مختصر صحیح مسلم یونیکوڈ میں

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

مہوش علی

لائبریرین
السلام علیکم

سیفی بھائی کی خواہش پر "مختصر صحیح مسلم" آپ کے پیشِ خدمت ہے۔ (یہ مکمل نہیں ہے، مگر جتنے بھی ابواب مل پائیں گے، وہ یہاں پیش کر دیے جائیں گے)۔

پہلی پوسٹ میں فہرستِ کتب اور فہرستِ ابواب ہیں۔

دعا گو۔
آپکی ایک بہن۔


مختصر صحیح مسلم
(اردو ترجمہ)



کتاب : ایمان کے متعلق 61
باب: ایمان کا پہلا رکن لا الٰہ الااللہ کہنا ہے۔ 62
باب: مجھے حکم ہوا ہے لوگوں سے لڑنے کا یہانتک کہ وہ لا الٰہ الا اللہ کا اقرارکر لیں۔ 63
باب: جس نے کافر کو لاالٰہ الا اللہ کہنے کے بعد قتل کیا۔ 64
باب: جو شخص اللہ تعالی کو ایمان کیساتھ ملا اور اس کو کسی قسم کا شک نہیں وہ جنت میں داخل ہو گا۔ 65
باب: ایمان کیا ہے؟ اور اس کی اچھی عادات کا بیان۔ 68
باب: ایمان کا حکم اور اللہ کی پناہ مانگنا شیطانی وسوسہ کے وقت۔ 69
باب: اللہ پر ایمان لانے اور اس پر ڈٹ جانے کے متعلق۔ 69
باب: نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کے معجزات اور ان پر ایمان لانے کے متعلق۔ 69
باب: ان عادتوں کا بیان کہ جس میں یہ عادتیں پیدا ہوگئیں اس نے ایمان کی مٹھاس کو پا لیا۔ 70
باب: جو شخص اللہ تعالیٰ کے رب ہونے پر راضی ہو گیا، اس نے ایمان کا ذائقہ چکھ لیا۔ 70
باب: جس شخص میں چار باتیں موجود ہوں، وہ خالصتًصل اللہ علیہ و آلہِ وسلم منافق ہے۔ 71
باب: مومن کی مثال کھیت کے نرم جھاڑ کی سی اور منافق اور کافر کی مثال صنوبر (کے درخت) کی سی ہے۔ 71
باب: مومن کی مثال کھجور کے درخت کی سی ہے۔ 71
باب: حیاء ایمان میں سے ہے۔ 72
باب: اچھی ہمسائیگی اور مہمان کی عزت کرنا ایمان میں سے ہے۔ 72
باب: وہ شخص جنت میں داخل نہ ہو گا جس کا ہمسایہ اس کی مصیبتوں سے محفوظ نہ ہو۔ 72
باب: برائی کو ہاتھ اور زبان سے مٹانا اور دل میں برا سمجھنا ایمان میں سے ہے 72
باب: علی ص سے محبت کرنے والا مومن اور بغض رکھنے والا منافق ہے۔ 73
باب: انصار سے محبت ایمان کی نشانی، اور ان سے بغض نفاق کی نشانی ہے۔ 73
باب: ایمان مدینہ کی طرف سمٹ جائے گا۔ 73
باب: ایمان بھی یمن والوں کا ہے اور حکمت بھی یمن کی اچھی ہے۔ 74
باب: جو شخص ایمان نہ لائے اس کو نیک عمل کوئی فائدہ نہ دے گا۔ 74
باب: جنت میں تم اس وقت تک داخل نہ ہو گے جب تک ایمان نہ لاؤ گے 74
باب: زانی زنا کرتے وقت مومن نہیں ہوتا۔ 74
باب: مومن ایک بل (سوراخ) سے دو مرتبہ نہیں ڈسا جاتا (یعنی ایک ہی غلطی دو مرتبہ نہیں کرتا)۔ 74
باب: ایمان میں وسوسے کا بیان۔ 75
باب: سب سے بڑا گناہ اللہ کیساتھ شرک کرنا ہے۔ 75
باب: نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کے اس فرمان کا مطلب کہ میرے بعد تم آپس میں ایک دوسرے کی گردن زنی (قتل و غارت) کرکے کافر نہ ہو جانا۔ 75
باب: جو اپنے باپ سے بے رغبتی کرے (اپنا باپ کسی اور کو کہے) تو یہ عمل کفر ہے۔ 75
باب: جو شخص اپنے (مسلمان) بھائی کو کافر کہے۔ 76
باب: سب سے بڑا گناہ کونسا ہے؟۔ 76
باب: جو اس حال میں فوت ہوا کہ وہ اللہ کیساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا تو جنت میں داخل ہو گا۔ 76
باب: جس شخص کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہو گا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ 77
باب: نسب میں طعن کرنا اور میت پر چلا کر رونا کفر میں سے ہے۔ 77
باب: اس شخص کے کافر ہونے کا بیان جو یہ کہے کہ بارش ستاروں کی گردش کی وجہ سے برسی ہے۔ 77
باب: غلام کا بھاگ جانا کفر ہے۔ 77
باب: (رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کا ارشاد کہ) میرے دوست تو صرف اللہ اور ایماندار نیک لوگ ہیں۔ 78
باب: مومن کو اس کی نیکیوں کا بدلہ دنیا اور آخرت دونوں میں ملتا ہے اور کافر کی نیکیوں کا بدلہ اس کو دنیا میں ہی دے دیا جاتا ہے۔ 78
باب: اسلام کیا ہے؟ اور اس کی خصلتوں کا بیان۔ 78
باب: اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔ 79
باب: کونسا اسلام بہتر ہے؟ 79
باب: اسلام ، اپنے سے پہلے گناہ ختم کر دیتا ہے۔ اسی طرح حج اور ہجرت سے بھی سابقہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ 79
باب: مسلمان کو گالی دینا گناہ ہے اور اس سے لڑائی کرنا کفر ہے۔ 80
باب: جب آدمی کا اسلام اچھا ہو تو جاہلیت کے اعمال پر مواخذہ نہیں ہوتا۔ 80
باب: جب تم میں سے کسی کا اسلام اچھا ہو تو ہر نیکی، جسے وہ کرتا ہے ، دس گنا لکھی جاتی ہے۔ 80
باب: مسلمان وہی ہے جس سے دیگر مسلمان محفوظ ہوں۔ 81
باب: جس نے جاہلیت میں کوئی نیک عمل کیا پھر وہ مسلمان ہو گیا۔ 81
باب: آزمائش سے ڈرانا۔ 81
باب: اسلام کی ابتداء غربت سے ہوئی (اور) عنقریب اسلام پہلی حالت میں لوٹ آئے گا اور وہ دو مسجدوں (مکہ و مدینہ) میں سمٹ کر رہ جائے گا۔ 81
باب: رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کی طرف وحی کی ابتداء۔ 81
باب: وحی کا کثرت سے اور لگاتار نازل ہونا۔ 83
باب: رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کا آسمانوں پر تشریف لے جانا (یعنی معراج) اور نمازوں کا فرض ہونا۔ 83
باب: نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کا انبیاء کرام علیہم السلام کاتذکرہ کرنا۔ 85
باب: نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کا مسیح عیسیٰ 6 اور دجّال کا تذکرہ فرمانا۔ 85
باب: نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کا انبیاء علیہم السلام کو نماز پڑھانا۔ 86
باب: معراج (والی رات )میں نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کا سدرۃ المنتہی تک پہنچنا۔ 86
باب: اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنَ اَوْ اَدْنیٰ﴾ کا مطلب 87
باب: اللہ تعالیٰ کے دیدار کے بیان میں۔ 87
باب: اللہ کی توحید کا اقرار کرنے والوں کا جہنم سے نکلنا۔ 90
باب: شفاعت کا بیان۔ 92
باب: نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کا فرمان کہ میں سب سے پہلے جنت کے متعلق سفارش کروں گا اور دیگر انبیاء سے میرے متبعین زیادہ ہوں گے۔ 94
باب: نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کا جنت کا دروازہ کھلوانا۔ 94
باب: نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کا فرمان کہ ہر نبی کی ایک دعا قبول کی گئی ہے۔ 94
باب: نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کا اپنی امت کیلئے دعا فرمانا۔ 94
باب: اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے متعلق کہ ”(اے محمد صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم ) اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرایئے“۔ 95
باب: کیا نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم ابو طالب کو کوئی فائدہ پہنچا سکے؟ 95
باب: نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کا فرمان کہ میری امت میں سے ستر ہزار افراد بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے۔ 96
باب: نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کا فرمان کہ میں امید کرتا ہوں کہ جنت والوں میں آدھے تم ہو گے (یعنی مسلمان)۔ 97
باب: اللہ عزوجل کا آدم 6 کو یہ فرمانا کہ ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے افراد جہنم کیلئے نکالو۔ 97
کتاب : وضو کے مسائل 98
باب: اللہ تعالیٰ کوئی نماز وضو کے بغیر قبول نہیں کرتا۔ 98
باب: نیند سے جاگتے وقت، برتن میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے ہاتھوں کو دھونے کیا بیان۔ 98
باب: راستہ میں اور سایہ میں پاخانہ پھرنے کی ممانعت ۔ 98
باب: پیشاب کرتے وقت ستر کو چھپانا ۔ 98
باب: جب بیت الخلاء میں داخل ہوتو کیا پڑھے؟ 99
باب: پاخانہ یا پیشاب کرتے وقت قبلہ کی طرف منہ نہ کیا جائے۔ 99
باب: بنے ہوئے بیت الخلاء میں اس بات کی رخصت۔ 99
باب: پانی میں پیشاب کرنے کی ممانعت کہ پھر اس سے غسل بھی کیا جائے 99
باب: پیشاب سے بچنے اور پردہ کرنے کا بیان۔ 99
باب: دائیں ہاتھ سے استنجاء کرنے کی ممانعت ۔ 100
باب: پیشاب یا پاخانے سے فارغ ہو کر پانی سے استنجاء کرنا۔ 100
باب: طاق ڈھیلے استعمال کرنے کا بیان۔ 100
باب: پتھر سے استنجاء کرنے کا بیان اور گوبر یا ہڈی سے استنجاء کرنے کی ممانعت۔ 100
باب: مردہ جانور کی کھال سے فائدہ حاصل کرنا۔ 100
باب: جب چمڑا رنگ لیا جائے تو وہ پاک ہوجاتا ہے۔ 100
باب: جب کتا تمہارے برتن میں منہ ڈال دے تو اس برتن کو سات مرتبہ دھونا چاہیئے۔ 101
باب: وضو کی فضیلت کا بیان۔ 101
باب: وضو کے ساتھ گناہوں کا دور ہونا۔ 101
باب: وضو کے وقت مسواک کرنا۔ 101
باب: وضو یا دیگر کاموں میں دائیں طرف سے شروع کرنا۔ 102
باب: رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کے وضو کا طریقہ۔ 102
باب: ناک میں پانی ڈال کر جھاڑنا۔ 102
باب: پیشانیوں اور ہاتھ پاؤں کی چمک پوراوضو کرنے سے ہوگی۔ 102
باب: جس نے بہترین انداز سے وضو کیا۔ 103
باب: مجبوری میں (بھی) کامل وضو کرنے کی فضیلت۔ 104
باب: (جنت میں) زیور وہاں تک پہنچے گا، جہاں تک وضو کا پانی پہنچے گا۔ 104
باب: جو وضو کی جگہوں کو کچھ چھوڑ دے، وہ اسے دھوئے اور نماز لوٹائے۔ 104
باب: غسل اور وضو میں کتنا پانی کافی ہے؟۔ 104
باب: موزوں پر مسح کرنے کا بیان۔ 105
باب: موزوں پر مسح کرنے کی مدت کا بیان۔ 105
باب: پیشانی اور دستار (عمامہ) پر مسح کرنا ۔ 105
باب: پگڑی (دستار یا عمامہ) پر مسح کرنا۔ 106
باب: ایک وضو سے کئی نمازیں پڑھنا۔ 106
باب: وضو کے بعد کیا کہا جائے۔ 106
باب: مذی کو دھونا اور اس کی وجہ سے وضو کرنا۔ 107
باب: بیٹھنے والے کی نیند وضو نہیں توڑتی۔ 107
باب: اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد وضو کرنا۔ 107
باب: ہر اس چیز سے وضو کرنا جس کو آگ نے چھوا ہو۔ 107
باب: آگ سے پکی ہوئی چیز سے وضو کا حکم منسوخ ہے۔ 107
باب: اس آدمی کا بیان جسے نماز میں (ہوا نکلنے) کا خیال آئے۔ 108
کتاب : غسل کے مسائل 108
باب: ”اِنَّمَصل اللہ علیہ و آلہِ وسلم الْمَاءُ مِنَ الْمَاءِ“ کے متعلق ۔ 108
باب: منی کے نکلنے ہی سے غسل واجب ہونے کا حکم منسوخ ہے اور شرمگاہوں کے ملنے سے غسل واجب ہونے کا بیان۔ 108
باب: جو عورت نیند میں وہ چیز دیکھے جو کچھ مرد دیکھتا ہے تو وہ عورت بھی غسل کرے گی۔ 109
باب: غسل جنابت کا طریقہ۔ 109
باب: کتنے پانی سے غسل جنابت کیا جا سکتا ہے۔ 109
باب: غسل کرنے والے کا کپڑے سے پردہ کرنا۔ 110
باب: اکیلے آدمی کا غسل جنابت کرنا اور پردہ کرنا۔ 110
باب: مرد یا عورت کے ستر دیکھنے کی ممانعت۔ 110
باب: شرمگاہ کو چھپانا اور انسان ننگا نظر نہیں آنا چاہیئے۔ 110
باب: میاں بیوی کا ایک ہی برتن سے غسل جنابت کرنا۔ 110
باب: جنبی جب سونے یا کھانے پینے کا ارادہ کرے، تو پہلے وضو کر ے۔ 111
باب: جنبی، غسل کرنے سے پہلے سو سکتا ہے۔ 111
باب: جو کوئی اپنی بیوی کے پاس دوبارہ جانا چاہے تو وضو کر لے۔ 111
باب: تیمم کے بارہ میں جو کچھ بیان ہوا ہے۔ 111
باب: جنابت سے تیمم کرنا۔ 112
باب: سلام کا جواب دینے کیلئے تیمم کرنا۔ 112
باب: مومن نجس نہیں ہوتا ۔ 112
باب: ہر وقت اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا۔ 113
باب: مُحدِث آدمی کھا پی سکتا ہے اگرچہ اس نے وضو نہ کیا ہو۔ 113
کتاب : حیض کے مسائل 113
باب: اللہ تعالیٰ کے فرمان: وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْمَحِیْضٍ ... کے بیان میں۔ 113
باب: عورت حیض کے بعد اور جنابت کا غسل کیسے کرے؟ 113
باب: حائضہ عورت کا کپڑا یا مصلیٰ وغیرہ پکڑانا۔ 114
باب: حائضہ عورت کا آدمی کے سر کو دھونا اور کنگھی کرنا۔ 114
باب: حائضہ عورت کی گود میں تکیہ لگانا اور قرآن پاک پڑھنا۔ 114
باب: ایک ہی لحاف میں حائضہ عورت کیساتھ سونا۔ 114
باب: حائضہ عورت سے مافوق الازار مباشرت کرنا (یعنی ساتھ لیٹنا)۔ 115
باب: حائضہ عورت کے ساتھ ایک ہی برتن میں پینا۔ 115
باب: استحاضہ کے متعلق اور مستحاضہ کا غسل کرنا اور نماز پڑھنا۔ 115
باب: حائضہ عورت نماز کی قضا نہیں دے گی البتہ روزے کی قضا دے گی۔ 115
باب: پانچ چیزیں فطرت میں سے ہیں۔ 115
باب: دس چیزیں فطرت میں سے ہیں۔ 116
باب: بڑے کو مسواک دینا۔ 116
باب: مونچھیں کتراؤ اور داڑھی بڑھاؤ۔ 116
باب: مسجد سے پیشاب دھونا۔ 116
باب: بچے کے پیشاب کی وجہ سے کپڑے پر چھینٹے مارنا۔ 117
باب: کپڑے سے منی کا د ھونا۔ 117
باب: کپڑے سے حیض کا خون دھونا۔ 117
باب: اللہ تعالیٰ کے فرمان: وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْمَحِیْضٍ ... کے بیان میں۔ 117
باب: عورت حیض کے بعد اور جنابت کا غسل کیسے کرے؟ 118
باب: حائضہ عورت کا کپڑا یا مصلیٰ وغیرہ پکڑانا۔ 118
باب: حائضہ عورت کا آدمی کے سر کو دھونا اور کنگھی کرنا۔ 118
باب: حائضہ عورت کی گود میں تکیہ لگانا اور قرآن پاک پڑھنا۔ 119
باب: ایک ہی لحاف میں حائضہ عورت کیساتھ سونا۔ 119
باب: حائضہ عورت سے مافوق الازار مباشرت کرنا (یعنی ساتھ لیٹنا)۔ 119
باب: حائضہ عورت کے ساتھ ایک ہی برتن میں پینا۔ 119
باب: استحاضہ کے متعلق اور مستحاضہ کا غسل کرنا اور نماز پڑھنا۔ 119
باب: حائضہ عورت نماز کی قضا نہیں دے گی البتہ روزے کی قضا دے گی۔ 120
باب: پانچ چیزیں فطرت میں سے ہیں۔ 120
باب: دس چیزیں فطرت میں سے ہیں۔ 120
باب: بڑے کو مسواک دینا۔ 120
باب: مونچھیں کتراؤ اور داڑھی بڑھاؤ۔ 120
باب: مسجد سے پیشاب دھونا۔ 121
باب: بچے کے پیشاب کی وجہ سے کپڑے پر چھینٹے مارنا۔ 121
باب: کپڑے سے منی کا د ھونا۔ 121
باب: کپڑے سے حیض کا خون دھونا۔ 121
کتاب : نماز کے مسائل 122
باب: آذان کی ابتداء۔ 122
باب: اذان کا بیان۔ 122
باب: اذان دوہری اور اقامت اکہری کہے۔ 122
باب: دو مؤذن مقرر کرنا۔ 122
باب: نابینا آدمی کو مؤذن مقرر کرنا۔ 122
باب: اذان کی فضیلت۔ 123
باب: اذان کہنے والوں کی فضیلت۔ 123
باب: جیسے مؤذن کہے ویسے ہی کہنا۔ 123
باب: اس شخص کی فضیلت جو مؤذن کی طرح کلمات ِ (آذان) کہے۔ 123
باب: نماز کی فرضیت کا بیان۔ 124
باب: (ابتداء میں) دو دو رکعت نماز کی فرضیت کا بیان۔ 124
باب: پانچ نمازیں درمیانی وقفے کے گناہوں کا کفارہ بنتی ہیں۔ 125
باب: نماز چھوڑنا کفر ہے۔ 125
باب: اوقات ِ نماز کا جامع بیان۔ 125
باب: صبح کی نماز اندھیرے میں پڑھنا۔ 126
باب: فجر اور عصر کی نمازوں کی پابندی کرنا۔ 126
باب: سورج طلوع ہوتے وقت اور غروب ہوتے وقت نماز پڑھنا منع ہے۔ 126
باب: ظہر کی نماز اول وقت میں ادا کرنا۔ 127
211: سیدنا خباب ص کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کی خدمت میں آئے اور آپ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم سے (جھلسا دینے والی) سخت گرمی کی، شکایت کی تو آپ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم نے قبول نہ فرمائی۔ زہیر نے کہا کہ میں نے ابو اسحاق سے پوچھا کہ ظہر کی نماز کی شکایت کی تھی؟ انہوں نے کہا ہاں میں نے کہا کہ اوّل وقت نماز ادا کرنے کی؟ انہوں نے کہا ہاں۔ (یعنی کچھ تاخیر کرنے کا مطالبہ کیا تھا جو کہ ابتداء میں آپ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم نے قبول نہ فرمایا اور بعد میں اس کی اجازت دے دی، جیسے اگلی حدیث میں ہے)۔ 127
باب: سخت گرمی میں ظہر کی نماز کو ٹھنڈا کر کے پڑھنا۔ 127
باب: نمازِ عصر کا اوّل وقت۔ 127
باب: نماز عصر کی محافظت اور عصر کے بعد نماز پڑھنے کی ممانعت۔ 128
باب: اس شخص کے بارے میں سخت وعید کہ جس کی نمازِ عصر فوت ہوگئی۔ 128
باب: درمیانی نماز کے متعلق کیا آیا ہے؟ 128
باب: عصر اور فجر کے بعد نماز پڑھنے کی ممانعت۔ 128
باب: تین اوقات میں نہ نماز پڑھی جائے اور نہ میت کو دفنایا جائے۔ 128
باب: عصر کے بعد دو رکعت پڑھنے کا بیان۔ 128
باب: غروب آفتاب کے بعد عصر کی قضا کرنا۔ 129
باب: غروب آفتاب کے بعد، نمازِ مغرب سے پہلے دو رکعتیں پڑھنا۔ 129
باب: مغرب کا وقت اس وقت ہوتا ہے جب سورج غروب ہو جائے۔ 129
باب: عشاء کا وقت اور اس میں تاخیر کرنے کا بیان۔ 129
باب: نمازِ عشاء کے نام کے متعلق۔ 129
باب: نماز کو اس کے وقت سے لیٹ کرنا منع ہے۔ 130
باب: افضل عمل نماز کو وقت پر ادا کرنا ہے۔ 130
باب: جس نے نماز کی ایک رکعت پالی، تو اس نے نماز کو پا لیا۔ 130
باب: جو آدمی سو جائے یا نماز بھول جائے، تو جب یاد آئے اسی وقت پڑھ لے۔ 130
باب: ایک کپڑے میں نماز پڑھنا۔ 132
باب: نقش و نگار والے کپڑے میں نماز پڑھنا۔ 132
باب: چٹائی پر نماز پڑھنا۔ 132
باب: جوتے پہن کر نماز پڑھنا۔ 132
کتاب : المساجد 133
باب: زمین پر بنائی جانے والی سب سے پہلی مسجد۔ 133
باب: مسجد نبوی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کی تعمیر۔ 133
باب: اس مسجد کے متعلق جس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی۔ 133
باب: مکہ اور مدینہ کی مسجد میں نماز پڑھنے کی فضیلت۔ 134
باب: مسجد قبا میں جانا اور اس میں نماز ادا کرنا۔ 134
باب: اس شخص کی فضیلت جس نے اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے مسجد بنائی۔ 134
باب: مساجد کی فضیلت۔ 134
باب: مساجد کی طرف زیادہ قدم اٹھانے کی فضیلت۔ 135
باب: نمازوں کی طرف چلنے سے گناہ معاف اور درجات بلند کئے جاتے ہیں۔ 135
باب: نماز کیلئے اطمینان سے آنا اور دوڑنے سے اجتناب کرنا۔ 135
باب: عورتوں کا مساجد میں (نماز وغیرہ کیلئے) جانا۔ 135
باب: عورتوں کو (مسجد میں) جانے سے منع کرنا۔ 135
باب: مسجد میں داخل ہوتے وقت کیا دعا پڑھیں؟۔ 136
باب: جب مسجد میں داخل ہو تو دو رکعت (نفل) پڑھے۔ 136
باب: اذان کے بعد مسجد سے نکلنے کی ممانعت۔ 136
باب: مسجد میں تھوکنے کا کفارہ۔ 136
باب: لہسن کھا کر مسجد میں آنے کی کراہت ۔ 136
باب: (کچا) پیاز اور لہسن کھانے کے بعد مسجد سے الگ رہنے کا حکم(کُرَّاث پیاز اور لہسن کے مشابہ بدبودار پودا ہے)۔ 136
باب: جس کے منہ سے پیاز یا لہسن کی بدبو آئے، اس کو مسجد سے نکالنا۔ 137
باب: مسجد میں گمشدہ چیز کا اعلان کرنا منع ہے۔ 137
باب: قبروں کو سجدہ گاہ بنانے کی ممانعت۔ 138
باب: قبروں پر مساجد بنانے کی ممانعت۔ 138
باب: میرے لئے ساری زمین کو پاک اور مسجد بنا دیا گیا۔ 138
باب: نمازی سترہ کتنی مقدار کا بنائے؟ 138
باب: (نمازی کا) ”سُترہ“ کے قریب کھڑا ہونا۔ 139
باب: نمازی کے آگے لیٹنا۔ 139
باب: قبلہ کی طرف متوجہ ہونے کا حکم۔ 139
باب: قبلہ کی شام سے کعبہ کی طرف تبدیلی کے متعلق۔ 139
باب: جب نماز کھڑی ہو جائے تو فرض نماز کے علاوہ کوئی نماز نہیں ہوتی۔ 139
باب: جب اقامت کہی جائے تو لوگ کس وقت کھڑے ہوں؟۔ 139
باب: نماز کیلئے اقامت اس وقت کہی جائے، جب امام مسجد میں آجائے۔ 140
باب: امام کا اقامت (کہے جانے) کے بعدغسل کیلئے (مسجد سے) نکلنا۔ 140
باب: صفوں کو درست کرنے کے بیان میں۔ 140
باب: پہلی صف کی فضیلت۔ 140
باب: ہر نماز کے وقت مسواک کرنا۔ 141
باب: نماز میں داخل ہوتے وقت ذکر کی فضیلت۔ 141
271: سیدنا انس ص سے روایت ہے کہ ایک شخص آیا اور نماز کی صف میں مل گیا اور اس کا سانس پھولا ہوا تھا تواس نے کہا ”سب تعریف اللہ کیلئے ہے، بہت تعریف اور پاک بابرکت“ پھر جب رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم نماز پڑھ چکے تو آپ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کون تھا جس نے یہ کلمات کہے؟ پس ساری قوم کے لوگ چپ ہو رہے۔ پھر آپ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم نے دوبارہ فرمایا کہ کس نے یہ کلمات کہے؟ کیونکہ اس نے کوئی بُری بات نہیں کہی، تو اس شخص نے عرض کیا کہ میں آیا اور میرا سانس چڑھا ہوا تھا تو میں نے یہ کلمات کہے تھے۔ آپ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم نے فرمایا کہ میں نے بارہ فرشتوں کو دیکھا کہ ایک دوسرے سے جلدی کر رہے تھے کہ ان میں سے کون ان (کلمات) کو اوپر (یعنی اللہ عزوجل کے پاس) لے جائے۔ 141
باب: نماز میں رفع الیدین کرنا۔ 141
باب: نماز کس لفظ سے شروع ہوتی ہے اور کس لفظ پر ختم ہوتی ہے۔ 141
باب: نماز میں تکبیر (اللہ اکبر) کہنا۔ 142
باب: تکبیر وغیرہ میں امام سے پہل کرنے کی ممانعت۔ 142
باب: مقتدی کو امام کی پیروی ضروری ہے۔ 142
باب: نماز میں ہاتھوں کا ایک کو دوسرے پر رکھنا۔ 142
باب: تکبیر (اللہ اکبر) اور قرأت کے درمیان کیا پڑھا جائے؟ 143
باب: نماز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم بلند آواز سے نہ کہنا۔ 144
باب: بسم اللہ الرحمن الرحیم کے بارے میں۔ 144
باب: نماز میں سورئہ فاتحہ پڑھنا فرض ہے۔ 144
باب: قرآن کے اس حصہ کی قرأت کرنا جو آسان ہو۔ 145
باب: امام کے پیچھے قرأت کرنا۔ 145
باب: الحمد للہ پڑھنا اور آمین کہنا۔ 145
باب: نماز ِ فجرمیں قرأت کا بیان۔ 145
باب: ظہر اور عصر میں قرأت کرنے کا بیان۔ 146
باب: مغرب کی نماز میں قرأت ۔ 146
باب: نمازِ عشاء میں قرأت۔ 146
باب: رکوع اور سجود میں امام سے پہل کرنے کی ممانعت۔ 146
باب: امام سے پہلے سر اٹھانے کی ممانعت۔ 147
باب: رکوع میں تطبیق کرنا۔ 147
باب: دونوں ہاتھوں کا رکوع میں گھٹنوں پر رکھنا اور تطبیق کا منسوخ ہونا۔ 147
باب: رکوع اور سجدہ میں کیا دعا کرنی چاہئیے؟ 148
باب: رکوع و سجود میں قرأت کرنے کی ممانعت۔ 148
باب: جب کوئی رکوع سے سر اٹھائے تو کیا کہے؟ 148
باب: سجدے کی فضیلت اور کثرتِ سجود کی ترغیب۔ 148
باب: سجدوں میں دعا کرنا۔ 149
باب: کتنے اعضاء پر سجدہ کرنا چاہیئے؟۔ 149
باب: سجدوں میں اعتدال اور کہنیاں اٹھا کر رکھنا۔ 149
باب: سجدہ میں بازوؤں کو پہلوؤں سے الگ رکھنا۔ 149
باب: نماز میں بیٹھنے کی کیفیت کا بیان ۔ 149
باب: دونوں قدموں پر ”اقعا“ کرنا۔ 149
باب: نماز میں تشہد کا بیان۔ 150
باب: نماز میں کن چیزوں سے پناہ حاصل کی جائے؟ 151
باب: نماز میں دعا مانگنے کا بیان۔ 151
باب: نماز میں شیطان پر لعنت کرنا اور اس سے پناہ مانگنے کا بیان۔ 151
باب: نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم پر درود پڑھنے کا بیان۔ 151
باب: نماز سے سلام پھیرنا۔ 152
باب: جب نماز سے سلام پھیرے تو ہاتھ سے اشارہ کرنا مکروہ ہے۔ 152
باب: نماز سے سلام پھیرنے کے بعد کیا کہا جائے؟ 152
باب: نماز کے بعد اللہ اکبر کہنا۔ 152
باب: نماز کے بعد سبحان اللہ، الحمدللہ اور اللہ اکبر کا ورد کرنا۔ 152
باب: نماز کے بعد دائیں اور بائیں طرف پھرنا۔ 153
باب: امامت کا حقدار کون ہے؟ 153
باب: امام کی اتباع کرنا اور ہر عمل امام کے بعد کرنا۔ 153
باب: اماموں کے نماز کو پورا اور ہلکا پڑھنے کا حکم ۔ 153
باب: نماز کیلئے امام کا اپنا جانشین مقرر کرنا اور اس کا لوگوں کو نماز پڑھانا۔ 153
باب: جب امام پیچھے رہ جائے تو اس کے علاوہ کسی دوسرے کو (امامت کیلئے) آگے کر لیا جائے۔ 154
باب: جو شخص اذان سنتا ہے اس پر مسجد میں آنا واجب ہے۔ 155
باب: جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کی فضیلت۔ 155
باب: جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا ، ہدایت کے طریقوں میں سے ہے۔ 155
باب: نماز کے انتظار اور جماعت کی فضیلت کا بیان۔ 155
باب: عشاء اور فجر کی جماعت کی فضیلت کا بیان۔ 156
باب: عشاء اور فجر کی نماز جماعت کے ساتھ ادا نہ کرنے پر سخت وعید۔ 156
باب: عذر کی بناء پر جماعت سے رہ جانے کی رخصت۔ 156
باب: نماز کو اچھے (خوبصورت) طریقہ پر ادا کرنے کا حکم۔ 156
باب: نماز اعتدال کے ساتھ اور پوری طرح پڑھنے کا بیان۔ 156
باب: افضل نماز لمبے قیام والی ہے۔ 157
باب: نماز میں سکون کا حکم۔ 157
باب: نماز میں سلام کے جواب کیلئے اشارہ کرنا۔ 157
باب: نماز میں گفتگو کرنے کا حکم منسوخ ہے۔ 157
باب: نماز میں، ضرورت کے وقت سبحان اللہ کہنا۔ 158
باب: نماز میں آسمان کی طرف نظر اٹھانے کی ممانعت۔ 158
باب: نما ز ی کے آ گے سے گز ر نے پر سخت و عید۔ 159
باب: نمازی کے آگے سے گزرنے والے کو منع کرنا۔ 159
باب: نمازی کس چیز کا سترہ بنائے۔ 159
