نور وجدان
لائبریرین
پُراسرار علوم جاننے کی خواہش ہر انسان کو ہوتی ہے ۔ ہم نے ایک دن ان پراسرار لوگوں کی پرسراریت جاننے کی ٹھانی یعنی کہ یہ حاضرات و مابعد حاضرات کے کیا کرتے ہیں ۔ماضی میں پُروہت و جادوگر اس علم سے بادشاہء وقت کو بیوقوف بنا کر پیسے بٹورا کرتے تھے ۔ اکثر بادشاہ متلون مزاج و عیش و عشرت کے دلداہ ہونے کے سبب آسانی سے شکار ہوجاتے تھے۔ تاریخ میں بہت کم عاقل بادشاہ گُزرے جو شکار ہونے کے بجائے شکار کیا کرتے تھے ۔ زمانہء حال میں عوام کی حکومت کے پیشِ نظر روحانی و سفلی باباؤں کا کام آسان ہوگیا ہے ۔بڑھتے وقت کے تقاضوں کو بھانپتے ہوئے جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہو کر نئی اقسام کے روحانی باباؤں کا وجود نظر آتا ہے ۔ عوام بے چاری ان کی ساحرانہ گفتگو سے متاثر ہو کر ان کو خُدا ماننا شروع کردیتی ہے ۔
یونہی ایک دن ہمیں شوق نے مجبور کیا اور ان کے دربارء عروسی و قدوسی پر حاضری دینے کی ٹھانی اور ان جناب کی قدم بوسی و دست بوسی کی روایات کو تار تار کرکے سلام کرنے پر اکتفاء کیا۔ ہماری بے نیازی ان صاحب ء کشف و حال کو بھاگئی۔ وہ جھٹ سے بول پڑے : ''خدا جب حسن دیتا ہے نزاکت آ ہی جاتی ہے۔'' شکر ہے اِن جناب نے شعری لطافت کو پہلے مصرعے تک محدود رکھا وگرنہ ان کی رنگین طبیعت سے بعید کچھ بھی نہ تھا۔ ان بزرگ کی ایک خاصیت تھی کہ یہ شعر پر شعر کستے تھے ۔ اس سے پہلے وہ اور شعر کہتے ہم نے ان سے اجازت لینے کے بعد ان کی رہائش کا جائزہ لینے کی ٹھانی ۔
دربارء عالیہ جس میں مردو زن کے دو کمرے مخصوص تھے ۔ اٹھتے ہوئے ہم نے مرد حضرات کی بیٹھک کا جائزہ لیا ۔ وہاں پر عالی مقام اور ان کے آباءو اجداد کی تصاویر کے بندگی میں سجدے کیے جارہے تھے ۔ اس بیٹھک کے ساتھ ایک آفس نُما کمرہ تھا جو پر تعیش سامان سے لیس کسی کمپنی کا آفس معلوم ہوتا تھا۔ اس میں داخل ہونے کی اجازت ہر خاص و عام کو نہیں تھے ۔ اس کا ایک حصہ داخلی دروازے اور عقبی حصہ بیٹھک سے ملحق تھا ۔میں نے یہاں دو حضرات کو بیٹھے دیکھا جو ایک ماڈ سکاٹ خاتون کے ہمراہ اپنے مسئلے کے حل کی خاطر ایمرجنسی اپاؤنٹمنٹ کی بات کر رہے تھے۔ ہم نے اِن کو چھوڑا اور داخلی دروازے کی طرف دیکھا جہاں دو گارڈز تعینات تھے ۔ اینٹرینس میں چندہ برائے رفاہء عامہ ، چندہ برائے مسجد تعمیر کی دو مشینیں پڑی ہوئی تھیں ۔ ان مشینوں کو مانیٹر کہاں سے کیا جاتا تھا یہ تو نہیں پتا مگر کوئی بھی شخص ان پر ہاتھ رکھے بغیر پیر دامت برکات عالیہ کے قدموں تک رسائی نہیں حاصل نہیں کرسکتا تھا۔ہم بھی اس پر ہاتھ رکھ چکے تھے اس لیے ہماری دل کی آہیں آسمانء عالیہ پر جا کر ہماری فغاں کی دہائی دیتی دکھائی دیں ۔ یہ جدید مشین بندے کے ہاتھ کا موازنہ کرکے اس کے مطابق چندے کا تعین کرتی تھی ۔ مشین بھی بڑی الہامی قسم کی تھی ! مزے کی بات یہ ہے کہ ان دو مشینوں میں چندے کا تناسب یکسانیت کا شکار ہونے کے بجائے چوگنی شرح پر قائم تھا۔ ہماری جیب میں جتنے پیسے تھے وہ سب کے سب چندے کی نظر ہوگئے ۔ ہم نے دل میں لعنت بھیجی اگر پتا ہوتا اتنے پیسے دینے پڑیں گے تو ہم ہارڈیز میں بیٹھ کر دو جمبو برگر کھا کے ، پیزا ہٹ کے لارج سائز پیزا نوش کرکے KFC وشنگریلا کے کھانے آنے والی کل پر ادھار ڈال کر آئس برگ کی آئس کریم سے لطف اندوز ہونے کے بعد دو عدد کھاڈی کے سوٹ لے چکے ہوتے ۔ اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چُگ گئیں کھیت ۔ ہم تو یہ سن کر آئے تھے کہ یہ اللہ لوک بندے ہیں ۔ نوازنے پر آئیں تو نواز دیں زمانہ ۔۔۔شاید ان کے دو بول کا سحر ہیرے جواہرات کا انبار لگادے گا اور ہمیں شروع سے ہیرے بہت پسند ہیں ۔بھلا ہو ہماری معصوم سی سوچ کا کہ ہم پیسے کمانے آئے تھے مگر پیسے گنوا بیٹھے۔
خیر ہم بیٹھک سے ہوتے عقبی حصے کی طرف گئے تو وہاں چار حاضرین کیف و حال سے سرشار دیکھے ۔ اس مستی کی حالت میں وہ اللہ ہو اللہ ہو کی ضربیں لگائے جارہے تھے ۔ ہماری آنکھوں سے آنسو نکلے کہ یہ بندے اللہ کے کتنے قریب ہیں اور ہم ؟ ہم ابھی پیسوں کے زیاں کا سوچ رہے تھے ہم نے اپنی سوچ پر چار حرف بھیجنا شروع کردیے ۔ اچانک ہماری آنکھ کے پردے پر بننے والی فلم نے مکمل تصویر کی شکل اختیار کی ۔ چار حضرات کسی برتن نما چیز میں اللہ ھو کی ضرب لگانے کے ساتھ کچھ پیستے اور اور اس میں سے کچھ پھانکتے بھی جاتے ۔ پھانکنے کے عمل کے بعد ان کے پیسنے رفتار اور اللہ ھو کی ضرب لگانے کی رفتار بڑھتی جارہی تھی ۔ ابھی ہم ان سے پوچھنے ہی والے تھے کہ اس میں کیا ہے؟ ایک صاحب بولا: جلدی جلدی کام نبٹاؤ، ابھی پیر صاحب نے خطاب کرنا ہے ۔ پیر صاحب کو بڑا غصہ چڑھتا ہے جب کوئی مہمان سوغات نوش کیے بغیر یہاں سے جائے۔ زمانہء وقت کو دین و دنیوی کی تعلیم خطبہء کے ذریعے دی جاتی ہے ۔ ان کی تقریر سے سامعین پر حال آجاتا تھا۔ اس حال کا سبب معلوم ہونے کے بعد ہمیں نہ جانے کیوں عوام کی سادہ دلی پر ہنسی آئی اور ہم پر جھٹ سے ایک شعر وارد ہوا۔
ہر شخص پر خلوص، ہر شخص پر وقار
آتی ہے اپنی سادہ دلی پر ہنسی
ساتھ والا کمرہ شاید تدریسی کاموں کے لیے متعین تھا۔ یہاں پر کم سن عمر کے لڑکے جن کو مدرسہ ء جات سے اچھی الیکڑانک میڈیا پر تبلیغ کی تعلیم دی جاتی تھی یہ اور بات تھی اس تعلیم کو سائنس و ٹیکنالوجی کی تعلیم کے برابر سمجھا جاتا ہے۔ اس الیکڑانک میڈیا پر تعلیم کی تکمیل کے بعد اساتذہ تجرباتی تعلیم سے فیض یاب بھی کرتے ہیں ۔ جو طالب علم اسلامی محاسن خصوصا جہاد و جنات کی حاضرات و روحانیات کے علوم پر عبور حاصل کرلیتا اس کو حکومت کی طرف سے منظور شدہ فاضل عربی و اسلامیات کی اسناد تقسیم کی جاتی تاکہ وہ زمانہء حال میں سر اٹھا کر جی سکے ۔ اور ان تجربات کرنے والے طلباء کو میڈیکل سٹوڈنٹ کے پریکٹیشنر کے برابر کا رتبہ دیا جاتا ہے ۔ اور حاضرات کے عمل کی نقل اصل ویڈیوز یوٹیوب پر اپلوڈ کی جاتی تاکہ فلاح عامہ کی خاطر عوام کو شعور دیا جاسکے ۔ہمیں یہ ساری باتیں وہیں کے ایک استاد نے بتائیں ۔ یہ اور بات ہے ہمیں جیب تھوڑی اور ہلکی کرنا پڑا ۔ مزے کی بات یہ تھی وہاں کریڈٹ کارڈ مشین پہلے سے موجود تھی ۔ تاکہ پیسوں کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی نہیں ہوسکے ۔
