محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
"محکمۂ زراعت کی جانب سے ھائیبرڈ بیج کا کامیاب تجربہ"
کرۂ ارض پر جوں ہی حضرت انسان نے آنکھ کھولی، جاگیر داروں نے زمین پر قبضہ کرکے غلاموں سے کھیتی باڑی کا کام لینا شروع کردیا۔ یه نظام اس قدر کامیاب تھا کہ صدیوں تک یونہی چلتا رہا۔غلاموں کی محنتیں رنگ لاتیں، زمینیں سونا اگلتیں اور یوں جاگیر داروں کی جاگیریں پھلتیں، پھولتیں، پھیلتیں۔ عین ممکن تھا کہ یه کامیاب کھیتی باڑی کا نظام یوں ہی ابد الآباد تک چلتا رہتا۔ برا ہو ابرہام لنکن کا کہ اس کے ذہنی خناس نے جاگیروں کے بنے بنائے کھیتی باڑی نظام کا ستیاناس کردیا۔ غلام آزاد ہوئے تو اپنی زمینوں پر خود ہی اپنے دقیانوسی انداز میں کھیتی باڑی کرنے لگے۔
اس نظام زراعت سے کسانوں کا تو برا بھلا گزارا ہونے لگا لیکن ملکوں کی معیشت روپے کی جس ہیر پھیر کی متقاضی تھی، وہ نہ ہوتا اور نہ معیشت پھلتی پھولتی۔ دوسری جنگ جنون کے بعد خاص طور پر جاگیر داروں نے اس صورتحال کے تدارک کے لیے محکمۂ زراعت کے قیام کا باقاعدہ اہتمام کیا۔
انہی دنوں قریب کے ایک فارم پر وہاں کے غلاموں اور جانوروں نے فارم کے جاگیردار مسٹر جونز کو مار بھگایا اور خود ہی فارم پر قبضہ کرکے کھیتی باڑی کرنے لگے۔
رفتہ رفتہ ان جانوروں میں شامل سوؤروں کے ایک جتھے نے فارم پر قبضہ کرلیا اور کسانوں اور آزاد جانوروں کو دوبارہ غلام بنا لیا۔
ہمارے خطے کے کھیتوں میں گزشتہ کئی صدیوں سے مسلط لارڈ کلائیو جو کسانوں کو غلام بنائے ہوئے تھے۔، جنگِ جنون کے خاتمے پر سب کچھ یونہی چھوڑ چھاڑ کر یکایک اپنے دیش سدھارے۔
علاقے کے کسانوں کو تو ایسا موقع خدا دے، فوراً لگے کھیتی باڑی کرنے۔ یہاں بھی ان کے دقیانوسی طریقوں نے جاگیردارانہ مزاج کے حامل افراد کو کچھ نیا کرنے پر مجبور کردیا اور یوں خطے میں محکمۂ زراعت کا قیام عمل میں لایا گیا اور کھیتی باڑی محکمۂ زراعت کے حوالے کردی گئی ۔ ملکی معیشت کا پہیہ تیزی کے ساتھ گھومنا شروع ہوگیا۔ اس سبز انقلاب کو دس سال گزرے تو زراعت کی ترقی کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے دس سالہ ترقی کا جشن بھی منایا گیا۔ ساتھ ہی ان پڑھ بالغوں کی پڑھائی کے بندوبست اور کسانوں کے پاس وافر مقدار میں موجود گوبر سے بائیو گیس بنانے کے منصوبوں پر کام ہونے لگا۔ یوں محکمۂ زراعت کی مہربانی سے دن دونی اور رات چوگنی ترقی ہونے لگی۔ محکمۂ زراعت کے سربراہ نے ایک نئی خلعتِ فاخرہ سلوائی اور اسے پہن کر زراعت کے نت نئے منصوبے بنانے لگے۔ زمینیں سونا اگلتیں اور دن ڈھلے محکمہ کے کارندے سونے کی ان اینٹوں کو اٹھاالےجاتے۔
حسد بری بلا ہے۔ کہتے ہیں سامنے والے کی خوشی کسی کو بھی ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ کسانوں کا بھی یہی حال تھا۔ انہوں نے محکمۂ زراعت کو نکال باہر کیا اور خود اپنے پرانے اور دقیانوسی انداز میں کھیتی باڑی کرنے لگے۔ یه پرانے طور طریقے آخر کہاں تک چلتے، بلآخر محکمہ زراعت نے کھیتوں پر دوبارہ تسلط قائم کرلیا۔ یه آنکھ مچولی یونہی چلتی رہی۔ کبھی کسان غالب آتے تو کبھی محکمہ زراعت۔ اسی دوران دنیا کا ماحول خاصا تبدیل ہوگیا۔ دنیا، خاص طور پر امریکہ بہادر جو پہلے کبھی محکمۂ زراعت اور ان کے نت نئے طور طریقوں کی حمایت کرتا تھا، رفتہ رفتہ ابرہام لنکن کے فلسفے پر واپس آ گیا اور غلاموں کی آزادی پر زور دینے لگا۔