باب: برچھا کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنا۔ 159
باب: سواری کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنا۔ 160
باب: نمازی کے سامنے سترہ کے آگے سے گزرنے کی اجازت۔ 160
باب: نماز میں کمر پر ہاتھ رکھنے کی ممانعت۔ 160
باب: نماز میں آدمی کو اپنے سامنے تھوکنے کی ممانعت ہے۔ 160
باب: نماز میں جمائی لینے اور اسے روکنے کے بارے میں۔ 160
باب: نماز میں بچوں کو اٹھا لینے کی اجازت کا بیان۔ 161
باب: نماز میں کنکریوں کو (سیدھا کرنے کیلئے) چھونے کا بیان۔ 161
باب: تھوک کو جوتے کے ساتھ مسلنا۔ 161
باب: نماز میں سر کے بالوں کو باندھنا ۔ 161
باب: کھانے کی موجودگی میں نماز پڑھنے کا بیان۔ 161
باب: نماز میں بھولنا اور اس میں سجدہ کرنے کا حکم۔ 161
باب: قرآن مجید میں (تلاوت کے) سجدوں کا بیان۔ 162
باب: صبح کی نماز میں (دعائے) قنوت پڑھنے کا بیان۔ 162
باب: نمازِ مغرب میں قنوت پڑھنے کا بیان۔ 163
باب: فجر کی دو رکعتیں (سنت ِ فجر کا بیان) ۔ 163
باب: فجر کی سنتوں کی فضیلت۔ 163
باب: فجر کی سنتوں میں قرأت کی مقدار۔ 163
باب: فجر کی سنتوں کے بعد لیٹنا۔ 163
باب: نمازِ فجر کے بعد اپنی جگہ پر بیٹھے رہنا۔ 164
باب: چا شت کی نماز کا بیان۔ 164
باب: نمازِ چاشت دو رکعتیں۔ 164
باب: چاشت کی چار رکعتیں۔ 164
باب: چاشت کی آٹھ رکعتیں۔ 164
باب: نماز چاشت کی وصیت۔ 165
باب: نمازِ اوّابین کا بیان۔ 165
باب: جس نے اللہ تعالیٰ کیلئے سجدہ کیا تو اس کیلئے جنت ہے۔ 165
باب: اس شخص کی فضیلت جس نے (ایک) دن اور رات میں بارہ رکعت (سنتیں) پڑھیں۔ 165
باب: ہر دو اذانوں (یعنی اذان اور تکبیر) کے مابین نماز ہے۔ 165
باب: نماز سے پہلے اور بعد میں نوافل پڑھنا۔ 165
باب: رات اور دن میں نوافل پڑھنا۔ 166
باب: مسجد میں نفل نماز پڑھنا۔ 166
باب: نفل نماز گھروں میں پڑھنے کا بیان۔ 166
باب: خوشی سے نوافل پڑھو۔ جب سست ہو جاؤ یا تھک جاؤ تو بیٹھ جاؤ۔ 166
باب: اللہ کو وہ عمل پسند ہے جو ہمیشہ کیا جائے۔ 167
باب: اسی قدر عمل اختیار کرو جتنی طاقت ہو۔ 167
باب: نبی اکرم صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کی رات کی نماز اور آپ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کی دعائیں۔ 167
باب: نبی رحمت صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کی دعا جب آپ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم رات کو قیام فرماتے۔ 168
باب: رات کی نماز کی کیفیت اور رکعات کی تعداد۔ 168
باب: رات کی نماز دو دو رکعت ہے اوروتر ایک رکعت ہے رات کے آخر میں۔ 168
باب: رات کی نماز کھڑے ہو کر اور بیٹھ کر پڑھنا۔ 168
باب: آدمی کا پوری رات سونے کی کراہیت کہ اس میں کوئی نماز نہ پڑھے۔ 168
باب: جب نماز میں اونگھ آنے لگے تو سو جائے۔ 169
باب: شیطان کی گرہ کیسے کھلتی ہے؟ 169
باب: رات میں ایک گھڑی ایسی ہے جس میں دعا (ضرور) قبول ہوتی ہے۔ 169
باب: رات کے آخری حصہ میں دعا اور ذکر کی ترغیب اور اس میں دعا کی قبولیت کا بیان۔ 169
باب: رات کی نماز کا جامع بیان اور جو شخص اس سے سو جائے یا بیمار ہو جائے۔ 169
باب: نمازِ وتر کے بارے میں۔ 171
باب: وتر اور فجر کی دو سنتوں کے بارے میں۔ 171
باب: جس کو ڈر ہے کہ وہ آخر رات نہیں اٹھ سکے گا تو وہ وتر کو اول رات میں پڑھ لے۔ 171
باب: صبح سے پہلے وتر پڑھ لیا کرو۔ 171
باب: نماز میں قرآن مجید پڑھنے کی فضیلت۔ 172
باب: ان ایک جیسی سورتوں کے متعلق جن میں سے دو سورتیں ایک رکعت میں پڑھے گا۔ 172
باب: رمضان کی نماز کے بارے میں کیا آیا ہے؟ 172
باب: قیام رمضان کا بیان اور اس میں ترغیب دلانا۔ 173
کتاب : جمعہ کے مسائل 173
باب: جمعہ کے دن کے بارے (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) اس امت کی رہنمائی۔ 173
باب: جمعہ کے دن کی فضیلت۔ 173
باب: جمعہ کے دن ایک خاص گھڑی (وقت) کا بیان۔ 173
باب: جمعہ کے دن نماز ِ فجر میں کیا پڑھا جائے؟ 174
باب: جمعہ کے دن غسل کے بارے میں۔ 174
باب: جمعہ کے دن خوشبو اور مسواک کا بیان۔ 174
باب: جمعہ کے دن اول وقت میں آنے والے کی فضیلت۔ 174
باب: جمعہ کی نماز کا وقت اس وقت ہے جب سورج ڈھل جائے۔ 175
باب: رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کا منبر بنوانا اور نماز میں اس پر کھڑے ہونے کا بیان۔ 175
باب: خطبہ میں کیا کہا جائے۔ 175
باب: خطبہ میں آواز کا بلند کرنا اور اس میں خطیب کیا کہے؟۔ 176
باب: خطبہ مختصر کرنا ۔ 176
باب: خطبہ میں جس چیز کا چھوڑنا جائز نہیں۔ 176
باب: خطبہ میں منبر پر قرآن مجید پڑھنا۔ 176
باب: خطبہ میں انگلی سے اشارہ کرنا۔ 177
باب: اللہ تعالیٰ کے فرمان ”وَاِذَصل اللہ علیہ و آلہِ وسلم رَاَوْصل اللہ علیہ و آلہِ وسلم تِجَارَةً اَوْ لَھْوًصل اللہ علیہ و آلہِ وسلم … … کے بیان میں۔ 177
باب: نماز ِ جمعہ میں کیا پڑھے؟ 177
باب: خطبہ میں علم کی باتوں کی تعلیم دینا۔ 177
باب: جمعہ کے خطبوں کے درمیان بیٹھنا۔ 178
باب: نماز اور خطبہ میں تخفیف کرنا۔ 178
باب: جب کوئی آدمی جمعہ کے دن اس حال میں مسجد میں داخل ہو کہ امام خطبہ دے رہا ہو تو وہ دو رکعت پڑھے۔ 178
باب: خطبہ کیلئے دوسروں کو چپ کرانا۔ 178
باب: کان لگا کر خاموشی سے خطبہ سننے کی فضیلت ۔ 178
باب: جمعہ کے بعد مسجد میں نماز پڑھنے کا بیان۔ 178
باب: جمعہ کے بعد گھر میں نماز پڑھنا۔ 179
باب: جمعہ کے بعد کلام کرنے یا نکلے بغیر نماز نہ پڑھی جائے۔ 179
باب: جمعہ چھوڑنے پر سخت وعید۔ 179
کتاب : عیدین کے مسائل 179
باب: عیدین میں اذان اور اقامت چھوڑنے کا بیان۔ 179
باب: عیدین کی نماز خطبہ سے پہلے پڑھنے کا بیان۔ 179
باب: نماز عیدین میں کیا پڑھا جائے؟ 180
باب: عیدگاہ میں عید سے پہلے اور بعد کوئی نماز نہیں پڑھنی چاہیئے۔ 180
باب: عورتوں کا عیدین کے لئے نکلنا۔ 180
باب: بچیاں عید میں کیا کہیں؟ 180
کتاب : مسافر کی نماز 181
باب: امن کی حالت میں بھی مسافر کی نماز میں قصر ہے۔ 181
باب: کتنے سفر میں قصر کی جا سکتی ہے؟ 181
باب: حج میں نماز کا قصر کرنا۔ 181
باب: منیٰ میں نماز کا قصر کرنا۔ 181
باب: سفر میں دو نمازیں اکٹھی پڑھنا۔ 182
باب: حضر میں دو نمازیں اکٹھی پڑھنا۔ 182
باب: بارش کی صورت میں گھروں میں نماز پڑھنا۔ 182
باب: سفر میں نفلی نماز (یعنی سنتیں) چھوڑ دینا۔ 182
باب: سفر میں سواری پر نفلی نماز (تہجد) پڑھنا۔ 183
باب: جب کوئی سفر سے واپس آئے تو مسجد میں دو رکعت نماز ادا کرے۔ 183
باب: خوف کے وقت نماز کے بارے میں کیا (حکم) آیا ہے؟ 183
باب: سورج گرہن کی نماز کا بیان۔ 183
باب: نماز استسقاء کے بارے میں۔ 184
باب: بارش کی برکت کا بیان۔ 184
باب: آندھی اور بادل کے وقت اللہ کی پناہ لینا اور بارش آنے پر خوش ہونا۔ 184
باب: مشرق کی طرف کی ہوا (صبا) اور مغرب کی طرف کی ہوا (دبور) کے بارے میں۔ 185
کتاب : جنازہ کے مسائل 185
باب: بیماروں کی عیادت کرنے کا بیان۔ 185
باب: مریض اور میت کے پاس کیا کہا جائے؟ 185
باب: قریب المرگ کو ”لا الٰہ الا اللہ“ کی تلقین کرنا۔ 186
باب: موت کے وقت اللہ تعالیٰ سے حسن ظن (نیک گمان) رکھنے کا بیان۔ 186
باب: میت کی آنکھیں بند کرنے اور اس کیلئے دعا کرنے کا بیان۔ 186
باب: میت کو کپڑے سے ڈھانپ دینا ۔ 187
باب: مومنوں اور کافروں کی روحوں کا بیان۔ 187
باب: شروع صدمہ میں مصیبت پر صبر کرنے کا بیان۔ 187
باب: اولاد کے مرنے پر ثواب کی نیت سے صبر کرنے پر اجر و ثواب۔ 188
باب: مصیبت کے وقت کیا کہا جائے؟ 188
باب: میت پر رونے کے بیان میں۔ 188
باب: نوحہ کرنے پر سخت وعید۔ 188
باب: جو شخص (صدمے کی وجہ سے) منہ پر تھپیڑے مارے اور گریبان چاک کرے وہ ہم میں سے نہیں ۔ 189
باب: زندہ کے رونے سے میت کو عذاب ہوتا ہے۔ 189
باب: آرام پانے والے اور جس سے لوگوں کو آرام ملے، اس بارے میں جو کچھ وارد ہوا ہے اس کا بیان۔ 189
باب: میت کو غسل دینے کا بیان۔ 189
باب: میت کے کفن کا بیان۔ 190
باب: میت کو بہترین کفن پہنانے کا بیان۔ 190
باب: جنازہ جلدی لے جانے کا بیان۔ 190
باب: عورتوں کے جنازے کیساتھ جانے کے منع کا بیان۔ 190
باب: جنازہ کیلئے کھڑے ہونے کا بیان۔ 190
باب: جنازہ کیلئے کھڑا ہونا منسوخ ہے۔ 191
باب: میت پر نماز جنازہ پڑھنے کے وقت امام کہاں کھڑا ہو؟۔ 191
باب: نمازِ جنازہ کی تکبیر وں کا بیان۔ 191
باب: پانچ تکبیروں کے بیان میں۔ 191
باب: (نمازِ جنازہ میں) میت کیلئے دعا کرنا۔ 191
باب: مسجد میں میت پر نماز ِ جنازہ پڑھنے کا بیان۔ 191
باب: قبر پر نماز ِ جنازہ پڑھنا۔ 192
باب: خودکشی کرنے والے کے بارے میں۔ 192
باب: میت پر نماز ِ جنازہ پڑھنے اور اس کے پیچھے جانے کی فضیلت۔ 192
باب: جس پر سو آدمی جنازہ پڑھیں ، ان کی شفاعت قبول ہو گی۔ 192
باب: جس پر چالیس (40) مسلمان نماز ِ جنازہ پڑھیں تو ان کی سفارش قبول کر لی جاتی ہے۔ 192
باب: جن مُردوں کی اچھائی یا برائی بیان کی گئی۔ 193
باب: نماز ِ جنازہ سے فراغت کے بعد سوار ہونے کا بیان۔ 193
باب: قبر میں چادر ڈالنے کا بیان۔ 193
باب: لحد کا بیان اور کچی اینٹیں کھڑی کرنے کا بیان۔ 193
باب: قبروں کو برابر کرنے کا حکم۔ 194
باب: قبروں پر عمارت بنانا یا پختہ کرنا مکروہ ہے۔ 194
باب: جب آدمی مر جاتا ہے تو صبح و شام اُس پر اُس کا جنت یا دوزخ کا ٹھکانہ پیش کیا جاتا ہے۔ 194
باب: فرشتوں کا سوال کرنا جب بندہ اپنی قبر میں رکھ دیا جاتا ہے۔ 194
باب: اللہ تعالیٰ کا فرمان ”یثبت الله الذین آمنوا …“ قبر کے بارے میں ہے۔ 194
باب: عذاب قبر اور اس سے پناہ مانگنے کے بارے میں۔ 195
باب: یہودیوں کو ان کی قبروں میں عذاب دیئے جانے کا بیان۔ 195
باب: قبروں کی زیارت اور مردوں کیلئے استغفار کرنے کا حکم۔ 195
باب: قبر والوں کو سلام کہنا، ان پر رحم کھانا اور ان کیلئے دعا کرنے کا بیان۔ 195
باب: قبروں پر بیٹھنا اور ان کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کا بیان۔ 196
باب: اس نیک آدمی کے متعلق جس کی تعریف کی گئی ہو۔ 196
کتاب : زکوٰة کے مسائل 197
باب: زکوٰة کے فرض ہونے کا بیان۔ 197
باب: اموال (کی مقدار ) کا بیان جن پرزکوٰة فرض ہے یعنی نقدی، کھیتی اور جانور۔ 197
باب: جس (مال) میں عشر یا عشر کا نصف ہے اس کا بیان۔ 197
باب: مسلمان کے غلام اور گھوڑے میں زکوٰة نہیں۔ 197
باب: زکوٰة (سال سے) پہلے ادا کر دینا اور زکوٰة نہ دینے کے متعلق۔ 198
باب: اس آدمی کے بارے میں جو زکوٰة ادا نہیں کرتا۔ 198
باب: خزانہ جمع کرنے والوں اور ان پر سخت سزا کے بیان میں۔ 199
باب: زکوٰة وصول کرنے والوں کو راضی کرنے کا حکم۔ 200
باب: صدقہ لانے والے کیلئے دعا کرنا۔ 200
باب: اس آدمی کو عطیہ دینا جس کے ایمان میں خطرہ ہو۔ 200
باب: جن کے دل اسلام کی طرف راغب ہیں، ان کو دینا اور مضبوط ایمان والوں کو چھوڑ دینا۔ 200
باب: رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم اور آپ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کے اہل بیت کیلئے صدقہ حلال نہیں۔ 202
باب: صدقات کی وصولی پر آل نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کو مقرر کرنے کی کراہت۔ 202
باب: جو صدقہ کے مال سے بطور ہدیہ آل نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کیلئے بھیجا جائے، وہ مباح ہے۔ 203
باب: نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کا ہدیہ قبول کرنا اور صدقہ واپس کردینا۔ 203
کتاب : صدقہء فطر کا بیان 203
باب: مسلمانوں پر کھجور یا ”جو“ سے صدقہ فطر ادا کرنے کا بیان۔ 203
باب: صدقہ فطر، کھانے، پنیر اور منقہ (خشک انگور) سے ادا کرنے کا بیان۔ 204
باب: نماز (عید) سے پہلے صدقہ فطر ادا کرنے کا حکم۔ 204
باب: صدقہ کرنے میں ترغیب دلانا۔ 204
باب: (اللہ کی راہ میں) خرچ کرنے پر شوق دلانا۔ 204
باب: قبل اس کے کہ کوئی صدقہ قبول کرنے والا نہ ملے، صدقہ کی ادائیگی میں رغبت دلانا ۔ 205
باب: خاوند اور اولاد پر صدقہ کرنا۔ 205
باب: قریبی رشتہ داروں میں خرچ کرنا۔ 205
باب: ماموؤں پر صدقہ کرنا۔ 206
باب: مشرکہ ماں سے صلہ رحمی کرنا۔ 206
باب: فوت شدہ والدہ کی طرف سے صدقہ کرنا۔ 206
باب: ضرورت مندوں پر صدقہ کرنے کی ترغیب اور اچھا طریقہ جاری کرنے والے کا ثواب۔ 206
باب: مسکینوں اور مسافروں پر صدقہ کرنے کے بارے میں۔ 207
باب: (صدقہ کرکے) دوزخ سے بچو اگرچہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی صدقہ کرو۔ 207
باب: دودھ والا جانور عاریة (صدقہ) تحفہ دینے کی ترغیب۔ 208
باب: پوشیدہ صدقہ کرنے کی فضیلت۔ 208
باب: تندرست اور حریص ہونے کی صورت میں صدقہ کرنے کی فضیلت۔ 208
باب: پاکیزہ کمائی سے صدقہ کی قبولیت اور اس کے بڑھنے کے بارے میں 208
باب: تھوڑے صدقہ کو حقیر نہ جاننے کا بیان۔ 209
باب: اللہ تعالیٰ کے قول ﴿الذین یلمزون المطوعین﴾ کے بیان میں 209
باب: جس نے صدقہ اور دیگر نیکی کے اعمال کو اکٹھا کر لیا۔ 209
باب: ہر نیکی صدقہ ہے۔ 210
باب: سبحان اللہ کہنا، لا الٰہ الا اللہ کہنا اور دیگر نیکی کے کام، صدقہ ہیں۔ 210
باب: ہر جوڑ پر صدقہ کے وجوب کا بیان۔ 210
باب: وہ صدقہ جو بے جا واقع ہو اس کی قبولیت کے بیان میں۔ 210
باب: خیرات کرنے والے اور بخیل کے بیان میں۔ 211
باب: (اللہ کی راہ میں) خرچ کرنے والے اور نہ کرنیوالے کے بیان میں 211
باب: امانت دار خازن صدقہ کرنیوالوں میں سے ایک ہے۔ 211
باب: خرچ کرو۔ نہ شمار کرو اور نہ یاد رکھو۔ 211
باب: جب عورت اپنے خاوند کے گھر سے خرچ (خیرات) کرے۔ 212
باب: جو غلام (نوکر) اپنے مالک کے مال سے خرچ کرے، اس کا بیان۔ 212
باب: سوال سے بچنے اور صبر کرنے کے بیان میں۔ 212
باب: ضرورت کے مطابق رزق دیئے جانے اور قناعت کے بیان میں۔ 212
باب: سوال سے بچنا۔ 213
باب: لوگوں سے سوال کرنا مکروہ ہے۔ 213
باب: اوپر والا ہاتھ (دینے والا) نچلے ہاتھ (لینے والے) سے بہتر ہے۔ 213
باب: (اصل) مسکین وہ ہے جو ضرورت کے مطابق نہیں پاتا اور لوگوں سے سوال بھی نہیں کرتا۔ 213
باب: دنیا کی حرص مکروہ ہے۔ 214
باب: اگر ابن آدم کو دو میدان مال کے مل جائیں تو تیسرے کی ضرور خواہش کرے گا۔ 214
باب: دنیا کی زینت سے نکلنے کا بیان۔ 214
باب: جس آدمی کو بغیر سوال اور لالچ کے مال ملے، تو لے لینے کا جواز۔ 215
باب: کس کیلئے سوال کرنا حلال ہے۔ 215
باب: جو شخص سختی سے مانگے، اسے دینے کا بیان۔ 215
کتاب : روزہ کے مسائل 216
باب: روزے کی فضیلت۔ 216
باب: ماہِ رمضان کی فضیلت۔ 216
باب: ماہ رمضان سے پہلے ایک دو روزے (پیشگی کے) نہ رکھو۔ 216
باب: رزوہ چاندہ دیکھنے پر ہے۔ 217
باب: مہینہ انتیس (29) کا بھی ہوتا ہے۔ 217
باب: بیشک اللہ نے اسے لمبا کر دیا ہے (یعنی چاند کو دیکھنے کیلئے لمبا کر دیا ہے) 217
باب: ہر شہر (ملک) کیلئے ان لوگوں کی رؤیت ہے۔ 217
باب: عید کے مہینے (اجروثواب کے اعتبار سے) کم نہیں ہوتے۔ 218
باب: روزہ کیلئے سحری کا بیان۔ 218
باب: سحری میں تاخیر کا بیان۔ 218
باب: اس فجر کا بیان جو روزے دار پر کھانا حرام کر دیتی ہے۔ 218
باب: اللہ تعالیٰ کے اس قول﴿حتی یتبین لکم الخیط الابیض من الخیط الاسود﴾ کے بارے میں۔ 218
باب: بیشک بلال (ص) رات کو اذان دیتے ہیں، پس تم کھاؤ اور پیو۔ 218
باب: اس آدمی کے روزے کا بیان جس نے جنابت کی حالت میں صبح کی۔ 219
باب: روزہ دار کو جب کھانے کی دعوت دی جائے تو وہ کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں۔ 219
باب: جو شخص رمضان میں اپنی عورت سے جماع کر بیٹھے، اس کے کفارہ کا بیان۔ 219
باب: روزہ دار کے بوسہ دینے (کے جواز) کے متعلق۔ 220
باب: جب رات آ جائے اور سورج غروب ہو جائے تو روزہ دار افطار کر لے 220
باب: افطار میں جلدی کرنے کا بیان۔ 220
باب: صومِ وصال (یعنی پے در پے روزے رکھنے) سے ممانعت۔ 221
باب: سفر میں روزہ اور افطار (دونوں کی اجازت)۔ 221
باب: سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں۔ 221
باب: (سفر میں) روزہ رکھنے اور نہ رکھنے پر اعتراض نہیں کرنا چاہیئے۔ 222
باب: اس افطار کرنے والے کے اجر کا بیان جو سفر میں کام کرے۔ 222
باب: دشمن کے مقابلہ میں طاقت حاصل کرنے کیلئے افطار (روزہ نہ رکھنے) کا بیان۔ 222
باب: سفر میں روزہ رکھنے اور نہ رکھنے کا اختیار ہے۔ 222
باب: رمضان کے روزوں کی قضاء شعبان میں۔ 223
باب: میت کے روزے کی قضاء۔ 223
باب: اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿وعلی الذین یطیقونہ فدیة﴾کے متعلق۔ 223
باب: دیگر مہینوں میں روزہ رکھنے اور افطار کرنے کا بیان۔ 223
باب: اللہ کی راہ (جہاد) میں روزہ رکھنے کی فضیلت۔ 224
باب: ماہِ محرم کے روزے کی فضیلت۔ 224
باب: یومِ عاشورہ کے روزے کا بیان۔ 224
باب: عاشورہ کے کونسے دن روزہ رکھے؟ 224
باب: عاشورہ کے دن کے روزے کی فضیلت۔ 224
باب: جس نے یوم عاشورہ کو کچھ کھا لیا، وہ بقیہ دن (کھانے پینے سے) باز رہے۔ 225
باب: شعبان کا روزہ۔ 225
باب: شعبان کے پہلے پندرہ دنوں میں روزہ رکھنے کے متعلق۔ 225
باب: رمضان کے بعد شوال کے چھ روزے رکھنا۔ 225
باب: ذوالحجہ کے دس دنوں میں روزہ نہ رکھنے کا بیان۔ 225
باب: عرفہ کے دن کے روزے کا بیان۔ 226
باب: میدان عرفات میں حاجیوں کو عرفہ کے دن روزہ نہیں رکھنا چاہیئے۔ 226
باب: عید الاضحی اور عید الفطر کے دن روزہ رکھنے کی ممانعت۔ 226
باب: ایام تشریق میں روزہ رکھنے کی کراہت۔ 226
باب: پیر کے دن کا روزہ۔ 227
باب: صرف جمعہ کے دن کے روزہ کی ممانعت۔ 227
باب: ہر ماہ تین دن روزے رکھنے کا بیان۔ 227
باب: لگاتار روزہ رکھنے کی کراہت۔ 227
باب: سب روزوں سے افضل روزہ داو‘د 6 کا روزہ ہے کہ ایک دن روزہ اور ایک دن افطار۔ 228
باب: جس نے نفلی روزہ کی نیت سے صبح کی پھر افطار کر لیا۔ 228
باب: جس نے نفلی روزہ کی نیت سے صبح کی پھر افطار کر لیا۔ 228
کتاب : اعتکاف کے مسائل 229
باب: جو شخص اعتکاف کا ارادہ رکھتا ہو وہ جائے اعتکاف میں کب داخل ہو؟ 229
باب: پہلے عشرے اور درمیانی عشرے کا اعتکاف۔ 229
باب: رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف۔ 229
باب: آخری عشرہ میں (عبادت و ریاضت میں) محنت و کوشش۔ 230
باب: لیلة القدر اور اسے رمضان کے آخری عشرہ میں تلاش کرنے کا بیان۔ 230
باب: لیلة القدراکیسویں رات ہو سکتی ہے۔ 230
باب: لیلة القدر تیئس کی رات ہو سکتی ہے۔ 230
باب: (لیلة القدر کو) 21 ویں، 23ویں اور 25 ویں رات میں تلاش کرو۔ 230
باب: لیلة القدر ستائیسویں کی رات بھی ہو سکتی ہے۔ 231
کتاب : حج کے مسائل 231
باب: حج زندگی میں (صرف) ایک بار فرض ہے۔ 231
باب: حج اور عمرہ کا ثواب۔ 231
باب: حج اکبر کے دن کے متعلق۔ 232
باب: عرفہ کے دن کی فضیلت۔ 232
باب: جب حج وغیرہ کے سفر میں سوار ہو تو کیا کہے؟۔ 232
باب: عورت کا سفر حج ذی محرم کے ساتھ ہونا چاہیئے۔ 232
باب: بچے کا حج اور اس کا اجر اسے حج کرانے والے کیلئے ہے۔ 233
باب: جو آدمی سوار نہ ہو سکتا ہو اس کی طرف سے حج کرنے کا بیان۔ 233
باب: حائضہ اور نفاس والی کے احرام کا بیان۔ 233
باب: حج اور عمرہ کے میقات کا بیان۔ 233
باب: احرام باندھنے سے پہلے محرم کیلئے خوشبو۔ 234
باب: کستوری سب سے اچھی خوشبو ہے۔ 234
باب: عود اور کافور کا بیان۔ 234
باب: مسجد ذو الحلیفہ کے پاس سے احرام باندھنا۔ 234
باب: جب سے سواری اٹھے، اس وقت سے تلبیہ پکارنا۔ 235
باب: حج کا تلبیہ مکہ سے پکارنے کابیان۔ 235
باب: تلبیہ کا بیان۔ 236
باب: حج اور عمرہ کے تلبیہ کا بیان۔ 236
باب: صرف حج مفرد کے بیان میں۔ 236
باب: حج اور عمرہ کو ملانے (حج قران)کا بیان۔ 236
باب: حج تمتع کا بیان۔ 237
باب: جس نے حج کا احرام باندھا اور اس کے ساتھ قربانی کا جانور ہو۔ 237
باب: (عمرہ کا) احرام کھول دینے کا حکم منسوخ ہے اور حج عمرہ کو پورا کرنے کا حکم۔ 237
باب: حج قران میں قربانی کرنا۔ 238
باب: حج تمتع میں قربانی کا بیان۔ 238
باب: (کسی عذر کی بنا پر) عمرہ چھوڑ کر حج کو اختیار کر لینا۔ 239
باب: حج اور عمرہ میں شرط کرنا۔ 239
باب: جو اس حالت میں احرام باندھے کہ اس پر جبہ اور خوشبو کا اثر باقی ہو، اس کو کیا کرنا چاہیئے؟۔ 240
باب: محرم کون سے لباس سے اجتناب کرے؟ 240
باب: محرم کیلئے شکار کا بیان۔ 240
باب: محرم کیلئے شکار کے گوشت کا حکم ہے جسے کسی حلال آدمی نے شکار کیا ہو 241
باب: محرم کونسے جانور کو قتل کر سکتا ہے؟ 241
باب: محرم کیلئے پچھنے لگوانے کا بیان۔ 241
باب: محرم انسان اپنی آنکھوں میں دوا ڈال سکتا ہے۔ 242
باب: محرم اپنے سر کو دھو سکتا ہے۔ 242
باب: محرم پر فدیہ کے بیان میں۔ 242
باب: جو شخص احرام کی حالت میں فوت ہو جائے، اس کیساتھ کیا کیا جائے؟۔ 243
باب: ذی طویٰ میں رات گذارنا اور مکہ میں داخل ہونے سے پہلے غسل کرنا۔ 243
باب: مکہ و مدینہ میں ایک راستے سے داخل ہو اور دوسرے راستے سے نکلے۔ 243
باب: حاجیوں کے مکہ مکرمہ میں اترنے کے بیان میں۔ 243
باب: طواف اور سعی میں رمل کرنا (یعنی تیز چلنا یا دوڑنا)۔ 243
باب: طواف کے دوران حجر اسود کا بوسہ۔ 244
باب: طواف میں رکنین یمانیین (حجر اسود اور رکن یمانی) کا استلام۔ 244
باب: سوار ہو کر طواف کرنا۔ 245
باب: صفا و مروہ کے درمیان طواف اور اللہ تعالیٰ کے فرمان﴿ان الصفا والمروة من شعائر الله﴾ کے بیان میں۔ 245
باب: صفا و مروہ کے درمیان سعی (سات چکر) صرف ایک بار ہے۔ 245
باب: اس آدمی پر کیا لازم آتا ہے جو حج کا احرام باندھے اور مکہ مکرمہ میں طواف اور سعی کرنے کیلئے آئے۔ 246
باب: کعبہ شریف میں داخل ہونے، اس میں نماز پڑھنے اور دعا مانگنے کا بیان 246
باب: نبی(صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم) کے حج کا بیان۔ 247
باب: منیٰ سے عرفات چلتے وقت تلبیہ اور تکبیر کا بیان۔ 250
باب: عرفات میں وقوف اور اللہ تعالیٰ کے قول ﴿ثم افیضوا من حیث افاض الناس﴾ کے متعلق۔ 251
باب: عرفات سے لوٹنے اور مزدلفہ میں نماز کا بیان۔ 251
باب: عرفہ سے واپسی میں چلنے کی کیفیت کا بیان۔ 251
باب: مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کی نماز کا بیان۔ 252
باب: مزدلفہ میں نماز مغرب اور عشاء (کی جماعت) ایک تکبیر سے۔ 252
باب: مزدلفہ میں صبح کی نماز اندھیرے میں پڑھنے کا بیان۔ 252
باب: بھاری عورت کیلئے مزدلفہ سے رات کے وقت واپسی کی اجازت۔ 252
باب: وقت سے پہلے عورتوں کو مزدلفہ سے جانے کی اجازت۔ 252
باب: ضعیف لوگوں کو مزدلفہ سے پہلے روانہ کر دینے کا حکم۔ 253
باب: جمرہ عقبہ کی رمی تک حاجی کا تلبیہ کہنا۔ 253
باب: بطن الوادی سے جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارنے اور ہر کنکری کیساتھ تکبیر کہنے کا بیان۔ 253
باب: قربانی کے دن سواری پر سوار ہو کر جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارنا۔ 254
باب: جمرہ کیلئے کنکریوں کا حجم (یعنی کنکری کتنی بڑی ہو)؟ 254
باب: رمی کا وقت۔ 254
باب: جمروں کو کنکریاں مارنے کی تعداد طاق ہونی چاہیئے۔ 254
باب: حج میں نبی(صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم) کا بال منڈوانا۔ 254
باب: سر منڈوانے اور (بال) کتروانے کے بیان میں۔ 254
باب: (پہلے) کنکریاں مارنا، پھر قربانی کرنا ، پھر بال منڈوا لے اور بال منڈواتے وقت ابتداء داہنی طرف سے کرنا۔ 255
باب: جس نے قربانی سے پہلے بال منڈوا لئے یا کنکریاں مارنے سے پہلے قربانی کر لی ، اس کے متعلق۔ 255
باب: قربانی کے گلے میں ہار ڈالنے اور اس کی کوہان کو چیر(کر نشان بنا) نے کا بیان۔ 256
باب: قربانی کا جانور بھیجنا اور اس کو ہار پہنانا جب کہ آدمی خود حلال ہو (یعنی احرام میں نہ ہو بلکہ گھر میں موجود ہو)۔ 256
باب: قربانی کے اونٹ پر سوار ہونا۔ 256
باب: جو قربانی کا جانور (منیٰ میں) پہنچنے سے پہلے تھک جائے ، اس کا بیان۔ 256
باب: قربانی کے جانور میں شرکت کا بیان۔ 257
باب: گائے کی قربانی۔ 257
باب: اونٹ کو کھڑا کرکے ، ہاتھ پاؤں باندھ کر نحر کرنا چاہیئے۔ 257
باب: قربانی کا گوشت اور اس کی جُلیں اور اس کے چمڑے کو خیرات کرنا چاہیئے۔ 257
باب: قربانی کے دن واپسی کا طواف۔ 257
باب: جس نے بیت اللہ کا طو
 

