ہمارا پیش لفظ ذیل میں پڑھیے!
پیش لفظ
محمد خلیل الرحمٰن
حفیظ نے اب تک بہت کم غزلیں کہی ہیں، لیکن کسی بھی صاحبِ طرز شاعر کی طرح اس کی غزلوں پر اس کی چھاپ موجود ہے۔ یہ خود ایک ناسٹالجیا کا مارا شاعر ہے۔ اس نے اپنی یوٹوپیا الگ بنا لی ہے جِس میں ناسٹالجیا اور سریلزم کے حسین امتزاج نے ایک عجیب خوابناک سی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ ناسٹالجیا ایک لا علاج مرض کی طرح اس سے چمٹا ہوا ہے اور سُریلزم اس کے پسندیدہ افسانہ نگاروں انتظار حسین، نیر مسعود اور گیبرئیل گارشیا مارکیز کے افسانوں سے اس کی شاعری میں در آیا ہے۔ حال کی عشقیہ و دیگر خارجی وارداتیں اس کے ذہن پر کوئی تاثر نہیں چھوڑتیں۔ یہ گزشتہ داخلی وارداتوں کی افسردہ یادوں کے گرد سُریلزم کے تانے بانے بن کر غزل کہتا ہے۔
نجانے کِس کو دو عالم میں ڈھونڈتی ہے نظر
نجانے کون یہاں چھپ گیا بُلا کے مجھے
ہمراہ مرے رہا ہے تُو بھی
خوابوں کے طویل سلسلے میں
ممکن ہے لوٹ آئے گیا وقت ایک دن
دیتا ہے دھیان کون اِس اِمکان کی طرف
حفیظ کی انٹروورٹ طبیعت کے پس منظر میں یہ بات قطعاً عجیب نہیں لگتی کہ حفیظ کی شاعری میں روایتی محبوب کے عشوہ و غمزہ و ادا کے قصے یا اس کے عارض و لب کے تذکرے خال ہی ملتے ہیں۔ اس کے علاوہ روایتی شاعری کا جانا پہچانا رقیبِ رو سیاہ بھی نہیں نظر آتا۔ بس محبوب کے بچھڑنے کا دکھ اور اس سے ملاقات کا شوق شاعر کی داخلی واردات کے طور پر ضرور نظر آتا ہے۔ وہ جب بھی اپنے ارد گرد پھیلے ہوئے ماحول پر اِک نظرِ غلط ڈالتا ہے اسے لوگوں کے دلوں کا کھوٹ، ان کے برے روئیے لیکن ساتھ ساتھ کائنات میں پھیلی ہوئی فطری مناظر کی سچائی نظر آتی ہے۔
جو ترے آستاں سے اٹھتا ہے
رنگ و بو کے جہاں سے اٹھتا ہے
منزلیں اس غبار میں گم ہیں
جو ترے کارواں سے اٹھتا ہے
طلب کے واسطے حسنِ طلب بھی ہے درکار
طریقے آئیں گے کب عرض مُدّعا کے مجھے
تھپیڑے لو کے بھی جھونکے لگے صبا کے مجھے
جو اُس نے یاد کیا مدتوں، بھلا کے مجھے
جو اُس کے ساتھ نہ گزریں وہ پل سزا ہی تو ہیں
گزارنے ہیں مہ و سال اِس سزا کے مجھے
افسردہ ماحول اس کے اشعار میں رچا بسا ہے
چاندنی بہہ رہی ہے ہر جانِب
چاند شاید پِگھل رہا ہو گا
آنکھوں کو طراوٹ بھی ملے گی تو انہی سے
سایہ بھی ہمیں یہ گھنے اشجار ہی دیں گے
پھر چلنے لگی ہوائے صحرا
دل ڈوب رہا ہے وسوسے میں
اے ابرِ بہار اب نہ ترسا
برداشت کہاں ہے دل جلے میں
محفوظ ہے تیری ہر نشانی
برگد کے اُسی کھوکھلے تنے میں
پانی ہمیشہ بہتا ہے ڈھلوان کی طرف
کوہِ بلند و بالا سے میدان کی طرف
یوں رات کے سناٹے میں اگر جاگ اٹھا دل کا درد تو کیا
تم نامِ خدا کا ورد کرو آ جائے گا آرام میاں
پھر جوں ہی وہ اس ماحول میں آنکھیں کھول کر اپنی سُریلزم کی عینک لگاتا ہے ہمیں فوراً احساس دلاتا ہے،
بکھرے ہیں دھنک کے رنگ سارے
صابن کے ذرا سے بُلبلے میں
جنگل میں بس ایک ہی رستہ جس پر بیٹھا کالا ناگ
پاؤں تو ہو گئے من من بھر کے، چھیڑو بین پہ کوئی راگ
تمام رات تو ہمراہ تھیں تری یادیں
گُزر گئی جو شبِ غم، میں ہو گیا تنہا
فلک پر چاندنی ہے اور ستارے رقص کرتے ہیں
کسی کے حکم پر سارے کے سارے رقص کرتے ہیں
نہ جانے آج کیسی لہر اس کے دل میں اٹھی ہے
سمندر جھومتا ہے اور کنارے رقص کرتے ہیں
یقیں ہے بزمِ انجم کا کوئی تو ایسا محور ہے
زمین و آسماں جس کے سہارے رقص کرتے ہیں
یہ ہجر کی رات یہ سناٹا، یہ بھیگی بھیگی چشمِ فلک
تارے بھی ہیں سارے مہر بہ لب اور گم سم ماہِ تمام میاں
جیسے عرض کیا، حفیظ کو نثر میں افسانہ جس انداز سے متاثر کرتا ہے کوئی اور صنف نہیں کر پاتی۔ اس کے ہمہ جہت وسیع مطالعے کے باوجود افسانے کی صنف سے بری طرح گھائل ہے۔ اردو افسانہ نگاروں میں سب سے زیادہ وہ انتظار حسین کی تحریروں سے متاثر ہے۔ منٹو، نیر مسعود، خالدہ حسین اس کے دیگر پسندیدہ لکھاریوں میں سے ہیں۔ گو حفیظ نے بہت سے غزل گو شعراء کی غزلوں کا بھی بغور اور ناقدانہ مطالعہ کیا ہے۔ اس کے ساتھ گفتگو میں اس کے نثر و نظم کے اس وسیع مطالعے کا احساس اس خواہش کو شدت کے ساتھ سننے والوں کے دل میں جگہ دیتا ہے کہ کاش حفیظ نثر بھی لکھے تاکہ اردو تنقید کا قاری اس کے وسیع مطالعے کا حظ اٹھا سکے۔
قدرت اور ناسٹالجیا کے بعد حفیظ کا پسندیدہ ترین موضوع آنکھیں ہے جو اس کی کھوئی ہوئی بصارت کے غم کو شدت کے ساتھ محسوس کرواتا ہے، ساتھ ہی یہ خیال بھی سر اٹھاتا ہے کہ شاید اس نے بصارت کے بدلے بصیرت مول لے لی ہے۔
رو، رو کے جو بہہ گئی ہیں آنکھیں
سنتے تو کہ کیا کہہ گئی ہیں آنکھیں
دیکھا تھا جو اِک اُداس منظر
اپنی تو وہیں رہ گئی ہیں آنکھیں
نجانے کِس کو دو عالم میں ڈھونڈتی ہے نظر
نجانے کون یہاں چھپ گیا بُلا کے مجھے
یہ کِس کی نیم نگاہی کا ہے فسوں طاری
یہ کون دیکھ رہا ہے نظر بچا کے مجھے
حفیظؔ جس کے لیے محوِ انتظار تھا میں
گزر گیا ہے ابھی اِک جھلک دِکھا کے مجھے
دیکھ کر اُس کو سامنے پھر سے
دِلِ ناداں مچل رہا ہو گا
آنکھوں کو طراوٹ بھی ملے گی تو انہی سے
سایہ بھی ہمیں یہ گھنے اشجار ہی دیں گے
خود میرے لیے وہ اجنبی تھا
چہرہ جو مرا تھا آئینے میں
رکھیے ذرا تو مجلسی آداب کا خیال
یوں ٹکٹکی نہ باندھیے مہمان کی طرف
جاتا ہوں جو اُس بزم میں دُکھ اپنا سُنانے
ہمراہ مرے، دیدۂ تر کیوں نہیں جاتا
رکھتا ہے ترے عشق کے دھوکے میں جو مجھ کو
یہ پردہ بھی آنکھوں سے اُتر کیوں نہیں جاتا
بہت عرصہ ہوا دیکھی تھی میں نے اک حسیں وادی
مری آنکھوں میں اب تک وہ نظارے رقص کرتے ہیں
وہ وعدہ کر کے بھول گیا تم کب تک رستہ دیکھو گے
اب دِن تو سارا بِیت چکا اور ہونے آئی شام میاں
دیدنی تھا افقِ دل پہ ستاروں کا ہجوم
ہم وہ منظر بھی لبِ بام اٹھا کر لے آئے
ملاحظہ فرمائیے حفیظ کی غزلیں، نظمیں اور قطعات۔