سید زبیر
محفلین
یہ معتبر سی ہستیاں جو اربوں کھربوں کھا گئیں
کشید کرلیا گیا وطن کا خوں نچوڑ کر
یہ گل کھلائے جا رہے تھے سب ادارے توڑ کر
یہ پی گئے سمجھ کے ماں کا دودھ قومی مال کو
گواہ کر رہا ہے'ان کا ماضی 'ان کے حال کو
الاٹ کر لیے گئے پلاٹ چھانٹ چھانٹ کر
سرے میں محل لے لیا وطن کو لوٹ لاٹ کر
یہ معتبر سی ہستیاں جو اربوں کھربوں کھا گئیں
سمندری بلائیں تھیں جو خشکیوں پہ آگئیں
وطن کو اس مقام پر یہ بے ضمیر دھر گئے
کہ سود کی ادائیگی پہ قرض لینے پڑ گئے
یہ وقت ہے لٹیرے ڈاکوؤں کا احتساب ہو
نصاب کے تحت یہاں شفاف انتخاب ہو
وطن کا مال لوٹ کر جو لے گئے وہ لا سکیں
یہ اس سے پہلے اس وطن سے بھاگ کر نہ جا سکیں
جو دیکھ پائے راہزنوں کو دور اور قریب سے
امید ہے اتار لوگے ' قوم کو صلیب سے
لگا دو ٹکٹکی انہیں 'کہو کہ جیل میں سڑو
نکالنا ہے گھی اگر تو ٹیڑھی انگلیاں کرو
اگل دیں خود ہی دو لتیں یا آپ دیں اکھاڑ کر
نکال لے قوم ورنہ پیٹ ان کے پھاڑ کر
محمد یٰسین رضا