مہوش علی

لائبریرین
(گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔ فہرستِ ابواب)

257
باب: جس نے بیت اللہ کا طواف کیا وہ حلال ہو گیا۔ 257
باب: حج قران کرنے والے کو حج اور عمرہ (دونوں) کے لئے ایک ہی طواف کافی ہے۔ 258
باب: حج اور عمرہ کا احرام باندھنے والا احرام کب کھولے گا؟۔ 258
باب: یوم النفر (بارھویں ذوالحجہ) کو وادی محصب میں اترنا اور اس میں نماز ادا کرنا۔ 258
باب: زمزم پلانے والوں کیلئے منیٰ کی راتوں میں مکہ میں رہنے کی اجازت کا بیان۔ 258
باب: حج اور عمرہ مکمل کرنے کے بعد ”مہاجر“ کا مکہ میں رہنا۔ 259
باب: طوافِ وداع کرنے سے پہلے کوئی (واپس) نہ چلے۔ 259
باب: طوافِ وداع سے پہلے جو عورت حیض والی ہو گئی۔ 259
باب: حج کے مہینوں میں عمرہ کے مباح ہونے کا بیان۔ 260
باب: ماہ رمضان میں عمرہ کرنے کی فضیلت۔ 260
باب: نبی(صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم) نے کتنے حج کئے؟ 260
باب: نبی(صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم) نے کتنے عمرے کئے؟ 260
باب: حیض والی عورت عمرہ کی قضاء کرے۔ 261
باب: جب حج وغیرہ کے سفر سے لوٹے تو کیا کہے۔ 261
باب: حج اور عمرہ سے واپسی پر ذی الحلیفہ میں رات گذارنا اور نماز پڑھنا۔ 261
باب: مکہ شریف، اس کے شکار، اس کے درخت اور اس کی گری پڑی چیز کی حرمت کے بیان میں۔ 262
باب: نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کا فتح مکہ کے دن بغیر احرام کے مکہ میں داخل ہونا۔ 262
باب: کعبہ کی حطیم اور اس کے دروازہ کے متعلق۔ 262
باب: کعبہ شریف کے توڑنے اور اس کی بنیاد کے بیان میں۔ 263
باب: حرمِ مدینہ اور اس کے شکار اور درخت کی حرمت اور اس کیلئے دعا کا بیان۔ 264
باب: مدینہ طیبہ کی سکونت اور اس کی بھوک پر صبر کرنے کی ترغیب۔ 265
باب: مدینہ طیبہ میں طاعون اور دجال نہیں آ سکتا۔ 265
باب: مدینہ طیبہ اپنے ”میل“ کو نکال دے گا۔ 266
باب: جو اہل مدینہ کی برائی کے متعلق ارادہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو گھلا دیتا ہے۔ 266
باب: شہروں کی فتح کے وقت مدینہ طیبہ میں رہنے کی ترغیب۔ 266
باب: مدینہ طیبہ کے بارے میں، جب اس کے رہنے والے اس کو چھوڑ دیں گے۔ 266
باب: (نبی(صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم) کی) قبر اور منبر کے درمیان والی جگہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔ 267
باب: احد پہاڑ، ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔ 267
باب: (ثواب کی نیت سے) سفر نہ کیا جائے مگر تین مسجدوں کی طرف۔ 267
باب: حرمین شریفین کی دونوں مساجد (کعبہ مکرمہ ، مسجد نبوی) میں نماز کی فضیلت۔ 267
باب: اس مسجد کا بیان جو تقویٰ کی بنیاد پر تعمیر کی گئی ہے۔ 267
باب: مسجد قباء کی فضیلت کے بیان میں۔ 268
کتاب : نکاح کے مسائل 268
باب: نکاح کرنے کی ترغیب میں۔ 268
باب: دنیا کی بہترین متاع ،نیک صالحہ عورت (بیوی) ہے۔ 269
باب: دیندار عورت سے نکاح کرنے کے بیان میں۔ 269
باب: کنواری عورت کے ساتھ نکاح کرنے کے بیان میں۔ 269
باب: اپنے بھائی کے پیغام نکاح پر پیغام نکاح نہ دے۔ 269
باب: جو شادی کا ارادہ کرے تو عورت کو ایک نظر دیکھ لینا چاہیئے۔ 269
باب: بیوہ اور باکرہ سے نکاح میں اجازت لینی چاہیئے۔ 270
باب: نکاح کی شرائط کے بارے میں۔ 270
باب: چھوٹی (بچی) کا نکاح۔ 270
باب: لونڈی کو آزاد کرنے اور اس سے شادی کرنے کا بیان۔ 271
باب: نکاح شغار کے متعلق۔ 271
باب: نکاح متعہ کے متعلق۔ 272
باب: نکاح متعہ کے منسوخ ہونے اور اس کے حرام ہونے کے متعلق۔ 272
باب: محرم کا نکاح کرنا اور پیغامِ نکاح دینا منع ہے۔ 273
باب: کسی عورت اور اس کی پھوپھی یا اس کی خالہ کو بیک وقت نکاح میں جمع کرنا حرام ہے۔ 273
باب: نبی کی ازواج مطہرات کے حق مہر کا بیان۔ 273
باب: کھجور کی گٹھلی برابر سونے پر نکاح۔ 273
باب: تعلیم قرآن پر نکاح دینے کا بیان۔ 274
باب: اللہ تعالیٰ کے قول ﴿ترجی من تشاءُ منھن …﴾ کے متعلق۔ 274
باب: ماہِ شوال میں شادی و نکاح کا بیان۔ 274
باب: نکاح میں ولیمہ کا بیان۔ 275
باب: نکاح کی دعوتِ ولیمہ کو قبول کرنے کے بیان میں۔ 276
باب: ہمبستری کے وقت کیا کہا جائے؟ 276
باب: اللہ تعالیٰ کے قول ”تمہاری بیویاں تمہاری کھیتیاں ہیں“ کے متعلق۔ 276
باب: اس عورت کے بارے میں جو اپنے خاوند کے بستر پر آنے سے رکتی ہے۔ 277
باب: عورت کے ہمبستری والے راز اور بھید کو ظاہر کرنے کے متعلق۔ 277
باب: اللہ تعالی انسان کے عمل پر پردہ ڈال دے تو انسان کے لئے اپنی طرف سے پردہ کھول دینے کی ممانعت۔ 277
باب: عورت اور لونڈی سے عزل (یعنی صحبت کے وقت انزال باہر کرنے) کے متعلق۔ 277
باب: غیلہ (دودھ پلاتے وقت عورت سے صحبت کرنے) کے متعلق۔ 278
باب: حاملہ لونڈیوں سے ہمبستری کے متعلق۔ 278
باب: عورتوں کے درمیان (رات گذارنے میں) باری مقرر کرنا۔ 278
باب: باکرہ اور ثیبہ عورت کے پاس رات گزارنے کے متعلق فرق کا بیان۔ 279
باب: ایک عورت کا اپنی باری دوسری عورت کو ہبہ کرنا۔ 279
باب: بعض عورتوں کے درمیان باری مقرر نہ کرنے کے متعلق۔ 279
باب: جو کسی عورت کو دیکھے (اور اس کا نفس اس کی طرف مائل ہو) تو وہ اپنی بیوی کے پاس آئے تو اس کی رغبت ختم ہو جائے گی۔ 279
باب: عورتوں سے نرمی اور ان سے خیر خواہی کرنے کا بیان۔ 280
باب: کوئی مومن (خاوند) کسی مومن عورت (بیوی) سے دشمنی نہ رکھے۔ 280
باب: اگر حواء نہ ہوتی تو کوئی عورت اپنے خاوند کی (کبھی) خیانت نہ کرتی۔ 280
باب: جو (لمبے) سفر سے آئے تو گھر میں جلدی داخل ہونے کی کوشش نہ کرے تاکہ (اس کی) عورت بالوں (وغیرہ) کو سنوار لے۔ 280
کتاب : طلاق کے مسائل 281
باب: مرد حیض کی حالت میں اپنی عورت کو طلاق نہ دے۔ 281
باب: نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کے دور ِ اقدس میں تین طلاق کا بیان۔ 281
باب: کسی آدمی نے اپنی بیوی کو طلاق دی، وہ عورت دوسرے سے شادی کر لیتی ہے اور اس دوسرے نے دخول نہیں کیا، تو ایسی حالت میں یہ عورت پہلے خاوند کیلئے حلال نہیں ہے۔ 282
باب: (کسی چیز کو ) حرام کہنے اور اللہ تعالیٰ کے قول ﴿یا ایھا النبی لم تحرم ما احل الله لک﴾ (التحریم:1) کے متعلق، اور اس میں اختلاف کا بیان۔ 282
باب: مرد کا اپنی بیوی کو اختیار دینا۔ 283
باب: اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿وان تظاہرا علیہ﴾ کے متعلق۔ 284
کتاب : عدت کے مسائل 286
باب: حاملہ عورت اپنے خاوند کی وفات کے (تھوڑے عرصے) کے بعد بچہ جنے (تو اس کی عدت کا بیان)۔ 286
باب: مطلقہ عورت اپنے باغ کی کھجوروں کو توڑنے کیلئے (باہر) جا سکتی ہے۔ 286
باب: مطلقہ عورت عدت کے بعد شادی کر سکتی ہے۔ 287
باب: میت پر عدت کے دوران سوگ اور (آنکھوں میں) سرمہ نہ لگانے کے متعلق۔ 287
باب: عدت گزارنے والی عورت کو خوشبو اور رنگین کپڑا استعمال نہیں کرنا چاہیئے۔ 288
باب: عدت گزارنے والی عورت کو خوشبو اور رنگین کپڑا استعمال نہیں کرنا چاہیئے۔ 288
کتاب : لعان کے مسائل 289
باب: اس آدمی کے متعلق جو اپنی عورت کے پاس (غیر) مرد کو پائے۔ 289
باب: بچے کا انکار اور ”رگ“ کے گھسیٹنے کے متعلق۔ 290
باب: بچہ اس کا ہے جس کے بستر پر پیدا ہوا۔ 291
باب: قیافہ شناس کی بات بچے کے متعلق قابل قبول ہے۔ 291
کتاب : دودھ پلانے کے مسائل 291
باب: دودھ سے بھی ویسے ہی حرمت ثابت ہوتی ہے جیسے ولادت سے۔ 291
باب: دودھ کی حرمت آدمی کے پانی سے ہوتی ہے۔ 292
باب: رضاعی (دودھ کی) بھتیجی کی حرمت۔ 292
باب: ربیبہ اور بیوی کی بہن کی حرمت کے متعلق۔ 292
باب: ایک دو بار (دودھ) چوسنے کے متعلق۔ 293
باب: پانچ بار دودھ پینے کے متعلق۔ 293
باب: برے آدمی کے دودھ پینے کے متعلق۔ 293
باب: دودھ پینا وہ معتبر ہے جو بھوک کے وقت میں ہو (یعنی ایامِ رضاعت دو سال میں ہو)۔ 293
کتاب : اپنے اور اہل و عیال پرخرچہ کرنے کے مسائل 294
باب: اپنے نفس، اہل و عیال اور قرابت والوں سے ابتدا کرنے کے متعلق 294
باب: غلاموں کے خرچہ کے متعلق اور جو انکے خرچہ کو روکتا ہے، اس کا بیان 294
باب: اہل و عیال پر خرچ کرنے کی فضیلت۔ 294
باب: عورت کا حق یہ ہے کہ وہ اپنے خاوند کے مال سے معروف طریق پر اسکے اہل و عیال پر خرچ کرے۔ 295
باب: مطلقہ ثلاث (تین طلاق والی) کا نان و نفقہ (طلاق دینے والے خاوند پر) نہیں۔ 295
کتاب : غلاموں کو آزاد کرنے کے مسائل 295
باب: جو ایک مومن غلام آزاد کرے، اس کی فضیلت۔ 295
باب: اولاد کا والد کو آزاد کرنا کیسا ہے؟ 296
باب: (مشترکہ غلام کا ایک مالک اگر) اپنا حصہ آزاد کرتا ہے (تو … )۔ 296
باب: سابقہ باب اور کوشش کا بیان۔ 296
باب: (غلام ) آزاد کرنے میں قرعہ ڈالنا۔ 296
باب: وِلاء اس کیلئے ہے جس نے آزاد کیا۔ 296
باب: پہلے باب سے متعلق، اور آزاد شدہ لونڈی کو اپنے خاوند کے متعلق اختیار۔ 297
باب: ولاء کی بیع اور اس کا ہبہ کرنا منع ہے۔ 297
باب: جو شخص اپنی نسبت اپنے مالکوں کے علاوہ کسی اور کی طرف کرے (اس پر وعید) کے متعلق۔ 297
باب: مالک جب اپنے غلام کو مارے تو اسے آزاد کر دے۔ 297
باب: جو شخص اپنے غلام یا لونڈی پر زنا کی تہمت لگائے، اس کی سزا کا بیان 298
باب: غلاموں پر طعام اور لباس کے معاملہ میں احسان کرنا اور ان کو ان کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہ دینا۔ 298
باب: غلام کا اجر و ثواب جب کہ وہ اپنے سردار سے خیر خواہی کرے اور اللہ کی عبادت بھی اچھی طرح بجا لائے۔ 299
باب: (مالک کی موت کے بعد) مدبر غلام کی فروخت کے متعلق، جب اس کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی مال نہ ہو۔ 299
کتاب : خرید و فروخت کے مسائل 299
باب: اناج اناج کے بدلے (ایک جنس سے) برابر برابر وزن سے ہو۔ 299
باب: قبضہ کر لینے سے پہلے گندم کی بیع منع ہے۔ 300
باب: کھجور کی بیع برابر برابر حساب سے۔ 300
باب: کھجور کا ڈھیر (وزن غیر معلوم ) کو معلوم الوزن کھجور کے بدلے بیچنے کے متعلق۔ 300
باب: پکنے سے پہلے پھل کو نہ بیچا جائے۔ 301
باب: پھل کی صلاحیت کے ظاہر ہونے سے پہلے بیچنے کی ممانعت۔ 301
باب: بیع مزابنہ کی ممانعت۔ 301
باب: عرایا کی بیع اس کے اندازہ سے جائز ہے۔ 301
باب: عرایا کی بیع کتنی مقدار تک جائز ہے۔ 301
باب: پھل کی بیع میں آفت آ جائے تو کیا کیا جائے؟ 302
باب: پچھلے باب سے متعلق اور (آفت کے وقت) قرض خواہوں کو اتنا لینا چاہیئے جتنا (مقروض) کے پاس ہو۔ 302
باب: جو شخص کھجور کا درخت بیچے اور اس درخت پر پھل موجود ہو (تو وہ پھل کس کو ملے گا خریدنے والے کو یا بیچنے والے کو؟)۔ 302
باب: بیع مخاہرہ اور محاقلہ کے بیان میں۔ 302
باب: کئی سالوں کے لئے بیع منع ہے۔ 303
باب: دو غلاموں کے بدلہ میں ایک غلام کی بیع جائز ہے۔ 303
باب: بیع مصراة کی ممانعت کا بیان۔ (مصرات سے مراد دودھ والا جانور ہے جس کا دودھ کچھ وقت تک روک لیا گیا ہو تاکہ دودھ زیادہ نظر آئے)۔ 303
باب: جس کا کھانا حرام ہے اس کی بیع حرام ہے۔ 303
باب: شراب کی بیع حرام ہے۔ 304
باب: مردار، بتوں اور خنزیروں کی بیع حرام ہے۔ 304
باب: کتے کی قیمت ، رنڈی (فلمسٹار، ہیرو اور ہیروئن اور چکلے والے اور چکلے والی وغیرہ سب) کی خرچی اور نجومی کی مٹھائی لینا منع ہے۔ 304
باب: بلی کی قیمت لینا منع ہے۔ 304
باب: پچھنے لگانے والے کی کمائی خبیث ہے۔ 304
باب: پچھنے لگانے والی کی اجرت کے جائز ہونے کا بیان۔ 305
باب: بیع ”حَبَلِ الْحَبَلَةِ“ کے متعلق۔ 305
باب: بیع ”ملامسہ“ اور ”منابذہ“ منع ہے۔ 305
باب: کنکری کی بیع (جتنی چیزوں کو کنکری لگے) اور دھوکہ کی بیع کے متعلق 305
باب: نجش (چڑھتی کی) بیع منع ہے۔ 305
باب: بھائی کے سودے پر سودا کرنا منع ہے۔ 306
باب: مال (بازار میں آنے سے پہلے) راستہ میں جا کر لینا منع ہے۔ 306
باب: شہر والا ، باہر (سے آنے) والے کا مال نہ بیچے۔ 306
باب: ذخیرہ اندوزی کرنا (کہ مزید قیمت چڑھے) منع ہے۔ 306
باب: بیع خیار۔ (سودا منسوخ کرنے کا اختیار کب تک ہے)۔ 306
باب: اسی سے متعلق اور خرید و فروخت میں سچائی اور حقیقت حال کے بیان کے متعلق۔ 307
باب: جو لوگوں سے بیع میں دھوکا کھا جاتا ہے، اس کا بیان۔ 307
باب: (نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کا فرمان کہ) جو شخص دھوکہ دے اس کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ 307
باب: سونے کی بیع چاندی کے ساتھ جائز ہے۔ 307
باب: سونے کی بیع سونے کیساتھ، چاندی کی بیع چاندی کیساتھ، گندم کی بیع گندم کیساتھ اور ہر اس چیز کی بیع جس میں سود ہو برابر برابر اور دست بدست جائز ہے۔ 308
باب: سونے کی بیع چاندی کیساتھ ادھار منع ہے۔ 308
باب: ایک دینار کو دو دینار کے بدلے اور ایک درہم کو دو درہم کے بدلے نہ بیچو۔ 308
باب: جس ہار میں سونا اور نگینے ہوں اس کو (اسی حالت میں) سونے کے بدلے بیچنے کے متعلق۔ 308
باب: نقد کی بیع میں بھی سود ثابت ہوتا ہے۔ 308
باب: سود کھانے والے اور کھلانے والے پر لعنت ہے۔ 309
باب: واضح حلال کو لینا چاہیئے اور مشتبہ چیزوں سے پرہیز کرنا چاہیئے۔ 309
باب: جس نے کسی کا قرضہ دینا ہو اور اس سے بہتر دیدے اور تم میں سے بہتر وہ ہے جو اچھی طرح ادائیگی کرے۔ 310
باب: بیع میں قسم اٹھانے کی ممانعت۔ 310
باب: اونٹ بیچتے وقت اس پر سوار ہونے کا استثناء کرنا جائز ہے۔ 310
باب: قرض میں سے کچھ معاف کر دینا۔ 311
باب: طاقتور کا قرض ادا کرنے میں دیر کرنا ظلم ہے اور حوالہ کا بیان۔ 311
باب: تنگ دست کو مہلت دینے اور معاف کر دینے کے متعلق۔ 311
باب: جو شخص مفلس کے پاس بعینہ اپنا مال موجود پائے (تو وہ اس مال کا زیادہ حقدار ہے)۔ 312
باب: بیع اور رہن کے بارے میں۔ 312
باب: پھلوں میں سلف کرنا (یعنی ادھار بیع کرنا)۔ 312
باب: شفعہ کا بیان۔ 312
باب: ہمسائے کی دیوار میں لکڑی (شہتیر، گاڈروغیرہ) رکھنا۔ 313
باب: جو آدمی بالشت جتنی زمین بطور ظلم لے لیتا ہے تو (قیامت میں) سات زمینیں گلے کا ہار ہوں گی۔ 313
باب: جب راستہ کے بارے میں اختلاف ہو تو سات ہاتھ چوڑان رکھ لو۔ 313
کتاب : کھیتی باڑی کے مسائل 313
باب: زمین کو کرایہ پر دینے کی ممانعت میں۔ 313
باب: گندم (مقررہ) کے ساتھ زمین کرایہ پر دینا۔ 314
باب: سونے اور چاندی کے بدلہ میں زمین کرایہ پر دینا۔ 314
باب: ٹھیکہ پر زمین دینا۔ 314
باب: (کسی کو) زمین مفت دے دینا۔ 314
باب: پانی پلانے اور زمین کا معاملہ کھیتی اور پھل کی مقدار کے بدلے۔ 315
باب: جس نے درخت لگایا (اس کا ثواب)۔ 315
باب: ضرورت سے زیادہ پانی بیچنے کے متعلق۔ 315
باب: ضرورت سے زیادہ پانی اور گھاس روکنے کے بارے میں۔ 315
کتاب : وصیت، صدقہ اور ہبہ وغیرہ کے متعلق۔ 315
باب: اس شخص کو وصیت کا شوق دلانا جسکے پاس وصیت کے قابل کوئی چیز ہو 315
باب: ایک تہائی سے زیادہ وصیت نہ کی جائے۔ 316
باب: نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کا کتاب اللہ پر عمل کرنے کی وصیت کرنا۔ 316
باب: نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کی وصیت کہ مشرکوں کو جزیرة العرب سے نکال دو اور سفیروں کیساتھ اچھا برتاؤ کرو۔ 317
باب: صدقہ واپس لینے کی ممانعت (ہے)۔ 317
باب: جس نے اپنی ساری اولاد میں سے ایک کو کچھ عطیہ دیا۔ 317
باب: جو آدمی کسی کو اس کی زندگی تک کسی چیز کا عطیہ دیتا ہے۔ 318
کتاب : وراثت کے مسائل 318
باب: مسلمان، کافر کا اور کافر، مسلمان کا وارث نہیں بن سکتا۔ 318
باب: حصہ داروں کو ان کے حصے دے دو۔ 318
باب: کلالہ (جس میت کا نہ باپ ہو اور نہ اولاد) کے ورثے کا بیان۔ 318
باب: اس بارے میں کہ کلالہ والی آیت سب سے آخر میں اتری۔ 319
باب: جس نے کوئی مال چھوڑا تو وہ اس کے وارثوں کا ہے۔ 319
کتاب : وقف کے مسائل 319
باب: اصل (زمین ، باغ وغیرہ) کو اپنے پاس رکھنا اور اس کے غلہ (آمدن) کو صدقہ کرنا۔ 319
باب: موت کے بعد کس چیز کا ثواب انسان کو ملتا رہتا ہے؟ 320
باب: اس شخص کی طرف سے صدقہ (کرنا) جو فوت ہو گیا اور اس نے کوئی وصیت بھی نہیں کی۔ 320
کتاب : نذر (ماننے) کے مسائل 320
باب: جو چیز اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں ہو، اس کو پورا کرنا چاہیئے۔ 320
باب: نذر پوری کرنے کا حکم۔ 321
باب: جس نے نذر مانی کہ وہ کعبہ شریف پیدل چل کر جائے گا، اس کے متعلق۔ 321
باب: نذر ماننے کی ممانعت اور یہ کہ نذر کسی چیز کو واپس نہیں کر سکتی۔ 321
باب: جو نذر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں ہو اور جس چیز کا وہ مالک نہیں، اس کو پورا نہ کیا جائے۔ 321
باب: نذر کے کفارہ میں۔ 322
باب: نذر کے کفارہ میں۔ 323
کتاب : قسم کے مسائل 323
باب: باپ (دادا) کی قسم اٹھانے کی ممانعت۔ 323
باب: طاغوت (بت اور جھوٹے معبودوں) کی قسم کی ممانعت۔ 323
باب: جو ”لات“ و ”عزیٰ“ کی قسم کھائے اس کو ”لا الٰہ الا اللہ“ کہنا چاہیئے 323
باب: قسم میں ”ان شاء اللہ“ کہنا مستحب ہے۔ 324
باب: قسم کا مطلب قسم اٹھوانے والے کی نیت کے موافق ہو۔ 324
باب: جو اپنی (جھوٹی) قسم کے ذریعہ مسلمان کا حق مارتا ہے، اس کے لئے جہنم واجب ہے۔ 324
باب: جو قسم اٹھائے اور پھر دیکھے کہ قسم کے خلاف (کرنے) میں بہتری ہے تو وہ کفارہ دے اور وہ کام کرے جس میں بہتری ہے۔ 325
باب: قسم کے کفارہ میں۔ 325
باب: خون ، اموال اور عزت کی حرمت کا بیان۔ 325
باب: قیامت کے دن سب پہلے (ناحق) خون کا فیصلہ ہو گا۔ 326
باب: کونسی چیز مسلمان کے خون (بہانے) کو حلال کرتی ہے؟ 326
باب: اس آدمی کے بارے میں (کیا حکم ہے) جو اسلام سے مرتد ہو گیا اور قتل کیا اور لڑائی کی۔ 326
باب: اس آدمی کا گناہ جس نے قتل کی رسم ڈالی۔ 327
باب: جس نے جس چیز سے اپنے آپ کو ہلاک کیا(تو وہ) اسی طریقہ کے ساتھ جہنم میں عذاب دیا جائے گا۔ 327
باب: جس نے کسی کو پتھر کے ساتھ قتل کیا (تو بدلے میں) وہ بھی اسی طرح قتل کیا جائے گا۔ 328
باب: جس نے کسی آدمی کے ہاتھ پر دانت گاڑ دیئے اور (کھینچنے سے) کاٹنے والے کے دانت گر پڑے۔ 328
باب: زخم کا بھی قصاص ہے مگر یہ کہ دیت لینے پر راضی ہوں۔ 328
باب: جس نے قتل کا اقرار کیا اور پھر وہ (قاتل، قتل کیلئے مقتول کے) ولی کے سپرد کر دیا گیا اور اس (ولی) نے اسے معاف کر دیا۔ 329
باب: اس عورت کی دیت جس کے پیٹ پر مارا گیا جس کی وجہ سے (اس کے) پیٹ والا بچہ گر (کرمر) گیا اور وہ عورت بھی مر گئی۔ اس (عورت) کی دیت اور اس کے بچے کی دیت۔ 329
باب: وہ نقصان جس کی دیت نہیں ہوتی۔ 329
کتاب : قسم دلانے کے مسائل 330
باب: قسم کون اٹھائے۔ 330
باب: جاہلیت کے مسئلہ قسامت کو بحال رکھنا۔ 330
کتاب : حدود کے مسائل زانی کی حد 330
باب: غیر شادی شدہ اور شادی شدہ کی حدِ زنا۔ 330
باب: زنا کے معاملہ میں شادی شدہ کو رجم کرنا۔ 331
باب: جس نے اپنے اوپر زنا کا اقرار کر لیا۔ 331
باب: زنا کا اقراری چار دفعہ اقرار کرے۔ اور جس کو رجم کرنا ہے (اس کیلئے) گڑھا کھودنا اور زنا سے حاملہ عورت کی سزا میں وضع حمل تک تاخیر اور جس کو رجم کیا گیا اس کی نماز جنازہ کا بیان۔ 331
باب: زنا میں ذمی یہود پر بھی رجم ہے۔ 332
باب: لونڈی کو مارنا جب کہ وہ زنا کرے۔ 333
باب: مالک اپنے غلام پر حد قائم کرے۔ 333
کتاب : چوری کی حد کا بیان 333
باب: جس چیز (کی چوری) میں ہاتھ کاٹنا واجب ہے، اس کا بیان۔ 333
باب: جس چیز کی قیمت تین درہم ہے (اس کی چوری میں) ہاتھ کاٹا جائیگا۔ 333
باب: حدود میں سفارش کی ممانعت ہے۔ 334
کتاب : شراب کی حد کا بیان 334
باب: شراب پینے میں کتنے کوڑے حد ہے؟ 334
باب: تعذیر کے کوڑے کتنے ہیں؟ 335
باب: جو حد کو پہنچا، پھر سزا مل گئی، تو یہ اس کیلئے کفارہ ہے۔ 335
کتاب : فیصلے اور گواہی کے بیان میں۔ 335
باب: فیصلہ ظاہری بات پر ہو گا اور دلیل دینے میں چرب زبانی سے کام لینے کی وعید۔ 335
باب: بڑے لڑاکے ، جھگڑالو کے بیان میں۔ 335
باب: مدعی علیہ پر قسم کے ساتھ فیصلہ۔ 336
باب: قسم اور گواہ کے ساتھ فیصلہ۔ 336
باب: فیصلہ کرنے والا غصہ کی حالت میں فیصلہ نہ کرے۔ 336
باب: جب حاکم (قاضی وغیرہ) سوچ کر کوشش سے فیصلہ کرے، پھر صحیح فیصلہ کرے یا غلطی کرے (تو اس کا حکم)۔ 336
باب: فیصلہ دینے میں فیصلہ دینے والوں میں اختلاف۔ 336
باب: حاکم (قاضی وغیرہ) جھگڑا کرنیوالوں کے درمیان اصلاح کرائے 337
باب: بہترین گواہ۔ 337
کتاب : گری پڑی چیز کے مسائل 337
باب: گری پڑی چیز کے بارے میں حکم۔ 337
باب: حاجی کی گری پڑی چیز۔ 338
باب: جس نے گمشدہ چیز رکھ لی، وہ گمراہ ہے۔ 338
باب: لوگوں کی اجازت کے بغیر انکے جانوروں کا دودھ دھونے کی ممانعت 338
کتاب : مہمان نوازی کے مسائل 338
باب: جو میزبانی نہیں کرتا اس کے لئے حکم۔ 338
باب: مہمانی دینے کا حکم۔ 338
باب: ضرورت سے زائد مالوں کے ذریعہ (ضرورتمند کیساتھ) ہمدردی کرنا 339
باب: سفر میں (زاد راہ) کم پڑ جائے تو باقی ماندہ چیزوں کو اکٹھا کرلینے اور ایک دوسرے سے تعاون کرنے کا حکم۔ 339
کتاب : جہاد کے مسائل 340
باب: اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿وَلَصل اللہ علیہ و آلہِ وسلم تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْصل اللہ علیہ و آلہِ وسلم فِی سَبِیْلِ اللهِ …﴾ کے متعلق اور شہداء کی روحوں کا بیان۔ 340
باب: بیشک جنت کے دروازے تلواروں کے سائے تلے ہیں۔ 340
باب: جہاد کی ترغیب اور اس کی فضیلت۔ 340
باب: بندے کی درجات کی بلندی جہاد سے ہے۔ 341
باب: لوگوں میں افضل وہ مجاہد ہے، جو اپنی جان اور اپنے مال سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرے۔ 341
باب: جواس حال میں فوت ہو جائے کہ نہ تو جہاد میں شریک ہوا اور نہ کبھی دل میں خیال پیدا ہوا۔ 341
باب: سمندری جہاد کی فضیلت میں۔ 342
باب: اللہ تعالیٰ کی راہ میں پہرہ دینے کی فضیلت۔ 342
باب: صبح یا شام کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں چلنا، دنیا و ما فیہا سے بہتر ہے۔ 342
باب: اللہ تعالیٰ کے قول ﴿اَجَعَلْتُمْ سِقَایَة الْحَاج﴾ کے متعلق۔ 342
باب: شہادت کی طلب کی ترغیب میں۔ 343
باب: اللہ تعالی کی راہ میں شہادت کی فضیلت۔ 343
باب: عملوں کا دارو مدار نیت پر ہے ۔ 343
باب: شہداء سے اللہ تعالیٰ راضی اور وہ اللہ تعالیٰ سے راضی۔ 343
باب: شہداء پانچ قسم کے ہیں۔ 344
باب: طاعون(کی موت)ہر مسلمان کے لئے شہادت کی موت ہے۔ 344
باب: قرض کے سوا شہید کا ہر گناہ کر دیا جاتا ہے۔ 344
باب: جو مال کی حفاظت کرتے ہوئے قتل ہوگیا، وہ شہید ہے۔ 344
باب: اللہ تعالی کے قول ﴿رجال صدقواما عاھدوا الله علیہ﴾ کے متعلق۔ 345
باب: جو شخص اس لئے لڑے کہ اللہ تعالیٰ کا دین غالب ہو 345
باب: جو شخص لوگوں کو دکھانے کے لئے لڑے۔ 345
باب: (اللہ کی راہ میں )شہید کئے جانے پر بہت زیادہ ثواب ۔ 346
باب: جو جہاد کرے پھر نقصان اٹھائے یا غنیمت حاصل کرے۔ 346
باب: اس آدمی کا ثواب، جس نے غازی کا ساز و سامان تیار کر کے دیا۔ 346
باب: جس نے سامان جہاد اکٹھا کیا، پھر بیمار ہو گیا، تو اس کو چاہیئے کہ وہ سامان اس آدمی کے حوالہ کرے جو جہاد کا ارادہ رکھتا ہو۔ 347
باب: مجاہدین کی عورتوں کی عزت و حرمت اور جو مجاہد کے پیچھے اس کے گھر میں خلیفہ بنتا ہے ، پھر اس کی خیانت کرتا ہے (اس کا گناہ)۔ 347
باب: نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کے فرمان کہ”میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا…“ کے متعلق۔ 347
باب: (ان) دو آدمیوں کے بارے میں کہ ایک نے دوسرے کو قتل کیا (لیکن) دونوں جنت میں جائیں گے۔ 348
باب: جو کافر کو قتل کرے، پھر نیکی پر قائم رہے، (تو) وہ جہنم میں نہیں جائے گا۔ 348
باب: اللہ تعالیٰ کی راہ میں سواری دینے کی فضیلت۔ 348
باب: اللہ تعالیٰ کے قول ﴿وَاَعِدُّوْصل اللہ علیہ و آلہِ وسلم لَھُمْ مَصل اللہ علیہ و آلہِ وسلم اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ﴾ کے متعلق۔ 348
باب: تیر اندازی (نشانہ بازی) کی ترغیب کے بیان میں۔ 349
باب: قیامت تک گھوڑوں کی پیشانی میں خیر و برکت موجود ہے۔ 349
باب: اشکل گھوڑے کی کراہیت میں۔ 349
باب: گھوڑ دوڑ اور گھوڑوں کو مضمر کرنا۔ 349
باب: ان لوگوں کے متعلق جو عذر کی وجہ سے (جہاد سے) پیچھے رہ گئے اور اللہ تعالیٰ کے قول کے ﴿لَصل اللہ علیہ و آلہِ وسلم یَسْتَوی الْقَاعِدُوْنَ …﴾کے متعلق ۔ 350
باب: جس کو بیماری نے جہاد سے روکے رکھا۔ 350
کتاب : سیر و سیاحت اور لشکر کشی 350
باب: جیوش اور سرایا کے امراء کو وصیت جو اُن کے مناسب ہو۔ 350
باب: گورنروں کو آسانی کرنے کے بارے میں۔ 351
باب: لشکروں یا قاصدوں کے متعلق اور جہاد پر جانے والے کا وہ نائب بنے جو جہاد پر نہیں جا سکا۔ 351
باب: چھوٹوں بڑوں کے مابین حد بندی کہ کون جہاد میں جا سکتا ہے اور کون نہیں۔ 351
باب: دشمن کی زمین میں قرآن کے ساتھ سفر کرنے کی ممانعت۔ 351
باب: اچھے اور قحط کے موسم میں سفر کے متعلق ہدایات اور راستہ پر رات گذارنے کے متعلق۔ 352
باب: سفر عذاب کا ایک ٹکڑا ہے۔ 352
باب: سفر سے آ کر رات کے وقت گھر آنے کی کراہت۔ 352
باب: جنگ شروع کرنے اور دشمن پر حملہ کرنے سے پہلے اسلام کی دعوت پیش کرنا۔ 352
باب: بادشاہوں کی طرف نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کے خطوط، جن میں ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتے تھے۔ 353
باب: اللہ تعالیٰ کی طرف نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کی دعوت اور منافقوں کی تکالیف پر صبر۔ 355
باب: دھوکہ بازی کی ممانعت۔ 355
باب: وعدے کی پاسداری۔ 356
باب: دشمن کے ساتھ آمنا سامنا کرنے کی آرزو نہ کرنا لیکن جب آمنا سامنا ہو، تو صبر کرنا چاہیئے۔ 356
باب: دشمن کے خلاف دعا۔ 356
باب: لڑائی مکر و حیلہ ہے۔ 356
باب: جہاد میں مشرکین سے مدد لینا (کیسا ہے؟)۔ 357
باب: غازیوں کے ساتھ عورتوں کے جانے میں کوئی حرج نہیں۔ 357
باب: جہاد میں عورتوں اور بچوں کا قتل ممنوع ہے۔ 358
باب: رات کے وقت حملہ میں دشمن کے بیوی بچوں کے مارے جانے کے متعلق۔ 358
باب: دشمن کے کھجور کے درختوں کو کاٹنے اور جلانے کا بیان۔ 358
باب: دشمن کی زمین سے کھانا (طعام) حاصل کرنا۔ 358
باب: مالِ غنیمت کا اس امت (محمدیہ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم) کیلئے خصوصی طور پر حلال ہونا 358
باب: انفال (مالِ غنیمت) کے بارے میں۔ 359
باب: اصحاب سرایا (فوجی دستوں) کو مال غنیمت میں حصہ (اور انعام)دینا 359
باب: مال غنیمت میں سے خمس (پانچواں حصہ) نکالنا۔ 360
باب: کافر مقتول کا سامان (حرب) قاتل کو دینا چاہیئے۔ 360
باب: (دشمن کا) سامان بعض قاتلین کو اجتہاد کی بنا پر دینا۔ 360
باب: اجتہاد کی بنا پر قاتل کو (دشمن مقتول ) کا سامان نہ دینا۔ 361
باب: دشمن کا سارا مال قاتل کو دینا چاہیئے۔ 361
باب: انعام اور قیدیوں کے بدلہ میں مسلمانوں کو چھڑانے کے متعلق۔ 362
باب: جو بستی لڑائی سے فتح کی گئی اس میں حصے اور خمس ہے۔ 362
باب: مال ”فے“ کیسے تقسیم ہو گا جب کہ لڑائی کی نوبت نہ آئی ہو۔ 363
باب: (مال غنیمت میں سے)گھڑسوار اور پیدل فوج کے حصوں کے متعلق 365
باب: مال غنیمت میں عورتوں کا حصہ نہیں ہے یوں کچھ دے دینا چاہیئے اور جہاد میں بچوں کے قتل کرنے کے متعلق۔ 365
باب: قیدیوں کے چھوڑ دینے اور ان پر احسان کرنے کے بار ے میں۔ 366
باب: مدینہ سے یہودیوں کو جلا وطن کرنا۔ 367
باب: یہود و نصاریٰ کو جزیرة العرب سے نکالنا۔ 367
باب: حربی کافر اور عہد توڑنے والے کے متعلق حکم۔ 367
کتاب : ہجرت اور غزوات بیان میں 368
باب: نبی اکی ہجرت اور آپ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کی نشانیوں کے بیان میں۔ 368
باب: غزوہ بدر کے متعلق۔ 369
باب: فرشتوں کی امداد ، قیدیوں کے فدیہ اور مال غنیمت کے حلال ہونے کے متعلق۔ 370
باب: جنگ بدر کے مردار کافروں سے نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کی گفتگو جبکہ وہ مردہ تھے۔ 371
باب: غزوہ احد کا بیان۔ 372
باب: احد کے دن نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کے زخمی ہونے کا بیان۔ 372
باب: نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کی طرف سے احد کے دن جبریل اور میکائیل علیہم السلام کا لڑنا۔ 372
باب: اللہ تعالیٰ کا غصہ اس پر بہت زیادہ ہوتا ہے جس کو رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم نے قتل کیا ہو۔ 373
باب: آپ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کی قوم سے آپ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کو جو تکلیف پہنچی اس کا بیان۔ 373
باب: انبیاء علیہم السلام کا اپنی قوم کی تکلیف پر صبر کرنا۔ 374
باب: ابو جہل کا قتل۔ 374
باب: کعب بن اشرف کے قتل کا واقعہ۔ 375
باب: غزوہ رقاع کا بیان ۔ 375
باب: غزوہ اخزاب جو جنگ خندق کے نام سے مشہور ہے۔ 376
باب: بنی قریظہ کا بیان۔ 377
باب: غزوہ ذی قرد کا بیان۔ 377
باب: حدیبیہ کا واقعہ اور قریش سے نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کی صلح کا بیان۔ 381
باب: غزوہ خیبر کا بیان ۔ 382
باب: فتح کے بعد مہاجرین کا انصار کو عطیہ میں دی ہوئی چیزیں واپس کرنا ۔ 382
باب: فتح مکہ کے بیان میں اور مکہ میں داخلہ قتال کے ساتھ ہوا اور آپ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کا مکہ والوں پراحسان۔ 383
باب: کعبہ کے اردگرد سے (موجود) بتوں کو نکالنا۔ 384
باب: فتح کے بعد کوئی قریشی باندھ کر قتل نہیں کیا جائے گا۔ 384
باب: فتح کے بعد اسلام، جہاداور خیر (نیکی) پر بیعت۔ 385
باب: فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں لیکن جہاد اور نیت (جہاد) باقی ہے۔ 385
باب: جس پر ہجرت سخت محسوس ہو، اس کو عمل خیر (نیکی کرنے) کا حکم کرنا۔ 385
باب: ہجرت کے بعد پھر جنگل میں رہنے کی اجازت۔ 385
باب: غزوئہ حنین۔ 385
باب: غزوئہ طائف کے متعلق۔ 387
باب: نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کے غزوات کی تعداد۔ 387
کتاب : حکومت کے بیان میں 387
باب: خلیفہ قریش سے ہونا چاہیئے۔ 387
باب: اپنے پیچھے خلیفہ مقرر کرنے اور نہ کرنے کا بیان۔ 388
باب: جس سے پہلے بیعت کی اس کی بیعت پوری کرنے کا حکم۔ 388
باب: جب دو خلیفوں کی بیعت کی جائے تو کیا حکم ہے؟ 389
باب: تم سب راعی (حاکم) ہو اور تم سب اپنی رعیت کے بارے میں سوال کئے جاؤ گے۔ 390
باب: طلب ِ حکومت اور اس پر حریص ہونے کی کراہت۔ 390
باب: (نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کا فرمان کہ) جو کوئی عہدے کی درخواست کرے ہم اس کو عہدہ نہیں دیتے۔ 390
باب: امام (مسلمانوں کا حاکم) جب اللہ سے ڈرنے کا حکم دے اور انصاف کرے، تو اس کیلئے اجر ہے۔ 391
باب: جو حاکم بنا اور انصاف کیا اس کیلئے کیا کچھ ہے ، اس کا بیان۔ 391
باب: جو حاکم بنے وہ سختی کرے یا نرمی۔ 391
باب: دین خیر خواہی کا نام ہے۔ 392
باب: جس نے رعیت کے ساتھ خیانت کی اور ان کے ساتھ خیر خواہی نہ کی۔ 392
باب: امراء کی (مال غنیمت میں) خیانت کرنے اور اس کے گناہ کبیرہ ہونے کا بیان۔ 392
باب: جو چیز امراء (مال غنیمت سے) چھپائیں وہ چوری ہے۔ 393
باب: امراء کے ”تحفوں“ کے بارے میں۔ 393
باب: درخت کے نیچے نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم نے ”نہ بھاگنے“ پر بیعت لی تھی۔ 394
باب: موت پر بیعت لینا۔ 394
باب: حسب ِ طاقت (سمع و اطاعت) ”سننے اور ماننے“ پر بیعت کرنا۔ 394
باب: سوائے صریح کفر کے باقی ہر معاملہ میں ”سننے اور ماننے“ پر بیعت کرنا۔ 394
باب: ہجرت کرکے آنے والی مومنات سے بیعت کے وقت امتحان لینا۔ 395
باب: حاکم کی اطاعت کرنا۔ 395
باب: جو (حاکم) اللہ تعالیٰ کی کتاب کے موافق عمل کرے، اس کی بات سننا اور اطاعت کرنی چاہیئے۔ 395
باب: اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت واجب نہیں ہے، اطاعت تو نیکی میں ہوتی ہے۔ 396
باب: جب گناہ کا حکم کیا جائے، تو نہ سننا چاہیئے اور نہ ماننا چاہیئے۔ 396
باب: امراء کی اطاعت کرنی چاہیئے اگرچہ انہوں نے حقوق کو روک رکھا ہو۔ 396
باب: بہترین حاکم اور برے حاکم کی وضاحت و شناخت۔ 396
باب: امراء کے کردار کو برا کہنا اور جب تک وہ نماز پڑھتے رہیں، ان کے ساتھ لڑائی نہ کرنا۔ 397
باب: حق تلفی پر صبر کا حکم۔ 397
باب: فتنوں کے وقت جماعت کو لازم پکڑنے کا حکم۔ 397
باب: اس آدمی کے بارے میں جو اطاعت سے نکل گیا اور جماعت سے جدا ہوا۔ 398
باب: اس آدمی کے بارے میں جو امت کے اتفاق کو بگاڑے جبکہ امت متحد و متفق تھی۔ 398
باب: جو ہمارے اوپر ہتھیار اٹھائے، وہ ہم میں سے نہیں۔ 398
باب: اللہ تعالیٰ کی رسی کو پکڑے رکھنے کا حکم اور تفرقہ بازی سے باز رہنے کے متعلق۔ 398
باب: بدعات والے کام مردود ہیں۔ 399
باب: اس آدمی کے متعلق جو لوگوں کو نیکی کا حکم کرتا ہے اور خود (وہ کام) نہیں کرتا۔ 399
کتاب : شکار اور ذبح کے مسائل 400
باب: تیر کے ساتھ شکار اور تیر مارتے وقت بسم اللہ کہنا۔ 400
باب: کمان کے ساتھ اور سدھائے ہوئے کتے اور غیر سدھائے ہوئے کتے کے شکار کے متعلق۔ 400
باب: معراض کے شکار اور کتے کو چھوڑنے کے وقت بسم اللہ کہنے کے متعلق 400
باب: جب شکاری سے شکار غائب ہو جائے، پھر وہ اسے پالے۔ 401
باب: شکاری کتا اور جانوروں کی حفاظت کے لئے کتا پالنا جائز ہے۔ 401
باب: کتوں کو مارنے کے متعلق۔ 401
باب: کنکریاں پھینکنے سے منع کرنے کے متعلق۔ 401
باب: جانوروں کو باندھ کر مارنے کی ممانعت ہے۔ 402
باب: اچھے طریقے سے ذبح کرنے اور چھری تیز کرنے کے متعلق حکم۔ 402
باب: خون بہانے والی چیز سے ذبح کرنے کا حکم اور دانت اور ناخن سے ذبح کرنے کی ممانعت۔ 402
کتاب : قربانی کے مسائل 403
باب: (جب ذوالحجہ کے شروع کے) دس دن آجائیں اور کوئی قربانی کا ارادہ رکھتا ہو تو وہ اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے ۔ 403
باب: اس وقت کا بیان جس میں قربانی ذبح کی جا سکتی ہے۔ 403
باب: جس نے قربانی کا جانور نمازِ (عید) سے پہلے ذبح کر دیا، وہ اس کی قربانی نہیں۔ 403
باب: کس عمر کے جانور قربانی میں جائز ہیں؟ 403
باب: جذع کی قربانی۔ 403
باب: دو مینڈھوں کی قربانی جو سفید و سیاہ سینگوں والے ہوں اور اپنے ہاتھ سے ذبح کرنے اور بسم اللہ اور اللہ اکبر کہنے میں استحباب کا بیان۔ 404
باب: نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کا اپنی طرف سے اور اپنی آل اور اپنی امت کی طرف سے قربانی ذبح کرنا۔ 404
باب: قربانی کا گوشت تین دن کے بعد کھانے کی ممانعت۔ 404
باب: تین دن کے بعد قربانی کا گوشت (کھانے) کی اجازت اور ذخیرہ کرنے، سفر میں لے جانے اور صدقہ کرنے کے بیان میں۔ 404
باب: ”فرع“ اور ”عتیرہ“ کے بیان میں۔ 405
باب: اس کے متعلق جو غیر اللہ کے نام پر ذبح کرے۔ 405
کتاب : (پانی، شراب وغیرہ) پینے کے مسائل 405
باب: شراب کی حرمت۔ 405
باب: ہر نشہ دار چیز حرام ہے۔ 406
باب: جو شراب نشہ دار ہو وہ حرام ہے۔ 406
باب: جس نے دنیا میں شراب پی، وہ آخرت میں نہیں پی سکے گا مگر یہ کہ توبہ کر لے۔ 407
باب: شراب، کھجور اور انگور سے بھی بنتی ہے۔ 407
باب: شراب گدر (کچی کھجور) اور خشک کھجور سے۔ 407
باب: پانچ اشیاء کی شراب۔ 407
باب: انگور اور کھجور کی نبیذ بنانے کی ممانعت۔ 407
باب: دباء اور مزفت (برتنوں) میں نبیذ بنانے کی ممانعت۔ 408
باب: پتھر کے گھڑے میں نبیذ بنانے کی اجازت۔ 408
باب: ہر قسم کے برتنوں میں نبیذ بنانے کی رخصت اور ہر نشے والی چیز پینے کی ممانعت۔ 408
باب: (ہر قسم کے) مٹکے کو استعمال کرنے کی رخصت سوائے روغنی مٹکے کے۔ 408
باب: نبیذ استعمال کرنے کی میعاد۔ 408
باب: شراب سے سرکہ بنانے کے متعلق۔ 409
باب: شراب سے دوا کرنا۔ 409
باب: برتن کو ڈھانپنے کے متعلق۔ 409
باب: برتن کو ڈھانپو اور مشک کا منہ بند کرو۔ 409
باب: شہد، نبیذ، دودھ اور پانی پینے کے متعلق۔ 409
باب: پیالے میں پینا۔ 410
باب: مشکوں کو الٹنے کی ممانعت میں۔ 410
باب: سونے اور چاندی کے برتنوں میں پانی پینے کی ممانعت۔ 411
باب: جب پانی پی لے، تو دائیں طرف والا زیادہ حقدار ہے۔ 411
باب: بڑوں کو (پہلے) دینے کیلئے چھوٹوں سے اجازت لینے کے متعلق۔ 411
باب: برتن میں سانس لینے کی ممانعت۔ 411
باب: رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم پیتے وقت سانس لیتے تھے (ایک سانس میں نہیں پیتے تھے)۔ 412
باب: کھڑے ہو کر پینے کی ممانعت۔ 412
باب: زمزم کا پانی کھڑے ہو کر پینے کی اجازت۔ 412
باب: رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم پیتے وقت سانس لیتے تھے (ایک سانس میں نہیں پیتے تھے)۔ 412
باب: کھڑے ہو کر پینے کی ممانعت۔ 412
باب: زمزم کا پانی کھڑے ہو کر پینے کی اجازت۔ 412
کتاب : کھانے کے مسائل 413
باب: کھانے پر بسم اللہ پڑھنے کا بیان۔ 413
باب: دائیں ہاتھ سے کھانا۔ 413
باب: جو کھانے والے کے سامنے ہو اس سے کھانا چاہیئے۔ 413
باب: تین انگلیوں سے کھانا چاہیئے۔ 414
باب: جب کھانا کھا لے، تو اپنا ہاتھ خود چاٹے یا دوسرے کو چٹائے۔ 414
باب: انگلیوں اور برتن کو چاٹنے کا بیان۔ 414
باب: جب لقمہ گر جائے تو اسے صاف کر کے کھانے کا بیان۔ 414
باب: کھانے اور پینے پر الحمد للہ کہنے کے بارے میں۔ 414
باب: کھانے اور پینے کی نعمتوں کے بارے میں سوال کا بیان۔ 414
باب: ہمسائے کی دعوتِ (طعام) قبول کرنے کا بیان۔ 415
باب: جو آدمی کھانے کے لئے بلایا جائے اور اس کے پیچھے دوسرا آدمی بھی چلا جائے (تو…)۔ 415
باب: مہمان کے معاملہ میں ایثار۔ 416
باب: دو (آدمیوں) کا کھانا تین کو کافی ہے۔ 416
باب: مومن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں میں۔ 416
باب: ”کدو“ کھانے کے بیان میں۔ 417
باب: سرکہ اچھا سالن ہے۔ 417
باب: کھجور کھانے اور گٹھلیوں کو انگلیوں کے درمیان رکھ کر پھینکنے کے متعلق 417
باب: اقعاء کی حالت میں بیٹھ کر کھجور کھانا۔ 417
باب: جس گھر میں کھجور نہیں، اس گھر والے بھوکے ہیں۔ 418
باب: اکٹھی دو دو کھجور یں کھانے کی ممانعت۔ 418
باب: ککڑی ، کھجور کے ساتھ ملا کر کھانا۔ 418
باب: سیاہ پیلو کے متعلق۔ 418
باب: خرگوش کا گوشت کھانا۔ 418
باب: گوہ (سوسمار) کھانے کے متعلق۔ 418
باب: مکڑی (ٹڈی) کے کھانے کا بیان۔ 419
باب: سمندری جانور اور ان جانوروں کو کھانا جن کو سمندر پھینک دے۔ 419
باب: گھوڑوں کا گوشت کھانے کے متعلق۔ 420
باب: گھریلو گدھوں کا گوشت کھانے کی ممانعت۔ 420
باب: ہر کچلی والے درندے کا گوشت کھانے کی ممانعت۔ 420
باب: ہر پنجے والے (پنجے سے کھانے والے) پرندے کا گوشت کھانے کی ممانعت۔ 420
باب: لہسن کھانے کی کراہت۔ 421
باب: کھانے پر اعتراض نہ کرنے کے متعلق۔ 421
باب: کھانے پر اعتراض نہ کرنے کے متعلق۔ 421
کتاب : لباس اورزیب و زینت کے بیان میں 422
باب: دنیا میں ریشمی لباس وہ (مرد) پہنتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں اور اس (ریشمی لباس) سے نفع حاصل کرنے اور اس کی قیمت کے مباح ہونے کے بیان میں۔ 422
باب: جس (آدمی) نے دنیا میں ریشمی لباس پہنا وہ آخرت میں نہیں پہنے گا۔ 422
باب: اللہ سے ڈرنے والے کیلئے ریشمی قباء لائق نہیں۔ 422
باب: ریشمی لباس پہننا منع ہے لیکن دو انگلیوں کے برابر ریشم جائز ہے۔ 423
باب: ریشم کی قبا پہننے کی ممانعت۔ 423
باب: کسی تکلیف (بیماری) کی وجہ سے ریشمی لباس پہننے کی اجازت ۔ 423
باب: کپڑے کے کنارے ریشم سے بنانے کی اجازت۔ 423
باب: ریشمی کپڑا پھاڑ کر عورتوں کیلئے دوپٹے بنانا۔ 424
باب: ”قسی“ اور ”معصفر“ (کپڑے) اور سونے کی انگوٹھی پہننے کی ممانعت۔ 424
باب: (مَردوں کیلئے) زعفران لگانے کی ممانعت۔ 424
باب: بالوں کے رنگنے اور (بڑھاپے میں) بالوں کی سفیدی کے رنگ کو تبدیل کرنے کے متعلق۔ 424
باب: خضاب (لگانے) میں یہود و نصاریٰ کی مخالفت کرنے کے متعلق۔ 425
باب: دھاری دار یمن کی چادر کے لباس کے متعلق۔ 425
باب: کالے رنگ کا کمبل پہننا، جس پر پالان کی تصویریں ہوں۔ 425
باب: موٹے کپڑے کا تہبند اور ملبد کپڑے پہننے کے متعلق۔ 425
باب: ”انماط“ (یعنی) قالین وغیرہ کے متعلق۔ 425
باب: ضروری بستر بنا کر رکھنے کے متعلق۔ 425
باب: چمڑے کا بچھونا جس میں چھال بھری ہو۔ 426
باب: ”اشتمال الصماء“ (یعنی ایک ہی کپڑا سارے جسم پر لپیٹنے) اور ”احتباء“ ایک کپڑے سے کرنے کے متعلق۔ 426
باب: چت لیٹنے اور ایک پاؤں دوسرے پاؤں پر رکھنے کی ممانعت۔ 426
باب: چت لیٹ کر ایک پاؤں دوسرے پاؤں پر رکھنے کی اجازت۔ 426
باب: آدھی پنڈلی تک چادر اوپر اٹھا کر رکھنے کے متعلق۔ 426
باب: تکبر کی بنا پر جو اپنی چادر لٹکائے گا اللہ تعالیٰ اس شخص کو (قیامت کے دن رحمت کی نظر سے) نہیں دیکھے گا۔ 426
باب: تین شخصوں سے اللہ تعالیٰ بات نہیں کرے گا اور نہ ان کی طرف نظر (رحمت) کرے گا۔ 427
باب: جس نے اپنا کپڑا تکبر و غرور سے (زمین تک) لٹکایا۔ 427
باب: ایک آدمی اکڑ کر چلنے میں اپنے آپ پر اِترا رہا تھا (تو وہ زمین میں)، دھنسادیا گیا۔ 427
باب: جس گھر میں کتا اور تصویر ہو، اس گھر میں (رحمت کے) فرشتے داخل نہیں ہوتے۔ 427
باب: فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں تصویر ہو، البتہ کپڑے کے نقش و نگار میں کوئی حرج نہیں۔ 428
باب: وہ پردہ مکروہ ہے جس پر تصویریں ہوں، نیز اس (پردے) کو کاٹ کر تکیہ بنانے کے متعلق۔ 428
باب: گدے (کے اوپر والے کپڑے) پر تصویریں اور اس کو تکیہ بنانے کا حکم۔ 428
باب: تصاویر بنانے والوں کو قیامت کے دن عذاب ہو گا۔ 429
باب: تصویر بنانے والوں پر سختی کا بیان۔ 429
باب: سونے کی انگوٹھی بنانے، اور چاندی (کے برتن) میں پینے اور ریشم اور دیباج کا لباس پہننے کی ممانعت۔ 429
باب: سونے کی انگوٹھی (اتار) پھینکنا۔ 429
باب: نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کا چاندی کی انگوٹھی پہننا، جس کا نقش ”محمد رسول اللہ“ تھا اور آپ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کے بعد خلفاء کا پہننا۔ 430
باب: چاندی کی انگوٹھی، جس کا نگینہ ”حبشی“ تھا اور دائیں ہاتھ میں پہننے کے متعلق۔ 430
باب: بائیں ہاتھ کی چھنگلی میں انگوٹھی پہننے متعلق۔ 430
باب: درمیانی انگلی اور ساتھ والی انگلی میں انگوٹھی پہننے کی ممانعت میں۔ 431
باب: جوتا اور اس کے زیادہ پہننے کے متعلق۔ 431
باب: جب جوتا پہنے تو دائیں طرف سے ابتداء کرے اور جب اتارے تو بائیں طرف سے ابتداء کرے۔ 431
باب: ایک جوتا پہن کر چلنے کی ممانعت۔ 431
باب: سر کا کچھ حصہ مونڈنے اور کچھ چھوڑ دینے کی ممانعت (جیسے فوجی کٹ، برگر کٹ وغیرہ) ۔ 431
باب: عورت کو بالوں کے ساتھ مصنوعی بال لگانے کی ممانعت۔ 431
باب: عورت کو اپنے سر میں جوڑ لگانے پر سختی کا بیان۔ 432
باب: چہرے کے بال اکھاڑنے اور دانتوں کو کشادہ کرنے پر لعنت۔ 432
باب: اپنے آپ کو ”پیٹ بھرا“ ثابت کرنے والے کے متعلق، جبکہ درحقیقت پیٹ خالی ہو۔ 432
باب: ان عورتوں کے متعلق جو کپڑے پہنے ہوئے بھی ننگی ہی ہیں۔ 433
باب: جانوروں کے گلے میں موجود ”ہار“ کاٹ دینا۔ 433
باب: گھنٹیوں کے متعلق اور اس بارے میں کہ (رحمت کے) فرشتے اس سفر میں ساتھی نہیں بنتے جس میں کتا اور گھنٹی ہو۔ 433
باب: جانوروں کے چہرے پر داغنے سے ممانعت کے متعلق۔ 433
باب: بکریوں کے کانوں میں داغنے کے بیان میں۔ 434
باب: پیٹھ پر داغنے کے بیان میں۔ 434
کتاب : آداب کا بیان 434
باب: نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کا قول کہ میرے نام پر نام رکھو اور میری کنیت پر کسی کی کنیت نہ رکھو۔ 434
باب: محمد (صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم) کے نام کے ساتھ نام رکھنا۔ 434
باب: اللہ تعالی کے ہاں پسندیدہ ترین نام عبداللہ اور عبدالرحمن ہیں۔ 434
باب: بچے کا نام عبدالرحمن رکھنا۔ 435
باب: بچے کا نام عبداللہ رکھنا، اس پر ہاتھ پھیرنا اور صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم سکے لئے دعا کرنا۔ 435
باب: انبیاء اور صالحین کے ناموں کے ساتھ نام رکھنے کا بیان۔ 436
باب: بچے کا نام ابراہیم رکھنا۔ 436
باب: بچے کا نام منذر رکھنا۔ 436
باب: پہلے نام کو اس سے اچھے نام سے بدل دینا۔ 436
باب: ”برہ“ کا نام جویریہ رکھنا۔ 436
باب: ”برہ“ کا نام زینب رکھنا۔ 437
باب: انگور کا نام ”کرم“ رکھنے کا بیان۔ 437
باب: افلح، رباح، یسار اور نافع نام رکھنے کی ممانعت۔ 437
باب: مندرجہ بالا نام رکھنے کی اجازت کے بارے میں۔ 437
باب: (غلام کے لئے) ”عبد ۔ امة“ اور (مالک کیلئے) ”مولی۔ سید“ بولنے کے متعلق۔ 437
باب: چھوٹے بچے کی کنیت رکھنا۔ 438
باب: کسی آدمی کا کسی آدمی کو ”یا بُنَیّ“ کہنا (یعنی اے میرے بیٹے)۔ 438
باب: اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے برا نام یہ ہے کہ کسی کا نام ”شہنشاہ“ ہو۔ 438
باب: مسلمان پر مسلمان بھائی کے پانچ حق ہیں۔ 438
باب: راستوں میں بیٹھنے کی ممانعت اور راستے کا حق ادا کرنے کے بیان میں۔ 439
باب: سوار کا پیدل کو اور کم لوگوں (کی جماعت) کا زیادہ لوگوں (کی جماعت) کو سلام کرنا۔ 439
باب: اجازت طلب کرنے اور سلام کے بارے میں۔ 439
باب: پردہ اٹھا لینا اجازت دینا (ہی) ہے۔ 439
باب: اجازت لیتے وقت ”میں“ کہنا مکروہ ہے (لہٰذا اپنا نام بتانا چاہیئے)۔ 440
باب: اجازت لینے کے وقت (گھر میں) جھانکنا منع ہے۔ 440
باب: جو بغیر اجازت کسی کے گھر جھانکے اور انہوں نے اس کی آنکھ پھوڑ دی (تو کوئی گناہ نہیں)۔ 440
باب: اچانک نظر پڑ جانے اور نظر پھیر لینے کے بارے میں۔ 440
باب: جو مجلس میں آیا، سلام کیا اور بیٹھ گیا (اس کی فضیلت)۔ 440
باب: کسی کو اس کی جگہ سے اٹھا کر خود بیٹھنے کی ممانعت۔ 441
باب: جو اپنی مجلس (بیٹھنے کی جگہ) سے اٹھا، پھر لوٹا تو وہ اس جگہ کا زیادہ حقدار ہے۔ 441
باب: تین آدمیوں میں سے دو آدمیوں کی الگ اور آہستہ بات چیت کی ممانعت۔ 441
باب: بچوں کو سلام (کرنا)۔ 441
باب: تم یہود و نصاریٰ کو سلام کرنے میں پہل نہ کرو۔ 441
باب: اہل کتاب کے سلام کا جواب۔ 442
باب: پردے کا حکم آجانے کے بعد عورتوں کے (کھلے منہ) نکلنے کی ممانعت۔ 442
باب: عورتوں کو اپنی ضروریات کیلئے باہر نکلنے کی اجازت۔ 442
باب: محرم عورت کو اپنے پیچھے بٹھانا۔ 442
باب: جب کوئی اپنی بیوی کے ساتھ جا رہا ہو اور کوئی شخص راستہ میں مل جائے، تو یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ فلاں (میری بیوی) ہے۔ 443
باب: آدمی کو غیر محرم عورت کے ساتھ رات گذارنے کی ممانعت۔ 443
باب: جن (عورتوں) کے خاوند گھر سے باہر ہیں، ان (عورتوں) کے گھروں میں جانے کی ممانعت۔ 444
باب: عورتوں کے پاس مخنثین (
 