محکمۂ زراعت بھی کسانوں کی اس روز روز کی چخ چخ سے تنگ آچکا تھا۔ کسانوں کے ذہنوں میں بسے لنکن خناس اور امریکن سنڈیوں نے ان کا ناک میں دم کر رکھا تھا۔ کسان کس طرح نئے اور سائینسی تحقیق سے منہ موڑ کر دقیانوسی انداز فکر اپنا سکتے ہیں جبکہ انہیں علم ہے کہ کھیت کی بہتری اسی میں ہے اور وہ اسی وقت سونا اگل سکتا ہے جب محکمۂ زراعت کے سائینسی طریقوں پر سختی کے ساتھ عمل کیا جائے۔ بالآخر تنگ آکر انہوں نے وقتی طور پر کسانوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا اور اپنا وقت نئی سائینسی تحقیق میں گزانے لگے
محکمہ کی دن رات انتھک محنت رنگ لائی اور ایک نیا 'ھائیبرڈ بیج' دریافت کرلیا گیا۔ اب محکمۂ زراعت کے لیے یه ضروری نہیں رہا کہ وہ کھیت پر تصرف حاصل کریں۔ اب وہ اپنے دفتر میں بیٹھے نیا ھائیبرڈ بیج بیچتے، اور بیٹھے اس کے تماشے دیکھتے۔
اس ھائیبرڈ بیج کے ہوتے کسان کی حیثیت کاٹھ کے آلو کی سی ہوگئی ۔ان ھائیبرڈ بیجوں کا مقصد جہاں کسانوں کے ذہنوں سے ابرہام لنکن خناس نکالنا تھا وہیں امریکن سنڈیوں کا بھی خاطر خواہ تدارک ممکن ہوچکا تھا۔ ادھر کسان بھی کاٹھ کا الو بنا یه سمجھتا کہ اسی کے دقیانوسی طریقوں سے کھیتی پھل پھول رہی ہے۔ اب وہ اپنے جھونپڑے میں بستر پر دراز رہتا اور شیخ چلی جیسے منصوبے بنایا کرتا۔ "میں دس مرغیاں پالوں گا۔ وہ روز دس انڈے دیں گی۔ میں بازار جاکر یه انڈے بیچ کر ان سے دس مزید مرغیاں خریدوں گا۔ اب روز بیس انڈے حاصل ہوں گے۔ میں ان بیس انڈوں کو ایک ٹوکرے میں سرپر رکھ کر بیچنے نکلوں گا ۔ اتنے میں منا ٹافی کے لیے ضد کرے گا تو میں اچھل کر اس کی کمر پر ایک لات رسید کردوں گا۔"
کرۂ ارض پر جوں ہی حضرت انسان نے آنکھ کھولی، جاگیر داروں نے زمین پر قبضہ کرکے غلاموں سے کھیتی باڑی کا کام لینا شروع کردیا۔ یه نظام اس قدر کامیاب تھا کہ صدیوں تک یونہی چلتا رہا۔غلاموں کی محنتیں رنگ لاتیں، زمینیں سونا اگلتیں اور یوں جاگیر داروں کی جاگیریں پھلتیں، پھولتیں، پھیلتیں۔ عین ممکن تھا کہ یه کامیاب کھیتی باڑی کا نظام یوں ہی ابد الآباد تک چلتا رہتا۔ برا ہو ابرہام لنکن کا کہ اس کے ذہنی خناس نے جاگیروں کے بنے بنائے کھیتی باڑی نظام کا ستیاناس کردیا۔ غلام آزاد ہوئے تو اپنی زمینوں پر خود ہی اپنے دقیانوسی انداز میں کھیتی باڑی کرنے لگے۔
اس نظام زراعت سے کسانوں کا تو برا بھلا گزارا ہونے لگا لیکن ملکوں کی معیشت روپے کی جس ہیر پھیر کی متقاضی تھی، وہ نہ ہوتا اور نہ معیشت پھلتی پھولتی۔ دوسری جنگ جنون کے بعد خاص طور پر جاگیر داروں نے اس صورتحال کے تدارک کے لیے محکمۂ زراعت کے قیام کا باقاعدہ اہتمام کیا۔
انہی دنوں قریب کے ایک فارم پر وہاں کے غلاموں اور جانوروں نے فارم کے جاگیردار مسٹر جونز کو مار بھگایا اور خود ہی فارم پر قبضہ کرکے کھیتی باڑی کرنے لگے۔
رفتہ رفتہ ان جانوروں میں شامل سوؤروں کے ایک جتھے نے فارم پر قبضہ کرلیا اور کسانوں اور آزاد جانوروں کو دوبارہ غلام بنا لیا۔
ہمارے خطے کے کھیتوں میں گزشتہ کئی صدیوں سے مسلط لارڈ کلائیو جو کسانوں کو غلام بنائے ہوئے تھے۔، جنگِ جنون کے خاتمے پر سب کچھ یونہی چھوڑ چھاڑ کر یکایک اپنے دیش سدھارے۔
علاقے کے کسانوں کو تو ایسا موقع خدا دے، فوراً لگے کھیتی باڑی کرنے۔ یہاں بھی ان کے دقیانوسی طریقوں نے جاگیردارانہ مزاج کے حامل افراد کو کچھ نیا کرنے پر مجبور کردیا اور یوں خطے میں محکمۂ زراعت کا قیام عمل میں لایا گیا اور کھیتی باڑی محکمۂ زراعت کے حوالے کردی گئی ۔ ملکی معیشت کا پہیہ تیزی کے ساتھ گھومنا شروع ہوگیا۔ اس سبز انقلاب کو دس سال گزرے تو زراعت کی ترقی کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے دس سالہ ترقی کا جشن بھی منایا گیا۔ ساتھ ہی ان پڑھ بالغوں کی پڑھائی کے بندوبست اور کسانوں کے پاس وافر مقدار میں موجود گوبر سے بائیو گیس بنانے کے منصوبوں پر کام ہونے لگا۔ یوں محکمۂ زراعت کی مہربانی سے دن دونی اور رات چوگنی ترقی ہونے لگی۔ محکمۂ زراعت کے سربراہ نے ایک نئی خلعتِ فاخرہ سلوائی اور اسے پہن کر زراعت کے نت نئے منصوبے بنانے لگے۔ زمینیں سونا اگلتیں اور دن ڈھلے محکمہ کے کارندے سونے کی ان اینٹوں کو اٹھاالےجاتے۔
حسد بری بلا ہے۔ کہتے ہیں سامنے والے کی خوشی کسی کو بھی ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ کسانوں کا بھی یہی حال تھا۔ انہوں نے محکمۂ زراعت کو نکال باہر کیا اور خود اپنے پرانے اور دقیانوسی انداز میں کھیتی باڑی کرنے لگے۔ یه پرانے طور طریقے آخر کہاں تک چلتے، بلآخر محکمہ زراعت نے کھیتوں پر دوبارہ تسلط قائم کرلیا۔ یه آنکھ مچولی یونہی چلتی رہی۔ کبھی کسان غالب آتے تو کبھی محکمہ زراعت۔ اسی دوران دنیا کا ماحول خاصا تبدیل ہوگیا۔ دنیا، خاص طور پر امریکہ بہادر جو پہلے کبھی محکمۂ زراعت اور ان کے نت نئے طور طریقوں کی حمایت کرتا تھا، رفتہ رفتہ ابرہام لنکن کے فلسفے پر واپس آ گیا اور غلاموں کی آزادی پر زور دینے لگا۔
محکمۂ زراعت بھی کسانوں کی اس روز روز کی چخ چخ سے تنگ آچکا تھا۔ کسانوں کے ذہنوں میں بسے لنکن خناس اور امریکن سنڈیوں نے ان کا ناک میں دم کر رکھا تھا۔ کسان کس طرح نئے اور سائینسی تحقیق سے منہ موڑ کر دقیانوسی انداز فکر اپنا سکتے ہیں جبکہ انہیں علم ہے کہ کھیت کی بہتری اسی میں ہے اور وہ اسی وقت سونا اگل سکتا ہے جب محکمۂ زراعت کے سائینسی طریقوں پر سختی کے ساتھ عمل کیا جائے۔ بالآخر تنگ آکر انہوں نے وقتی طور پر کسانوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا اور اپنا وقت نئی سائینسی تحقیق میں گزانے لگے
محکمہ کی دن رات انتھک محنت رنگ لائی اور ایک نیا 'ھائیبرڈ بیج' دریافت کرلیا گیا۔ اب محکمۂ زراعت کے لیے یه ضروری نہیں رہا کہ وہ کھیت پر تصرف حاصل کریں۔ اب وہ اپنے دفتر میں بیٹھے نیا ھائیبرڈ بیج بیچتے، اور بیٹھے اس کے تماشے دیکھتے۔
اس ھائیبرڈ بیج کے ہوتے کسان کی حیثیت کاٹھ کے آلو کی سی ہوگئی ۔ان ھائیبرڈ بیجوں کا مقصد جہاں کسانوں کے ذہنوں سے ابرہام لنکن خناس نکالنا تھا وہیں امریکن سنڈیوں کا بھی خاطر خواہ تدارک ممکن ہوچکا تھا۔ ادھر کسان بھی کاٹھ کا الو بنا یه سمجھتا کہ اسی کے دقیانوسی طریقوں سے کھیتی پھل پھول رہی ہے۔ اب وہ اپنے جھونپڑے میں بستر پر دراز رہتا اور شیخ چلی جیسے منصوبے بنایا کرتا۔ "میں دس مرغیاں پالوں گا۔ وہ روز دس انڈے دیں گی۔ میں بازار جاکر یه انڈے بیچ کر ان سے دس مزید مرغیاں خریدوں گا۔ اب روز بیس انڈے حاصل ہوں گے۔ میں ان بیس انڈوں کو ایک ٹوکرے میں سرپر رکھ کر بیچنے نکلوں گا ۔ اتنے میں منا ٹافی کے لیے ضد کرے گا تو میں اچھل کر اس کی کمر پر ایک لات رسید کردوں گا۔"
آخری تدوین: