنی سلسلے سے مکمل بے بہرہ ہیں اور یہ ہماری بے بسی ہے کہ انگریزوں نے اپنے ڈیڑھ سو سالہ اقتدار میں ہم سے سب کچھ چھین لیا ہے۔
محمد حسین زریں قم ایک بہت بڑا نام ہے۔ زریں قلم اپنے عہد کے نامور خطاط تھے۔ یہ بادشاہ ہمایوں کے ساتھ ساتھ رہے اور ہمایوں انہیں بہت پسند کرتا تھا۔ زریں قلم کے فن پارے اسلامی خطاطی کا بہت گراں قدر اثاثہ ہے۔ یہ ہفت قلم خطاط تھے۔ انہوں نے نہ صرف برصغیر بلکہ ایران سے بھی خطاطی کی تربیت حاصل کی تھی اور خط ثلث ، نسخ ، طغرا میں بھی کمال حاصل کیا تھا۔ روایت کے مطابق مسجد دائی انگہ لاہور میں بھی اُن کی خطاطی موجود ہے۔
محمد حسین زریں قلم نے ابتدائی تربیت مولانا عبد العزیز سے دہلی میں حاصل کی جو اپنے عہد کے نامور خطاط تھے۔ مولانا عبد العزیز نہ صرف خطاطی بلکہ عربی انشا میں بھی کمال مہارت رکھتے تھے اور ساتھ ہی وہ شعر و ادب سے بھی شغف رکھتے تھے۔ اس لیے اپنے فن پاروں میں ایسے الفاظ بکثرت استعمال کرتے تھے جن میں دائرے اور کشش بکثرت ہوتے تھے۔ اس لیے انہیں" معجز نگار" کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ چناچہ زریں قلم نے ان سے خطاطی کی تربیت لی اور ابتدائی تربیت حاصل کرنے کے بعد ایوان کا رخ کیا جو اُس دور میں بھی خطاطی اور علم و فن کا گہوارہ تھا۔ جہاں پر علی تبریزی اور سلطان علی مشہدی کے ایک نامور شاگرد ملاں میر علی کا بہت چرچا تھا اور اصفہان میں ان کی نشست گاہ کے باہر دور دراز سے خطاطی سیکھنے والوں کا ایک جم غفیر رہتا تھا۔چناچہ محمد حسین کشمیری نے اُن سے باقاعدہ خطاطی کی اصلاح کی درخواست کی جو منظور کر لی گئی اور زریں قلم کے سامنے حسن خط کا ایک نیا دروازہ کھل گیا۔ الفاظ و حروف ریشم کی طرح ملائم ہونے لگے۔ محمد حسین کا قلم واقعی زریں قلم بننے لگا۔
زریں قلم نے اصفہان میں موجود ماہرین سے آبِ زر یعنی سونے کے پانی سے لکھائی کا طریقہ بھی سیکھا اور روشنائی بنانے ، وصلی بنانے کے طریقے بھی سیکھے۔
اس طرح روایات کے مطابق انہوں نے مینا توری آرٹ میں نقاشی کے فن میں مہارت حاصل کی اور وہ یوں وہاں ہمایوں سے ملے جو ان دنوں ایران میں موجود تھا اور دوبارہ ہندوستان کا تخت حاصل کرنے کی کوششیں کر رہا تھا چناچہ جب ہمایوں واپس لشکر کے ساتھ ہندوستان آیا تو محمد حسین زریں قلم بھی ہمراہ تھے۔ ہمایوں کے بعد اکبر جب تخت نشین ہوا تو اُس نے بھی زریں قلم کی قدر دانی کی انتہا کر دی اور اُن کے فن پاروں کو نہ صرف امرا کو عنایت کرتا تھا بلکہ بیرونی ممالک سے آنے والے مہمانوں کو بھی بطور تحفہ دیا کرتا تھا۔
جن دنوں اکبر نے ابوالفضل اور فیضی سے اپنا علیحدہ آئین ، آئین اکبری نکالا تو اُس کی کتابت کا فریضہ بھی محمد حسین کشمیری زریں قلم کے سپرد کیا جو انہوں نے خوب نبھایا اور ایسا نستعلیق خط لکھا کہ دیکھنے والے حیران رہ گئے۔ اس کتاب میں معروف مصوروں بہزاد اور مانی کی خدمات بھی حاصل کی گئیں کہ جنہوں نے ایسی حیرت انگیز تصویریں بنائیں کہ یہ کتاب حسن و جمال کا مرقع بن گئی اور اُس دور میں اس کتاب کی تیاری پر تین لاکھ روپے خرچ ہوئے۔ یہ اتنی زیادہ رقم تھی کہ ایک طویل عرصہ بعد جب اورنگزیب عالمگیر نے شاہی مسجد بنوائی تو اُس پر ایک لاکھ روپے خرچ ہوئے جس سے آپ اخراجات کا خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔
مغلوں کے زوال کے بعد یہ نسخہ کسی نے قلعہ دہلی سے چوری کر کے کسی چینی کو صرف دس ہزار روپے میں فروخت کر دیا تھا۔ انگریزوں کو معلوم ہوا تو بہت تگ و دو اور طاقت کے استعمال سے یہ نسخہ انہوں نے حاصل کیا اور لندن میں برٹش میوزیم میں رکھوا دیا۔
محمد حسین کشمیری زریں قلم سے کثیر تعداد میں خطاطوں نے تربیت حاصل کی۔ ان کا ایک مخطوطہ "ہفت بند" کاشی لٹن لائبریری علی گڑھ میں محفوظ ہے جو مطلا ہے اور خط نستعلیق میں لکھا گیا ہے۔
محمد حسین کشمیری زریں قلم نے 1614ء میں وفات پائی اور آگرہ میں دفن ہوئے۔
 
آخری تدوین:

تلمیذ

لائبریرین
نہایت معلوماتی اور تحقیقی مضامین کا سلسلہ ہے۔ نظامی صاحب ہمیں پڑھوانے کے لئے شکریہ۔
ادارہ 'پھول' بعد میں ان مضامین کو کتاب کی صورت میں بھی یقیناً چھاپیں گے۔
 
Top