مہوش علی

لائبریرین
(گذشتہ سے پیوستہ ۔۔۔۔ فرستِ ابواب)

444
باب: عورتوں کے پاس مخنثین (خسروں) کا آنا جانا منع ہے۔ 444
باب: سوتے وقت آگ بجھانے کا حکم۔ 444
باب: سوتے وقت آگ بجھانے کا حکم 444
کتاب : دم جھاڑ کے مسائل 445
باب: نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کو جبرئیل علیہ السلام کا دم کرنا۔ 445
باب: جادو کے بارے میں اور جو یہودیوں نے نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم پر جادو کیا تھا اس کا بیان۔ 445
باب: معوذات کا مریض پر پڑھنے اور پھونک مارنے کا بیان۔ 445
باب: اللہ کے نام کا ”دم“ اور پناہ مانگنے کا بیان۔ 446
باب: نماز کے اندر وسوسہ والے شیطان سے پناہ مانگنے کا بیان۔ 446
باب: بچھو سے ڈسے ہوئے آدمی کو سورئہ فاتحہ سے دم کرنا۔ 446
باب: ہر زہر کو دفع کرنے کے لئے دم کرنا۔ 446
باب: ”نملہ“ (ایک قسم کی پھنسی) کے لئے دم کا بیان۔ 447
باب: بچھو کے لئے دم کی اجازت۔ 447
باب: نظر بد لگ جاتی ہے اور جب تم کو غسل کرنے کا حکم دیا جائے تو غسل کرو۔ 447
باب: نظر بد کا دم۔ 447
باب: نظر بد سے دم کرنے کے متعلق۔ 448
باب: زمین کی مٹی سے دم۔ 448
باب: آدمی کا اپنے گھر والوں کو دم کرنا، جبکہ وہ بیمار ہوں۔ 448
باب: ایسا دم کرنے میں کوئی حرج نہیں، جس میں شرک نہ ہو۔ 448
کتاب : بیماری اور علاج 449
باب: جو درد اور مرض مومن کو پہنچتی ہے اس کے ثواب کا بیان۔ 449
باب: بیمار پرسی کی فضیلت کا بیان۔ 449
باب: یوں نہ کہو کہ میرا نفس خبیث (گندا) ہو گیا ہے۔ 449
باب: ہر بیماری کی دوا ہے۔ 450
باب: بخار جہنم کی بھاپ سے ہوتا ہے اس کو پانی سے ٹھنڈا کرو۔ 450
باب: بخار گناہوں کو دور کرتا ہے۔ 450
باب: مرگی اور اس کے ثواب کے متعلق۔ 450
باب: تلبینہ بیمار کے دل کو خوش رکھتا ہے۔ 450
باب: شہد پلا کر علاج کرنا۔ 451
باب: کلونجی کے ساتھ دوا۔ 451
باب: جو عجوہ کھجور صبح کو کھائے تو اس کو (شام تک) کوئی زہر اور جادو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ 451
باب: ”کھنبی“ ”من“ سے ہے اور اس کا پانی آنکھ کے لئے شفاء ہے۔ 451
باب: عود ہندی کے ساتھ دوا کا بیان۔ 451
باب: منہ میں دوائی ڈال کر علاج کرنا۔ 452
باب: پچھنا لگانے اور ناک میں دوائی ڈالنے کے متعلق۔ 452
باب: پچھنے لگوانے اور داغنے کے ساتھ علاج کرنا۔ 452
باب: رگ کاٹنے اور داغنے سے علاج۔ 453
باب: زخم کا علاج داغ دینے سے۔ 453
باب: شراب کے ساتھ دوا (جائز نہیں)۔ 453
کتاب : طاعون کے متعلق 453
باب: طاعون کے بارے میں، اور یہ کہ یہ ایک عذاب ہے، اس لئے نہ تو اس (طاعون زدہ بستی) میں داخل ہو اور نہ اس (طاعون زدہ بستی) سے بھاگو۔ 453
کتاب : بدفالی، اور متعدی(اچھوت) بیماری 455
باب: نہ عدوی کوئی چیز ہے اور نہ طیرہ ، نہ صفر اور نہ ھامہ۔ 455
باب: بیمار اونٹ تندرست اونٹ پر نہ لایا جائے۔ 455
باب: نوء کوئی چیز نہیں۔ 456
باب: غول کوئی چیز نہیں۔ 456
باب: جذام (کوڑھ پن) میں مبتلا شخص سے دور رہنے کے متعلق۔ 456
باب: اچھی فال کے متعلق۔ 456
باب: نحوست گھر ، عورت اور گھوڑے میں (ہو سکتی ہے)۔ 456
باب: اچھی فال کے متعلق۔ 457
باب: نحوست گھر ، عورت اور گھوڑے میں (ہو سکتی ہے)۔ 457
کتاب : کہانت کے متعلق۔ 457
باب: کاہن کے پاس آنے کی ممانعت اور لکیر کے ذکر میں۔ 457
باب: وہ بات جس کو جن اچک کر لے جاتا ہے۔ 457
باب: ستاروں کے ذریعے شیطانوں پر حملے کے متعلق جبکہ وہ (فرشتوں سے) چوری سنتے ہیں۔ 457
باب: جو نجومی کے پاس آتا ہے اس کی نماز قبول نہیں۔ 458
باب: جو نجومی کے پاس آتا ہے اس کی نماز قبول نہیں۔ 458
کتاب : سانپ وغیرہ کے متعلق۔ 459
باب: گھروں میں رہنے والے سانپوں کو مارنے کی ممانعت۔ 459
باب: گھر میں رہنے والے سانپوں کو تین بار خبردار کرو۔ 459
باب: سانپوں کو مارنا۔ 460
باب: گرگٹوں کو مارنے کے بارے میں۔ 460
باب: مکوڑوں اور چیونٹیوں کو مارنے کے بارے میں۔ 460
باب: بلی کو مارنے کے متعلق۔ 460
باب: چوہے کے بارے میں اور یہ کہ یہ مسخ شدہ ہیں۔ 461
باب: جانوروں کو پانی پلانے کے متعلق۔ 461
باب: جانوروں کو پانی پلانے کے متعلق۔ 461
کتاب : شعر وغیرہ کا بیان۔ 462
باب: شعر اور اس کے پڑھنے کے بارے میں۔ 462
باب: سب سے سچی بات جو کسی شاعر نے کہی (وہ کونسی ہے؟) 462
باب: شعر سے پیٹ بھرنے کی کراہت۔ 462
باب: تعریف کرنے والوں کے مونہوں میں مٹی ڈالنے کا بیان۔ 462
باب: تزکیہ اور مدح کی کراہت کے بارے میں۔ 463
باب: چوسر کے ساتھ کھیلنے کے متعلق۔ 463
کتاب : خوابوں کا بیان 463
باب: نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کے خواب کے بیان میں۔ 463
باب: نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کا خواب میں مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی کذاب کے متعلق 464
باب: نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کا قول کہ جس نے مجھے خواب میں دیکھا، تحقیق اس نے مجھے سچ مچ دیکھا۔ 464
باب: اچھا خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور برا خواب شیطان کی طرف سے ہے۔ 464
باب: اچھا خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور (خواب میں) جو کوئی ناپسندیدہ بات دیکھے تو کسی کو بیان نہ کرے۔ 465
باب: اگر ناپاپسندیدہ (خواب) دیکھے تو وہ پناہ مانگے اور کروٹ بدل لے ۔ 465
باب: خواب کی تعبیر کے متعلق جو وارد ہوا ہے۔ 466
باب: خواب میں شیطان کے کھیل کو دیکھے تو وہ بیان نہ کرے۔ 466
کتاب : نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کے فضائل 466
باب: نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کا (نبوت کیلئے) چنا جانا ۔ 466
باب: نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کا قول کہ میں اولاد آدم کا سردار ہوں۔ 467
باب: اس کی مثال جو نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم مبعوث کئے گئے ہیں ہدایت اور علم کیساتھ 467
باب: انبیاء علیہم السلام کے آنے کی تکمیل اور خاتمہ (نبوت) سیدنا محمد اکے ذریعہ ہونا۔ 467
باب: پتھر کا نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کو سلام کرنا۔ 468
باب: نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کی انگلیوں کے درمیان سے پانی بہنا۔ 468
باب: نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم(کی نبوت ) کے نشانات پانی میں۔ 468
باب: نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم(کی وجہ سے) طعام میں برکت۔ 468
باب: نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کی وجہ سے دودھ میں برکت۔ 470
باب: نبی اکی وجہ سے گھی میں برکت۔ 471
باب: نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کے لئے درخت کا تابع فرمان ہو جانا۔ 472
باب: چاند کا ٹوٹ کر دو ٹکڑے ہو جانا۔ 476
باب: شر کے ارادے سے آنے والے سے نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کا محفوظ رہنا ۔ 476
باب: نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کا، قتل کے ارادے سے آنے والے (کے شر) سے محفوظ رہنا۔ 476
باب: زہر اور زہر ملی بکری (کا گوشت) کھانے کا بیان۔ 477
باب: نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کا اندازہ درست نکلنے کے متعلق۔ 477
باب: نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کا فرمان کہ میں تمہاری کمر پکڑ کر جہنم سے روکتا ہوں۔ 478
باب: نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم لوگوں سے زیادہ اللہ تعالیٰ کو جاننے والے تھے اور اللہ تعالیٰ سے زیادہ ڈرنے والے تھے۔ 478
باب: نبی اکے حوض، اس کی وسعت و عظمت اور آپ کی امت کے حوض پر آنے کے متعلق۔ 479
باب: نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کے حلیہ مبارک، آپ کی بعثت اور آپ کی عمر کے بیان میں۔ 480
باب: مہر نبوت کے متعلق۔ 481
باب: آپ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کے چہرہ مبارک، آنکھوں اور آپ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کی ایڑی کا بیان۔ 481
باب: نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کی داڑھی مبارک کا بیان۔ 481
باب: نبی اکے بڑھاپے کا بیان۔ 482
باب: نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کے سر کے بالوں کا بیان۔ 482
باب: نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کا سر کے بالوں کو لٹکانا اور مانگ نکالنے کا بیان۔ 482
باب: نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کے تبسم کے متعلق۔ 482
باب: نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کنواری لڑکی جو پردے میں ہوتی ہے، سے بھی زیادہ شرمیلے تھے۔ 482
باب: نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کے جسم کی خوشبو اور جسم کا ملائم ہونا۔ 482
باب: وحی کے دوران سردی میں نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کا پسینہ مبارک۔ 483
باب: نبی اکے پسینے کی خوشبو۔ 483
باب: نبی اکے پسینہ مبارک سے تبرک کا بیان۔ 483
باب: نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کا لوگوں کے قریب ہونا اور ان کا آپ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم سے تبرک لینے کا بیان۔ 483
باب: رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم بچوں اور اہل و عیال کیساتھ سب سے زیادہ شفقت رکھتے تھے۔ 484
باب: نبی اکی رحمت عورتوں کیساتھ اور عورتوں کی سواری چلانے والے کو آہستہ چلانے کا حکم۔ 484
باب: نبی اکی بہادری اور جنگ میں سب سے آگے ہونے کا بیان۔ 484
باب: نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم سب سے زیادہ حسن اخلاق والے تھے۔ 485
باب: نبی اکے گفتگو کے انداز کے بیان میں۔ 485
باب: رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم نصیحت کرنے میں ہمارا خیال کرتے تھے (صحابہ تنگ نہ پڑ جائیں)۔ 485
باب: نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم سب سے زیادہ سخی تھے بھلائی (کے کاموں )میں۔ 486
باب: ایسا کبھی نہیں ہوا کہ نبی اسے کچھ سوال کیا گیا ہو کہ آپ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم نے فرمایا ہو کہ نہیں ۔ 486
باب: نبی اکے کثرت سے عطیات دینے کے بیان میں۔ 486
باب: نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کے وعدوں کے بارے میں۔ 486
باب: نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کے ناموں کی تعداد کے بیان میں۔ 487
باب: نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم مکہ اور مدینہ میں کتنی کتنی مدت رہے؟ 487
باب: وفات کے وقت نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کی عمر کتنی تھی۔ 487
باب: جب اللہ تعالیٰ کسی امت پر رحمت فرماتا ہے تو اس کی امت سے پہلے نبی کو وفات دے دیتا ہے ۔ 488
باب: اللہ تعالی کے قول ﴿فلا وربک لا یؤمنون حتی یحکموک… ﴾ الآیة کے بارے میں۔ 488
باب: نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کی اتباع اور اللہ تعالیٰ کے قول ﴿ولا تسألوا عن اشیاءَ ان تبدلکم تسؤکم﴾ الآیة کے بارے میں۔ 488
باب: جس سے نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم روک دیں اس سے رکنے اور اس کے خلاف کرنے کے بارے میں۔ 489
باب: دین کی جس بات کی نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم خبر دیں، اس میں اور دنیاوی رائے میں فرق کے متعلق۔ 489
باب: نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کے دیکھنے کی تمنا اور اس پر حریص ہونے کے بارے میں۔ 489
باب: اس آدمی کے بارے میں جو پسند کرے کے مجھے نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کا دیکھنا نصیب ہو جائے اگرچہ میرے اہل و عیال قربان ہو جائیں۔ 490
باب: اس آدمی کے بارے میں جو پسند کرے کے مجھے نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کا دیکھنا نصیب ہو جائے اگرچہ میرے اہل و عیال قربان ہو جائیں۔ 490
کتاب : انبیاء علیہم السلام کا ذکر اور ان کے فضائل 490
باب: آدم علیہ السلام کی پیدائش کی ابتداء کے بارے میں۔ 490
باب: سیدنا ابراہیم ں کی فضیلت میں ۔ 490
باب: سیدنا ابراہیم ں کا ختنہ کرنا ۔ 491
باب: سیدنا ابراہیم ں کے قول (رب ارنی … الایة) کے بارے میں اور سیدنا لوط ں اور یوسف ں کا ذکر۔ 491
باب: سیدنا ابراہیم ں کے قول کہ ”میں بیمار ہوں“ اور اس قول کہ ”بلکہ کیا ہے اس کو ان کے بڑے نے“ اور سارہ کے متعلق کہ ”یہ میری بہن ہے“۔ 491
باب: سیدنا موسیٰ ں اور اللہ تعالی کے فرمان”فبراہ الله مما“ … کے متعلق۔ 492
باب: سیدنا موسیٰ ں کا قصہ ، خضر ں کے ساتھ۔ 492
باب: نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کا فرمان ”لا تفضلوا بین“ … کے متعلق۔ 494
باب: سیدنا موسیٰ ں کی وفات کے متعلق۔ 494
باب: نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کے فرمان ”مررت علی موسیٰ … “ کے متعلق۔ 495
باب: سیدنا یوسف ں کے متعلق۔ 495
باب: سیدنا زکریا ں کے متعلق ۔ 495
باب: سیدنا یونس ں کے متعلق۔ 495
باب: سیدنا عیسیٰ ں کے متعلق۔ 495
باب: سوائے مریم اور عیسیٰ علیہما السلام کے باقی ہر بچے کو شیطان مس کرتا ہے۔ 495
باب: سیدنا عیسیٰ ں کے قول ”امنت بالله وکذبت نفسی“ کے متعلق۔ 496
باب: سیدنا عیسیٰ ں کے قول ”امنت بالله وکذبت نفسی“ کے متعلق۔ 496
کتاب : سیدنا ابوبکر صدیق ص کی فضیلت 496
باب: نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کے قول ”مَصل اللہ علیہ و آلہِ وسلم ظَنُّکَ باثْنَیْن“ … کے متعلق۔ 496
باب: نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کے فرمان”إنَّ أَمَنَّ النَّاس“ کے متعلق ۔ 496
باب: نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کے نزدیک سب لوگوں سے زیادہ پیارے سیدنا ابوبکر ص تھے۔ 497
باب: نیکی کے سارے کام سیدنا ابو بکر ص میں جمع تھے اور وہ جنتی ہیں۔ 497
باب: نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کا فرمان کہ ”میں بھی سچ مانتا ہوں، ابوبکر اور عمر بھی سچ مانتے ہیں“ (')۔ 497
باب: صدیق و فاروق کی رفاقت نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کے ساتھ۔ 498
باب: سیدنا ابو بکر صدیق ص کو خلیفہ بنانا۔ 498
باب: سیدنا عمر بن خطاب ص کی فضیلت کا بیان۔ 498
باب: سیدنا عثمان بن عفان ص کی فضیلت کا بیان ۔ 500
باب: سیدنا علی بن ابی طالب ص کی فضیلت کا بیان ۔ 501
باب: سیدنا طلحہ بن عبیداللہ ص کی فضیلت کا بیان ۔ 502
باب: سیدنا زبیر بن عوام ص کی فضیلت کا بیان۔ 502
باب: سیدنا طلحہ ص اور سیدنا زبیر ص کی فضیلت کا بیان۔ 503
باب: سیدنا سعد بن ابی وقاص ص کی فضیلت کا بیان ۔ 503
باب: سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح کی فضیلت کا بیان۔ 505
باب: سیدنا حسن صاور حسین ص کی فضیلت کا بیان ۔ 505
باب: سیدہ فاطمة الزہراء رضی اللہ عنہا بنت محمد صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کی فضیلت کا بیان۔ 505
باب: نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کے اہل بیت کی فضیلت۔ 506
باب: نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کی زوجہ مطہرہ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت کا بیان۔ 507
باب: اسی سے متعلق اور امّ زرع کی حدیث کے بیان میں۔ 509
باب: نبی اکی زوجہ مطہر اُمّ المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت کابیان۔ 511
باب: اُمّ المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا کی فضیلت کا بیان۔ 512
باب: اُمّ المؤمنین اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت کا بیان ۔ 512
باب: سیدنا انس بن مالک ص کی والدہ، سیدہ اُمّ سلیم رضی اللہ عنہا کی فضیلت کا بیان۔ 512
باب: سیدنا اسامہ بن زید کی والدہ، سیدہ اُمّ ایمن رضی اللہ عنہا کی فضیلت کا بیان۔ 512
باب: سیدنا زید بن حارثہ ص کی فضیلت کا بیان۔ 513
باب: سیدنا زید بن حارثہ ص اور اسامہ بن زید ص کی فضیلت کا بیان۔ 513
باب: سیدنا ابوبکر صدیق ص کے غلام، سیدنا بلال بن رباح ص کی فضیلت کا بیان۔ 513
باب: سیدنا سلمان، صہیب اور بلال ث کی فضیلت کا بیان۔ 513
باب: سیدنا انس بن مالک ص کی فضیلت کابیان۔ 514
باب: سیدنا جعفر بن ابی طالب، اسماء بنت ِعمیس اور ان کی کشتی والوں کی فضیلت کا بیان۔ 514
باب: سیدنا عبداللہ بن جعفر ص بن ابی طالب کی فضیلت کا بیان۔ 515
باب: سیدنا عبداللہ بن عباس ص کی فضیلت کا بیان۔ 515
باب: سیدنا عبداللہ بن عمر ص کی فضیلت کا بیان۔ 516
باب: سیدنا عبداللہ بن زبیر ص کی فضیلت کا بیان۔ 516
باب: سیدنا عبداللہ بن مسعود ص کی فضیلت کا بیان۔ 516
باب: سیدنا عبداللہ بن عمرو بن حرام ص کی فضیلت کا بیان ۔ 517
باب: سیدنا عبداللہ بن سلام ص کی فضیلت کا بیان۔ 517
باب: سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا بیان۔ 518
باب: سیدنا ابوطلحہ انصاری اور ان کی زوجہ اُمّ سلیم رضی اللہ عنہما کی فضیلت کا بیان۔ 518
باب: سیدنا ابی بن کعب ص کی فضیلت کا بیان۔ 519
باب: سیدنا ابوذر غفاری ص کی فضیلت کا بیان۔ 519
باب: سیدنا ابوموسیٰ اشعری ص کی فضیلت کا بیان۔ 522
باب: سیدنا ابوموسیٰ اور ابوعامر اشعری رضی اللہ عنہما کی فضیلت کا بیان۔ 523
باب: سیدنا ابوہریرہ دوسی ص کی فضیلت کا بیان۔ 523
باب: سیدنا ابودجانہ سماک بن خرشہ ص کی فضیلت کا بیان۔ 524
باب: سیدنا ابوسفیان صخر بن حرب ص کی فضیلت کا بیان۔ 525
باب: سیدنا جلیبیب ص کی فضیلت کا بیان۔ 525
باب: سیدنا حسان بن ثابت ص کی فضیلت کا بیان۔ 525
باب: سیدنا جریر بن عبداللہ بجلی ص کی فضیلت کابیان۔ 527
باب: اصحابِ شجرہ ث کی فضیلت کا بیان۔ 528
باب: شہدائے بدر کی فضیلت کا بیان۔ 528
باب: قریش، انصار اور ان کے علاوہ کی فضیلت کا بیان۔ 528
باب: قریش کی عورتوں (کی فضیلت) کا بیان ۔ 529
باب: انصارث کے فضائل کا بیان ۔ 529
باب: انصار کے گھروں میں بھلائی ہونے کا بیان۔ 529
باب: انصار ث سے اچھا برتاؤ کرنے کے متعلق۔ 530
باب: اشعریین ث کے فضائل کے بارے میں۔ 530
باب: ”غفار“ اور ”اسلم“ قبائل کیلئے نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کی دعا۔ 530
باب: (قبیلہ) ”مزینہ“ ، ”جہینہ“‘ اور ”غفار“ کی فضیلت کا بیان۔ 531
باب: جو بنو طئی کے بارے میں ذکر کیا گیا۔ 531
باب: قبیلہ دوس کے متعلق جو کچھ ذکر کیا گیا۔ 531
باب: بنی تمیم کی فضیلت کے بارے میں۔ 531
باب: نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کے اصحاب کے بھائی چارے کے متعلق۔ 531
باب: نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کا قول کہ میں اپنے صحابہ کرام ث کے لئے بچاؤ ہوں اور میرے اصحاب میری امت کے لئے بچاؤ ہیں۔ 532
باب: اس آدمی کے متعلق جس نے نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کو دیکھا یا جس نے اصحاب نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کو دیکھا یا جس نے اصحاب نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کے دیکھنے والوں کو دیکھا۔ 532
باب: بہترین زمانہ صحابہ کرام ث کا زمانہ ہے، پھر وہ جو ان کے بعد والا ہے، پھر وہ جو ان کے بعد والا ہے۔ 533
باب: لوگوں کو مختلف کانیں پاؤ گے۔ 533
باب: نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کا فرمان کہ جو چیز آج زمین پر سانس والی موجود ہے وہ سوسال تک ختم ہو جائے گی۔ 533
باب: نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کے اصحاب کو گالی دینے کی ممانعت اور بعد والوں پر ان کی فضیلت ۔ 534
باب: اویس قرنی (تابعی) کا ذکر اور ان کی فضیلت کا بیان۔ 534
باب: مصر اور اہلِ مصر کے بارے میں۔ 535
باب: عمان کے بارے میں جو آیا ہی ۔ 535
باب: فارس (ایران) کے بارے میں جو بیان ہوا ۔ 535
باب: آدمیوں کی مثال ان سو اونٹوں کی طرح ہے جن میں سواری کے لائق کوئی بھی نہ ہو ۔ 535
باب: بنو ثقیف میں سے جس جھوٹے اور ہلاکو کا ذکر کیا گیا ہے۔ 536
کتاب : نیکی اور سلوک کے مسائل 537
باب: والدین کے ساتھ نیکی کرنے کے بیان میں اور ان میں زیادہ حق کس کا ہے؟ 537
باب: والدین سے نیکی کرنا (نفلی) عبادت سے مقدم ہے۔ 537
باب: والدین کے ساتھ رہنے اور ان کے ساتھ نیکی کرنے کی غرض سے جہاد کو ترک کرنے کے متعلق۔ 538
باب: نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کا فرمان کہ ”اللہ تعالیٰ نے ماں کی نافرمانی کو حرام قرار دیا ہے ۔ 538
باب: اس آدمی کی ناک خاک آلود ہو جس نے والدین یا ان میں سے ایک کو بڑھاپے میں پایا، پھر (انکی خدمت کر کے) جنت میں داخل نہ ہوا۔ 538
باب: بڑی نیکی یہ ہے کہ آدمی اپنے باپ کے دوستوں سے اچھا سلوک کرے۔ 539
باب: بیٹیوں کے ساتھ حسن سلوک کے بیان میں۔ 539
باب: صلہ رحمی کرنا عمر کو بڑھاتا ہے ۔ 539
باب: صلہ رحمی کرنا اگرچہ وہ قطع رحمی کریں ۔ 540
باب: صلہ رحمی اور قطع رحمی کے متعلق۔ 540
باب: یتیم کی پرورش کرنے والے کے متعلق۔ 540
باب: بیواؤں اور مسکینوں کے لئے کمانے والے کے ثواب میں۔ 540
باب: اللہ تعالیٰ کے لئے محبت کرنے والوں کی فضیلت۔ 541
باب: آدمی جس کے ساتھ محبت رکھتا ہے (روزِ قیامت) اسی کے ساتھ ہو گا۔ 541
باب: جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے ساتھ محبت کرتا ہے تو اپنے بندوں میں بھی اس کی محبت ڈال دیتا ہی ۔ 541
باب: روحوں کے جھنڈ کے جھنڈ ہیں ۔ 542
باب: مومن (دوسرے) مومن کے لئے عمارت ی طرح ہے۔ 542
باب: (سب مومن) رحمت و شفقت کے لحاظ سے ایک آدمی کی طرح ہیں 542
باب: مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، اس پر ظلم نہیں کرتا اور اس کو ذلیل بھی نہیں کرتا۔ 542
باب: بندہ پر پردہ پوشی کے بیان میں۔ 543
باب: ساتھ بیٹھنے والوں کی سفارش کرنے کے بیان میں۔ 543
باب: نیک ساتھی کی مثال۔ 543
باب: ہمسایہ کے ساتھ (حسن سلوک کرنے) کی وصیت کے متعلق۔ 543
باب: نیکی میں ہمسایوں کا (خاص) خیال رکھنے کے متعلق۔ 543
باب: نرمی کے بارے میں۔ 544
باب: بیشک اللہ تعالیٰ نرمی کو پسند فرماتا ہے۔ 544
باب: تکبر کرنے والے کے عذاب کے بار ے میں۔ 544
باب: اللہ تعالیٰ پر قسم اٹھانے والے کے متعلق۔ 544
باب: نرمی اور اس شخص کے متعلق جس کی بُرائی سے بچا جائے۔ 544
باب: درگزر کرنے کے بیان میں۔ 545
باب: غصہ کے وقت اپنے آپ پر قابو پا لینے والے کے متعلق۔ 545
باب: غصہ کے وقت پناہ مانگنے کا بیان۔ 545
باب: انسان اس طرح پیدا کیا گیا ہے کہ وہ اپنے آپ کو سنبھال نہ سکے گا ۔ 545
باب: نیکی اور گناہ کے بارے میں۔ 546
باب: اس آدمی کے بارے میں جو راستہ سے گندگی یا تکلیف دینے والی چیز کو دُور کرتا ہے ۔ 546
باب: جوکانٹا یا کوئی مصیبت مومن کو پہنچتی ہے، اس (کے ثواب) کا بیان۔ 546
باب: جو تکلیف اور رنج مومن کو پہنچتا ہے اس کے ثواب کا بیان۔ 546
باب: ایک دوسرے کیساتھ حسد بغض اور دشمنی کی ممانعت کے بارے میں۔ 547
باب: ان دونوں میں اچھا وہ ہے جوسلام کی ابتداء کرے۔ 547
باب: کینہ رکھنے اور آپس میں قطع کلامی کے متعلق۔ 547
باب: (مسلمانوں کی) جاسوسی کرنے، (دنیوی) رشک کرنے اور بدگمانی کی ممانعت۔ 547
باب: شیطان کا، نمازیوں کے درمیان لڑائی کرانے کے بیان میں۔ 547
باب: ہر انسان کے ساتھ شیطان ہے ۔ 548
باب: غیبت کرنے کی ممانعت میں۔ 548
باب: چغل خوری کی ممانعت میں۔ 548
باب: چغل خور آدمی جنت میں نہ جائے گا۔ 548
باب: دومنہ والے کی مذمت کے بارے میں۔ 549
باب: سچ اور جھوٹ کے بارے میں۔ 549
باب: جہاں جھوٹ بولنا جائز ہے، اس کا بیان۔ 549
باب: جاہلیت کی پکار کی ممانعت۔ 549
باب: گالی دینے کی ممانعت میں۔ 550
باب: زمانہ کو گالی دینے کی ممانعت میں۔ 550
باب: کوئی آدمی اپنے بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ نہ کرے۔ 550
باب: مسجد میں تیر کو اس کے پیکان (نوک) سے پکڑ کر آئے (تاکہ کسی کو زخمی نہ کر دے)۔ 550
باب: منہ پر مارنے کی ممانعت میں۔ 550
باب: جانوروں کو لعنت کرنے اور اس کی وعید کے بارے میں۔ 551
باب: آدمی کے لئے یہ بات مکروہ ہے کہ وہ لعنت کرنے والا ہو ۔ 551
باب: جو کہتا ہے کہ لوگ ہلاک ہو گئے، اس کے بارے میں۔ 551
باب: بات کو بڑھا چڑھا کر یا بے فائدہ گفتگو کرنے والے ہلاک ہو گئے۔ 551
باب: نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کی بددعا مومنین کے لئے رحمت ہی ۔ 551
کتاب : ظلم و ستم کے بیان میں 553
باب: ظلم کرنا حرام ہے اور استغفار اور توبہ کرنے کا حکم ۔ 553
باب: ظالم کے لئے مہلت کا بیان۔ 553
باب: آدمی کو چاہیئے کہ اپنے بھائی کی مدد کرے چاہے ظالم ہو یا مظلوم۔ 554
باب: ان لوگوں کے متعلق جو لوگوں کو تکلیف دیتے ہیں۔ 554
باب: اپنے آپ کر ظلم کرنے والی قوم کے مسکن میں مت جاؤ مگر یہ کہ ( تم اپنے رب سے ڈر کر) روتے ہوئے (گزرو)۔ 554
باب: معذب لوگوں کے کنوؤں سے پانی پینے کے بارے میں۔ 554
باب: قصاص اور حقوق کی ادائیگی قیامت کے دن ہو گی۔ 555
کتاب : تقدیر کے بیان میں 555
باب: اللہ تعالیٰ کے قول: ”ہم نے ہر چیز اندازئہ مقرر کے ساتھ پیدا کی ہے“ کے بارے میں ۔ 555
باب: ہر چیز تقدیر سے ہے یہاں تک کہ عاجزی اور دانائی بھی ۔ 555
باب: طاقت (کا مظاہرہ کرنے) کا حکم اور (اپنے کو) عاجز ظاہر کرنے سے پرہیز کرنے کا حکم۔ 556
باب: پیدائش سے پہلے قدیر کا لکھا جانا۔ 556
باب: تقدیر کے ثبوت میں اور سیدنا آدم اور سیدنا موسیٰ علیہما السلام کی آپس میں بحث کا بیان۔ 556
باب: مقادیر کے سبقت لے جانے اور اللہ تعالیٰ کے فرمان: ﴿ونفس و ما سواھا …﴾ کی تفسیر کے بیان میں۔ 556
باب: تقدیر، بدبختی اور نیک بختی کے بارے میں۔ 557
باب: (جن) اعمال (پر انسان کی زندگی کا) خاتمہ (ہوا، ان) کے متعلق۔ 557
باب: اجل مقرر ہو چکی ہیں اور رزق تقسیم ہو چکے ہیں ۔ 558
باب: (انسانی) پیدائش کس طرح ہوتی ہے اور شقاوت اور سعادت کے بارے میں ۔ 558
باب: انسان کی تقدیر میں اس کا حصہء زنا لکھ دیا گیا ہے۔ 559
باب: اللہ تعالیٰ کا دلوں کو جس طرح چاہے پھیر دینا۔ 559
باب: ہر بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا کیا جاتا ہے ۔ 559
باب: مشرکین کی اولاد کے متعلق جو بیان ہوا۔ 560
باب: اس لڑکے کے متعلق جس کو سیدنا خضر علیہ السلام نے قتل کیا تھا۔ 560
باب: ان (بچوں) کے متعلق جو بچپن میں فوت ہو گئے اور اہل ِ جنت اور اہل دوزخ کی پیدائش کا ذکر، حالانکہ وہ ابھی اپنے باپوں کی پشت میں تھے۔ 560
کتاب : علم کے بیان میں 560
باب: علم کے اٹھ جانے اور جہالت کے عام ہو جانے کے بیان میں۔ 560
باب: علم کے قبض ہو جانے کے متعلق۔ 561
باب: علماء کے اٹھا لئے جانے سے علم کے اٹھائے جانے کے متعلق۔ 561
باب: جو شخص اسلام میں اچھا یا بُرا طریقہ جاری کرے۔ 561
باب: جو آدمی ہدایت یا گمراہی کی طرف بلاتا ہے۔ 561
باب: قرآن کے علاوہ کچھ لکھنے اور نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم پر جھوٹ بولنے سے بچنے کے متعلق ۔ 562
کتاب : دعاء کے مسائل 562
باب: اللہ تعالیٰ کے ناموں کے متعلق اور (اس شخص کے متعلق) جو ان کو یاد کرتا ہے ۔ 562
باب: نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم کی دعا۔ 562
باب: ”اللہم اغفرلی وارحمنی وعافنی وارزقنی“ 563
باب: ”اللھم اتنا فی الدنیا حسنة …“کی دعا ۔ 563
باب: ہدایت اور سیدھا رہنے کی دعا۔ 564
باب: نیک اعمال، جو اللہ تعالیٰ کیلئے کئے ہوں، ان کے واسطے سے دعا کرنا 564
باب: مشکل وقت کی دعا۔ 565
باب: بندے کی دعا قبول ہوتی رہتی ہے، جب تک وہ جلدی نہ کرے۔ 565
باب: دعا میں یقین اور اصرار (ہونا چاہئیے اور دعا میں) ”اگر تو چاہے“ نہیں کہنا چاہئیے۔ 565
باب: رات میں ایک ایسا وقت بھی ہے جس میں دعا قبول ہوتی ہے۔ 565
باب: رات کے آخر حصہ میں دعاء اور ذکر کرنے کی ترغیب اور اس میں قبولیت کا بیان ۔ 566
باب: مرغ کی آواز کے وقت کی دعا۔ 566
باب: مسلمان کے لئے اس کی پیٹھ پیچھے دعاکرنا۔ 566
باب: دنیا میں جلدی سزا کی دعا کرنا مکروہ ہی ۔ 566
باب: کسی تکلیف کی بناء پر موت کی آرزو کرنے کی کراہت اور دعائے خیر کا بیان ۔ 567
کتاب : ذکر کے بیان میں 567
باب: اللہ کے ذکر کی ترغیب اور ہمیشہ اللہ کا ذکر کر کے اس کا تقرب حاصل کرنے کی ترغیب۔ 567
باب: ذکر اللہ پر ہمیشگی اور اس کے ترک کے بیان میں۔ 567
باب: اللہ تعالیٰ کی کتاب کی تلاوت پر اکٹھے ہونے کے بیان میں۔ 568
باب: جو اللہ کے ذکر اور اس کی حمد کے لئے بیٹھتا ہے، اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے اس پر فخر کرتا ہی۔ 568
باب: اللہ عز و جل کے ذکر کی مجالس، دعا اور استغفار کی فضیلت کا بیان۔ 569
باب: اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والے مَردوں اور عورتوں کے بیان میں۔ 569
باب: لا الٰہ الا اللہ کہنے کے متعلق۔ 569
باب: اونچی آواز کے ساتھ ذکر کرنے کا بیان۔ 570
باب: شام کے وقت کیا کہنا چاہئیے؟ 570
باب: نیند اور لیٹتے وقت کیا کہے؟ 570
باب: صبح کی نماز کے بعد تسبیح کہنے کا بیان۔ 572
باب: تسبیح کہنے کی فضیلت ۔ 572
باب: لا الٰہ الا اللہ، الحمدللہ اور اللہ اکبر کے بارے میں۔ 573
باب: سبحان اللہ وبحمدہ (کا وظیفہ) اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔ 573
باب: جو آدمی روزانہ سو دفعہ ”لا الٰہ الا اللّٰہ وحدہ … “کہتا ہے اس کے بارے میں ۔ 573
باب: جو آدمی سو بار سبحان اللہ کہتا ہے، اس کے بارے میں۔ 573
باب: جو آدمی سو بار سبحان اللہ کہتا ہے، اس کے بارے میں۔ 574
تعوذ وغیرہ کے بارے میں 574
باب: فتنوں کے شر سے پناہ مانگنا۔ 574
باب: عاجز آجانے اور سستی سے پناہ مانگنے کے بیان میں۔ 574
باب: بُری قضا اور بدبختی سے پناہ مانگنے کے بیان میں۔ 574
باب: نعمت کے زوال سے پناہ مانگنے کے بیان میں ۔ 574
باب: چھینکنے والے کو جواب دینا، جب وہ ”الحمدللہ“ کہے۔ 575
باب: چھینکنے والے کو جواب دینا، جب وہ ”الحمدللہ“ کہے۔ 575
کتاب : توبہ، اسکی قبولیت اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کی وسعت۔ 576
باب: اللہ تعالیٰ سے توبہ کرنے کا حکم ۔ 576
باب: توبہ کرنے پر شوق دلانا ۔ 576
باب: سچی توبہ کا بیان اور اللہ تعالیٰ کے قول ﴿وَعلَی الثَّلاَثَةِ الَّذِیْنَ خلفوا﴾ کی تفسیر۔ 576
باب: جس نے سو آدمی قتل کئے تھے اس کی توبہ قبول ہونے کے بارے میں 581
باب: جس نے مغرب سے سورج طلوع ہونے سے پہلے توبہ کی، اس کی توبہ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے گا ۔ 582
باب: رات اور دن کے گنہگار کی توبہ کی قبولیت۔ 582
باب: گناہوں کے معاف کرنے کے بیان میں۔ 582
باب: اللہ تعالیٰ کی رحمت فراخ ہے اور اس کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے۔ 582
باب: اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کی سزا کے بیان میں۔ 583
باب: والدہ کی جتنی رحمت اپنی اولاد پر ہے، اللہ کی رحمت اپنے بندوں پر اس سے کہیں زیادہ ہے۔ 583
باب: (فقط) عمل کسی کو نجات نہیں دلا سکتا۔ 583
باب: تکلیف پر اللہ تعالیٰ سے زیادہ صبر کرنے والا کوئی نہیں۔ 583
باب: اللہ تعالیٰ سے زیادہ غیرت مند اور کوئی نہیں ہے۔ 583
باب: سرگوشی اور بندے کا اپنے گناہوں کا اقرار کرنے کے متعلق۔ 584
باب: کافر اور منافق کا قیامت کے دن نعمتوں کا اقرار۔ 584
باب: قیامت کے دن انسان کے اعمال کے متعلق اس کے اعضاء کی گواہی 585
باب: اللہ تعالیٰ کی خشیت اور اس کے عذاب سے سخت خوف رکھنے کے متعلق۔ 585
باب: اس آدمی کے متعلق، جس نے گناہ کیا اور پھر اپنے رب سے بخشش مانگی۔ 586
باب: اس آدمی کے متعلق جس نے گناہ کیا پھر وضو کیا اور فرض نماز پڑھی۔ 586
باب: مسلم کے بدلے ایک کافر بطور فدیہ جہنم میں ڈالا جائے گا۔ 586
باب: مسلم کے بدلے ایک کافر بطور فدیہ جہنم میں ڈالا جائے گا۔ 587
کتاب : منافقین کے متعلق۔ 587
باب: اللہ تعالیٰ کے فرمان ”(اے محمدا!) جب منافق لوگ تمہارے پاس آتے ہیں تو … یہاں تک کہ یہ (خودبخود) بھاگ جائیں“ کی تفسیر۔ 587
باب: منافقین کا نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم سے بخشش کی دعا کروانے سے اعراض کرنے کے معتلق۔ 587
باب: منافقوں کے ذکر اور ان کی نشانیوں کے بار ے میں۔ 588
باب: لیلة عقبہ میں منافقین اور ان کی تعداد کے متعلق۔ 588
باب: منافق کی مثال اس بکری کی ہے جو دو ریوڑوں کے درمیان بھاگتی ہے ۔ 589
باب: منافق کی موت پر سخت ہوا کا چلنا۔ 589
باب: قیامت کے دن منافقین کے لئے سخت عذاب کی سختی۔ 589
باب: زمین کا منافق، مرتد شخص کی لاش کو باہر پھینکنا اور لوگوں کا (اسی حالت میں) اس کو چھوڑ دینا ۔ 589
کتاب : قیامت کے متعلق۔ 590
باب: قیامت کے دن اللہ تعالیٰ زمین کو مٹھی میں لے گا اور ساتوں آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے۔ 590
باب: قیامت کے دن زمین کی حالت کا بیان۔ 590
باب: ہر آدمی اسی حالت پر اٹھایا جائے گا جس حالت پر وہ مرا تھا ۔ 590
باب: (قیامت کے دن) اعمال پر اٹھنا۔ 590
باب: (قیامت کے دن) لوگ ننگے پاؤں، ننگے بدن اور بغیر ختنہ کی حالت میں اکٹھے کئے جائیں گے ۔ 590
باب: لوگ (قیامت میں تین) گروہوں کی صورت میں اکٹھے کئے جائینگے 591
باب: قیامت کے دن کافر کا حشر منہ کے بل ہو گا (یعنی قیامت میں کافر منہ کے بل چلے گا)۔ 591
باب: قیامت کے دن سورج کا مخلوق کے قریب ہونا۔ 591
باب: قیامت کے دن پسینہ کی کثرت کا بیان۔ 591
باب: قیامت کے دن کافر سے فدیہ کی طلب کا بیان ۔ 592
باب: قیامت کے دن کافر سے فدیہ کی طلب کا بیان ۔ 592
کتاب : جنت کے متعلق۔ 592
باب: جنت میں جانے والے پہلے گروہ کا بیان۔ 592
باب: جو جنت میں جائے گا وہ آدم علیہ السلام کی صورت پر ہوگا۔ 593
باب: (کچھ) قومیں جنت میں (ایسی حالت میں) جائیں گی کہ انکے دل پرندوں کے دلوں جیسے ہوں گے۔ 593
باب: اہلِ جنت پر اللہ تعالیٰ کی رضا مندی اترنے کے بیان میں۔ 593
باب: اہل جنت کا بالا خانوں والوں کو دیکھنا۔ 594
باب: جنت میں اہل جنت کا کھانا۔ 594
باب: اہل جنت کے لئے تحفہ ۔ 594
باب: اہل جنت کی نعمتیں ہمیشہ کی ہوں گی۔ 595
باب: جنت میں ایک درخت ہے کہ سو سال تک اگر سوار چلے تو (اس کا سایہ) قطع (عبور) نہ ہو۔ 595
باب: جنتی خیموں کا بیان۔ 595
باب: جنتی بازار کے بیان میں۔ 595
باب: جنت کی نہروں میں سے کچھ نہریں دنیا میں۔ 596
باب: جنت کو ناپسندیدہ چیزوں سے گھیر دیا گیا ہے۔(یعنی جنت مشکل اور ناپسندیدہ کاموں کے کرنے سے حاصل ہوتی ہے)۔ 596
باب: عورتیں جنت میں تھوڑی ہوں گی ۔ 596
باب: جنتیوں اور دوزخیوں اور دنیا میں ان کی نشانیوں کے بیان میں۔ 596
باب: جنتی اور دوزخی جہاں ہوں گے، ہمیشہ رہیں گے۔ 597
باب: جنتی اور دوزخی جہاں ہوں گے، ہمیشہ رہیں گے۔ 598
کتاب : جہنم کے متعلق۔ 598
باب: دوزخ کی باگوں کے بیان میں۔ 598
باب: گرمی جہنم کی شدت کے بیان میں۔ 598
باب: جہنم کی گہرائی کی دوری کے بیان میں۔ 598
باب: اہل دوزخ میں سے ہلکے سے ہلکا عذاب جس کو ہو گا، اس کا بیان۔ 599
باب: عذاب والوں کو کہاں کہاں تک آگ پہنچے گی؟ 599
باب: آگ میں متکبرین داخل ہوں گے اور جنت میں کمزور لوگ۔ 599
باب: جہنم میں اس شخص کا عذاب، جس نے غیر اللہ کے نام پراونٹنیوں کو چھوڑ دیا (نہ دودھ دوہتے ہیں اور نہ سواری کرتے ہیں)۔ 599
باب: جہنم میں کافر کی ڈاڑھ کی بڑائی کا بیان۔ 600
باب: ان لوگوں کی تکلیف کا بیان جو لوگوں کو تکلیف دیتے تھے۔ 600
باب: دنیا کے سب سے زیادہ خوشحال کو جہنم میں اور دنیا کے سب سے زیادہ تنگی والے کو جنت کاغوطہ دینا ۔ 600
کتاب : فتنوں کا بیان 601
باب: فتنوں کے قریب ہونے اور ہلاکت کے بیان میں جب کہ برائی زیادہ ہو جائے۔ 601
باب: بارش کے قطروں کی طرح نازل ہونے والے فتنوں کے بیان میں۔ 601
باب: دلوں پر فتنوں کا پیش کیا جانا اور فتنوں کا دلوں میں داغ پیدا کر دینا۔ 601
باب: لوگوں کو فتنے میں ڈالنے کے لئے شیطان کا اپنے لشکروں کو بھیجنا ۔ 602
باب: فتنے اور ان کی کیفیات کے متعلق۔ 602
باب: فتنوں کے بیان میں اور جو ان سے محفوظ رہے گا یا جوان فتنوں کو یاد رکھے گا۔ 603
باب: فتنے مشرق کی طرف سے ہوں گے۔ 603
باب: البتہ کسریٰ اور قیصر کے خزانے ضرور اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کئے جائیں گے ۔ 604
باب: اس امت کی تباہی بعض کی بعض سے ہوگی ۔ 604
باب: البتہ تم اگلی امتوں کی راہوں پر چلو گی ۔ 605
باب: میری امت کو قریش (کا خاندان) تباہ کرے گا اور حکم ان سے دُور رہنے کا۔ 605
باب: (ایسے) فتنے ہوں گے کہ ان میں بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے بہتر ہو گا (یعنی جتنا کسی کا فتنے میں حصہ کم ہو گا اتنا زیادہ بہتر ہو گا)۔ 605
باب: جب دو مسلمان اپنی اپنی تلوار لے کر آمنے سامنے آجائیں تو قاتل و مقتول (دونوں) جہنمی ہیں۔ 605
باب: عمار (ص) کو باغی گروہ قتل کرے گا۔ 606
باب: جب تک (مسلمانوں کے) دو عظیم گروہ جن کا دعویٰ ایک ہی ہو گا، لڑائی نہ کریں قیامت قائم نہیں ہو گی۔ 606
باب: قیامت نہ آئے گی یہاں تک کہ آدمی قبر پر گزرے گا اور کہے گا کہ کاش میں اس قبر والا ہوتا۔ 606
باب: قیامت قائم نہ ہو گی، یہاں تک کہ ہرج (قتل) بہت ہو گا۔ 606
باب: قیامت قائم نہ ہو گی، یہاں تک کہ وہ وقت آئے گا کہ قاتل کو معلوم نہیں ہو گا کہ وہ کیوں قتل کر رہا ہے۔ 606
باب: قیامت قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ آگ حجاز کی زمین سے نکلے گی۔ 607
باب: قیامت قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ دوس کا قبیلہ ذی الخلصہ (بت) کی عبادت نہ کرے گا۔ 607
باب: قیامت قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ لات و عزیٰ کی عبادت کی جائے گی 607
باب: قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک کہ اس شہر میں نہ لڑائی ہو جس کی ایک طرف سمند ر میں اور دوسری خشکی میں ہے۔ 607
باب: قیامت قائم نہ ہو گی حتیٰ کہ دریائے فرات سے سونے کا پہاڑ ظاہر نہ ہو۔ 608
باب: قیامت قائم نہ ہو گی، یہاں تک کہ تم ایک ایسی قوم سے لڑو گے جن کے چہرے گویا ڈھالیں ہیں ۔ 608
باب: قیامت قائم نہ ہو گی، یہاں تک کہ قحطان سے ایک آدمی نکلے گا۔ 608
باب: قیامت قائم نہ ہو گی، یہاں تک کہ ایک شخص بادشاہ ہو گا جس کو جہجاہ کہیں گے۔ 608
باب: قیامت قائم نہ ہو گی، یہاں تک کہ زمین میں اللہ اللہ کہنے والا کوئی نہ ہو گا۔ 609
باب: یمن سے ہوا چلے گی (جس کی وجہ سے) ہر وہ آدمی مر جائے گا جس کے دل میں ایمان ہے۔ 609
باب: قیامت صرف شریر لوگوں پر قائم ہو گی۔ 609
باب: قیامت قائم نہ ہو گی، یہاں تک کہ دجال کذاب لوگ نکلیں گے۔ 609
باب: یہودیوں سے مسلمانوں کی لڑائی کے متعلق۔ 609
باب: (جب) قیامت قائم ہو گی (قیامت قریب ہو گی) تو تمام لوگوں سے زیادہ رومی (عیسائی) ہوں گے۔ 609
باب: روم کی جنگ اور دجال کے نکلنے سے پہلے قتل ہونے کے متعلق۔ 610
باب: دجال سے پہلے جو مسلمانوں کو فتوحات ملیں گی۔ 611
باب: قسطنطنیہ کی فتح کے متعلق ۔ 611
باب: بیت اللہ کاقصد کر کے آنے والے لشکر کے زمین میں دھنس جانے کے متعلق۔ 612
باب: قیامت سے پہلے مدینہ کے گھر اور آبادی کے متعلق۔ 612
باب: کعبہ کو حبشہ کا پتلی پنڈلیوں والا بادشاہ ویران کرے گا۔ 612
باب: عراق کے اپنے درہم روک لینے کے متعلق۔ 612
باب: امانت اور ایمان کے دلوں سے اٹھا لئے جانے کے متعلق۔ 613
باب: آخر زمانہ میں خلیفہ (مہدی) آئے گا، جو مال کی لپیں بھر بھر کر دے گا۔ 613
باب: (قیامت کی) وہ نشانیاں جو قیامت سے پہلے آئیں گی ۔ 613
باب: اندھیری رات کی طرح (سخت) فتنوں سے پہلے، (نیک) اعمال میں جلدی کرو۔ 614
باب: چھ چیزوں سے پہلے (نیک) اعمال میں جلدی کرو ۔ 614
باب: خونریزی کے دَور میں عبادت کرنا ۔ 614
باب: ابن صیاد کے قصہ کے بارے میں۔ 614
باب: (قیامت کی) نشانیوں میں سے پہلی یہ ہے کہ سورج مغرب کی طرف سے طلوع ہو گا۔ 620
باب: دجال کی صفت، اس کے (دنیا میں) نکلنے اور جساسہ کی حدیث کے متعلق۔ 620
باب: اصبہان شہر کے ستر ہزاریہودی دجال کی پیروی کریں گے۔ 623
باب: لوگوں کا دجال سے بھاگ کر پہاڑوں میں چلے جانے کے متعلق۔ 623
باب: آدم ں کی پیدائش سے قیامت تک دجال سے (شر و فساد کے لحاظ سے) بڑی کوئی مخلوق نہیں ہے ۔ 623
باب: عیسیٰ ں کا نازل ہونا اور صلیب کا توڑنا اور خنزیر کا قتل کرنا۔ 623
باب: میں قیامت کیساتھ اس طرح بھیجا گیا ہوں ۔ 624
باب: قیامت برپا ہونے کا قریب ہونا۔ 624
باب: آدمی دودھ دوہتا ہو گا کہ قیامت قائم ہو گی اور ابھی دودھ اس کے منہ تک نہ پہنچا ہو گا کہ قیامت قائم ہو جائے گی۔ 624
باب: صور کے دو پھونکوں کے درمیان چالیس کا فاصلہ ہو گا اور ریڑھ کی ہڈی کے سوا انسان کا سارا جسم گل جائے گا۔ 625
باب: مَردوں کو زیادہ نقصان دینے والا فتنہ عورتیں ہیں۔ 625
باب: عورتوں کے فتنے سے ڈرانا۔ 625
کتاب : دنیا سے بے رغبتی اور دل کو نرم کرنے والی باتوں کے بارے میں 626
باب: اے اللہ! محمد(صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم) کی آل کی روزی ضرورت کے مطابق بنانا۔ 626
باب: نبی صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم اور ان کی آل کی گزران میں تنگی۔ 626
باب: (بعض اوقات) آپ صل اللہ علیہ و آلہِ وسلم ردی کھجور بھی نہ پاتے کہ اس سے اپنا پیٹ بھر لیں۔ 627
باب: فقراء مہاجرین غنی لوگوں سے پہلے جنت میں جائیں گے۔ 627
باب: جنت کی اکثریت غریب لوگ ہوں گے۔ 627
باب: دنیا میں شوق نہ کرنے اور اس دنیا کی اللہ تعالیٰ کے ہاں وقعت نہ ہونے کے متعلق۔ 627
باب: دنیا (کے مال) کی فراوانی اور اس میں شوق کرنے کا خوف۔ 628
باب: دنیا (کے مال) فتح ہونے کے وقت آپس میں حسد اور مال میں شوق کرنے کا خوف۔ 628
باب: دنیا (کی اہمیت) آخرت کے مقابلہ میں اتنی ہی ہے جیسے انگلی دریا میں ڈبوئی جائے۔ 628
باب: دنیا (کے مال) کے ذریعہ آزمائش کے متعلق اور (انسان) کیسے عمل کرے؟ 629
باب: دنیا (کے مال) کی کمی، اس پر صبر کرنے اور درختوں کے پتے کھانے کے متعلق۔ 630
باب: میت (کے پاس) سے اس کے اہل و عیال اور مال واپس آجاتے ہیں اور اس کا عمل اس کے پاس رہ جاتا ہی ۔ 631
باب: اس کی طرف دیکھو جو تم سے (دنیاوی مال و اسباب میں) کم ہو۔ 631
باب: اللہ تعالیٰ اس بندے کو پسند کرتا ہے جو پرہیزگار، دولت منداور ایک کونہ میں رہنے والا ہو۔ 631
باب: جس نے اپنے عمل میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو شریک کر لیا۔ 631
باب: جو (اپنا نیک عمل لوگوں کو) سنائے اور اپنے عمل میں ریاکاری کرے 632
باب: ایک کلمہ (کفر) کہہ دینا جہنم میں اتر جانے کا سبب بن جاتا ہے۔ 632
باب: مومن کے ہر معاملے میں بھلائی ہوتی ہے۔ 632
باب: دینی معاملات میں آزمائش پر صبر کرنے اور اصحاب الاخدود کے قصہ کے متعلق ۔ 632
کتاب : قرآن مجید کے فضائل 634
باب: سورئہ فاتحہ کے بارے میں۔ 634
باب: قرآن اور (خصوصاً) سورئہ بقرہ اور آلِ عمران پڑھنے کے بارے میں۔ 634
باب: آیة الکرسی کی فضیلت۔ 635
باب: سورة بقرہ کی آخری آیات کے متعلق۔ 635
باب: سورة کہف کی فضیلت۔ 635
باب: سورة اخلاص کی تلاوت کرنے کی فضیلت۔ 635
باب: معوذتین (قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ اور قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ) کی قرأت کی فضیلت۔ 635
باب: جو شخص قرآن کی وجہ سے بلند مقام دیا جاتا ہے۔ 636
باب: قرآن سیکھنے کی فضیلت۔ 636
باب: ان کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے اور جو نہیں پڑھتا۔ 636
باب: قرآن کا ماہر اور اس شخص کے متعلق جس پر قرآن پڑھنا مشکل ہو۔ 636
باب: قرآن پڑھنے سے(اللہ کی طرف سے) سکون نازل ہوتا ہے۔ 637
باب: دو چیزوں کے علاوہ کسی چیز میں رشک (جائز) نہیں ہے۔ 637
باب: قرآن کو زیادہ تلاوت کے ذریعے یاد رکھنے کا حکم۔ 637
باب: قرآن کی تلاوت کرتے وقت آواز کو خوبصورت بنانا۔ 638
باب: قرآن کی قرأت میں ترجیع کرنا (سُر لگانا وغیرہ)۔ 638
باب: رات کو اونچی آواز سے قرأت کرنا اور اس کو توجہ سے سننا ۔ 638
باب: قرآن سات حرفوں (قرأتوں) پر نازل ہوا ۔ 638
باب: نبی ا کا کسی دوسرے پر قرآن پڑھنا۔ 638
باب: نبی ا کا جنوں پر قرآن پڑھنا۔ 639
باب: نبی ا کا اپنے علاوہ کسی سے قرآن سننا۔ 639
باب: قرآن کے بارے میں اختلاف کرنے سے سختی۔ 640
باب: قرآن کے بارے میں اختلاف کرنے سے سختی۔ 640
تفسیر (قرآن مجید) 640
باب: اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿وَادْخُلُوْا الْبَابَ سُجَّدًا …﴾ کے متعلق۔ 640
باب: اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿وَلَیْسَ الْبِرَّ …﴾ کے بارے میں۔ 641
باب: اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿رَبِّ اَرِنِیْ …﴾ کے متعلق۔ 641
باب: اللہ تعالی کے فرمان ﴿وَاِنْ تُبْدُوْا مَا فِی…﴾ اللہ تعالیٰ کے فرمان کے متعلق۔ 641
باب: اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿ھُوَ الَّذِیْ اَنْزَلَ عَلَیْکَ …﴾ کے متعلق۔ 642
باب: اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ …﴾ کے متعلق۔ 642
باب: اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿وَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا …﴾ اور ﴿وَیَسْتَفْتُوْنَکَ فِی النِّسَآءِ …﴾ کے متعلق۔ 643
باب: اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿وَمَنْ کَانَ فَقِیْرًا …﴾ کے متعلق ۔ 644
باب: اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿فَمَا لَکُمْ فِیْ الْمُنَافِقِیْنَ …﴾ کے متعلق۔ 644
باب: اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿وَمَنْ یُقْتَلْ مُؤْمِنًا …﴾ کے متعلق۔ 644
باب: اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿وَلَا تَقُوْلُوْا …﴾ کے متعلق ۔ 644
باب: اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿وَاِنْ امْرَاَةٌ خافَتْ …﴾ کے متعلق۔ 644
باب: اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ …﴾ کے متعلق۔ 645
باب: اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿اَلَّذِیْنَ آمَنُوْا وَلَمْ یَلْبِسُوْا …﴾ کے متعلق۔ 645
باب: اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿لَایَنْفَعُ نَفْسًا اِیْمَانُھَا …﴾ کے متعلق۔ 645
باب: اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ …﴾ کے متعلق۔ 646
باب: اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿وَنُوْدُوْا اَنْ تِلْکُمْ الْجَنَّةُ …﴾کے متعلق۔ 646
باب: اللہ تعالی کے فرمان ﴿وَمَا کَانَ اللهُ لِیُعَذَّبَھُمْ …﴾ کے متعلق۔ 646
باب: اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿وَلَا تُصَلِّ عَلٰی اَحَدٍ …﴾ کے متعلق ۔ 647
باب: سورة ”توبہ“، ”انفال“ اور ”حشر“ کے متعلق۔ 647
باب: اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿اِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْھِبْنَ …﴾کے متعلق۔ 647
باب: اللہ کے فرمان ﴿وَیَسْأَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ … ﴾ کے متعلق ۔ 647
باب: اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿اُوْلٰئِکَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ …﴾ کے متعلق۔ 648
باب: اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿وَلَا تَجْھَرْ بِصَلَاتِکَ…﴾ کے متعلق۔ 648
باب: اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿فَلَا نُقِیْمُ لَہُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَزْنَا …﴾ کے متعلق ۔ 648
باب: اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿وَاَنْذِرْھُمْ یَوْمَ الْحَسَرَةِ﴾ کے متعلق ۔ 648
باب: اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿اَفَرَاَیْتَ الَّذِیْ کَفَرَ …﴾ کے متعلق۔ 649
باب: اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿کَمَا بَدَاَنَا اَوَّلَ خَلْق …﴾کے متعلق۔ 649
باب: اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿ھَذَانِ خَصْمَان اخْتَصَمُوْا …﴾ کے متعلق۔ 649
باب: اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿اِ نَّ الَّذِیْنَ جَاؤوْکَ بِالْاِفْکِ …﴾کے متعلق ۔ 650
باب: اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿وَلَا تُکْرِھُوْا فَتَیَاتِکُمْ …﴾ کے متعلق۔ 654
باب: اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿وَالَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ …﴾ کے متعلق۔ 655
باب: اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا اُخْفِیَ …﴾ کے متعلق۔ 655
باب: اللہ کے فرمان ﴿وَلَنُذِیْقَنَّھُمْ مِنَ الْعَذَابِ …﴾ کے متعلق۔ 655
باب: اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿اِذْ جَاؤُوْکُمْ مِنْ فَوْقِکُمْ …﴾ کے متعلق ۔ 655
باب: اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿وَالشَمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَقَرٍّ لَھَا﴾ کے متعلق ۔ 656
باب: اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿وَمَا قَدَرُوْا الله …﴾ کے متعلق۔ 656
باب: اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿وَمَا کُنْتُمْ تَسْتَتِرُوْنَ …﴾ کے متعلق۔ 656
باب: اللہ کے فرمان ﴿فَارْتَقِبْ یَوْمَ تَأتِیْ …﴾ کے متعلق۔ 656
باب: اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿وَھُوَ الَّذِیْ کَفَّ اَیْدِیْھِمْ
 