دربارء عالیہ کا جائزہ لینے کے بعد ہم نے پیر صاحب کے عروسی و قدوسی کمرے میں حاضری دی ۔ پیر صاحب فون پر اپنے کسی مرید سے گفتگو میں مصروف تھے جبکہ خواتین ان کے گرد دائرہ بنائے بیٹھی تھیں ۔ بات ختم کرنے کے بعد ہم نے جو منظر دیکھا اس کو دیکھ کر ہمیں لگا خواتین نے پیر صاحب پر حال کی کیفیت طاری کردی ہے یا شاید ان پر کیفیت کا ایسا حال پیدائشی تھا ۔ جو خاتون دست بوسی کرتی ، جواب میں وہ بھی ہاتھوں کو چومتے اور فرماتے:
وجودء زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں ۔
ہر خاتوں اپنا پاؤں آگے کرتی جاتی اور پیرصاحب باری باری پاؤں پر رسمء بوسی فرماتے ۔ ہم تو اس لیے خاموش رہے کہ شاید خواتین کی بیعت کا سائنسی طریقہ ایجاد ہوا ہے ۔ پیر صاحب کی بصیرت و بصارت کی عطاء جمالیات کو خاص طور پر تاڑ لیتی اور نقاب میں موجود مخملی آنکھیں!! اوہ معذرت ! آم کی کاش کی مانند مخمور آنکھیں ان کی بصارت سے ہوتی بصیرت تک پہنچ کر دل پر تجلی فرماتیں اور وہ حسن پر فریقتہ ہوجاتے اور فرماتے : اللہ جمال والا ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے ۔ یہ کہتے کہتے ان کی نظر ہم پر پڑی ۔ افسوس ! ہائے ! ہائے افسوس! نظریں چار نہیں ہوسکیں ۔ اور جناب عالی دامت برکاتہ عالیہ کے دل پر تجلی ہوگئی ۔ ہم ذرا دور بیٹھے تھے اس لیے ہم نے ادھر ادھر نظر دوڑانا شروع کردی ۔ ہماری بے التفاتی پر ان کو جلال آگیا اور انہوں نے حاضرات کا عمل شروع کردیا۔ ہمارا دل بلیوں اچھلنے لگا کہ ہماری مراد بر آئی ۔ ایک ضعیف العمر خاتون ادھیڑ عمر خاتون کے ساتھ آئیں ہوئی تھی ۔ ابھی خواتین مسئلہ بیان کرتی کہ پیر صاحب نے انگوٹھی کا نگینہ نکالا جس میں سے برقی روشنی نکل رہی تھی۔ خاتون کے ہاتھ پر وہ لمحہ بھر کے لیے رکھا۔ اس کے رکھتے ہی خاتون جھٹکے کھانے لگ گئی۔ اس کو سنبھالنے کے لیے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر کچھ دیر جنات کا اثر محسوس کیا۔ اس کا اثر چہرے پر لطیف تاثرات کی صورت میں نمایاں تھا۔ پھر اس اس کی شہادت کی انگلی ہاتھ میں لے کر ، بالوں کی لٹ نکالی۔ کچھ تجربات کے بعد خاتون کو ملحقہء کمرے میں منتقل کردیا گیا۔ اور ضعیف العمر خاتون سے اضافی پیسے مانگے گئے ۔ پیسے دینے کے بعد خاتون اٹھ کھڑی ہوئی ۔ پیر صاحب نے تاکیدن اُس سے کہا: کل ٹھیک اسی وقت اس کو لے جانا ، تجھے پتا ہے نا جنات کو بھگانے کے بعد ان کے اثرات دور کرنے کے لیے پورے چوبیس گھنٹے درکار ہوتے ہیں۔۔۔۔!
