چاچو کا ایک خوبصورت افسانہ ان کے فیس بُک سے پتہ نہیں یہاں شائع کرنا کیوں بھول جاتے ہیں چاچو۔
افسانہ ۔۔۔ ۹۔ مارچ۔ ۱۹۸۶ء
آخری جزیرہ
ہاں بھیا! میں اب یہاں نہیں رکوں گا، اسے میرا فیصلہ کہہ لیں یا مجبوری، بہر حال .... یہ جو زندگی ہے نا، بھیا! سمندر کی طرح ہے جس کے دھاروں پر ہم سب بہہ رہے ہیں، ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں اور بھیا، اس سمندر میں جزیرے بھی ہیں جن پر محبت، پیار، خلوص، نفرت ، منافقت کی اور پتہ نہیں کون کون سی ہوائیں چلتی ہیں۔ اور دھارے ہمیں ان جزیروں پر لا پھینکتے ہیں ... ...
۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
... ... ایک اور جزیرہ! کچھ بچے اس جزیرے پر کھیل میں مگن ہیں۔ میں جنگل بن کر اس جزیرے پر چھا جاتا ہوں اور میری نظریں تناور درختوں کی جڑوں کی طرح اس کی مٹی میں کھب جاتی ہیں۔ وہ سرزمین مجھ سے مخاطب ہوتی ہے ’’یہ، یہ آپ کس طرح دیکھ رہے ہیں، مجھے؟‘‘ میں چونک پڑتا ہوں۔ یہ تو بانو کی آواز ہے۔ میں بات بنانے کے لئے کہتا ہوں: ’’لگتا ہے آج پہلی بار دیکھا ہے تجھے‘‘ چھ بچوں کی ماں کسی نئی نویلی دلہن کی طرح شرما جاتی ہے: ’’بڑے وہ ہیں آپ‘‘ اور میں بے اختیار مسکرا دیتا ہوں۔ ابھی ایک جزیرہ باقی ہے!
محمد یعقوب آسی