مہوش علی

لائبریرین
(گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔ فہرستِ ابواب)


باب: اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿وَالشَمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَقَرٍّ لَھَا﴾ کے متعلق ۔ 656
باب: اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿وَمَا قَدَرُوْا الله …﴾ کے متعلق۔ 656
باب: اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿وَمَا کُنْتُمْ تَسْتَتِرُوْنَ …﴾ کے متعلق۔ 656
باب: اللہ کے فرمان ﴿فَارْتَقِبْ یَوْمَ تَأتِیْ …﴾ کے متعلق۔ 656
باب: اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿وَھُوَ الَّذِیْ کَفَّ اَیْدِیْھِمْ …﴾ کے متعلق۔ 657
باب: اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿لَا تَرْفَعُوْا اَصْوَاتَکُمْ …﴾کے متعلق۔ 657
باب: اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿یَوْمَ نَقُوْلُ لِجَحَنَّمَ …﴾ کے متعلق۔ 658
باب: اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرِ﴾ کے متعلق۔ 658
باب: اللہ تعالیٰ تعالیٰ کے فرمان ﴿وَخَلَقَ الْجَآنَّ مِنْ مَّارِجٍ …﴾ کے متعلق ۔ 658
باب: اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿اَلَمْ یَأنِ لِلَّذِیْنَ آمَنُوْا …﴾ کے متعلق ۔ 658
باب: اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿وَالَّذِیْنَ جَاؤُوْا مِنْ بَعْدِھِمْ …﴾ کے متعلق۔ 659
باب: اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿قُلْ اُوْحِیَ اِلَیَّ …﴾ کے متعلق۔ 659
باب: اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿لَا تُحَرِّکْ بِہِ لِسَانِکَ …﴾ کے متعلق۔ 659
باب: اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿یَوْمَ یَقُوْمُ النَّاسُ …﴾ کے متعلق۔ 660
باب: اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿فَسَوْفَ یُحَاسَبُ …﴾ کے متعلق۔ 660
باب: اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿وَالذَّکَرِ وَالاُنْثٰی …﴾ کے متعلق۔ 660
باب: اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿مَا وَدَّعَکَ رَبُّک…﴾ کے متعلق۔ 660
باب: اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿اَلْھَاکُمُ التَّکَاثُرُ﴾ کے متعلق۔ 661
باب: اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿اِذَا جَاءَ نَصْرُ الله …﴾کے متعلق۔ 661


فہرستِ ابواب یہاں ختم ہوئی۔

چونکہ مجھے یہ فائلز ایچ ٹی ایم ایل میں وقتاً فوقتاً ملی ہیں، اسی لیے کوشش ہے کہ فہرستِ ابواب کے مطابق "احادیث" آپ کی خدمت میں اسی ترتیب سے پیش کروں۔

اور یہ امید کرتی ہوں کہ سیفی بھائی (یا کوئی اور برادر) اسے بہتر فارمیٹنگ کے ساتھ ورڈ میں یا پی ڈی ایف میں تبدیل کر کے آپ کی خدمت میں پیش کرے گا۔

والسلام۔
 

مہوش علی

لائبریرین
کتاب ایمان کے متعلق

کتاب: ایمان کا پہلا رکن لا الٰہ الااللہ کہنا ہے۔
1: ابو جمرہ کہتے ہیں کہ میں سیدنا ابن عباس (ر) کے سامنے ان کے اور لوگوں کے بیچ میں مترجم تھا (یعنی اوروں کی بات کو عربی میں ترجمہ کر کے سیدنا ابن عباس (ر) کو سمجھاتا) اتنے میں ایک عورت آئی اور گھڑے کے نبیذ کے بارہ میں پوچھا۔ سیدنا ابن عباس (ر) نے کہا کہ عبدالقیس کے وفد رسول اللہ (ص) کے پاس آئے تو آپ] نے پوچھا کہ یہ وفد کون ہیں؟ یا کس قوم کے لوگ ہیں؟ لوگوں نے کہا کہ ربیعہ کے لوگ ہیں آپ (ص) نے فرمایا کہ مرحبا ہو قوم یا وفد کو جو نہ رسوا ہوئے نہ شرمند ہوئے (کیونکہ بغیر لڑائی کے خود مسلمان ہونے کیلئے آئے، اگر لڑائی کے بعد مسلمان ہوتے تو وہ رسوا ہوتے، لونڈی غلام بنائے جاتے، مال لٹ جاتا تو شرمندہ ہوتے) ان لوگوں نے کہا یارسول اللہ (ص)! ہم آپ کے پاس دور دراز سے سفر کر کے آتے ہیں اور ہمارے اور آپ (ص) کے درمیان میں کافروں کا قبیلہ مضر ہے تو ہم نہیں آ سکتے آپ (ص) تک، مگر حرمت والے مہینہ میں (جب لوٹ مار نہیں ہوتی) اس لئے ہم کو حکم کیجئے ایک صاف بات کا جس کو ہم بتلائیں اور لوگوں کو بھی اور جائیں اس کے سبب سے جنت میں۔ آپ (ص) نے ان کو چار باتوں کا حکم کیا اور چار باتوں سے منع فرمایا۔ ان کو حکم کیا اللہ وحدہ لا شریک پر ایمان لانے کا اور ان سے پوچھا کہ تم جانتے ہو کہ ایمان کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول خوب جانتا ہے، آپ (ص) نے فرمایا کہ ایمان گواہی دینا ہے اس بات کی کہ سوا اللہ کے کوئی عبادت کے لائق نہیں اور بیشک محمد (ص) اس کے بھیجے ہوئے ہیں اور نماز کا قائم کرنا اور زکوٰة کا دینا اور رمضان کے روزے رکھنا (یہ چار باتیں ہو گئیں، اب ایک پانچویں بات اور ہے) اور غنیمت کے مال میں سے پانچویں حصہ کا ادا کرنا (یعنی کفار کی سپاہ یا مسلمانوں کے خلاف لڑنے والوں سے جو مال حاصل ہو مال غنیمت کہلاتا ہے) اور منع فرمایا ان کو کدو کے برتن، سبز گھڑے اور روغنی برتن سے۔ (شعبہ نے) کبھی یوں کہا اور نقیر سے اور کبھی کہا مقیر سے۔ (یعنی لکڑی سے بنائے ہوئے برتن ہیں)۔ اور فرمایا کہ اس کو یاد رکھو اور ان باتوں کی ان لوگوں کو بھی خبر دو جو تمہارے پیچھے ہیں۔ اور ابو بکر بن ابی شیبہ نے مَنْ وَّرَآئَکُمْ کہا بدلے مِنْ وَرَآئِکُمْ کے۔ (ان دونوں کا مطلب ایک ہی ہے)۔ اور سیدنا ابن معاذ (ر) نے اپنی روایت میں ا پنے باپ سے اتنا زیادہ کیا کہ رسول اللہ (ص) نے عبدالقیس کے اشج سے (جس کا نام منذر بن حارث بن زیاد تھا یا منذر بن عبید یا عائذ بن منذر یا عبداللہ بن عوف تھا) فرمایا کہ تجھ میں دو عادتیں ایسی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے، ایک تو عقل مندی، دوسرے دیر میں سوچ سمجھ کر کام کرنا جلدی نہ کرنا۔
2: سیدنا ابو ہریرہ (ر) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) ایک دن لوگوں میں بیٹھے تھے کہ اتنے میں ایک شخص آیا اور بولا یارسول اللہ (ص)! ایمان کسے کہتے ہیں؟ آپ (ص) نے فرمایا کہ ایمان یہ ہے کہ تو یقین کرے دل سے اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس سے ملنے پر اور اس کے پیغمبروں پر اور یقین کرے قیامت میں زندہ ہونے پر۔ پھر وہ شخص بولا کہ یارسول اللہ (ص)! اسلام کیا ہے؟ آپ (ص) نے فرمایا کہ اسلام یہ ہے کہ تو اللہ جل جلالہ کو پوجے اور اس کیساتھ کسی کو شریک نہ کرے اور قائم کرے تو فرض نماز کو اور دے تو زکوٰة کو جس قدر فرض ہے اور روزے رکھے رمضان کے۔ پھر وہ شخص بولا کہ یارسول اللہ (ص)! احسان کسے کہتے ہیں؟ آپ (ص) نے فرمایا کہ تو عبادت کرے اللہ کی جیسے کہ تو اسے دیکھ رہا ہے اگر تو اس کو نہیں دیکھتا (یعنی توجہ کا یہ درجہ نہ ہو سکے )تو اتنا تو ہو کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔ پھر وہ شخص بولا یارسول اللہ]! قیامت کب ہو گی؟ آپ (ص) نے فرمایا کہ جس سے پوچھتے ہو قیامت کو وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا، لیکن اس کی نشانیاں میں تجھ سے بیان کرتا ہوں کہ جب لونڈی اپنے مالک کو جنے تو یہ قیامت کی نشانی ہے اور جب ننگے بدن ننگے پاؤں پھرنے والے لوگ سردار بنیں تو یہ قیامت کی نشانی ہے اور جب بکریاں یا بھیڑیں چرانے والے بڑی بڑی عمارتیں بنائیں تو یہ بھی قیامت کی نشانی ہے۔ قیامت ان پانچ چیزوں میں سے ہے جن کو کوئی نہیں جانتا سوا اللہ تعالیٰ کے۔ پھر رسول اللہ (ص) نے یہ آیت پڑھی کہ ”اللہ ہی جانتا ہے قیامت کو اور وہی اتارتا ہے پانی کو اور جانتا ہے جو کچھ ماں کے رحم میں ہے (یعنی مولود نیک ہے یا بد، رزق کتنا ہے، عمر کتنی ہے وغیرہ) اور کوئی نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کرے گا اور کوئی نہیں جانتا کہ وہ کس ملک میں مرے گا۔ اللہ ہی جاننے والا اور خبردار ہے“۔ (لقمان: 34) پھر وہ شخص پیٹھ موڑ کر چلا گیا تو رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ اس کو پھر واپس لے آؤ۔ لوگ اس کو لینے چلے لیکن وہاں کچھ نہ پایا (یعنی اس شخص کا نشان بھی نہ ملا) تب آپ (ص) نے فرمایا کہ وہ جبرئیل 6 تھے، تم کو دین کی باتیں سکھلانے آئے تھے۔
3: سعید بن مسیب (جو مشہور تابعین میں سے ہیں)اپنے والد (سیدنا مسیب صبن حزن بن عمرو بن عابد بن عمران بن مخزوم قرشی مخزومی، جو کہ صحابی ہیں) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ جب ابو طالب بن عبدالمطلب (رسول اللہ (ص) کے حقیقی چچا اور مربی) مرنے لگے تو رسول اللہ (ص) ان کے پاس تشریف لائے اور وہاں ابو جہل (عمرو بن ہشام) اور عبداللہ بن ابی امیہ بن مغیرہ کو بیٹھا دیکھا۔ رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ اے چچا تم ایک کلمہ لا الٰہ الا للہ کہہ دو، میں اللہ کے پاس اس کا گواہ رہوں گا تمہارے لئے (یعنی اللہ عزوجل سے قیامت کے روز عرض کروں گا کہ ابو طالب موحد تھے اور ان کو جہنم سے نجات ہونی چاہیئے انہوں نے آخر وقت میں کلمہ توحید کا اقرار کیا تھا)۔ ابو جہل اور عبداللہ بن ابی امیہ بولے کہ اے ابو طالب! عبدالمطلب کا دین چھوڑتے ہو؟ اور رسول اللہ (ص) برابر یہی بات ان سے کہتے رہے (یعنی کلمہ توحید پڑھنے کیلئے او رادھر ابو جہل اور عبداللہ بن ابی امیہ اپنی بات بکتے رہے) یہاں تک کہ ابو طالب نے اخیر بات جو کی وہ یہ تھی کہ میں عبدالمطلب کے دین پر ہوں اور انکار کیا لا الٰہ الا اللہ کہنے سے تو رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ اللہ کی قسم میں تمہارے لئے دعا کرونگا (بخشش کی) جب تک کہ منع نہ ہو۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری ”پیغمبر اور دوسرے مسلمانوں کو جائز نہیں کہ مشرکین کیلئے مغفرت کی دعا مانگیں اگرچہ وہ رشتہ دار ہی ہوں، اس امر کے ظاہر ہو جانے کے بعد کہ یہ لوگ دوزخی ہیں“ (التوبة: 113) اور اللہ تعالی ٰنے ابو طالب کے بارے میں یہ آیت اتاری، رسول اللہ (ص) سے فرمایا کہ ”آپ ((ص)) جسے چاہیں ہدایت نہیں کر سکتے بلکہ اللہ تعالیٰ ہی جسے چاہے ہدایت کرتا ہے۔ ہدایت والوں سے وہی خوب آگاہ ہے“ (القصص:56)۔
کتاب: مجھے حکم ہوا ہے لوگوں سے لڑنے کا یہانتک کہ وہ لا الٰہ الا اللہ کا اقرارکر لیں۔
4: سیدنا ابو ہریرہ (ر) کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ (ص) نے وفات پائی اور سیدنا ابو بکر صدیق (ر) خلیفہ ہوئے اور عرب کے لوگ جو کافر ہونے تھے وہ کافر ہو گئے تو سیدنا عمر (ر) نے سیدنا ابوبکر صدیق (ر) سے کہاکہ تم ان لوگوں سے کیسے لڑو گے حالانکہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ ”مجھے حکم ہوا ہے لوگوں سے لڑنے کا یہاں تک کہ وہ لا الٰہ الا اللہ کہیں۔ پھر جس نے لا الٰہ الا اللہ کہا اس نے مجھ سے اپنے مال اور جان کو بچا لیا مگر کسی حق کے بدلے (یعنی کسی قصور کے بدلے جیسے زنا کرے یا خون کرے تو پکڑا جائے گا) پھر اس کا حساب اللہ پر ہے“۔(اگر اس کے دل میں کفر ہوا اور ظاہر میں ڈر کے مارے مسلمان ہو گیا ہو تو قیامت میں اللہ اس سے حساب لے گا۔ دنیا ظاہر پر ہے، دنیا میں اس سے کوئی مواخذہ نہ ہو گا)۔ سیدنا ابو بکر صدیق (ر) نے کہا اللہ کی قسم میں تو لڑوں گا اس شخص سے جو فرق کرے نماز اور زکوة میں اس لئے کہ زکوٰة مال کا حق ہے۔ اللہ کی قسم اگر وہ ایک عقال روکیں گے جو دیا کرتے تھے رسول اللہ (ص) کو تو میں لڑوں گا ان سے اس کے نہ دینے پر۔ سیدنا عمر (ر) نے کہا اللہ کی قسم پھر وہ کچھ نہ تھا مگر میں نے یقین کیا کہ اللہ جل جلالہ نے سیدنا ابو بکر (ر) کا سینہ کھول دیا ہے لڑائی کیلئے۔ (یعنی ان کے دل میں یہ بات ڈال دی) تب میں نے جان لیا کہ یہی حق ہے۔
5: سیدنا عبداللہ بن عمر (ر) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ مجھے حکم ہوا ہے لوگوں سے لڑنے کا یہاں تک کہ وہ گواہی دیں اس بات کی کہ کوئی معبود برحق نہیں سوائے اللہ تعالیٰ کے اور بیشک محمد ((ص)) اس کے رسول ہیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰة دیں پھر جب یہ کریں تو انہوں نے مجھ سے اپنی جانوں اور مالوں کو بچا لیا مگر حق کے بدلے اور ان کا حساب اللہ تعالیٰ پر ہے۔
کتاب: جس نے کافر کو لاالٰہ الا اللہ کہنے کے بعد قتل کیا۔
6: سیدنا مقداد بن اسود (ر) سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا یارسو ل اللہ (ص)! اگر میں ایک کافر سے بھڑوں وہ مجھ سے لڑے اور میرا ایک ہاتھ تلوار سے کاٹ ڈالے پھر مجھ سے بچ کر ایک درخت کی آڑ لے لے اور کہنے لگے کہ میں تابع ہو گیا اللہ کا تو کیا میں اس کو قتل کر دوں جب وہ یہ بات کہہ چکے؟ تو آپ (ص) نے فرمایا کہ اس کو مت قتل کر۔ میں نے کہا یارسول اللہ]! اس نے میرا ہاتھ کاٹ ڈالا پھر ایسا کہنے لگا تو کیا میں اس کو قتل کروں؟ آپ (ص) نے فرمایا کہ اس کو قتل مت کر۔ (اگرچہ تجھ کو اس سے صدمہ پہنچا اور زخم لگا) اگر تو اس کو قتل کرے گا تو اس کا حال تیرا سا ہو گا قتل سے پہلے اور تیرا حال اس کا سا ہو گا جب تک اس نے یہ کلمہ نہیں کہا تھا۔
7: سیدنا اسامہ بن زید (ر) کہتے ہیں رسول اللہ (ص) نے ہمیں ایک سریہ میں بھیجا۔ ہم صبح کو حرقات سے لڑے جو جہنیہ میں سے ہے۔ پھر میں نے ایک شخص کو پایا، اس نے لا الٰہ الا لالہ کہا میں نے برچھی سے اس کو مار دیا۔ اس کے بعد میرے دل میں وہم ہوا (کہ لا الٰہ الا اللہ کہنے پر مارنا درست نہ تھا) میں نے رسول اللہ (ص) سے بیان کیا تو آپ (ص) نے فرمایا کہ کیا اس نے لا الٰہ الا اللہ کہا تھا اور تو نے اس کو مار ڈالا؟ میں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ (ص)! اس نے ہتھیار سے ڈر کرکہا تھا۔ آپ (ص) نے فرمایا کہ تو نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا تاکہ تجھے معلوم ہوتا کہ اس کے دل نے یہ کلمہ کہا تھا یا نہیں؟ (مطلب یہ ہے کہ دل کا حال تجھے کہاں سے معلوم ہوا؟) پھر آپ (ص) بار بار یہی فرماتے رہے یہاں تک کہ میں نے آرزو کی کہ کاش میں اسی دن مسلمان ہوا ہوتا (تو اسلام لانے کے بعدایسے گناہ میں مبتلا نہ ہوتا کیونکہ اسلام لانے سے کفر کے اگلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں)۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص (ر) نے کہا کہ اللہ کی قسم میں کسی مسلمان کو نہ ماروں گا جب تک اس کو ذوالبطین یعنی اسامہ نہ مارے۔ ایک شخص بولا کہ کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا ہے: ”اور تم ان سے اس حد تک لڑو کہ ان میں فساد عقیدہ (شرک، بت پرستی) نہ رہے اور دین اللہ ہی کا ہو جائے“؟ تو سیدنا سعد (ر) نے کہا کہ ہم تو (کافروں سے) اس لئے لڑے کہ فساد نہ ہو اور تو اور تیرے ساتھی اس لئے لڑتے ہیں کہ فساد ہو۔
8: صفوان بن محرز سے روایت ہے کہ سیدنا جندب بن عبداللہ بجلی (ر) نے عسعس بن سلامہ کو کہلا بھیجا جب سیدنا عبداللہ بن زبیر (ر) کا فتنہ ہوا کہ تم اپنے چند بھائیوں کو اکٹھا کرو تاکہ میں ان سے باتیں کروں۔ عسعس نے لوگوں کو کہلا بھیجا۔ وہ اکٹھے ہوئے تو سیدنا جندب (ر) آئے، ایک زرد برنس اوڑھے ہوئے تھے (بُرنس وہ ٹوپی ہے جسے لوگ شروع زمانہ اسلام میں پہنتے تھے) انہوں نے کہا کہ تم باتیں کرو جو کرتے تھے۔ یہاں تک کہ سیدنا جندب (ر) کی باری آئی (یعنی ان کو بات ضرور کرنا پڑی) تو انہوں نے برنس اپنے سر سے ہٹا دیا اور کہا کہ میں تمہارے پاس صرف اس ارادے سے آیا ہوں کہ تم سے تمہارے پیغمبر کی حدیث بیان کروں۔ رسول اللہ (ص) نے مسلمانوں کا ایک لشکر مشرکوں کی ایک قوم پر بھیجا اور وہ دونوں ملے (یعنی آمنا سامنا ہوا میدانِ جنگ میں) تومشرکوں میں ایک شخص تھا، وہ جس مسلمان پر چاہتا اس پر حملہ کرتا اور مار لیتا۔ آخر ایک مسلمان نے اس کو غفلت (کی حالت میں) دیکھا۔ اور لوگوں نے ہم سے کہا (کہ) وہ مسلمان سیدنا اسامہ بن زید (ر) تھے۔ پھر جب انہوں نے تلوار اس پر سیدھی کی تو اس نے کہا لا الٰہ الا اللہ لیکن انہوں نے اسے مار ڈالا اس کے بعد قاصد خوشخبری لے کر رسول اللہ (ص) کے پاس آیا۔ آپ (ص) نے اس سے حال پوچھا۔ اس نے سب حال بیان کیا یہاں تک کہ اس شخص کا بھی حال کہا تو آپ (ص) نے ان کو بلایا اور پوچھا کہ تم نے کیوں اس کو مارا؟ سیدنا اسامہ (ر) نے کہا یا رسول اللہ (ص)! اس نے مسلمانوں کو بہت تکلیف دی، فلاں اور فلاں کو مارا اور کئی آدمیوں کا نام لیا۔ پھر میں اس پر غالب ہوا ، جب اس نے تلوار کو دیکھا تو لا الٰہ الا اللہ کہنے لگا۔ رسول اللہ (ص) نے فرمایا تم نے اس کو قتل کر دیا؟ انہوں نے کہا ہاں۔ آپ (ص) نے فرمایا کہ تم کیا جواب دو گے لا الٰہ الا اللہ کا جب وہ قیامت کے دن آئے گا؟ انہوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ (ص)! میرے لئے بخشش کی دعا کیجئے! آپ (ص) نے فرمایا تم کیا جواب دو گے لا الٰہ الا اللہ کا جب وہ قیامت کے دن آئے گا؟ پھر آپ (ص) نے اس سے زیادہ کچھ نہ کہا اور یہی کہتے رہے کہ تم کیا جواب دو گے لا الٰہ الا اللہ کا جب وہ قیامت کے دن آئے گا؟
کتاب: جو شخص اللہ تعالی کو ایمان کیساتھ ملا اور اس کو کسی قسم کا شک نہیں وہ جنت میں داخل ہو گا۔
9: سیدنا عثمان (ر) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ جو شخص مر جائے اور اس کو اس بات کا یقین ہو کہ کوئی عبادت کے لائق نہیں سوائے اللہ جل جلالہ کے تو وہ جنت میں جائے گا۔
10: سیدنا ابو ہریرہ (ر) (یا سیدنا ابو سعید (ر) ) سے روایت ہے (یہ اعمش (ر) کو، جو کہ اس حدیث کے راوی ہیں، شک ہے) کہ جب غزوہ تبوک کا وقت آیا (تبوک ملک شام میں ایک مقام کا نام ہے) تو لوگوں کوسخت بھوک لگی۔ انہوں نے کہا یارسول اللہ]! کاش آپ ہمیں اجازت دیتے تو ہم اپنے اونٹوں کو، جن پر پانی لاتے ہیں ذبح کرتے، گوشت کھاتے اور چربی کا تیل بناتے۔ آپ (ص) نے فرمایا : اچھا کر لو۔ اتنے میں سیدنا عمر (ر) آئے اور انہوں نے کہا کہ یارسول اللہ (ص)! اگر ایسا کریں گے تو سواریاں کم ہو جائیں گی (اس کے بجائے) آپ (ص) تمام لوگوں کو بلا بھیجئے اور کہئے کہ اپنا اپنا بچا ہوا توشہ لے کر آئیں۔ پھر اللہ سے دعا کیجئے توشہ میں برکت دے، شاید اس میں اللہ کوئی راستہ نکال دے (یعنی برکت اور بہتری عطا فرمائے) رسول اللہ (ص) نے فرمایا اچھا۔ پھر ایک دستر خوان منگوایا اور اس کو بچھا دیا اور سب کا بچا ہوا توشہ منگوایا۔ کوئی مٹھی بھر جوار لایا اور کوئی مٹھی بھر کھجور لایا۔ کوئی روٹی کا ٹکرا، یہاں تک کہ سب مل کر تھوڑا سا دستر خوان پر اکٹھا ہوا۔ پھر رسول اللہ (ص) نے برکت کیلئے دعا کی۔ اس کے بعد آپ (ص) نے فرمایا کہ اپنے اپنے برتنوں میں توشہ بھرو، تو سبھی لوگوں نے اپنے اپنے برتن بھر لئے یہاں تک کہ لشکر میں کوئی برتن نہ چھوڑا جس کو نہ بھرا ہو۔ پھر سب نے کھانا شروع کیا اور سیر ہو گئے۔ اس پر بھی کچھ بچ رہا تب رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ میں گواہی دیتا ہوں اس بات کی کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں اور میں اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں۔ جو شخص ان دونوں باتوں پر یقین کر کے اللہ سے ملے گا، وہ جنت سے محروم نہ ہو گا۔
 

مہوش علی

لائبریرین
11: صنابحی ، سیدنا عبادہ بن صامت (ر) سے روایت کرتے ہیں کہ میں ان کے پاس گیا اور وہ اس وقت قریب المرگ تھے۔ میں رونے لگا تو انہوں نے کہا کہ ٹھہرو، روتے کیوں ہو؟ اللہ کی قسم اگرمیں گواہ بنایا جاؤں گا تو تیرے لئے (ایمان کی) گواہی دوں گا اور اگر میری سفارش کام آئے گی تو تیری سفارش کروں گا اور اگر مجھے طاقت ہو گی تو تجھ کو فائدہ دوں گا۔ پھر کہا اللہ کی قسم نہیں کوئی ایسی حدیث جو کہ میں نے رسول اللہ (ص) سے سنی اور اس میں تمہاری بھلائی تھی مگر یہ کہ میں نے اسے تم سے بیان کر دیا البتہ ایک حدیث میں نے اب تک بیان نہیں کی، وہ آج بیان کرتا ہوں اس لئے کہ میری جان جانے کو ہے۔ میں نے رسول اللہ (ص) سے سنا آپ (ص) فرماتے تھے کہ جو شخص گواہی دے (یعنی دل سے یقین کرے اور زبان سے اقرار) کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں اور بیشک محمد ((ص)) اللہ کے رسول ہیں تو اللہ تعالیٰ اس پر جہنم کو حرام کر دے گا۔ (یعنی ہمیشہ جہنم میں رہنے کو یا جہنم کے اس طبقہ کو جس میں ہمیشہ رہنے والے کافر ڈالے جائیں گے)۔
12: سیدنا ابو ہریرہ (ر) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ (ص) کے گرد بیٹھے تھے اور ہمارے ساتھ اور آدمیوں میں سیدنا ابوبکر (ر) اور سیدنا عمر (ر) بھی تھے۔ اتنے میں رسول اللہ (ص) اٹھے (اور باہر تشریف لے گئے) پھر آپ نے ہمارے پاس آنے میں دیر لگائی تو ہم کو ڈر ہوا کہ کہیں دشمن آپ کو اکیلا پا کر مار نہ ڈالیں۔ ہم گھبرا گئے اور اٹھ کھڑے ہوئے۔ سب سے پہلے میں گھبرایا تو میں آپ کو ڈھونڈھنے کیلئے نکلا اور بنی نجار کے باغ کے پاس پہنچا۔ (بنی نجار انصار کے قبیلوں میں سے ایک قبیلہ تھا) اس کے چاروں طرف دروازہ کو دیکھتا ہوا پھرا کہ دروازہ پاؤں تو اندر جاؤں (کیونکہ گمان ہوا کہ شاید رسول اللہ (ص) اس کے اندر تشریف لے گئے ہوں) دروازہ ملا ہی نہیں۔ (شاید اس باغ میں دروازہ ہی نہ ہوگا یا اگر ہو گا تو سیدنا ابو ہریرہ (ر) کو گھبراہٹ میں نظر نہ آیا ہو گا) دیکھا کہ باہر کنوئیں میں سے ایک نالی باغ کے اندر جاتی ہے، میں لومڑی کی طرح سمٹ کر اس نالی کے اندر گھسا اور رسول اللہ (ص) کے پاس پہنچا۔ آپ (ص) نے فرمایا کہ کیا ابوہریرہ ہے؟ میں نے عرض کیا جی یارسول اللہ]! آپ (ص) نے فرمایا کہ کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا کہ یارسو ل اللہ (ص)! آپ ہم لوگوں میں تشریف رکھتے تھے۔ پھر آپ (ص) باہر چلے آئے اور واپس آنے میں دیر لگائی تو ہمیں ڈر ہوا کہ کہیں دشمن آپ کو ہم سے جدا دیکھ کر نہ ستائیں، ہم گھبرا گئے اور سب سے پہلے میں گھبرا کر اٹھا اور اس باغ کے پاس آیا (دروازہ نہ ملا) تو اس طرح سمٹ کر گھس آیا جیسے لومڑی اپنے بدن کو سمیٹ کر گھس جاتی ہے اور سب لوگ میرے پیچھے آئے ہیں۔ آپ (ص) نے فرمایا کہ اے ابو ہریرہ! اور مجھے اپنے جوتے (نشانی کیلئے )دئیے (تاکہ لوگ میری بات کو سچ سمجھیں) اور فرمایا کہ میری یہ دونوں جوتیاں لے جا اور جو کوئی تجھے اس باغ کے پیچھے ملے اور وہ اس بات کی گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور اس بات پر دل سے یقین رکھتا ہو تو اس کو یہ سنا کر خوش کر دے کہ اس کیلئے جنت ہے۔ (سیدنا ابو ہریرہ (ر) کہتے ہیں کہ میں جوتیاں لے کر چلا) تو سب سے پہلے میں سیدنا عمر (ر) سے ملا۔ انہوں نے پوچھا کہ اے ابو ھریرہ یہ جوتیاں کیسی ہیں؟ میں نے کہا کہ رسول اللہ (ص) کی جوتیاں ہیں۔ آپ (ص) نے یہ دے کر مجھے بھیجا ہے کہ میں جس سے ملوں اور وہ لا الٰہ الا اللہ کی گواہی دیتا ہو، دل سے یقین کر کے، تو اس کو جنت کی خوشخبری دوں۔ یہ سن کر سیدنا عمر (ر) نے ایک ہاتھ میری چھاتی کے بیچ میں مارا تو میں سرین کے بل گرا۔ پھر کہا کہ اے ابوہریرہ! لوٹ جا۔ میں رسول اللہ (ص) کے پاس لوٹ کر چلا گیا اور رونے والا ہی تھا کہ میرے ساتھ پیچھے سے سیدنا عمر (ر) بھی آ پہنچے۔ رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ اے ابوہریرہ! تجھے کیا ہوا؟ میں نے کہا کہ میں عمر (ر) سے ملا اور جو پیغام آپ (ص) نے مجھے دیکر بھیجا تھا پہنچایا تو انہوں نے میری چھاتی کے بیچ میں ایسا مارا کہ میں سرین کے بل گر پڑا اور کہا کہ لوٹ جا۔ رسول اللہ (ص) نے سیدنا عمر (ر) سے کہا کہ تو نے ایسا کیوں کیا؟ انہوں نے عرض کیا کہ یارسو ل اللہ]! آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔ ابو ہریرہ کو آپ نے اپنی جوتیاں دیکربھیجا تھا کہ جو شخص ملے اور وہ گواہی دیتا ہو لا الٰہ الا اللہ کی دل سے یقین رکھ کر تو اسے جنت کی خوشخبری دو؟ رسول اللہ (ص) نے فرمایا ہاں۔ سیدنا عمر (ر) نے کہا کہ (آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں) ایسا نہ کیجئے کیونکہ میں ڈرتا ہوں کہ لوگ اس پر تکیہ کر بیٹھیں گے، ان کو عمل کرنے دیجئے۔ رسول اللہ (ص) نے فرمایا اچھا ان کو عمل کرنے دو۔
13: سیدنا معاذ بن جبل (ر) کہتے ہیں کہ میں سواری پر رسول اللہ (ص) کے ہمراہ پیچھے بیٹھا ہوا تھا، میرے اور آپ (ص) کے درمیان سوائے پالان کی پچھلی لکڑی کے کچھ نہ تھا۔ آپ (ص) نے فرمایا اے معاذ بن جبل! میں نے عرض کیا کہ میں حاضر ہوں آپ کی خدمت میں اور آپ کا فرمانبردار ہوں یارسول اللہ (ص)! پھر آپ (ص) تھوڑی دیر چلے اس کے بعد فرمایا کہ اے معاذ بن جبل! میں نے کہا یارسول اللہ (ص)! فرمانبردار آپ کی خدمت میں حاضر ہے۔ پھر آپ (ص) تھوڑی دیر چلے اس کے بعد فرمایا کہ اے معاذ بن جبل! میں نے کہا یارسول اللہ (ص)! فرمانبردار آپ کی خدمت میں حاضر ہے۔ آپ (ص) نے فرمایا کہ تو جانتا ہے اللہ کا حق بندوں پر کیا ہے؟ میں نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول خوب جانتا ہے۔ آپ (ص) نے فرمایا کہ اللہ کا حق بندوں پر یہ ہے کہ اسی کی عبادت کریں اور اس کیساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔ پھر آپ تھوڑی دیر چلے پھر فرمایا کہ اے معاذ بن جبل! میں نے کہا یارسول اللہ]! میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں اور آپ کا فرمانبردار ہوں۔ آپ (ص) نے فرمایا کہ تو جانتا ہے کہ جب بندے یہ کام کریں تو ان کا اللہ پر کیا حق ہے؟ جب بندے یہ کام کریں (یعنی اسی کی عبادت کریں، کسی کو اس کیساتھ شریک نہ کریں) میں نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول خوب جانتا ہے۔ آپ (ص) نے فرمایا کہ وہ حق یہ ہے کہ اللہ ان کو عذاب نہ کرے۔
14: سیدنا محمود بن ربیع (ر) سیدنا عتبان بن مالک (ر) سے سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں مدینہ میں آیا تو عتبان سے ملا اور میں نے کہا کہ ایک حدیث ہے جو مجھے تم سے پہنچی ہے (پس تم اسے بیان کرو) عتبان نے کہا کہ میری نگاہ میں فتور ہو گیا (دوسری روایت میں ہے کہ وہ نابینا ہو گئے اور شاید ضعفِ بصارت مراد ہو) میں نے رسول اللہ (ص) کے پاس کہلا بھیجا کہ میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے مکان پر تشریف لا کر کسی جگہ نماز پڑھیں تاکہ میں اس جگہ کو مصلی بنا لوں(یعنی ہمیشہ وہیں نماز پڑھا کروں اور یہ درخواست اس لئے کی کہ آنکھ میں فتور ہو جانے کی وجہ سے مسجدِ نبوی میں آنا دشوار تھا) تو رسول اللہ (ص) تشریف لائے اور جن کو اللہ نے چاہا اپنے اصحاب میں سے ساتھ لائے۔ آپ اندر آئے اور نماز پڑھنے لگے اور آپ (ص) کے اصحاب آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ (منافقوں کا ذکر چھڑ گیا تو ان کا حال بیان کرنے لگے اور ان کی بُری باتیں اور بُری عادتیں ذکر کرنے لگے) پھر انہوں نے بڑا منافق مالک بن دخشم کو کہا (یا مالک بن دخیشم یا مالک بن دخشن یا دخیشن) اور چاہا کہ رسول اللہ (ص) اس کیلئے بددعاکریں اور وہ مر جائے اور اس پر کوئی آفت آئے (تو معلوم ہوا کہ بدکاروں کے تباہ ہونے کی آرزو کرنا بُرا نہیں) اتنے میں رسول اللہ (ص) نماز سے فارغ ہوئے اور فرمایا کہ کیا وہ (یعنی مالک بن دخشم) اس بات کی گواہی نہیں دیتا کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں۔ صحابہ 'نے عرض کیا وہ تو اس بات کو زبان سے کہتا ہے لیکن دل میں اس کا یقین نہیں رکھتا۔ آپ (ص) نے فرمایا جو سچے دل سے لا الٰہ الا اللہ کی گواہی دے اور محمد رسول اللہ (ص) کی پھر وہ جہنم میں نہ جائے گا یا اس کو انگارے نہ کھائیں گے۔ سیدنا انس (ر) نے کہاکہ یہ حدیث مجھے بہت اچھی معلوم ہوئی تو میں نے اپنے بیٹے سے کہاکہ اس کو لکھ لے، پس اس نے لکھ لیا۔
کتاب: ایمان کیا ہے؟ اور اس کی اچھی عادات کا بیان۔
15: سیدنا ابو سعید خدری (ر) سے روایت ہے کہ کچھ لوگ عبدالقیس کے رسول اللہ (ص) کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ یارسول اللہ (ص)! ہم ربیعہ کی ایک شاخ ہیں، اور ہمارے اور آپ (ص) کے بیچ میں قبیلہ مضرکے کافر ہیں اور ہم آپ ]کے پاس حرام مہینوں کے علاوہ (کسی اور مہینے میں) نہیں آ سکتے تو ہمیں ایسے کام کا حکم کیجئے کہ جسے ہم ان لوگوں کو بتلائیں جو ہمارے پیچھے (رہ گئے) ہیں اور ہم اس کام کی وجہ سے جنت میں جائیں، جب کہ ہم اس پر عمل کریں۔ رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ میں تمہیں چار چیزوں کا حکم کرتا ہوں اور چار چیزوں سے منع کرتا ہوں (جن چار چیزوں کا حکم کرتا ہوں وہ یہ ہیں کہ) صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کیساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور نماز قائم کرو اور زکوٰة دو اور رمضان کے روزے رکھو اور غنیمت کے مالوں میں سے پانچواں حصہ ادا کرو اور میں تمہیں چار چیزوں سے منع کرتا ہوں۔ کدو کے تونبے اور سبز لاکھی برتن اور روغنی برتن اور نقیر سے۔ لوگوں نے کہا یارسول اللہ (ص) ! نقیر آپ نہیں جانتے۔ آپ (ص) نے فرمایا کیوں نہیں جانتا، نقیر ایک لکڑی ہے، جسے تم کھود لیتے ہو، پھر اس میں قطیعا (ایک قسم کی چھوٹی کھجور، اس کو شریر بھی کہتے ہیں) بھگوتے ہو۔ سعید نے کہا یا”تمر‘ بھگوتے ہو۔ پھر اس میں پانی ڈالتے ہو۔ جب اس کا جوش تھم جاتا ہے تو اس کو پیتے ہو یہاں تک کہ تم میں سے ایک اپنے چچا کے بیٹے کو تلوار سے مارتا ہے (نشہ میں آکر جب عقل جاتی رہتی ہے تو دوست دشمن کی شناخت نہیں رہتی، اپنے بھائی کو جس کو سب سے زیادہ چاہتا ہے تلوار سے مارتا ہے۔ شراب کی برائیوں میں سے یہ ایک بڑی بُرائی ہے، جسے آپ نے بیان کیا) راوی نے کہاکہ ہمارے لوگوں میں اس وقت ایک شخص موجود تھا (جس کا نام جہم تھا) اس کو اسی نشہ کی وجہ سے ایک زخم لگ چکا تھا اس نے کہا لیکن میں اس کو رسول اللہ (ص) سے شرم کے مارے چھپاتا تھا۔ میں نے کہا یارسول اللہ (ص)! پھر کس برتن میں ہم شربت پئیں؟ آپ (ص) نے فرمایا کہ چمڑے کی مشقوں میں پیو، جن کا منہ (ڈوری یا تسمے سے) باندھا جاتا ہے۔ لوگوں نے کہا کہ یارسول اللہ (ص)! ہمارے ملک میں چوہے بہت ہیں، وہاں چمڑے کے برتن نہیں رہ سکتے تو آپ (ص) نے فرمایا چمڑے کے برتنوں میں پیو اگرچہ چوہے ان کو کاٹ ڈالیں، اگرچہ ان کو چوہے کاٹ ڈالیں، اگرچہ ان کو چوہے کاٹ ڈالیں۔ (یعنی جس طور سے ہو سکے چمڑے ہی کے برتن میں پیو، چوہوں سے حفاظت کرو لیکن ان برتنوں میں پینا درست نہیں کیونکہ وہ شراب کے برتن ہیں) راوی نے کہا کہ رسول ا للہ (ص) نے عبدالقیس کے اشج سے فرمایا کہ تجھ میں دو خصلتیں ایسی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے، ایک تو عقلمندی اور دوسری سہولت اور اطمینان۔ (یعنی جلدی نہ کرنا)۔
16: سیدنا ابو ذر (ر) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (ص) سے پوچھا کہ کونسا عمل افضل ہے؟ آپ (ص) نے فرمایا کہ اللہ پر ایمان لانا اور اس کی راہ میں جہاد کرنا۔ میں نے کہا کونسا بندہ آزاد کرنا افضل ہے؟ آپ (ص) نے فرمایا کہ جو بندہ اس کے مالک کوعمدہ معلوم ہوا ور جس کی قیمت بھاری ہو۔ میں نے کہا کہ اگر میں یہ نہ کر سکوں؟ آپ (ص) نے فرمایا کہ تو کسی صانع کی مدد کر یا کسی بے ہنر شخص کیلئے مزدوری کر (یعنی جو کوئی کام اور پیشہ نہ جانتا ہو اور روٹی کا محتاج ہو) میں نے کہا اگر میں خود ناتواں ہوں؟ (یعنی کام نہ کر سکوں یا کوئی کسب نہ کر سکوں؟) آپ (ص) نے فرمایا کہ تو کسی سے بُرائی نہ کر، یہی تیرا اپنے نفس پر صدقہ ہے۔
کتاب: ایمان کا حکم اور اللہ کی پناہ مانگنا شیطانی وسوسہ کے وقت۔
17: سیدنا ابو ہریرہ (ر) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ لوگ تم سے علم کی باتیں پوچھتے رہیں گے یہاں تک کہ یہ کہیں گے اللہ نے تو ہمیں پیدا کیا، پھر اللہ کو کس نے پیدا کیا؟ راوی نے کہا کہ سیدنا ابو ہریرہ (ر) اس حدیث کو بیان کرتے وقت ایک شخص کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے۔انہوں نے کہا سچ کہا اللہ اور اس کے رسول نے ،مجھ سے دو آدمی یہی پوچھ چکے اور یہ تیسرا ہے یا یوں کہا کہ ایک آدمی پوچھ چکا ہے اور یہ دوسرا ہے۔
سیدنا ابو ہریرہ (ر) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) نے مجھ سے فرمایا تھا کہ اے ابوہریرہ! ((ر)) لوگ تجھ سے (دین کی باتیں) پوچھتے رہیں گے یہاں تک کہ یوں کہیں گے کہ بھلا اللہ تو یہ ہے اب اللہ کو کس نے پیدا کیا؟ کہتے ہیں کہ ایک بار میں مسجد میں بیٹھا تھا کہ اتنے میں کچھ دیہاتی آئے اور کہنے لگے کہ اے ابو ہریرہ! اللہ تو یہ ہے، اب اللہ کو کس نے پیدا کیا؟ یہ سن کر سیدنا ابو ہریرہ (ر) نے ایک مٹھی بھر کنکریاں ان کو ماریں اور کہاکہ اٹھو، اٹھو! سچ کہا تھا میرے دوست رسول اللہ (ص) نے۔
کتاب: اللہ پر ایمان لانے اور اس پر ڈٹ جانے کے متعلق۔
18: سیدنا سفیان بن عبداللہ الثقفی (ر) سے روایت ہے کہ میں نے کہا یارسول اللہ (ص)! مجھے اسلام میں ایک ایسی بات بتا دیجئے کہ پھر میں اس کو آپ (ص) کے بعد (اور ابو اسامہ کی روایت میں ہے کہ آپ (ص) کے سوا) کسی سے نہ پوچھوں۔ آپ (ص) نے فرمایا کہ کہہ میں اللہ پر ایمان لایا پھر اس پر قائم رہ۔
کتاب: نبی (ص) کے معجزات اور ان پر ایمان لانے کے متعلق۔
19: سیدنا ابوہریرہ (ر) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ ہر ایک پیغمبر کو وہی معجزے ملے ہیں جو اس سے پہلے دوسر ے پیغمبر کو مل چکے تھے پھر ایمان لائے اس پر آدمی لیکن مجھے جو معجزہ ملا وہ قرآن ہے جو اللہ نے میرے پاس بھیجا (ایسا معجزہ کسی پیغمبرکو نہیں ملا) اس لئے میں امیدکرتا ہوں کہ میری پیروی کرنے والے قیامت کے دن سب سے زیادہ ہوں گے۔
20: سیدنا ابو ہریرہ (ر) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد ((ص)) کی جان ہے (میرے اس زمانہ سے قیامت تک )کوئی یہودی یا نصرانی (یا اور کوئی دین والا) میرا حال سنے پھر اس پر ایمان نہ لائے جو کہ میں دیکر بھیجا گیا ہوں (یعنی قرآن و سنت پر) تو وہ جہنم میں جائے گا۔
 

مہوش علی

لائبریرین
21: سیدنا صالح بن صالح الہمدانی ، شعبی سے روایت کرتے ہیں کہتے ہیں کہ میں نے ایک شخص کو دیکھا جو کہ خراسان کا رہنے والا تھا اس نے شعبی سے پوچھا کہ ہمارے ملک کے لوگ کہتے ہیں کہ جو شخص اپنی لونڈی کو آزاد کرکے پھر اس سے نکاح کر لے تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی قربانی کے جانور پر سواری کرے۔ شعبی نے کہا کہ مجھ سے ابو بردہ بن ابی موسیٰ نے بیان کیا، انہوں نے اپنے والد سے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا ”تین قسم کے آدمیوں کودوہرا ثواب ملے گا۔ ایک تو وہ شخص جو اہل کتاب میں سے ہو“ (یعنی یہودی یا نصرانی) اپنے پیغمبر پر ایمان لایا ہواور پھر میرا زمانہ پائے اور مجھ پر بھی ایمان لائے، میری پیروی کرے اور مجھے سچا جانے گا تو اس کو دوہرا ثواب ہے۔ اور ایک اس غلام کو جو اللہ کا حق ادا کرے اور اپنے مالک کا بھی، اس کو دوہرا ثواب ہے۔ اور ایک اس شخص کو جس کے پاس ایک لونڈی ہو، پھر اچھی طرح اس کو کھلائے اور پلائے اس کے بعد اچھی طرح تعلیم و تربیت کرے، پھر اس کو آزاد کرکے اس سے نکاح کر لے تو اس کو بھی دوہرا ثواب ہے۔ پھر شعبی نے خراسانی سے کہا کہ تو یہ حدیث بغیر محنت کئے لے لے، نہیں تو ایک شخص اس سے چھوٹی حدیث کیلئے مدینے تک سفر کیا کرتا تھا۔
کتاب: ان عادتوں کا بیان کہ جس میں یہ عادتیں پیدا ہوگئیں اس نے ایمان کی مٹھاس کو پا لیا۔
22: سیدنا انس (ر) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا: تین باتیں جس میں ہوں گی وہ ان کی وجہ سے ایمان کی مٹھاس اور حلاوت پائے گا۔ ایک تو یہ کہ اللہ اور اس کے رسول سے دوسرے سب لوگوں سے زیادہ محبت رکھے۔ دوسرے یہ کہ کسی آدمی سے صرف اللہ کے واسطے دوستی رکھے (یعنی دنیا کی کوئی غرض نہ ہو اور نہ ہی اس سے ڈر ہو) تیسرے یہ کہ کفر میں لوٹنے کو بعد اس کے کہ اللہ نے اس سے بچا لیا اس طرح برا جانے جیسے آگ میں ڈال دیا جانا۔
23: سیدنا انس (ر) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا: تم میں سے کوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کو میری محبت اولاد، ماں باپ اور سب لوگوں سے زیادہ نہ ہو۔
24: سیدنا انس (ر) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ کوئی آدمی مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اپنے یا ہمسایہ بھائی کیلئے وہی نہ چاہے جو وہ اپنے لئے چاہتا ہے۔
کتاب: جو شخص اللہ تعالیٰ کے رب ہونے پر راضی ہو گیا، اس نے ایمان کا ذائقہ چکھ لیا۔
25: سیدنا عباس بن عبدالمطلب (ر) سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ (ص) سے سنا، آپ (ص) فرماتے تھے کہ اس نے ایمان کا مزا چکھ لیا جو اللہ کے پروردگار عالم (لائق عبادت) ہونے، اسلام کے دین ہونے اور محمد (ص) کے پیغمبر ہونے پر راضی ہو گیا۔
کتاب: جس شخص میں چار باتیں موجود ہوں، وہ خالصتًا منافق ہے۔
26: سیدنا عبداللہ بن عمرو (ر) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا: چار باتیں جس میں ہوں گی وہ تو خالص منافق ہے۔ اور جس میں ان چاروں میں سے ایک خصلت ہو گی، تو اس میں نفاق کی ایک ہی عادت ہے، یہاں تک کہ اس کو چھوڑ دے۔ ایک تو یہ کہ جب بات کرے تو جھوٹ بولے، دوسری یہ کہ جب معاہدہ کرے تو اس کے خلاف کرے، تیسری یہ کہ جب وعدہ کرے تو پورا نہ کرے، چوتھی یہ کہ جب جھگڑا کرے تو بدکلامی کرے یا گالی گلوچ کرے۔ اور سفیان کی روایت میں ”خلہ“ کی جگہ ”خصلة“کا لفظ ہے۔
27: سیدنا ابو ہریرہ (ر) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ]نے فرمایا: منافق کی تین نشانیاں ہیں۔ جب بات کرے تو جھوٹی بات کرے، جب وعدہ کرے تو وعدہ کے خلاف کرے اور جب اسے امانت سونپی جائے تو اس میں خیانت کرے۔
کتاب: مومن کی مثال کھیت کے نرم جھاڑ کی سی اور منافق اور کافر کی مثال صنوبر (کے درخت) کی سی ہے۔
28: سیدنا کعب بن مالک (ر) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا: مومن کی مثال ایسی ہے جیسے کھیت کا نرم جھاڑ ہو، ہوا اس کو جھونکے دیتی ہے، کبھی اس کو گرا دیتی ہے اور کبھی سیدھا کر دیتی ہے، یہاں تک کہ سوکھ جاتا ہے۔ اور کافر کی مثال ایسی ہے جیسے صنوبر کا درخت، جو اپنی جڑ پر سیدھا کھڑا رہتا ہے، اس کو کوئی چیز نہیں جھکاتی یہاں تک کہایک بارگی اکھڑ جاتا ہے۔ایک روایت میں ہے کہ مومن کی مثال اس کھیتی کی طرح ہے جس کو ہوا کبھی گرا دیتی ہے اور کبھی سیدھا کھڑا کر دیتی ہے حتی کہ وہ پک کر تیار ہو۔ اور منافق کی مثال اس صنوبر کے درخت کی طرح ہے سیدھا کھڑا ہو اور اس کو کوئی چیز نہ پہنچے۔
وضاحت : اجل سے مراد وقت مقررہ ہے اور کھیتی کے لئے اجل: اس کا پک جانا اور کٹائی کے تیار ہونا ہے (م۔ع)
کتاب: مومن کی مثال کھجور کے درخت کی سی ہے۔
29: سیدنا عبداللہ بن عمر (ر) سے روایت ہے، بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اکرم (ص) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ (ص) نے فرمایا کہ مجھے اس درخت کے متعلق بتاؤ جو مومن (مسلم) کے مشابہ ہے یا مسلمان آدمی کی طرح ہے، (اس کی نشانی یہ ہے کہ) اس کے پتے نہیں گرتے، پھل ہر وقت دیتا ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عمر صکہتے ہیں کہ میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ یہ کھجور کا درخت ہے اور میں نے دیکھا کہ سیدنا ابو بکر صاور سیدنا عمر (ر) کوئی بات نہیں کر رہے تو میں نے بات کرنا یا کچھ کہنا اچھا خیال نہ کیا۔ (بعد میں آپ (ص) نے کھجور کا درخت بتایا۔ اور عبداللہ بن عمر (ر) نے سیدنا عمر (ر) سے ذکر کیا ) تو سیدنا عمر (ر) نے کہا کہ اگر تو اس وقت بول دیتا تو مجھے ایسی چیزوں سے زیادہ پسند تھا۔ (یعنی مجھے بہت خوشی ہوتی)۔
کتاب: حیاء ایمان میں سے ہے۔
30: سیدنا ابو ہریرہ (ر) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ ایمان کی ستر پرکئی یا ساٹھ پر کئی شاخیں ہیں۔ ان سب میں افضل لا الٰہ الا اللہ کہنا ہے اور ان سب میں ادنیٰ، راہ میں سے موذی چیز کا ہٹانا ہے اور حیا ایمان کی ایک شاخ ہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
31: سیدنا ابو قتادہ (ر) کہتے ہیں کہ ہم سیدنا عمران بن حصین (ر) کے پاس ایک رہط (دس سے کم مردوں کی جماعت کو رہط کہتے ہیں) میں تھے اور ہم میں بشیر بن کعب بھی تھے۔ سیدنا عمران (ر) نے اس دن حدیث بیان کی کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ حیا خیر ہے بالکل، یا حیا بالکل خیر ہے۔ بشیر بن کعب نے کہاکہ ہم نے بعض کتابوں میں یا حکمت میں دیکھا ہے کہ حیا کی ایک قسم تو سکینہ اور وقار ہے اللہ تعالیٰ کیلئے اور ایک حیا ضعفِ نفس ہے۔ یہ سن کر سیدنا عمران صکو اتنا غصہ آیا کہ ان کی آنکھیں سرخ ہو گئیں ا ور انہوں نے کہا کہ میں تو رسول اللہ (ص) کی حدیث بیان کرتا ہوں اور تو اس کے خلاف بیان کرتا ہے۔ سیدنا ابو قتادہ نے کہا کہ سیدنا عمران صنے پھر دوبارہ اسی حدیث کو بیان کیا۔ بشیر نے پھر دوبارہ وہی بات کہی تو سیدنا عمران غصہ ہوئے (اور انہوں نے بشیر کو سزا دینے کا قصد کیا) تو ہم سب نے کہا کہ اے ابونجید! (یہ سیدنا عمران بن حصین صکی کنیت ہے) بشیر ہم میں سے ہے (یعنی مسلمان ہے) اس میں کوئی عیب نہیں۔ (یعنی وہ منافق یا بے دین یا بدعتی نہیں ہے جیسے تم نے خیال کیا)۔
کتاب: اچھی ہمسائیگی اور مہمان کی عزت کرنا ایمان میں سے ہے۔
32: سیدنا ابو شریح الخزاعی (ر) سے روایت ہے کہ نبی (ص) نے فرمایا: جو شخص اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے ہمسایہ کیساتھ نیکی کرے اور جو شخص اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہما ن کیساتھ احسان کرے اور جو شخص اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اچھی بات کہے (جس میں بھلائی ہو یا ثواب ہو) یا چپ رہے۔
کتاب: وہ شخص جنت میں داخل نہ ہو گا جس کا ہمسایہ اس کی مصیبتوں سے محفوظ نہ ہو۔
33: سیدنا ابو ہریرہ (ر) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ وہ شخص جنت میں نہ جا ئیگا جسکا ہمسایہ اسکے مکرو فساد سے محفوظ نہیں ہے۔
کتاب: برائی کو ہاتھ اور زبان سے مٹانا اور دل میں برا سمجھنا ایمان میں سے ہے
34: طارق بن شہاب کہتے ہیں کہ سب سے پہلے جس نے عید کے دن نماز سے پہلے خطبہ شروع کیا وہ مروان تھا (حکم کا بیٹا جو خلفاء بنی امیہ میں سے پہلا خلیفہ ہے) اس وقت ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ نماز خطبہ سے پہلے ہے۔ مروان نے کہا کہ یہ بات موقوف کر دی گئی۔ سیدنا ابو سعید (ر) نے کہاکہ اس شخص نے تو اپنا فرض ادا کر دیا، میں نے رسول اللہ (ص) سے سنا آپ (ص) نے فرمایا کہ جو شخص تم میں سے کسی منکر (خلافِ شرع) کام کو دیکھے تو اس کو اپنے ہاتھ سے مٹا دے، اگر اتنی طاقت نہ ہو تو زبان سے اور اگر اتنی بھی طاقت نہ ہو تو دل ہی سے سہی۔ (دل میں اس کو بُرا جانے اور اس سے بیزار ہو) یہ ایمان کا سب سے کم درجہ ہے۔
35: سیدنا عبداللہ بن مسعود (ر) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے پہلے کوئی نبی ایسا نہیں بھیجا کہ جس کے ، اس کی امت میں سے حواری اور اصحاب نہ ہوں جو اس کے طریقے پر چلتے تھے اور اس کے حکم کی پیروی کرتے تھے۔ پھر ان لوگوں کے بعد ایسے نالائق لوگ پیدا ہوتے ہیں جو زبان سے کہتے ہیں اور کرتے نہیں اور ان کاموں کو کرتے ہیں جن کا حکم نہیں دیئے جاتے۔ پھر جو کوئی ان نالائقوں سے ہاتھ سے لڑے وہ مومن اور جو کوئی زبان سے لڑے (ان کو بُرا کہے اور ان کی باتوں کا رد کرے) وہ بھی مومن ہے اور جو کوئی ان سے دل سے لڑے (دل میں ان کو بُرا جانے) وہ بھی مومن ہے اور اس کے بعد دانے برابر بھی ایمان نہیں۔ (یعنی اگر دل سے بھی بُرا نہ جانے تو اس میں ذرہ برابر بھی ایمان نہیں)۔ سیدنا ابو رافع (ر) (جنہوں نے اس حدیث کو سیدنا ابن مسعود (ر) سے بیان کیا، وہ رسول اللہ (ص) کے مولیٰ تھے) نے کہا کہ میں نے یہ حدیث عبداللہ بن عمر (ر) سے بیان کی، انہوں نے نہ مانا اور انکار کیا۔ اتفاق سے میرے پاس سیدنا عبداللہ بن مسعود (ر) آئے اور قناة (مدینہ کی وادیوں میں سے ایک وادی کا نام ہے) میں اترے تو سیدنا عبداللہ بن عمر (ر) مجھے سیدنا عبداللہ بن مسعود (ر) کی عیادت کیلئے اپنے ساتھ لے گئے۔ میں ان کیساتھ گیا۔ جب ہم بیٹھے تو میں نے سیدنا عبداللہ بن مسعود (ر) سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے اسی طرح بیان کیا جیسے میں نے سیدنا ابن عمر (ر) سے بیان کیا تھا۔
کتاب: علی (ر) سے محبت کرنے والا مومن اور بغض رکھنے والا منافق ہے۔
36: سیدنا زر بن حبیش (ر) کہتے ہیں کہ سیدنا علی بن ابی طالب (ر) نے کہاکہ قسم ہے اس کی جس نے دانہ چیرا (پھر اس سے گھاس اگائی) اور جان بنائی، رسول اللہ (ص) نے مجھ سے عہد کیا تھا کہ مجھ سے سوائے مومن کے کوئی محبت نہیں رکھے گا اور مجھ سے منافق کے علاوہ اور کوئی شخص دشمنی نہیں رکھے گا۔
کتاب: انصار سے محبت ایمان کی نشانی، اور ان سے بغض نفاق کی نشانی ہے۔
37: سیدنا براء (ر) نبی (ص) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ (ص) نے انصار کے بارے میں فرمایا کہ ان کا دوست مومن ہے اور ان کا دشمن منافق ہے اور جس نے ان سے محبت کی اللہ تعالیٰ اس سے محبت کرے گا اور جس نے ان سے دشمنی کی اللہ تعالیٰ اس سے دشمنی کرے گا۔
کتاب: ایمان مدینہ کی طرف سمٹ جائے گا۔
38: سیدنا ابوہریرہ (ر) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا: ایمان اس طرح سمٹ کر مدینہ میں آ جائے گا جیسے سانپ سمٹ کر اپنے بل میں سما جاتا ہے۔
کتاب: ایمان بھی یمن والوں کا ہے اور حکمت بھی یمن کی اچھی ہے۔
39: سیدنا ابو ہریرہ (ر) سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (ص) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ یمن کے لوگ (خود مسلمان ہونے کو)آئے اور وہ لوگ نرم دل ہیں اور نرم خو ہیں۔ ایمان یمن کا ہی اچھا ہے اور حکمت بھی یمن ہی کی (بہتر) ہے اور غریبی اور اطمینان بکریوں والوں میں ہے اور بڑائی و شیخی مارنا اور فخر و گھمنڈ کرنا گھوڑے والوں اور اونٹ والوں میں ہے جو چلاتے ہیں اور وبر والے ہیں، سورج کے طلوع ہونے کی طرف سے۔
وضاحت : وبر کا معنی اونٹ کے بال۔ مراد اونٹوں والے۔ (م۔ ع)
40: سیدنا جابر بن عبداللہ (ر) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایاکہ دلوں کی سختی اور کھرکھرا پن مشرق (پورب) والوں میں ہے اور ایمان حجاز والوں میں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
کتاب: جو شخص ایمان نہ لائے اس کو نیک عمل کوئی فائدہ نہ دے گا۔
41: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے کہا کہ یارسول اللہ (ص)! جدعان کا بیٹا جاہلیت کے دَور میں ناتے جوڑتا تھا (یعنی رشتہ داروں کیساتھ اچھا سلوک کرتا تھا) اور مسکینوں کو کھانا کھلاتا تھا، کیا یہ کام اس کو (قیامت کے دن) فائدہ دیں گے؟ آپ (ص) نے فرمایا کہ اسے یہ اعمال کچھ فائدہ نہ دیں گے کیونکہ اس نے کبھی یوں نہ کہا کہ اے میرے پروردگار میرے گناہوں کو قیامت کے دن بخش دے۔
کتاب: جنت میں تم اس وقت تک داخل نہ ہو گے جب تک ایمان نہ لاؤ گے
42: سیدنا ابوہریرہ (ر) کہتے ہیں کہ رسو ل اللہ (ص) نے فرمایا کہ تم جنت میں نہ جاؤ گے جب تک کہ ایمان نہ لاؤ گے اور ایماندار نہ بنو گے اور جب تک ایک دوسرے سے محبت نہ رکھو گے۔ اور میں تم کو وہ چیز نہ بتلا دوں کہ جب تم اس کو کرو گے تو آپس میں محبت ہو جائے؟ (پس اس کیلئے تم) سلام کو آپس میں رائج کرو۔
کتاب: زانی زنا کرتے وقت مومن نہیں ہوتا۔
43: سیدنا ابوہریرہ (ر) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا: زنا کرنے والا زنا نہیں کرتا مگر یہ کہ عین زنا کرتے وقت وہ مومن نہیں رہتا اور نہ ہی چور عین چوری کرتے وقت مومن رہتا ہے اور نہ شراب پینے والا عین شراب پیتے وقت مومن رہتا ہے۔ اور سیدنا ابو ہریرہ (ر) اس میں اتنا اور ملا دیتے تھے کہ نہ لوٹنے والا شخص، ایسی لوٹ جو بڑی چیز ہو (یعنی حقیر چیز نہ ہو) جس کی طرف لوگوں کی نظر اٹھے تو وہ بھی عین لوٹتے وقت مومن نہیں ہوتا۔ اور ہمام کی روایت میں یرفع الیہ المؤمنون اعینھم کی جگہ وھو حین ینتھبھا مؤمن کے الفاظ ہیں۔ اور ایک روایت میں ہے کہ خیانت کرتے وقت (بھی بندہ) مومن نہیں ہوتا۔
کتاب: مومن ایک بل (سوراخ) سے دو مرتبہ نہیں ڈسا جاتا (یعنی ایک ہی غلطی دو مرتبہ نہیں کرتا)۔
44: سیدنا ابوہریرہ (ر) نبی (ص) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ (ص) نے فرمایا کہ مومن کو ایک سوراخ سے دو بار ڈنگ نہیں لگتا۔ (یعنی مومن جب کسی معاملہ میں ایک بار خطا اٹھائے تو دوبارہ اس کو نہ کرے)۔
کتاب: ایمان میں وسوسے کا بیان۔
45: سیدنا ابوہریرہ (ر) کہتے ہیں کہ صحابہ ' میں سے کچھ لوگ رسول اللہ (ص) کے پاس آئے اور پوچھا کہ ہمارے دلوں میں وہ وہ خیال گزرتے ہیں کہ جن کا بیان کرنا ہم میں سے ہر ایک کو بڑا گناہ معلوم ہوتا ہے (یعنی اس خیال کو کہہ نہیں سکتے کیونکہ معاذ اللہ وہ خیال کفر یا فسق کا خیال ہوتا ہے جس کا منہ سے نکالنا مشکل معلوم ہوتا ہے) آپ (ص) نے فرمایا کہ کیا تم کو ایسے وسوسے ہوتے ہیں؟ لوگوں نے کہا جی ہاں۔ آپ] نے فرمایا کہ یہ تو عین ایمان ہے۔
کتاب: سب سے بڑا گناہ اللہ کیساتھ شرک کرنا ہے۔
46: سیدنا عبدالرحمن بن ابی بکرہ اپنے والد (سیدنا ابو بکرہ) (ر) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ (ص) کے پاس تھے، آپ (ص) نے فرمایا کہ کیا میں تم کو بڑا کبیرہ گناہ نہ بتلاؤں؟ تین بار آپ (ص) نے یہی فرمایا (پھر فرمایا کہ)اللہ کیساتھ شرک کرنا (یہ تو ظاہر ہے کہ سب سے بڑا کبیرہ گناہ ہے) دوسرے اپنے ماں باپ کی نافرمانی کرنا، تیسرے جھوٹی گواہی دینا یا جھوٹ بولنا۔ اور رسول اللہ (ص) تکیہ لگائے بیٹھے تھے، آپ (ص) اٹھ کر بیٹھ گئے اور بار بار یہ فرمانے لگے (تاکہ لوگ خوب آگاہ ہو جائیں اور ان کاموں سے باز رہیں) حتیٰ کہ ہم نے اپنے دل میں کہا کہ کاش آپ (ص) خاموش ہو جائیں۔ (تاکہ آپ کو زیادہ رنج نہ ہو ان گناہوں کا خیال کر کے کہ لوگ ان کو کیا کرتے ہیں)۔
47: سیدنا ابو ہریرہ (ر) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ سات گناہوں سے بچو جو ایمان کو ہلاک کر ڈالتے ہیں۔ صحابہ ' نے کہا کہ یارسول اللہ (ص) وہ کون سے گناہ ہیں؟ آپ (ص) نے فرمایا: 1۔ اللہ کیساتھ شرک کرنا۔ 2۔ اور جادو کرنا۔ 3۔ اور اس جان کو مارنا جس کا مارنا اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے، لیکن حق پر مارنا درست ہے۔4۔ اور سودکھانا۔ 5۔ اور یتیم کا مال کھا جانا۔ 6۔ اور لڑائی کے دن کافروں کے سامنے سے بھاگنا۔ 7۔ اور شادی شدہ ایمان دار ، پاک دامن عورتوں کو جو بدکاری سے واقف نہیں، عیب لگانا۔
کتاب: نبی (ص) کے اس فرمان کا مطلب کہ میرے بعد تم آپس میں ایک دوسرے کی گردن زنی (قتل و غارت) کرکے کافر نہ ہو جانا۔
48: سیدنا عبداللہ بن عمر (ر) نبی (ص) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ (ص) نے حجة الوداع میں فرمایا کہ میرے بعد کافر مت ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔
کتاب: جو اپنے باپ سے بے رغبتی کرے (اپنا باپ کسی اور کو کہے) تو یہ عمل کفر ہے۔
49: سیدنا ابو عثمان سے روایت ہے کہ جب زیاد کا دعویٰ کیا گیا تو میں سیدنا ابوبکرہ (ر) سے (زیاد ان کا مادری بھائی تھا) اور میں نے کہا کہ تم (یعنی تمہارے بھائی) نے کیا کیا؟ بیشک میں نے سیدنا سعد بن ابی وقاص (ر) سے سنا وہ کہتے تھے کہ میرے کانوں نے رسول اللہ (ص) سے سنا ہے آپ (ص) فرماتے تھے کہ جس نے اسلام قبول کرنے کے بعد اپنے باپ کے سوا اور کسی کو باپ بنایا تو اس پر جنت حرام ہے۔ سیدنا ابوبکرہ (ر) نے کہا کہ میں نے بھی خود رسول اللہ (ص) سے یہی سنا ہے۔
کتاب: جو شخص اپنے (مسلمان) بھائی کو کافر کہے۔
50: سیدنا ابو ذر غفاری (ر) سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ (ص) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص اپنے آپ کو کسی اور کا بیٹا کہے اور وہ جانتا ہو کہ وہ اس کا بیٹا نہیں ہے (یعنی جان بوجھ کر اپنے باپ کے سوا کسی اور کو باپ بتلائے) وہ کافر ہو گیا اور جس شخص نے اس چیز کا دعویٰ کیا جو اس کی نہیں ہے تو وہ ہم میں سے نہیں ہے اور وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے اور جو شخص کسی کو کافر کہہ کر بلاوے یا اللہ تعالیٰ کا دشمن کہہ کر، پھر وہ شخص کہ جسے اس نام سے پکارا گیا ہے ایسا (یعنی کافر) نہ ہو تو وہ کفر پکارنے والے پر پلٹ آئے گا۔
 

مہوش علی

لائبریرین
کتاب: سب سے بڑا گناہ کونسا ہے؟۔
51: سیدنا عبداللہ بن مسعود (ر) سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا کہ یارسول اللہ (ص)! اللہ کے نزدیک بڑا گناہ کونسا ہے؟ آ پ] نے فرمایا: یہ کہ تو کسی کو اللہ تعالیٰ کا شریک کرے حالانکہ تجھے اللہ (ہی) نے پیدا کیا۔ اس نے کہا پھر کونسا (گناہ بڑا ہے)؟ آپ (ص) نے فرمایا: یہ کہ تو اپنی اولاد کو اس ڈر سے قتل کرے کہ وہ تیرے ساتھ کھائے گی۔ اس نے کہا پھر کونسا (گناہ بڑا ہے)؟ آپ (ص) نے فرمایا: یہ کہ تو اپنے ہمسایہ کی عورت سے زنا کرے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس حدیث کی تصدیق میں یہ آیت نازل فرمائی کہ ”اور اللہ کیساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور کسی ایسے شخص کو جسے قتل کرنا اللہ تعالیٰ نے منع کر دیا ہو وہ بجز حق کے قتل نہیں کرتے ، نہ وہ زنا کے قریب جاتے ہیں اور جو کوئی یہ کام کرے وہ اپنے اوپر سخت وبال لائے گا“ (الفرقان : 68)۔
کتاب: جو اس حال میں فوت ہوا کہ وہ اللہ کیساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا تو جنت میں داخل ہو گا۔
52: سیدنا جابر بن عبداللہ (ر) کہتے ہیں کہ ایک شخ نے نبی (ص) سے پوچھا کہ یارسول اللہ (ص) دو واجب کر دینے والی چیزیں کیا کیا ہیں؟ آپ (ص) نے فرمایا: جس کو اس حال میں موت آئے کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا ہو، وہ جنت میں جائے گا اور جس کو اس حال میں موت آئے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرتا ہو، وہ جہنم میں داخل ہو گا۔
53: سیدنا ابو الاسود الدیلی سے روایت ہے کہ سیدنا ابو ذر (ر) نے ان سے یہ بیان کیا کہ میں نبی (ص) کے پاس آیا اور آپ (ص) سفید کپڑے اوڑھے ہوئے سو رہے تھے (میں واپس لوٹ گیا)۔ جب دوبارہ آیا توبھی آپ (ص) سوئے ہوئے تھے۔ جب تیسری بار آیا تو آپ (ص) جاگ چکے تھے تو میں آپ (ص) کے پاس بیٹھ گیا۔ آپ (ص) نے فرمایا کہ جو شخص لا الٰہ الا اللہ کہے (یعنی اللہ کی توحید کا عقیدہ رکھے اور پھر اسی پر) وہ فوت ہو جائے تو جنت میں جائے گا۔ میں نے کہا یارسول اللہ (ص) اگرچہ اس سے چوری اور زنا بھی ہو جائے، پھر بھی؟ تو آپ (ص) نے فرمایا ”ہاں اگرچہ اس سے زنا اور چوری بھی ہو جائے“ چنانچہ میں نے تین بار آپ (ص) سے یہی سوال کیا اور آپ (ص) نے تینوں مرتبہ یہی جواب دیا اور چوتھی مرتبہ فرمایا ”ہاں وہ جنت میں داخل ہوگا اگرچہ ابوذر ((ر)) کی ناک مٹی میں مل جائے“ پھر سیدنا ابو ذر صیہ کہتے ہوئے نکلے کہ اگرچہ ابوذر کی ناک خاک آلود ہو۔
کتاب: جس شخص کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہو گا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔
54: سیدنا عبداللہ بن مسعود (ر) نبی (ص) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ (ص) نے فرمایا: وہ شخص جنت میں نہ جائے گا جس کے دل میں رتی برابر بھی غرور اور گھمنڈ ہو گا۔ ایک شخص بولا کہ ہر ایک آدمی چاہتا ہے کہ اس کا کپڑا اچھا ہو اور اس کا جوتا(اوروں سے) اچھا ہو، (تو کیا یہ بھی غرور اور گھمنڈ ہے؟) آپ (ص) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے اور خوبصورتی پسند کرتا ہے۔ غرور اور گھمنڈ یہ ہے کہ انسان حق کو ناحق کرے (یعنی اپنی بات کی پچ یا نفسانیت سے ایک بات واجبی اور صحیح ہو تو اس کو رد کرے اور نہ مانے) اور لوگوں کو حقیر سمجھے۔
کتاب: نسب میں طعن کرنا اور میت پر چلا کر رونا کفر میں سے ہے۔
55: سیدنا ابوہریرہ (ر) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا: لوگوں میں دوباتیں موجود ہیں اور وہ دونوں کفر ہیں۔ ایک نسب میں طعن کرنا اور دوسرا میت پر چلا کر رونا (اس کے اوصاف بیان کرنا، جسے نوحہ کرنا کہتے ہیں)۔
کتاب: اس شخص کے کافر ہونے کا بیان جو یہ کہے کہ بارش ستاروں کی گردش کی وجہ سے برسی ہے۔
56: سیدنا زید بن خالد جہنی (ر) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) نے ہمیں صبح کی نماز حدیبیہ میں (جو مکہ کے قریب ایک مقام کا نام ہے) پڑھائی اور رات کو بارش ہوئی تھی۔ جب آپ (ص) نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایاکہ تم جانتے ہو کہ تمہارے پروردگار نے کیا فرمایا؟ انہوں نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول خوب جانتا ہے۔ آپ (ص) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ میرے بندوں میں سے بعضوں کی صبح تو ایمان پر ہوئی اور بعضوں کی کفر پر۔ تو جس نے یہ کہا کہ بارش اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے ہوئی تو وہ تاروں کے بارش برسانے کا منکر ہوا اور مجھ پر ایمان لایا اور جس نے کہا کہ بارش تاروں کی گردش کی وجہ سے ہوئی تو اس نے میرے ساتھ کفر کیا اور تاروں پر ایمان لایا۔
کتاب: غلام کا بھاگ جانا کفر ہے۔
57: شعبی سے روایت ہے کہ انہوں نے سیدنا جریر بن عبداللہ (ر) کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ جو غلام اپنے مالک سے بھاگ جائے تو وہ کافر ہو گیا (یہاں کفر سے مراد ناشکری ہے کیونکہ اس نے مالک کا حق ادا نہ کیا) جب تک لوٹ کر ان کے پاس نہ آئے۔ منصور نے کہا کہ اللہ کی قسم یہ حدیث تو مرفوعاً رسول اللہ (ص) سے مروی ہے لیکن (میں نے یہاں مرفوعا بیان نہیں کی بلکہ سیدنا جریر کا قول بتایا) مجھے بُرا معلوم ہوتا ہے کہ یہ حدیث مجھ سے اس جگہ بصرہ میں بیان کی جائے۔
58: سیدنا جریر (ر) نبی (ص) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ (ص) نے فرمایا: جب غلام (اپنے مالک کے پاس سے) بھاگ جائے تو اس کی نماز قبول نہ ہو گی۔
کتاب: (رسول اللہ (ص) کا ارشاد کہ) میرے دوست تو صرف اللہ اور ایماندار نیک لوگ ہیں۔
59: سیدنا عمرو بن عاص (ر) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (ص) سے سنا آپ (ص) چپکے سے نہیں بلکہ پکار کر فرماتے تھے کہ فلاں کی اولاد میری عزیز نہیں بلکہ میرا مالک یعنی دوست اللہ ہے اور میرے عزیز وہ مومن ہیں جو نیک ہوں۔
کتاب: مومن کو اس کی نیکیوں کا بدلہ دنیا اور آخرت دونوں میں ملتا ہے اور کافر کی نیکیوں کا بدلہ اس کو دنیا میں ہی دے دیا جاتا ہے۔

60: سیدنا انس بن مالک (ر) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کسی مومن پر ایک نیکی کیلئے بھی ظلم نہ کرے گا۔ اس کا بدلہ دنیا میں دے گا اور آخرت میں بھی د ے گا اور کافر کو اس کی نیکیوں کا بدلہ دنیا میں دیا جاتا ہے یہاں تک کہ جب آخرت ہو گی تو اس کے پاس کوئی نیکی نہ رہے گی جس کا کہ اسے بدلہ دیا جائے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
کتاب: اسلام کیا ہے؟ اور اس کی خصلتوں کا بیان۔
61: سیدنا طلحہ بن عبیداللہ (ر) سے روایت ہے کہ نجد والوں (نجد عرب میں ایک علاقہ ہے) میں سے ایک شخص رسول اللہ (ص) کے پاس آیا جس کے بال بکھرے ہوئے تھے اور اس کی آواز کی گنگناہٹ سنی جاتی تھی لیکن سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کہتا ہے یہاں تک کہ وہ رسول اللہ (ص) کے نزدیک آیا، تب معلوم ہوا کہ وہ اسلام کے بارے میں پوچھتا ہے۔ رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ دن رات میں پانچ نمازیں فرض ہیں۔ وہ بولا کہ ان کے سوا میرے اوپر کوئی اور نماز (فرض) ہے؟ آپ (ص) نے فرمایا کہ نہیں مگر یہ کہ تو نفل پڑھنا چاہے اور رمضان کے روزے ہیں۔ وہ بولا کہ مجھ پر رمضان کے سوا اور کوئی روزہ (فرض) ہے؟ آپ (ص) نے فرمایا کہ نہیں مگر یہ کہ تو نفل روزہ رکھنا چاہے۔ پھر آپ (ص) نے اس سے زکوٰة کا بیان کیا تو وہ بولا کہ مجھ پر اس کے سوا اور کوئی زکوٰة (فرض) ہے؟ آپ (ص) نے فرمایا کہ نہیں مگر یہ کہ تو نفل ثواب کیلئے صدقہ دینا چاہے۔ راوی نے کہا کہ پھر وہ شخص پیٹھ موڑ کر چلا اور کہتا جاتا تھا کہ اللہ کی قسم میں نہ ان سے زیادہ کروں گا اور نہ ان میں کمی کروں کا۔ رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ اگر یہ اپنے اس (بات کے) کہنے میں سچا ہے تو بیشک یہ کامیاب ہو گیا۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا کہ قسم اس کے باپ کی کہ اگر یہ سچا ہے تو اس نے نجات پائی یا (یہ فرمایا کہ) اس کے باپ کی قسم! اگر یہ (اپنی بات کے کہنے میں) سچا ہے تو یہ جنت میں داخل ہو گا۔
کتاب: اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔
62: سیدنا ابن عمر (ر) نبی (ص) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ (ص) نے فرمایا کہ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے ہے (یہ تشبیہ ہے کہ اسلام کو ایک گھر کی مانند سمجھو یا ایک چھت کی مانند کہ جس میں پانچ ستون ہوں) اللہ جل جلالہ کی توحید (وحدانیت کی گواہی دینا) نماز کو قائم کرنا، زکوٰة دینا، رمضان کے روزے رکھنا اورحج کرنا۔ ایک شخص بولا کہ حج اور رمضان کے روزے رکھنا (یعنی حج کو پہلے کیا اور روزوں کو بعد) سیدنا ابن عمر (ر) نے کہا رمضان کے روزے اور حج۔ میں نے رسول اللہ (ص) سے یوں ہی سنا ہے۔
کتاب: کونسا اسلام بہتر ہے؟
63: سیدنا عبداللہ بن عمرو (ر) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ (ص) سے پوچھا کہ کون سا اسلام بہتر ہے؟ آپ (ص) نے فرمایا: یہ کہ تو (بھوکے شخص اور مہمان کو) کھانا کھلائے اور ہر شخص کو سلام کرے خواہ تو اس کو پہنچانتا ہو یا نہ پہچانتا ہو۔
کتاب: اسلام ، اپنے سے پہلے گناہ ختم کر دیتا ہے۔ اسی طرح حج اور ہجرت سے بھی سابقہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔
64: عبدالرحمن بن شماسہ المہری کہتے ہیں کہ ہم سیدنا عمرو بن عاص (ر) کے پاس گئے اور وہ اس وقت قریب المرگ تھے تو وہ (سیدنا عمرو (ر)) بہت دیر تک روئے اور اپنا منہ دیوار کی طرف پھیر لیا تو ان کے بیٹے کہنے لگے کہ اے ہمارے والد! آپ کیوں روتے ہیں؟ کیا رسول اللہ (ص) نے آپ کو یہ خوشخبری نہیں دی، یہ خوشخبری نہیں دی؟ تب انہوں نے اپنا منہ سامنے کیا اور کہا کہ سب باتوں میں افضل ہم اس بات کی گواہی دینے کو سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں اور محمد (ص) اس کے بھیجے ہوئے ہیں اور میرے اوپر تین حال گزرے ہیں۔ ایک حال یہ تھا کہ جو میں نے اپنے آپ کو دیکھا کہ رسول اللہ (ص) سے زیادہ میں کسی کو بُرا نہیں جانتا تھا اور مجھے آرزو تھی کہ کسی طرح میں قابو پاؤں اور آپ (ص) کو (معاذ اللہ) قتل کر دوں پھر اگر میں اسی حال میں مر جاتا تو جہنمی ہوتا۔ دوسرا حال یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں اسلام کی محبت ڈالی اور میں رسول اللہ (ص) کے پاس آیا اور میں نے کہا کہ اپنا داہنا ہاتھ بڑھائیے تاکہ میں آپ سے (اسلام پر) بیعت کروں۔ آپ (ص) نے اپنا ہاتھ بڑھایا تو میں نے اس وقت اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ اے عمرو! تجھے کیا ہوا؟ میں نے کہا کہ میں ایک شرط کرنا چاہتا ہوں۔ آپ (ص) نے فرمایا کہ کونسی شرط؟ میں نے کہا کہ یہ شرط کہ میرے تمام گناہ معاف ہو جائیں گے (جو میں نے اب تک کئے ہیں) آپ (ص) نے فرمایا کہ اے عمرو! تو نہیں جانتا ہے اسلام پہلے تمام گناہوں کو گرا دیتا ہے اور اسی طرح ہجرت پہلے گناہوں کو گرا دیتی ہے۔ اسی طرح حج تمام پیشتر گناہوں کو گرا دیتا ہے۔ پھر مجھے رسول اللہ (ص) سے زیادہ کسی سے محبت نہ تھی اور نہ میری نگاہ میں آپ سے زیادہ کسی کی شان تھی اور میں آپ (ص) کے جلال کی وجہ سے آپ کو آنکھ بھر کر نہ دیکھ سکتا تھا۔ اور اگر کوئی مجھ سے آپ (ص) کی صورت کے بارے میں پوچھے تو میں بیان نہیں کر سکتا کیونکہ میں آنکھ بھر کر آپ (ص) کو نہیں دیکھ سکتا تھا اور اگر میں اس حال میں مر جاتا تو امید تھی کہ جنتی ہوتا اس کے بعد چند اور چیزوں میں ہمیں پھنسنا پڑا۔ میں نہیں جانتا کہ ان کی وجہ سے میرا کیا حال ہو گا۔ تو جب میں مر جاؤں تو میرے جنازے کیساتھ کوئی رونے چلانے والی نہ ہو اور نہ آگ ہو اور جب مجھے دفن کرنا تو مجھ پر اچھی طرح مٹی ڈال دینا اور میری قبر کے ارد گرد اتنی دیر تک کھڑے رہنا جتنی دیر میں اونٹ کاٹا جاتا ہے اور اس کا گوشت بانٹا جاتا ہے تاکہ تم سے میرا دل بہلے(اور میں تنہائی میں گھبرا نہ جاؤں) اور دیکھ لوں کہ میں پروردگار کے وکیلوں(فرشتوں ) کو کیا جواب دیتا ہوں۔
کتاب: مسلمان کو گالی دینا گناہ ہے اور اس سے لڑائی کرنا کفر ہے۔
65: سیدنا عبداللہ بن مسعود (ر) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ مسلمان کو گالی دینا (یا اس کاعیب بیان کرنا) فسق ہے (یعنی گناہ ہے اور ایسا کرنے والا فاسق ہو جاتا ہے) اور اس سے لڑنا کفر ہے۔
کتاب: جب آدمی کا اسلام اچھا ہو تو جاہلیت کے اعمال پر مواخذہ نہیں ہوتا۔
66: سیدنا عبداللہ بن مسعود (ر) کہتے ہیں کہ لوگوں نے رسول اللہ (ص) سے کہا کہ یارسول اللہ (ص)! کیا ہم سے ان کاموں کی بھی پوچھ گچھ ہو گی جو ہم نے جاہلیت کے زمانے میں کئے ہیں؟ آپ (ص) نے فرمایا کہ تم میں سے جو اچھی طرح اسلام لایا (یعنی دل سے سچا مسلمان ہوا) اس سے تو جاہلیت کے کاموں کا مؤاخذہ نہ گا اور جو بُرا ہے (یعنی صرف ظاہر میں مسلمان ہوا اور اس کے دل میں کفر رہا) تو اس سے جاہلیت اور اسلام کے کاموں ، دونوں کے بارے میں مؤاخذہ ہوگا۔
کتاب: جب تم میں سے کسی کا اسلام اچھا ہو تو ہر نیکی، جسے وہ کرتا ہے ، دس گنا لکھی جاتی ہے۔
67: سیدنا ابوہریرہ (ر) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ اللہ عزوجل نے فرمایا کہ جب میرا بندہ دل میں نیک کام کرنے کی نیت کرتا ہے تو میں اس کیلئے ایک نیکی لکھ لیتا ہوں، جب تک کہ اس نے وہ نیکی نہیں کی۔ پھر اگروہ نیکی کی تو اس کو میں اس کیلئے دس نیکیاں (ایک کے بدلے) لکھتا ہوں اور جب دل میں برائی کرنے کی نیت کرتا ہے تو میں اس کو بخش دیتا ہوں جب تک کہ وہ بُرائی (پر عمل) نہ کرے۔ اور پھر جب وہ برائی (پر عمل) کرے تو اس کیلئے ایک ہی بُرائی لکھتا ہوں اور رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ فرشتے کہتے ہیں کہ اے پروردگار یہ تیرا بندہ ہے ، بُرائی کرنا چاہتا ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ ان سے زیادہ اپنے بندے کو دیکھ رہا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دیکھتے رہو! اگر وہ بُرائی کرے تو ایک بُرائی ویسی ہی لکھ لو اور اگر نہ کرے (اور اس بُرائی کے ارادے سے باز رہے) تو اس کیلئے ایک نیکی لکھ لو کیونکہ اس نے میرے ڈر سے اس بُرائی کو چھوڑ دیا اور رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ جب تم میں سے کسی کا اسلام بہتر ہوتا ہے (یعنی خالص اور سچا، نفاق سے خالی) تو پھر وہ جو نیکی کرتا ہے اس کیلئے ایک کے بدلے دس نیکیاں سات سو گنا تک لکھی جاتی ہیں اور جو بُرائی کرتا ہے تو اس کیلئے ایک ہی بُرائی لکھی جاتی ہے یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ سے مل جاتا ہے۔
68: سیدنا ابوہریرہ (ر) نے کہا کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا: اللہ تبارک و تعالیٰ نے میری امت سے(گناہ کے) ان خیالات سے درگزر کیا جو دل میں آئیں جب تک کہ ان کو زبان سے نہ نکالیں یا ان پر عمل نہ کریں۔
کتاب: مسلمان وہی ہے جس سے دیگر مسلمان محفوظ ہوں۔
69: سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص (ر) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ (ص) سے پوچھا کہ کونسا مسلمان بہتر ہے؟ آپ (ص) نے فرمایا کہ وہ مسلمان جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان بچے رہیں (یعنی نہ زبان سے کسی مسلمان کی بُرائی کرے اور نہ ہاتھ سے کسی کو ایذا دے)۔
کتاب: جس نے جاہلیت میں کوئی نیک عمل کیا پھر وہ مسلمان ہو گیا۔
70: عروہ بن زبیر سے روایت ہے اور انہیں سیدنا حکیم بن حزام (ر) نے بتایا کہ انہوں (سیدنا حکیم) نے رسول اللہ (ص) سے عرض کیا کہ یارسول اللہ (ص)! آپ کیا سمجھتے ہیں کہ جو نیک کام میں نے جاہلیت کے زمانہ میں کئے تھے جیسے صدقہ یا غلام کا آزاد کرنایا ناتاملانا، ان کا ثواب مجھے ملے گا؟ آپ (ص) نے فرمایا کہ تو اسی نیکی پر اسلام لایا ہے جو کہ پہلے کر چکا ہے۔ (یعنی وہ نیکی قائم ہے، اب اس پر اسلام زیادہ ہوا)۔
 