ہم جو دور بیٹھے تھے ، دور سے ہی ہولیے ۔ ایک سوچ نے دل میں جگہ بنالی ۔ دنیا میں چرب زبانی سب کچھ ہے ۔ انسانی کی ڈگری وتعلیم سب بیکار ہے اگر وہ چرب زبان نہیں ہو۔ بڑے بڑے ادارے رائے عامہ تعمیرکرنے کے بعد چلتے ہیں۔ اصل چیز تو عقل ہے نہ کہ تعلیم۔ عقل کا درست استعمال ہو یا غلط مگر فائدہ عاقل کو ضرور ملتا ہے
یونہی ایک دن ہمیں شوق نے مجبور کیا اور ان کے دربارء عروسی و قدوسی پر حاضری دینے کی ٹھانی اور ان جناب کی قدم بوسی و دست بوسی کی روایات کو تار تار کرکے سلام کرنے پر اکتفاء کیا۔ ہماری بے نیازی ان صاحب ء کشف و حال کو بھاگئی۔ وہ جھٹ سے بول پڑے : ''خدا جب حسن دیتا ہے نزاکت آ ہی جاتی ہے۔'' شکر ہے اِن جناب نے شعری لطافت کو پہلے مصرعے تک محدود رکھا وگرنہ ان کی رنگین طبیعت سے بعید کچھ بھی نہ تھا۔ ان بزرگ کی ایک خاصیت تھی کہ یہ شعر پر شعر کستے تھے ۔ اس سے پہلے وہ اور شعر کہتے ہم نے ان سے اجازت لینے کے بعد ان کی رہائش کا جائزہ لینے کی ٹھانی ۔
دربارء عالیہ جس میں مردو زن کے دو کمرے مخصوص تھے ۔ اٹھتے ہوئے ہم نے مرد حضرات کی بیٹھک کا جائزہ لیا ۔ وہاں پر عالی مقام اور ان کے آباءو اجداد کی تصاویر کے بندگی میں سجدے کیے جارہے تھے ۔ اس بیٹھک کے ساتھ ایک آفس نُما کمرہ تھا جو پر تعیش سامان سے لیس کسی کمپنی کا آفس معلوم ہوتا تھا۔ اس میں داخل ہونے کی اجازت ہر خاص و عام کو نہیں تھے ۔ اس کا ایک حصہ داخلی دروازے اور عقبی حصہ بیٹھک سے ملحق تھا ۔میں نے یہاں دو حضرات کو بیٹھے دیکھا جو ایک ماڈ سکاٹ خاتون کے ہمراہ اپنے مسئلے کے حل کی خاطر ایمرجنسی اپاؤنٹمنٹ کی بات کر رہے تھے۔ ہم نے اِن کو چھوڑا اور داخلی دروازے کی طرف دیکھا جہاں دو گارڈز تعینات تھے ۔ اینٹرینس میں چندہ برائے رفاہء عامہ ، چندہ برائے مسجد تعمیر کی دو مشینیں پڑی ہوئی تھیں ۔ ان مشینوں کو مانیٹر کہاں سے کیا جاتا تھا یہ تو نہیں پتا مگر کوئی بھی شخص ان پر ہاتھ رکھے بغیر پیر دامت برکات عالیہ کے قدموں تک رسائی نہیں حاصل نہیں کرسکتا تھا۔ہم بھی اس پر ہاتھ رکھ چکے تھے اس لیے ہماری دل کی آہیں آسمانء عالیہ پر جا کر ہماری فغاں کی دہائی دیتی دکھائی دیں ۔ یہ جدید مشین بندے کے ہاتھ کا موازنہ کرکے اس کے مطابق چندے کا تعین کرتی تھی ۔ مشین بھی بڑی الہامی قسم کی تھی ! مزے کی بات یہ ہے کہ ان دو مشینوں میں چندے کا تناسب یکسانیت کا شکار ہونے کے بجائے چوگنی شرح پر قائم تھا۔ ہماری جیب میں جتنے پیسے تھے وہ سب کے سب چندے کی نظر ہوگئے ۔ ہم نے دل میں لعنت بھیجی اگر پتا ہوتا اتنے پیسے دینے پڑیں گے تو ہم ہارڈیز میں بیٹھ کر دو جمبو برگر کھا کے ، پیزا ہٹ کے لارج سائز پیزا نوش کرکے KFC وشنگریلا کے کھانے آنے والی کل پر ادھار ڈال کر آئس برگ کی آئس کریم سے لطف اندوز ہونے کے بعد دو عدد کھاڈی کے سوٹ لے چکے ہوتے ۔ اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چُگ گئیں کھیت ۔ ہم تو یہ سن کر آئے تھے کہ یہ اللہ لوک بندے ہیں ۔ نوازنے پر آئیں تو نواز دیں زمانہ ۔۔۔شاید ان کے دو بول کا سحر ہیرے جواہرات کا انبار لگادے گا اور ہمیں شروع سے ہیرے بہت پسند ہیں ۔بھلا ہو ہماری معصوم سی سوچ کا کہ ہم پیسے کمانے آئے تھے مگر پیسے گنوا بیٹھے۔
خیر ہم بیٹھک سے ہوتے عقبی حصے کی طرف گئے تو وہاں چار حاضرین کیف و حال سے سرشار دیکھے ۔ اس مستی کی حالت میں وہ اللہ ہو اللہ ہو کی ضربیں لگائے جارہے تھے ۔ ہماری آنکھوں سے آنسو نکلے کہ یہ بندے اللہ کے کتنے قریب ہیں اور ہم ؟ ہم ابھی پیسوں کے زیاں کا سوچ رہے تھے ہم نے اپنی سوچ پر چار حرف بھیجنا شروع کردیے ۔ اچانک ہماری آنکھ کے پردے پر بننے والی فلم نے مکمل تصویر کی شکل اختیار کی ۔ چار حضرات کسی برتن نما چیز میں اللہ ھو کی ضرب لگانے کے ساتھ کچھ پیستے اور اور اس میں سے کچھ پھانکتے بھی جاتے ۔ پھانکنے کے عمل کے بعد ان کے پیسنے رفتار اور اللہ ھو کی ضرب لگانے کی رفتار بڑھتی جارہی تھی ۔ ابھی ہم ان سے پوچھنے ہی والے تھے کہ اس میں کیا ہے؟ ایک صاحب بولا: جلدی جلدی کام نبٹاؤ، ابھی پیر صاحب نے خطاب کرنا ہے ۔ پیر صاحب کو بڑا غصہ چڑھتا ہے جب کوئی مہمان سوغات نوش کیے بغیر یہاں سے جائے۔ زمانہء وقت کو دین و دنیوی کی تعلیم خطبہء کے ذریعے دی جاتی ہے ۔ ان کی تقریر سے سامعین پر حال آجاتا تھا۔ اس حال کا سبب معلوم ہونے کے بعد ہمیں نہ جانے کیوں عوام کی سادہ دلی پر ہنسی آئی اور ہم پر جھٹ سے ایک شعر وارد ہوا۔
ہر شخص پر خلوص، ہر شخص پر وقار
آتی ہے اپنی سادہ دلی پر ہنسی
ساتھ والا کمرہ شاید تدریسی کاموں کے لیے متعین تھا۔ یہاں پر کم سن عمر کے لڑکے جن کو مدرسہ ء جات سے اچھی الیکڑانک میڈیا پر تبلیغ کی تعلیم دی جاتی تھی یہ اور بات تھی اس تعلیم کو سائنس و ٹیکنالوجی کی تعلیم کے برابر سمجھا جاتا ہے۔ اس الیکڑانک میڈیا پر تعلیم کی تکمیل کے بعد اساتذہ تجرباتی تعلیم سے فیض یاب بھی کرتے ہیں ۔ جو طالب علم اسلامی محاسن خصوصا جہاد و جنات کی حاضرات و روحانیات کے علوم پر عبور حاصل کرلیتا اس کو حکومت کی طرف سے منظور شدہ فاضل عربی و اسلامیات کی اسناد تقسیم کی جاتی تاکہ وہ زمانہء حال میں سر اٹھا کر جی سکے ۔ اور ان تجربات کرنے والے طلباء کو میڈیکل سٹوڈنٹ کے پریکٹیشنر کے برابر کا رتبہ دیا جاتا ہے ۔ اور حاضرات کے عمل کی نقل اصل ویڈیوز یوٹیوب پر اپلوڈ کی جاتی تاکہ فلاح عامہ کی خاطر عوام کو شعور دیا جاسکے ۔ہمیں یہ ساری باتیں وہیں کے ایک استاد نے بتائیں ۔ یہ اور بات ہے ہمیں جیب تھوڑی اور ہلکی کرنا پڑا ۔ مزے کی بات یہ تھی وہاں کریڈٹ کارڈ مشین پہلے سے موجود تھی ۔ تاکہ پیسوں کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی نہیں ہوسکے ۔
دربارء عالیہ کا جائزہ لینے کے بعد ہم نے پیر صاحب کے عروسی و قدوسی کمرے میں حاضری دی ۔ پیر صاحب فون پر اپنے کسی مرید سے گفتگو میں مصروف تھے جبکہ خواتین ان کے گرد دائرہ بنائے بیٹھی تھیں ۔ بات ختم کرنے کے بعد ہم نے جو منظر دیکھا اس کو دیکھ کر ہمیں لگا خواتین نے پیر صاحب پر حال کی کیفیت طاری کردی ہے یا شاید ان پر کیفیت کا ایسا حال پیدائشی تھا ۔ جو خاتون دست بوسی کرتی ، جواب میں وہ بھی ہاتھوں کو چومتے اور فرماتے:
وجودء زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں ۔
ہر خاتوں اپنا پاؤں آگے کرتی جاتی اور پیرصاحب باری باری پاؤں پر رسمء بوسی فرماتے ۔ ہم تو اس لیے خاموش رہے کہ شاید خواتین کی بیعت کا سائنسی طریقہ ایجاد ہوا ہے ۔ پیر صاحب کی بصیرت و بصارت کی عطاء جمالیات کو خاص طور پر تاڑ لیتی اور نقاب میں موجود مخملی آنکھیں!! اوہ معذرت ! آم کی کاش کی مانند مخمور آنکھیں ان کی بصارت سے ہوتی بصیرت تک پہنچ کر دل پر تجلی فرماتیں اور وہ حسن پر فریقتہ ہوجاتے اور فرماتے : اللہ جمال والا ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے ۔ یہ کہتے کہتے ان کی نظر ہم پر پڑی ۔ افسوس ! ہائے ! ہائے افسوس! نظریں چار نہیں ہوسکیں ۔ اور جناب عالی دامت برکاتہ عالیہ کے دل پر تجلی ہوگئی ۔ ہم ذرا دور بیٹھے تھے اس لیے ہم نے ادھر ادھر نظر دوڑانا شروع کردی ۔ ہماری بے التفاتی پر ان کو جلال آگیا اور انہوں نے حاضرات کا عمل شروع کردیا۔ ہمارا دل بلیوں اچھلنے لگا کہ ہماری مراد بر آئی ۔ ایک ضعیف العمر خاتون ادھیڑ عمر خاتون کے ساتھ آئیں ہوئی تھی ۔ ابھی خواتین مسئلہ بیان کرتی کہ پیر صاحب نے انگوٹھی کا نگینہ نکالا جس میں سے برقی روشنی نکل رہی تھی۔ خاتون کے ہاتھ پر وہ لمحہ بھر کے لیے رکھا۔ اس کے رکھتے ہی خاتون جھٹکے کھانے لگ گئی۔ اس کو سنبھالنے کے لیے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر کچھ دیر جنات کا اثر محسوس کیا۔ اس کا اثر چہرے پر لطیف تاثرات کی صورت میں نمایاں تھا۔ پھر اس اس کی شہادت کی انگلی ہاتھ میں لے کر ، بالوں کی لٹ نکالی۔ کچھ تجربات کے بعد خاتون کو ملحقہء کمرے میں منتقل کردیا گیا۔ اور ضعیف العمر خاتون سے اضافی پیسے مانگے گئے ۔ پیسے دینے کے بعد خاتون اٹھ کھڑی ہوئی ۔ پیر صاحب نے تاکیدن اُس سے کہا: کل ٹھیک اسی وقت اس کو لے جانا ، تجھے پتا ہے نا جنات کو بھگانے کے بعد ان کے اثرات دور کرنے کے لیے پورے چوبیس گھنٹے درکار ہوتے ہیں۔۔۔۔!
ہم جو دور بیٹھے تھے ، دور سے ہی ہولیے ۔ ایک سوچ نے دل میں جگہ بنالی ۔ دنیا میں چرب زبانی سب کچھ ہے ۔ انسانی کی ڈگری وتعلیم سب بیکار ہے اگر وہ چرب زبان نہیں ہو۔ بڑے بڑے ادارے رائے عامہ تعمیرکرنے کے بعد چلتے ہیں۔ اصل چیز تو عقل ہے نہ کہ تعلیم۔ عقل کا درست استعمال ہو یا غلط مگر فائدہ عاقل کو ضرور ملتا ہے
آخری تدوین: