محمد یعقوب آسی
محفلین
گھوڑے تو بہت ہوتے ہیں جناب عزیز امین صاحب ۔
’’اصلی تے کھرے‘‘ گھوڑے جو قدرت نے بنائے اُن کے علاوہ کی بابت بہت کچھ سنا بھی دیکھا بھی اور پڑھا بھی۔ ایک تو وہ کاٹھ کا گھوڑا تھا، جو ہیلن آف ٹرائے سے منسوب ہے۔ اس منسوب ہونے کی نوعیت اس ’’نسبت‘‘ سے قطعی مختلف ہے جو ہما شما کے ہاں ’’طے‘‘ ہوا کرتی ہے۔ ویسے یہ نسبت ہے بہت کمال کی چیز! اچھا بھلا آدمی ’’کاٹھ کا ۔۔۔‘‘ ہو جاتا ہے۔ کاٹھ کا گھوڑا تو ہم نے وہی ایک سنا۔ اب لے دے کے وہ ایک شب زندہ دار پرندہ رہ جاتا ہے جو اہلِ مغرب کے ہاں عقل، فہم، فراست اور نہ جانے کیا کچھ کی علامت ہے اور یہاں اپنے مشرق میں بے چارہ، نرا الو!۔ وہ کاٹھ کا ہو، تب کیا اور نہ ہو تب کیا!۔
گھوڑوں کے ذکر پر ہمیں آنجہانی جوناتھن سوِفٹ یاد آ جاتا ہے۔ کیا عالی دماغ شخص تھا! مگر بے چارہ خیالی دنیاؤں میں ایسا کھویا کہ بس، کھو ہی گیا۔ اہلِ نقد و نظر کے ہاں جوناتھن سوِفٹ کی وہ دنیائیں خیالی نہیں علامتی تھیں اور اس نے اپنے عہد کے اسی نوع کے گھوڑوں کو سامنے رکھ کر لکھی تھیں، جو تاحال اسی تب و تاب سے کرتب دکھا رہے ہیں۔ اِن گھوڑوں کی خرید و فروخت ہمارے یہاں کوئی چالیس برس پہلے شروع ہوئی اور پھر ایسی گھڑدوڑ جمی کہ ہنوز جاری و ساری ہے۔ اِن گھوڑوں کی خاص صلاحیت یہ ہے کہ جب چاہیں کسی کے دولتی جھاڑ کر کرسی سے گرا دیں اور کسی کو دولتی مار کر کرسی پر بٹھا دیں، اور ’’کُبڑے کو لات راس آ جائے‘‘۔ جوناتھن کے گھوڑے ہمارے اِن گھوڑوں کے اب و جد رہے ہوں گے۔
گھوڑوں کے اب و جد تو کیا اس کی ابجد کے بارے میں بھی ہمارا مطالعہ اور مشاہدہ نہ ہونے سے بھی کسی قدر کم ہے، مگر سنا ہے کہ اِن کا بھانجا بھی ہوتا ہے جو اپنی تمام تر معصومیت کے باوجود ’’خچر‘‘ کہلاتا ہے۔ ہم حلفاً عرض کرتے ہیں کہ جینیات سے ہمارا کبھی دور کا واسطہ بھی نہیں رہا، خچر اور گھوڑے کی اس رشتہ داری کا پتہ ہمیں تو حضرتِ اقبال سے ملا ہے۔ جنگل کے بادشاہ نے خچر سے پوچھا کہ ’’کون ہیں تیرے اب و جد، کس قبیلے سے ہے تو‘‘۔ ہمارے زمانے کا گھوڑا ہوتا تو ڈھکے چھپے لفظوں میں ہی سہی یہ دھمکی ضرور دیتا کہ بادشاہ سلامت! آپ کی بادشاہت کی سلامتی میرے قبیلے کے دم سے ہے! ایسے سوالوں سے گریز! ورنہ ہمیں دولتی جھاڑنے کی بھی نہیں، صرف دُم ہلانے کی زحمت کرنی ہو گی اور پھر یہ بادشاہی کسی گیدڑ کے حرم میں بھی جا سکتی ہے۔ وہ انیسویں صدی کا معصوم خچر بہ صد عجز ونیاز یوں عرض گزار ہوا۔
عین ممکن ہے تب وہ جوناتھن کی سی سفید چمڑیوں سے خائف رہا ہو۔ ہم تو اب تک خائف ہیں۔
’’اصلی تے کھرے‘‘ گھوڑے جو قدرت نے بنائے اُن کے علاوہ کی بابت بہت کچھ سنا بھی دیکھا بھی اور پڑھا بھی۔ ایک تو وہ کاٹھ کا گھوڑا تھا، جو ہیلن آف ٹرائے سے منسوب ہے۔ اس منسوب ہونے کی نوعیت اس ’’نسبت‘‘ سے قطعی مختلف ہے جو ہما شما کے ہاں ’’طے‘‘ ہوا کرتی ہے۔ ویسے یہ نسبت ہے بہت کمال کی چیز! اچھا بھلا آدمی ’’کاٹھ کا ۔۔۔‘‘ ہو جاتا ہے۔ کاٹھ کا گھوڑا تو ہم نے وہی ایک سنا۔ اب لے دے کے وہ ایک شب زندہ دار پرندہ رہ جاتا ہے جو اہلِ مغرب کے ہاں عقل، فہم، فراست اور نہ جانے کیا کچھ کی علامت ہے اور یہاں اپنے مشرق میں بے چارہ، نرا الو!۔ وہ کاٹھ کا ہو، تب کیا اور نہ ہو تب کیا!۔
گھوڑوں کے ذکر پر ہمیں آنجہانی جوناتھن سوِفٹ یاد آ جاتا ہے۔ کیا عالی دماغ شخص تھا! مگر بے چارہ خیالی دنیاؤں میں ایسا کھویا کہ بس، کھو ہی گیا۔ اہلِ نقد و نظر کے ہاں جوناتھن سوِفٹ کی وہ دنیائیں خیالی نہیں علامتی تھیں اور اس نے اپنے عہد کے اسی نوع کے گھوڑوں کو سامنے رکھ کر لکھی تھیں، جو تاحال اسی تب و تاب سے کرتب دکھا رہے ہیں۔ اِن گھوڑوں کی خرید و فروخت ہمارے یہاں کوئی چالیس برس پہلے شروع ہوئی اور پھر ایسی گھڑدوڑ جمی کہ ہنوز جاری و ساری ہے۔ اِن گھوڑوں کی خاص صلاحیت یہ ہے کہ جب چاہیں کسی کے دولتی جھاڑ کر کرسی سے گرا دیں اور کسی کو دولتی مار کر کرسی پر بٹھا دیں، اور ’’کُبڑے کو لات راس آ جائے‘‘۔ جوناتھن کے گھوڑے ہمارے اِن گھوڑوں کے اب و جد رہے ہوں گے۔
گھوڑوں کے اب و جد تو کیا اس کی ابجد کے بارے میں بھی ہمارا مطالعہ اور مشاہدہ نہ ہونے سے بھی کسی قدر کم ہے، مگر سنا ہے کہ اِن کا بھانجا بھی ہوتا ہے جو اپنی تمام تر معصومیت کے باوجود ’’خچر‘‘ کہلاتا ہے۔ ہم حلفاً عرض کرتے ہیں کہ جینیات سے ہمارا کبھی دور کا واسطہ بھی نہیں رہا، خچر اور گھوڑے کی اس رشتہ داری کا پتہ ہمیں تو حضرتِ اقبال سے ملا ہے۔ جنگل کے بادشاہ نے خچر سے پوچھا کہ ’’کون ہیں تیرے اب و جد، کس قبیلے سے ہے تو‘‘۔ ہمارے زمانے کا گھوڑا ہوتا تو ڈھکے چھپے لفظوں میں ہی سہی یہ دھمکی ضرور دیتا کہ بادشاہ سلامت! آپ کی بادشاہت کی سلامتی میرے قبیلے کے دم سے ہے! ایسے سوالوں سے گریز! ورنہ ہمیں دولتی جھاڑنے کی بھی نہیں، صرف دُم ہلانے کی زحمت کرنی ہو گی اور پھر یہ بادشاہی کسی گیدڑ کے حرم میں بھی جا سکتی ہے۔ وہ انیسویں صدی کا معصوم خچر بہ صد عجز ونیاز یوں عرض گزار ہوا۔
میرے ماموں کو نہیں پہچانتے شاید حضور
وہ سبا رفتار، شاہی اصطبل کی آبرو
عین ممکن ہے تب وہ جوناتھن کی سی سفید چمڑیوں سے خائف رہا ہو۔ ہم تو اب تک خائف ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
برائے توجہ جناب محمد وارث، جناب@الف نظامی، عزیزہ مدیحہ گیلانی۔