مہوش علی

لائبریرین
کتاب: آزمائش سے ڈرانا۔
71: سیدنا حذیفہ (ر) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ (ص) کیساتھ تھے، آ پ] نے فرمایا کہ گنو کتنے آدمی اسلام کے قائل ہیں؟ پھر ہم نے کہا کہ یارسول اللہ]! کیا آپ (ص) ہم پر (دشمنوں کی وجہ سے کوئی آفت آنے سے) ڈرتے ہیں؟ اور بیشک ہم چھ سو آدمیوں سے لیکر سات سو تک ہیں۔ آپ (ص) نے فرمایا کہ تم نہیں جانتے شاید مصیبت میں پڑ جاؤ۔ سیدنا حذیفہ (ر) نے کہا کہ پھر ایسا ہی ہوا کہ ہم مصیبت میں پڑ گئے یہاں تک کہ بعض ہم میں سے نماز بھی چپکے سے (چھپ کر) پڑھتے۔
کتاب: اسلام کی ابتداء غربت سے ہوئی (اور) عنقریب اسلام پہلی حالت میں لوٹ آئے گا اور وہ دو مسجدوں (مکہ و مدینہ) میں سمٹ کر رہ جائے گا۔
72: سیدنا ابن عمر (ر) نبی (ص) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ (ص) نے فرمایا کہ اسلام غربت میں شروع ہوا اور پھر غریب ہو جائے گا جیسے کہ شروع ہوا تھا اور وہ سمٹ کر دونوں مسجدوں (مکہ مدینہ) کے درمیان میں آجائے گا، جیسے کہ سانپ سمٹ کر اپنے سوراخ (بل) میں چلا جاتا ہے۔
کتاب: رسول اللہ (ص) کی طرف وحی کی ابتداء۔
73: عروہ بن زبیر سے روایت ہے اور انہیں اُمّ المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی،انہوں نے کہا کہ پہلے پہل جو وحی رسول اللہ (ص) پر شروع ہوئی وہ یہ تھی کہ آپ (ص) کا خواب سچا ہونے لگا۔ آپ (ص) جب کوئی خواب دیکھتے تو وہ صبح کی روشنی کی طرح نمودار ہوتا۔ پھر آپ (ص) کو تنہائی کا شوق ہوا۔ آپ (ص) غارِ حرا میں اکیلے تشریف رکھتے، کئی کئی راتوں تک وہاں عبادت کیا کرتے اور گھر میں نہ آتے، اپنا توشہ ساتھ لے جاتے۔ پھر اُمّ المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس لوٹ کر آتے اور وہ اتنا ہی اور توشہ تیار کر دیتیں یہاں تک کہ اچانک آپ (ص) پر وحی اتری (اور آپ (ص) کو وحی کی توقع نہ تھی) آپ (ص) اسی غارِ حرا میں تھے کہ فرشتہ آپ (ص) کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ پڑھو! آپ (ص) نے فرمایا کہ میں پڑھا ہوا نہیں۔ (آ پ] نے فرمایا کہ) اس فرشتے نے مجھے پکڑ کر دبوچا، اتنا کہ وہ تھک گیا یا میں تھک گیا، پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہا کہ پڑھ! میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں۔ اس نے پھر مجھے پکڑا اور دبوچا یہاں تک کہ تھک گیا، پھر چھوڑ دیا اور کہا کہ پڑھ! میں نے کہا میں پڑھا ہوا نہیں۔ اس نے پھر مجھے پکڑا اور دبوچا یہاں تک کہ تھک گیا، پھر چھوڑ دیا اور کہا کہ ”پڑھ! اپنے رب کے نام سے، جس نے پیدا کیا۔ جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا۔ تو پڑھتا رہ، تیرا رب بڑے کرم والا ہے۔ جس نے قلم کے ذریعے (علم) سکھایا۔ جس نے انسان کو وہ سکھایا جسے وہ نہیں جانتا تھا“۔ یہ سن کر رسول اللہ (ص) لوٹے اور آپ (ص) کے کندھے اور گردن کے بیچ کا گوشت (ڈر اور خوف سے) پھڑک رہا تھا (چونکہ یہ وحی کا پہلا مرحلہ تھا اور آپ (ص) کو عادت نہ تھی، اس واسطے ہیبت چھا گئی) یہاں تک کہ آپ (ص) اُمّ المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچے اور فرمایا کہ مجھے (کپڑوں سے) ڈھانپ دو، ڈھانپ دو۔ انہوں ڈھانپ دیا یہاں تک کہ آپ (ص) کا ڈر جاتا رہا اس وقت اُمّ المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ اے خدیجہ مجھے کیا ہو گیا اور سب حال بیان کیا اور کہا کہ مجھے اپنی جان کا خوف ہے۔ اُمّ المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا ہرگز نہیں آپ خوش رہیں۔ اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی رسوا نہ کرے گا یا کبھی رنجیدہ نہ کرے گا۔ اللہ کی قسم آپ ناتے کو جوڑتے ہیں، سچ بولتے ہیں اور بوجھ اٹھاتے ہیں (یعنی عیال او راطفال اور یتیم اور مسکین کیساتھ تعاون کرتے ہیں، ان کا بار اٹھاتے ہیں) اور نادار کیلئے کمائی کرتے ہیں اور مہمان کی خاطرداری کرتے ہیں اور سچی آفتوں (جیسے کوئی قرض دار یا مفلس ہو گیا یا اور کسی تباہی )میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ پھر اُمّ المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ (ص) کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں اور وہ اُمّ المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کے چچازاد بھائی تھے (کیونکہ ورقہ نوفل کے بیٹے تھے اور نوفل اسد کے بیٹے، اور اُمّ المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا خویلد کی بیٹی تھیں اور خویلد اسد کے بیٹے تھے تو ورقہ اور خدیجہ کے باپ بھائی بھائی تھے) اور جاہلیت کے زمانہ میں وہ نصرانی ہو گئے تھے اور عربی لکھنا جانتے تھے، تو جتنا اللہ تعالیٰ کو منظور ہوتا انجیل کو عربی زبان میں لکھتے تھے اور بہت بوڑھے تھے، ان کی بینائی (بڑھاپے کی وجہ سے) جاتی رہی تھی۔ اُمّ المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ان سے کہا کہ اے چچا! (وہ چچا کے بیٹے تھے لیکن بزرگی کیلئے ان کو چچا کہا اور ایک روایت میں چچا کے بیٹے ہیں) اپنے بھتیجے کی سنو۔ ورقہ نے کہا کہ اے میرے بھتیجے! تم نے کیا دیکھا؟ رسول اللہ (ص) نے جو کچھ کیفیت دیکھی تھی سب بیان کی تو ورقہ نے کہا کہ یہ تو وہ ناموس ہے جو موسیٰ 6 پر اتری تھی۔(ناموس سے مراد جبریل 6 ہیں) کاش میں اس زمانہ میں جوان ہوتا، کاش میں اس وقت تک زندہ رہتا جب تمہاری قوم تمہیں نکال دے گی۔ رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ کیا وہ مجھے نکال دیں گے؟ ورقہ نے کہا ہاں! جب کوئی شخص دنیا میں وہ لے کر آیا، جسے تم لائے ہو (یعنی شریعت اور دین) تو لوگ اس کے دشمن ہو گئے اور اگر میں اس دن کو پاؤں گا تو اچھی طرح تمہاری مدد کروں گا
74: یحییٰ کہتے ہیں کہ میں نے ابو سلمہ سے پوچھا کہ سب سے پہلے قرآن میں سے کیا اترا؟ انہوں نے کہا کہ ﴿یَآیُّہَا الْمُدَثِّرُ﴾ میں نے کہا کہ یا ﴿اِقْرَأْ﴾ (سب سے پہلے اتری؟) انہوں نے کہا کہ میں نے سیدنا جابر بن عبداللہ (ر) سے پوچھا کہ قرآن میں سب سے پہلے کیا اترا تو انہوں نے کہا کہ ﴿یَآیُّہَا الْمُدَثِّرُ﴾میں نے کہا کہ یا ﴿اِقْرَأْ﴾ (سب سے پہلے اتری؟)سیدنا جابر (ر) نے کہا کہ میں تم سے وہ حدیث بیان کرتا ہوں جو رسول اللہ (ص) نے ہم سے بیان کی تھی۔ آپ (ص) نے فرمایا کہ میں (غار) حرا میں ایک مہینے تک رہا۔ جب میری رہنے کی مدت پوری ہو گئی تو میں اترا اور وادی کے اندر چلا، کسی نے مجھے آواز دی، میں نے سامنے اور پیچھے اور دائیں اور بائیں دیکھا، کوئی نظر نہ آیا۔ پھر مجھے کسی نے آواز دی، میں نے دیکھا مگر کسی کو نہ پایا۔ پھر کسی نے مجھے آواز دی تو میں نے سر اوپر اٹھاکر دیکھا تو وہ ہوا میں ایک تخت پر ہیں یعنی جبریل 6۔ مجھے یہ دیکھ کر سخت (ہیبت کے مارے) لرزہ چڑھ آیا۔ تب میں خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا اور میں نے کہا کہ مجھے کپڑا اڑھا دو! انہوں نے کپڑا اڑھا دیا اور پانی (ہیبت دور کرنے کیلئے) میرے اوپر ڈالا۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں اتاریں۔ ”اے کپڑا اوڑھنے والے۔ کھڑا ہو جا اور آگاہ کر دے۔ اور اپنے رب ہی کی بڑائیاں بیان کر۔ اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھ ……“ (المدثر 1,4)۔
کتاب: وحی کا کثرت سے اور لگاتار نازل ہونا۔
75: سیدنا انس بن مالک (ر) کہتے ہیں کہ بے شک اللہ عزوجل نے رسول اللہ (ص) پر آپ (ص) کی وفات سے قبل پے درپے وحی اتاری حتی کہ آپ (ص) نے وفات پائی۔ اور سب سے زیادہ وحی آپ (ص) کی وفات کے دن نازل ہوئی۔
کتاب: رسول اللہ (ص) کا آسمانوں پر تشریف لے جانا (یعنی معراج) اور نمازوں کا فرض ہونا۔
76: سیدنا انس بن مالک (ر) سے روایت ہے کہ نبی (ص) نے فرمایا: میرے سامنے ایک سفید براق لایا گیا، اور وہ ایک جانور ہے سفید رنگ کا، لمبا، گدھے سے اونچا اور خچر سے چھوٹا، اپنے سم وہاں رکھتا ہے جہاں تک اس کی نگاہ پہنچتی ہے (تو ایک لمحہ میں آسمان تک جا سکتا ہے)۔ فرمایا: میں اس پر سوار ہوا اور بیت المقدس تک آیا۔ فرمایا: وہاں میں نے اس جانور کو اس حلقہ سے باندھ دیا، جس سے اور پیغمبر اپنے اپنے جانوروں کو باندھا کرتے تھے (یہ حلقہ مسجد کے دروازے پر ہے اور باندھ دینے سے یہ معلوم ہوا کہ انسان کو اپنی چیزوں کی احتیاط اور حفاظت ضروری ہے اور یہ توکل کے خلاف نہیں) پھر میں مسجد کے اندر گیا اور دو رکعت نماز پڑھی پھر باہر نکلا تو جبریل 6 دو برتن لے کر آئے، ایک میں شراب اور دوسرے میں دودھ تھا۔ میں نے دودھ پسند کیاتو جبریل نے کہا، آپ نے فطرت کو پسند کیا۔ پھرجبریل 6مجھے آسمان پر لے کر گئے، (جب وہاں پہنچے) تو فرشتوں سے دروازہ کھولنے کیلئے کہا، انہوں نے پوچھا کون ہے؟ جبریل نے کہاکہ جبریل ہے۔ انہوں نے کہا کہ تمہارے ساتھ دوسرا کون ہے؟ جبریل 6نے کہا کہ محمد (ص) ہیں۔ فرشتوں نے پوچھا کہ کیا وہ بلائے گئے تھے؟ جبریل 6 نے کہا کہ ہاں بلائے گئے ہیں۔ پھر ہمارے لئے دروازہ کھولا گیا اور میں نے آدم 6 کو دیکھا تو انہوں نے مجھے مرحبا کہا اور میرے لئے بہتری کی دعا کی۔ پھر جبریل 6ہمارے ساتھ دوسرے آسمان پر چڑھے اور دروازہ کھلوایا۔ فرشتوں نے پوچھا کہ کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ جبریل۔ فرشتوں نے پوچھا کہ تمہارے ساتھ دوسرا کون شخص ہے؟ انہوں نے کہا کہ محمد (ص) ہیں۔ فرشتوں نے کہا کہ ان کو بلانے کا حکم ہوا تھا؟ جبریل 6نے کہا کہ ہاں حکم ہوا ہے۔ پھر دروازہ کھلا تو میں نے دونوں خالہ زاد بھائیوں کو دیکھا یعنی عیسیٰ بن مریم اور یحییٰ بن زکریا علیہما السلام کو۔ ان دونوں نے مرحبا کہا اور میرے لئے بہتری کی دعا کی۔ پھر جبریل 6 ہمارے ساتھ تیسرے آسمان پر چڑھے اور دروازہ کھلوایا، تو فرشتوں نے کہا کہ کون ہے؟ جبریل 6نے کہا کہ جبریل۔ فرشتوں نے کہا کہ تمہارے ساتھ دوسراکو ن ہے؟ جبریل 6 نے کہا کہ محمد (ص) ہیں۔ فرشتوں نے کہا کہ کیا ان کو بلانے کیلئے پیغام گیا تھا؟ جبریل 6نے کہا کہ ہاں پیغام گیا تھا۔ پھر دروازہ کھلا تو میں نے یوسف 6 کو دیکھا۔ اللہ نے حسن (خوبصورتی) کا آدھا حصہ ان کو دیا تھا۔ انہوں نے مجھے مرحبا کہا اور نیک دعا کی۔ پھر جبریل 6 ہمیں لے کر چوتھے آسمان پر چڑھے اور دروازہ کھلوایا تو فرشتوں نے پوچھا کہ کون ہے ؟جبریل 6نے کہا کہ جبریل۔ انہوں نے پوچھا کہ تمہارے ساتھ دوسرا کون ہے؟ جبریل 6 نے کہا کہ محمد (ص) ہیں۔ فرشتوں نے کہا کہ کہ وہ بلوائے گئے ہیں؟ جبریل 6نے کہا کہ ہاں بلوائے گئے ہیں۔ پھر دروازہ کھلا تو میں نے ادریس 6 کو دیکھا۔ انہوں نے مرحبا کہا اور مجھے اچھی دعا دی۔ اللہ جل جلالہ نے فرمایا ہے کہ ”ہم نے ادریس کو اونچی جگہ پر اٹھا لیا“ (تو اونچی جگہ سے یہی چوتھا آسمان مراد ہے)۔ پھر جبریل 6 ہمارے ساتھ پانچویں آسمان پر چڑھے اور انہوں نے دروازہ کھلوایا۔ فرشتوں نے پوچھا کہ کون؟ کہا کہ جبریل۔ فرشتوں نے پوچھا کہ تمہارے سا تھ کون ہے؟ جبریل 6نے کہا کہ محمد (ص) ہیں۔ فرشتوں نے کہا کہ کیا وہ بلائے گئے ہیں؟ جبریل 6نے کہا کہ ہاں بلوائے گئے ہیں۔ پھر دروازہ کھلا تو میں نے ہارون 6 کو دیکھا۔ انہوں نے مرحبا کہا اور مجھے نیک دعا دی۔ پھر جبریل 6 ہمارے ساتھ چھٹے آسمان پر پہنچے اور دروازہ کھلوایا۔ فرشتوں نے پوچھا کہ کون ہے؟ جبریل 6 نے کہا کہ جبریل۔ فرشتوں نے پوچھا کہ تمہارے ساتھ اور کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ محمد (ص) ہیں۔ فرشتوں نے کہا کہ اللہ نے ان کو لے کر آنے کیلئے پیغام بھیجا تھا؟ جبریل 6نے کہا، ہاں! بھیجا تھا۔ پھر دروازہ کھلا تو میں نے موسیٰ 6کو دیکھا، انہوں نے مرحبا کہا اور مجھے اچھی دعا دی۔ پھر جبریل 6 ہمارے ساتھ ساتویں آسمان پر چڑھے اور دروازہ کھلوایا۔ فرشتوں نے پوچھا کہ کون ہے؟ جبریل 6 نے کہا کہ جبریل ہوں۔ پوچھا کہ تمہارے ساتھ اور کون ہے؟ جبریل 6 نے کہا کہ محمد (ص) ہیں۔ فرشتوں نے پوچھا کہ کیا وہ بلوائے گئے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ہاں بلوائے گئے ہیں۔ پھر دروازہ کھلا تو میں نے ابراہیم 6 کو دیکھا کہ وہ بیت المعمور سے اپنی پیٹھ کا تکیہ لگائے ہوئے بیٹھے تھے۔ (اس سے معلوم ہوا کہ قبلہ کی طرف پیٹھ کر کے بیٹھنا گناہ نہیں) اور اس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے جاتے ہیں کہ پھر کبھی ان کی باری نہیں آئے گی۔ پھر جبریل 6 مجھے سدرة المنتہیٰ کے پاس لے گئے۔ اس کے پتے اتنے بڑے تھے جیسے ہاتھی کے کان اور اس کے بیر قلہ جیسے۔ (ایک بڑا گھڑا جس میں دو مشک یا زیادہ پانی آتا ہے) پھر جب اس درخت کو اللہ تعالیٰ کے حکم نے ڈھانکا تو اس کا حال ایسا ہو گیا کہ کوئی مخلوق اس کی خوبصورتی بیان نہیں کر سکتی۔ پھر اللہ جل جلالہ نے میرے دل میں القاء کیا جو کچھ القاء کیا اور پچاس نمازیں رات اور دن میں مجھ پر فرض کیں۔ جب میں وہاں سے اترا اور موسیٰ 6 تک پہنچا تو انہوں نے پوچھا کہ تمہارے پروردگار نے تمہاری امت پر کیا فرض کیا؟ میں نے کہا کہ پچاس نمازیں فرض کی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پھر اپنے پروردگار کی طرف لوٹ جاؤ اور تخفیف چاہو، کیونکہ تمہاری امت کو اتنی طاقت نہ ہو گی اور میں نے بنی اسرائیل کو آزمایا اور ان کا امتحان لیا ہے۔ میں اپنے پروردگار کے پاس لوٹ گیا اور عرض کیا کہ اے پروردگار! میری امت پر تخفیف کر۔ اللہ تعالیٰ نے پانچ نمازیں گھٹا دیں۔ میں لوٹ کر موسیٰ 6کے پاس آیا اور کہا کہ پانچ نمازیں اللہ تعالیٰ نے مجھے معاف کر دیں۔ انہوں نے کہا تمہاری امت کو اتنی طاقت نہ ہوگی ، تم پھر اپنے رب کے پاس جاؤ اور تخفیف کراؤ۔ آپ (ص) نے فرمایا کہ میں اس طرح برابر اپنے پروردگار کے درمیان آتا جاتا رہا، یہاں تک کہ اللہ جل جلالہ نے فرمایا کہ اے محمد ((ص))! ہر دن اور رات میں پانچ نمازیں ہیں ، اور ہر ایک نماز میں دس نمازوں کا ثواب ہے۔ تو وہی پچاس نمازیں ہوئیں (سبحان اللہ! مالک کی اپنے بندوں پر کیسی عنایت ہے کہ پڑھیں تو پانچ نمازیں اور ثواب پچاس نمازوں کا ملے) اور جو کوئی شخص نیک کام کرنے کی نیت کرے اور پھر اس کو نہ کرسکے تو اس کو ایک نیکی کا ثواب ملے گا اور جو کرے تو اس کو دس نیکیوں کا اور جو شخص برائی کرنے کی نیت کرے اور پھر اس کو نہ کرے، تو کچھ نہ لکھا جائے گا اور اگر کر لے تو ایک ہی بُرائی لکھی جائے گی۔ پھر آپ (ص) نے فرمایا کہ میں اترا اور موسیٰ 6 کے پاس آیا تو انہوں نے کہا کہ پھر اپنے رب کے پاس لوٹ جاؤ اور تخفیف چاہو۔ رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ میں اپنے رب کے پاس بار بارگیا یہاں تک کہ میں اس سے شرما گیا ہوں۔ (یعنی اب جانے سے شرماتا ہوں)۔
کتاب: نبی (ص) کا انبیاء کرام علیہم السلام کاتذکرہ کرنا۔
77: سیدنا ابن عباس (ر) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ (ص) کیساتھ مکہ اور مدینہ کے درمیان چل رہے تھے کہ ایک وادی پر گزرے۔ آپ (ص) نے پوچھا کہ یہ کون سی وادی ہے؟ لوگوں نے کہا کہ وادی ازرق ہے۔ آپ (ص) نے فرمایا کہ گویا میں موسیٰ 6کو دیکھ رہا ہوں، (پھر موسیٰ 6 کا رنگ اور بالوں کا حال بیان کیا جو (راوی حدیث) داؤد بن ابی ہند کو یادنہ رہا)۔ جو انگلیاں اپنے کانوں میں رکھے ہوئے، بلند آواز سے تلبیہ پکارتے ہوئے اس وادی میں سے جا رہے ہیں۔ سیدنا عبداللہ (ر) نے کہا کہ ہم پھر چلے یہاں تک کہ ایک ٹیکری پر آئے۔ آپ (ص) نے فرمایا کہ یہ کون سی ٹیکری ہے؟ لوگوں نے کہا کہ ’ہرشا‘ کی یا ’لفت‘ کی۔ آپ (ص) نے فرمایا: گویا کہ میں یونس 6 کو دیکھ رہا ہوں کہ صوف کا ایک جبہ پہنے ہوئے ایک سرخ اونٹنی پر سوار ہیں اور ان کی اونٹنی کی نکیل کھجور کے چھال کی ہے، وہ اس وادی میں لبیک کہتے ہوئے جا رہے ہیں۔
78: سیدنا ابوہریرہ (ر) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ جب مجھے معراج کرائی گئی تو میں موسیٰ 6 سے ملا۔ پھر آپ (ص) نے ان کی صورت بیان کی۔ میں خیال کرتا ہوں کہ آپ (ص) نے یوں فرمایا (یہ شک راوی ہے) کہ وہ لمبے، چھریرے بدن والے، سیاہ بالوں والے جیسے شنوء ة کے لوگ ہوتے تھے۔ اور فرمایا کہ میں عیسیٰ 6 سے ملا۔ پھر آپ (ص) نے ان کی صورت بیان کی کہ وہ درمیانہ قدوالے، سرخ رنگت والے جیسے کہ ابھی کوئی حمام سے نکلا ہو (یعنی ایسے تروتازہ اور خوش رنگ) تھے اور آپ (ص) نے فرمایا کہ میں ابراہیم 6کو دیکھا، تو میں ان کی اولاد میں سب سے زیادہ ان سے مشابہ ہوں۔ آپ (ص) نے فرمایا کہ پھر میرے پاس دو برتن لائے گئے۔ ایک میں دودھ تھا اور ایک میں شراب، اور مجھ سے کہا گیا کہ جس کو چاہو پسند کر لو۔میں نے دودھ کا برتن لے لیا اور دودھ پیا تو اس (فرشتے نے جو یہ دونوں برتن لے کر آیا تھا) کہا کہ تم کو فطرت (ہدایت) کی راہ ملی یا تم فطرت (ہدایت) کو پہنچ گئے۔ اور اگر تم شراب کو اختیار کرتے تو تمہاری امت گمراہ ہو جاتی۔
کتاب: نبی (ص) کا مسیح عیسیٰ 6 اور دجّال کا تذکرہ فرمانا۔
79: سیدنا عبداللہ بن عمر (ر) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) نے ایک دن لوگوں کے درمیان مسیح دجال کا ذکر کیا تو فرمایا: کہ اللہ جل جلالہ کانا نہیں ہے اور مسیح دجال داہنی آنکھ سے کانا ہے۔ اس کی کانی آنکھ ایسی ہے جیسے پھولا ہوا انگور۔ (پس یہی ایک کھلی نشانی ہے اس بات کی کہ وہ مردود اپنے خدائی دعوے میں جھوٹا ہے)۔ آپ (ص) نے فرمایا کہ ایک رات خواب میں میں نے اپنے آپ کو کعبہ کے پاس دیکھا کہ ایک گندمی رنگ کا شخص جیسے کوئی بہت اچھا گندمی رنگ کا شخص ہوتا ہے، اس کے بال کندھوں تک تھے اور بالوں میں کنگھی کی ہوئی تھی، سر میں سے پانی ٹپک رہا تھا، اور وہ اپنے دونوں ہاتھ دو آدمیوں کے کندھوں پر رکھے ہوئے خانہ کعبہ کا طواف کر رہا تھا۔ میں نے پوچھا کہ کون شخص ہے؟ لوگوں نے کہا کہ یہ مریم کے بیٹے مسیح علیہما السلام ہیں۔ اور ان کے پیچھے میں نے ایک اور شخص کو دیکھا جو کہ سخت گھونگھریالے بالوں والا، داہنی آنکھ کا کانا تھا۔ میں نے جو لوگ دیکھے ان سب میں ابن قطن اس سے زیادہ مشابہ ہے، وہ بھی اپنے دونوں ہاتھ دو آدمیوں کے کندھوں پر رکھے ہوئے طواف کر رہا تھا۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہاکہ یہ مسیح دجال ہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
کتاب: نبی (ص) کا انبیاء علیہم السلام کو نماز پڑھانا۔
80: سیدنا ابوہریرہ (ر) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا: میں نے اپنے آپ کو حطیم میں دیکھا اور (دیکھا کہ) قریش مجھ سے میری سیر (معراج) کا حال پوچھ رہے تھے، تو انہوں نے بیت المقدس کی کئی چیزیں پوچھیں جن کو میں ذہن میں محفوظ نہیں رکھتا تھا۔ مجھے بڑا رنج ہوا، ایسا رنج کبھی نہیں ہوا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس کو اٹھا کر میرے سامنے کر دیا، میں اس کو دیکھنے لگا اور اب جو بات وہ پوچھتے تو میں بتا دیتا تھا۔ اور میں نے اپنے آپ کو پیغمبروں کی جماعت میں پایا، دیکھا کہ موسیٰ 6 کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے ہیں، وہ ایک درمیانہ قداور گٹھے ہوئے جسم کے شخص ہیں جیسے کہ (قبیلہ) شنوء ة کے لوگ ہوتے ہیں۔ اور عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کو بھی دیکھا کہ وہ بھی کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے ہیں، اور میں ان کے سب سے زیادہ مشابہ عروہ ابن مسعود ثقفی (ر) کو پاتا ہوں۔ اور دیکھا کہ ابراہیم 6بھی کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے ہیں، ان کے سب سے زیادہ مشابہ تمہارے صاحب (یعنی اپنے آپ کو مراد لیا) ہیں۔ اور پھر نماز کا وقت آیا تو میں نے امامت کی اور سب پیغمبروں نے میرے پیچھے نماز پڑھی۔ جب میں نماز سے فارغ ہوا تو ایک بولنے والا بولا کہ اے محمد (ص)! یہ جہنم کا داروغہ ”مالک“ ہے اس کو سلام کرو۔ میں نے اس کی طرف دیکھا تو اس نے خود پہلے مجھے سلام کیا۔
کتاب: معراج (والی رات )میں نبی (ص) کا سدرة المنتہی تک پہنچنا۔
81: سیدنا عبداللہ بن مسعود (ر) کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ (ص) کو معراج کرائی گئی تو آپ (ص) سدرة المنتہیٰ تک لے جایا گیا اور وہ چھٹے آسمان میں ہے۔ زمین سے جو چڑھتا ہے، وہ یہیں آ کر ٹھہر جاتا ہے پھر لے لیا جاتا ہے۔ اور جو اوپر سے اترتا ہے، وہ بھی یہیں ٹھہرتا ہے پھر لے لیا جاتا ہے۔ اللہ عزوجل نے فرمایا کہ ”جبکہ سدرہ (بیری) کو چھپائے لیتی تھی وہ چیز جو اس پر چھا رہی تھی“ (النجم : 16) سیدنا عبداللہ صنے کہا کہ یعنی سونے کے پتنگے۔ پھر رسول اللہ (ص) کو وہاں تین چیزیں دی گئیں۔ ایک تو پانچ نمازیں، دوسری سورئہ بقرہ کی آخری آیتیں اور تیسرے اللہ تعالیٰ نے آپ (ص) کی امت میں سے اس شخص کو بخش دیا جو اللہ کیساتھ شرک نہ کرے گا ، (باقی تمام تباہ کرنے والے گناہوں کو معاف کر دیا جاتاہے سوائے شرک کے)۔
کتاب: اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنَ اَوْ اَدْنیٰ﴾ کا مطلب
82: شیبانی سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے زِرّ بن حبیش (ر) سے اللہ تعالیٰ کے اس قول ”پس وہ دو کمانوں کے بقدر فاصلہ رہ گیا بلکہ اس سے بھی کم“ (النجم : 9) کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ مجھ سے سیدنا عبداللہ بن مسعود (ر) نے بیان کیا کہ رسول اللہ (ص) نے جبرائیل 6 کو دیکھاتھا ، ان کے چھ سو پرتھے۔
83: سیدنا ابن عباس (ر) اللہ تعالیٰ کے قول ”دل نے جھوٹ نہیں کہا جسے (پیغمبر نے)دیکھا … اسے تو ایک مرتبہ اور بھی دیکھا تھا“ (النجم : 11,13) کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے اللہ تعالیٰ کو اپنے دل سے دو بار دیکھا۔ (سیدنا ابن عباسص کا یہ اپنا نقطہ نظر ہے) (م۔ع)۔
کتاب: اللہ تعالیٰ کے دیدار کے بیان میں۔
84: مسروق سے روایت ہے کہ میں اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تکیہ لگائے ہوئے بیٹھا تھا تو انہوں نے کہا کہ اے ابو عائشہ! (یہ مسروق کی کنیت ہے) تین باتیں ایسی ہیں کہ جو کوئی ان کا قائل ہو، اس نے اللہ تعالیٰ پر بڑا جھوٹ باندھا۔ میں نے کہا کہ وہ تین باتیں کونسی ہیں؟ انہوں نے کہا کہ (ایک یہ ہے کہ) جو کوئی سمجھے کہ محمد (ص) نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے، اس نے اللہ پر بڑا جھوٹ باندھا۔ مسروق نے کہاکہ میں تکیہ لگائے ہوئے تھا، یہ سن کر میں بیٹھ گیا اور کہاکہ اے اُمّ المؤمنین! ذرا مجھے بات کرنے دو اور جلدی مت کرو۔ کیا اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا کہ ”اس نے اس کو آسمان کے کھلے کنارے پر دیکھا بھی ہے“ (التکویر: 23) ”اسے ایک مرتبہ اور بھی دیکھا تھا“ (النجم : 13)۔ اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہاکہ اس امت میں سب سے پہلے میں نے ان آیتوں کے متعلق رسول اللہ] سے پوچھا تو آپ (ص) نے فرمایا کہ ان آیتوں سے مراد جبرائیل 6 ہیں۔ میں نے ان کو ان کی اصلی صورت پر نہیں دیکھا سوا دو بار کے جن کا ذکر ان آیتوں میں ہے۔ میں نے ان کو دیکھا کہ وہ آسمان سے اتر رہے تھے اور ان کے جسم کی بڑائی نے آسمان سے زمین تک کے فاصلہ کو بھر دیا تھا۔ پھر اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ کیا تو نے نہیں سنا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ”اس (اللہ) کو تو کسی کی نگاہ نہیں دیکھ سکتی اور وہ سب نگاہوں کو دیکھ سکتا ہے اور وہی بڑا باریک بین باخبر ہے“ (الانعام: 103) کیا تو نے نہیں سنا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ”ناممکن ہے کہ کسی بندہ سے اللہ تعالیٰ کلام کرے مگر وحی کے ذریعہ یاپردے کے پیچھے سے یا کسی فرشتہ کو بھیجے اور وہ اللہ کے حکم سے جو وہ چاہے وحی کرے بیشک وہ برتر ہے حکمت والا ہے“ (الشوریٰ: 51)؟ (دوسری یہ ہے کہ) جو کوئی خیال کرے کہ رسول اللہ (ص) نے اللہ تعالیٰ کی کتاب میں سے کچھ چھپا لیا، تو اس نے (بھی)اللہ تعالیٰ پر بڑا جھوٹ باندھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ”اے رسول ((ص))! جو کچھ بھی آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے، پہنچا دیجئے۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اللہ کی رسالت ادا نہیں کی“ (المائدہ : 67)۔ اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہاکہ اور جو کوئی کہے کہ رسول اللہ (ص) کل ہونے والی بات جانتے تھے (یعنی آئندہ کا حال) تو اس نے (بھی) اللہ تعالیٰ پر بڑا جھوٹ باندھا۔ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ ”(اے محمد (ص)!) کہہ دیجئے کہ آسمانوں اور زمین میں اللہ کے سوا کوئی غیب کی بات نہیں جانتا“۔ اور داؤد نے اتنا زیادہ کیا ہے کہ اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اگر رسول اللہ (ص) اس (یعنی قرآن) میں سے کچھ چھپانے والے ہوتے جو کہ ان پر نازل کیا گیا ہے، (یعنی قرآن) تو اس آیت کو چھپاتے کہ (یاد کرو) جب کہ تو اس شخص سے کہہ رہا تھا، جس پر اللہ نے بھی انعام کیا اور تو نے بھی کہ تو اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھ اور اللہ سے ڈر اور تو اپنے دل میں وہ بات چھپائے ہوئے تھا، جسے اللہ ظاہر کرنے والا تھا اور تو لوگوں سے خوف کھاتا تھا حالانکہ اللہ تعالیٰ اس کا زیادہ حق دار تھا کہ تو اس سے ڈرے“ (الاحزاب: 37)۔
85: سیدنا ابو موسیٰ (ر) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کھڑے ہو کر ایسی پانچ باتیں سنائیں۔ آپ (ص) نے فرمایا: 1۔ اللہ جل جلالہ سوتا نہیں اور سونا اس کے لائق ہی نہیں (کیونکہ سونا عضلات اور اعضائے بدن کی تھکاوٹ سے ہوتااور اللہ تعالیٰ تھکن سے پاک ہے، دوسرے یہ کہ سونا غفلت ہے اور موت کے مثل ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے)۔2۔ اور وہی ترازو کو جھکاتا اور اس کو اونچا کرتا ہے۔ 3۔ اسی کی طرف رات کا عمل دن کے عمل سے پہلے اور دن کا عمل رات کے عمل سے پہلے اٹھایا جاتا ہے۔4۔ اس کا پردہ نور ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ اس کا پردہ آگ ہے۔ 5۔ اگر وہ اس پردے کو کھول دے تو اس کے منہ کی شعائیں، جہاں تک اس کی نگاہ پہنچتی ہے مخلوقات کو جلا دیں۔
86: سیدنا ابوہریرہ (ر) سے روایت ہے کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ (ص) سے پوچھا کہ کیا قیامت کے روز ہم اپنے پروردگار کو دیکھیں گے؟ تو رسول اللہ (ص) نے فرمایا: کیا تم چودھویں رات کاچاند دیکھنے میں ایک دوسرے کو تکلیف دیتے ہو؟ (یعنی اژدحام اور ہجوم کی وجہ سے)۔ یا تمہیں چودھویں رات کا چاند دیکھنے میں کچھ تکلیف ہوتی ہے؟ لوگوں نے کہا کہ نہیں یارسول اللہ]! آپ (ص) نے فرمایا کہ بھلا تمہیں سورج کے دیکھنے میں، جس وقت کہ بادل نہ ہو (اور آسمان صاف ہو) کچھ مشقت ہوتی ہے یا ایک دوسرے کو صدمہ پہنچاتے ہو ؟ لوگوں نے کہا نہیں یارسول اللہ (ص)۔ آپ (ص) نے فرمایا کہ پھر اسی طرح (یعنی بغیر تکلیف، مشقت، زحمت اور اژدحام کے) تم اپنے پروردگار کو دیکھو گے۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو قیامت کے دن جمع کرے گا تو فرمائے گا کہ جو کوئی جس کو پوجتا تھا اسی کیساتھ ہو جائے۔ پھر جو شخص سورج کو پوجتا تھا وہ سورج کیساتھ ہو جائے گا اور جو چاند کو پوجتا تھا وہ چاند کیساتھ اور جو طاغوت کو پوجتا تھا وہ طاغوت کیساتھ ہو جائے گا۔ بس یہ امت محمد ((ص)) باقی رہ جائے گی جس میں منافق لوگ بھی ہوں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ ان کے پاس ایسی صورت میں آئے گا کہ جس کو وہ نہ پہچانیں گے اور کہے گا کہ میں تمہارا رب ہوں۔ وہ کہیں گے کہ ہم تجھ سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں اور ہم اسی جگہ ٹھہرے رہیں گے یہاں تک کہ ہمارا پروردگار آئے گا تو ہم اس کو پہچان لیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ ان کے پاس اس صورت میں آئے گا جس کو وہ پہچانتے ہوں گے اور کہے گا کہ میں تمہارا رب ہوں، تو وہ کہیں گے کہ تو ہمارا رب ہے۔ پھر وہ اس کیساتھ ہو جائیں گے اور دوزخ کی پشت پر پُل رکھا جائے گا تو میں ا ور میری امت سب سے پہلے پار ہوں گے اور سوائے پیغمبروں کے اور کوئی اس دن بات نہ کر سکے گا۔اور پیغمبروں کا بول اس وقت یہ ہو گا کہ یا اللہ بچائیو! (یہ شفقت کی وجہ سے کہیں گے مخلوق پر) اور دوزخ میں کڑے ہیں (لوہے کے، جن کا سر ٹیڑھا ہوتا ہے اور تنور میں جب گوشت ڈالتے ہیں تو کڑوں میں لگا کر ڈالتے ہیں) جیسے سعدان جھاڑی کے کانٹے (سعدان ایک کانٹوں دار جھاڑ ی ہے) نبی (ص) نے صحابہ ' سے فرمایا کہ کیا تم نے سعدان جھاڑی دیکھی ہے؟ انہوں نے کہا ہاں دیکھی ہے۔ آ پ] نے فرمایا کہ پس وہ سعدان کے آنکڑے کانٹوں کی شکل پر ہوں گے لیکن سوائے اللہ تعالیٰ کے یہ کوئی نہیں جانتا کہ وہ کڑے کتنے بڑے بڑے ہوں گے۔ وہ لوگوں کو دوزخ میں گھسیٹیں گے (یعنی فرشتے ان کڑوں سے دوزخیوں کو گھسیٹ لیں گے) ان کے بدعملوں کی وجہ سے۔ اب بعض ان میں برباد ہوں گے جو اپنے بد عمل کے سبب سے برباد ہو جائیں گے اور بعض ان میں سے اپنے اعمال کا بدلہ دئیے جائیں گے یہاں تک کہ جب اللہ تعالیٰ بندوں کے فیصلے سے فراغت پائے گا اور چاہے گا کہ دوزخ والوں میں سے جس کو چاہے اپنی رحمت سے نکالے، تو فرشتوں کو حکم دے گا دوزخ سے اس شخص کو نکالیں جس نے اللہ کیساتھ کسی چیز کو شریک نہ کیا ہو، جس پر اللہ نے رحمت کرنی چاہی ہو، جو کہ لاالٰہ الا اللہ کہتا ہوگا، تو فرشتے دوزخ میں ایسے لوگوں کو پہچان لیں گے اور وہ انہیں سجدوں کے نشان سے پہچانیں گے۔ آگ آدمی کو جلا ڈالے گی سوائے سجدے کے نشان کی جگہ کے (کیونکہ) اللہ تعالیٰ نے آگ پر اس جگہ کا جلانا حرام کیا ہے۔ پھر وہ دوزخ سے جلے بھنے نکالے جائیں گے ، تب ان پر آبِ حیات چھڑکا جائے گا تو وہ تازہ ہو کر ایسے جم اٹھیں گے جیسے دانہ پانی کے بہاؤ میں جم اٹھتا ہے (پانی جہاں پر کوڑا کچرا مٹی بہا کر لاتا ہے وہاں دانہ خوب اگتا ہے اور جلد شاداب اور سرسبز ہو جاتا ہے اسی طرح وہ جہنمی بھی آبِ حیات ڈالتے ہی تازے ہو جائیں گے اور جلن کے نشان بالکل جاتے رہیں گے) پھر جب اللہ تعالیٰ بندوں کے فیصلے سے فارغ ہو گا اور ایک مرد باقی رہ جائے گا جس کا منہ دوزخ کی طرف ہو گا اور یہ جنت میں داخل ہونے والا آخری شخص ہو گا ، وہ کہے گا کہ اے رب! میرا منہ جہنم کی طرف سے پھیر دے کیونکہ اس کی بو مجھے ایذا میں ڈالنے والی اور اس کی گرمی مجھے جلائے دے رہی ہے ۔ پھر اللہ سے دعا کرے گا جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور ہو گا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اگر میں تیرا سوال پورا کروں تو تو اور سوال کرے گا؟ وہ کہے گا کہ نہیں، پھر میں کچھ سوال نہ کروں گا اور جیسے جیسے اللہ کو منظور ہوں گے وہ قول اقرار کرے گا، تب اللہ تعالیٰ اس کا منہ دوزخ کی طرف سے (جنت کی طرف) پھیر دے گا۔ جب جنت کی طرف اس کا منہ ہو گا تو جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور ہو گا چپ رہے گا، پھر کہے گا کہ اے رب مجھے جنت کے دروازے تک پہنچا دے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تو کیا کیا قول اور اقرار کر چکا ہے کہ پھر میں دوسرا سوال نہ کروں گا، برا ہو تیرا، اے آدمی تو کیسا دغا باز ہے؟ وہ کہے گا کہ اے رب! اور دعا کرے گا یہاں تک کہ اللہ تعالی فرمائے گا کہ اچھا اگر میں تیرا یہ سوال پورا کر دوں تو پھر تو اور کچھ مانگے گا؟ وہ کہے گا کہ نہیں قسم تیری عزت کی اور کیا کیا قول اور اقرار کرے گا جیسے اللہ کو منظور ہو گا، آخر اللہ تعالیٰ اس کو جنت کے دروازے تک پہنچا دے گا۔ جب وہاں کھڑا ہو گا تو ساری جنت اس کو دکھلائی دے گی اور جو کچھ اس میں نعمت یا خوشی اور فرحت ہے وہ سب۔ پھر ایک مدت تک جب تک اللہ کو منظور ہو گا وہ چپ رہے گا۔ اس کے بعد عرض کرے گا کہ اے رب! مجھے جنت کے اندر لے جا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ کیا تو نے کیا پختہ وعدہ اور اقرار نہیں کیا تھا کہ اب میں کچھ سوال نہ کروں گا؟ بُرا ہو تیرا اے آدم کے بیٹے! تو کیسا دھوکہ باز ہے۔ وہ عرض کرے گا کہ اے میرے رب میں تیری مخلوق میں بدنصیب نہیں ہوں گا اور دعا کرتا رہے گا یہاں تک کہ اللہ جل شانہ ہنس دے گا اور جب اللہ تعالیٰ کو ہنسی آجائے گی تو فرمائے گا کہ اچھا، جا جنت میں چلا جا۔ جب وہ جنت کے اندر جائے گا تو اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا کہ اب تو کوئی اور آرزو کر۔ وہ کرے گا اور مانگے گا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کو یاد دلائے گا کہ فلاں چیز مانگ، فلاں چیز مانگ۔ جب اس کی آرزوئیں ختم ہو جائیں گی تو حق تعالیٰ فرمائے گا کہ ہم نے یہ سب چیزیں تجھے دیں اور ان کیساتھ اتنی ہی اور دیں۔ (یعنی اپنی خواہشوں سے دو گنا لے۔ سبحان اللہ ! کیا کرم اور رحمت ہے اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر اور اگر وہ کرم نہ کرے تو اور کون کرے؟ وہی مالک ہے وہی خالق ہے، وہی رازق ہے، وہ پالنے والا ہے) عطاء بن یزید نے کہا جو اس حدیث کے راوی ہیں کہ سیدنا ابو سعید خدری (ر) بھی اس حدیث کی روایت کرنے میں سیدنا ابو ہریرہ (ر) کے موافق تھے کہیں خلاف نہ تھے۔ لیکن جب سیدنا ابوہریرہ (ر) نے یہ کہاکہ اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا کہ ہم نے یہ سب تجھے دیں اور اتنی ہی اور دیں تو سیدنا ابو سعید خدری صنے کہا کہ اے ابو ہریرہ! اس کے مثل دس گنا اور بھی۔ تو سیدنا ابو ہریرہ (ر) نے کہا کہ مجھے تو یہی بات یاد ہے کہ رسول اللہ (ص) نے یوں فرمایا کہ ہم نے یہ سب تجھے دیں اور اتنی ہی اور دیں۔ سیدنا ابو سعید خدری (ر) نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ (ص) نے یوں فرمایا کہ ہم نے یہ سب تجھے دیں اور دس حصے زیادہ دیں۔ سیدنا ابو ہریرہ (ر) نے کہا کہ یہ وہ شخص ہے جو سب سے آخر میں جنت میں جائے گا (تو اور جنتیوں کومعلوم نہیں کیا کیا نعمتیں ملیں گی)۔
کتاب: اللہ کی توحید کا اقرار کرنے والوں کا جہنم سے نکلنا۔
87: سیدنا ابوسعید خدری (ر) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا: وہ لوگ جو جہنم والے ہیں (یعنی ہمیشہ وہاں رہنے کیلئے ہیں جیسے کافر اور مشرک) وہ تو نہ مریں گے نہ جئیں گے لیکن کچھ لوگ جو گناہوں کی وجہ سے دوزخ میں جائیں گے، اللہ تعالیٰ ان پر موت طاری کرے گا یہاں تک کہ وہ جل کر کوئلہ ہو جائیں گے تو ان کیلئے شفاعت کی اجازت ہو گی اور یہ لوگ گروہ در گروہ لائے جائیں گے اور جنت کی نہروں پر پھیلائے جائیں گے اور حکم ہوگا کہ اے جنت کے لوگو! ان پر پانی ڈالو۔ تب وہ اس طرح سے اُگیں گے جیسے دانہ اس مٹی میں اگتا ہے جس کو پانی بہا کر لاتا ہے۔ (یہ سن کر) ایک شخص بولا کہ گویا رسول اللہ (ص)! (معلوم ہوتا ہے) آ پ] جنگل میں رہے ہیں (جبھی تو آپ کو یہ معلوم ہے کہ بہاؤ میں جو مٹی جمع ہوتی ہے اس میں دانہ خوب اگتا ہے)۔
88: سیدنا انس صاور سیدنا عبداللہ بن مسعود (ر) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا: سب سے آخر میں جو شخص جنت میں جائے گا، وہ ایک ایسا شخص ہو گا جو چلے گا، پھر اوندھا گرے گا اور جہنم کی آگ اس کو جلاتی جائے گی۔ جب دوزخ سے پار ہو جائے گا، تو پیٹھ موڑ کر اس کو دیکھے گا اور کہے گا کہ بڑی برکت والی ہے وہ ذات جس نے مجھے تجھ (جہنم) سے نجات دی۔ بیشک جتنا اللہ تعالیٰ نے مجھے دیا ہے اتنا اگلوں پچھلوں میں سے کسی کو نہیں دیا۔ پھر اس کو ایک درخت دکھلائی دے گا، وہ کہے گا کہ اے رب، مجھے اس درخت کے نزدیک کر دے تاکہ میں اس کے سایہ میں رہوں اور اس کا پانی پیوں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے آدم کے بیٹے! اگر میں نے تیرا یہ سوال پورا کر دیا تو تو اور بھی سوال کرے گا؟ وہ کہے گا کہ نہیں اے میرے رب! اور عہد کرے گا کہ پھر میں کوئی سوال نہ کروں گا۔ اور اللہ تعالیٰ اس کا عذر قبول کر لے گا اس لئے کہ وہ ایسی نعمت کو دیکھے گا جس پر اس سے صبر نہیں ہو سکتا (یعنی انسان بے صبر ہے جب وہ تکلیف میں مبتلا ہو اور عیش کی بات دیکھے تو بے اختیار اس کی خواہش کرتا ہے)۔ آخر اللہ تعالیٰ اس کو اس درخت کے نزدیک کر دے گا اور وہ اس کے سایہ میں رہے گا اور وہاں کا پانی پئے گا۔ پھر اس کو ایک اور درخت دکھلائی دے گا، جو اس سے بھی اچھا ہو گا۔ وہ کہے گا کہ اے پروردگار مجھے اس درخت کے نزدیک پہنچا دے تاکہ میں اس کے سائے میں جاؤں اور اس کا پانی پیوں اور میں اور کچھ سوال نہ کروں گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے آدم کے بیٹے! کیا تو نے عہد نہیں کیا تھا کہ میں پھر سوال نہ کروں گا؟ اور اگر میں تجھے اس درخت تک پہنچا دوں، تو پھر تو اور سوال کرے گا۔ وہ اقرار کرے گا کہ نہیں پھر میں اور کچھ سوال نہ کروں گا۔ اللہ تعالیٰ اس کو معذور رکھے گا اس لئے کہ اس کو اس نعمت پر، جو وہ (شخص) دیکھتا ہے، صبر نہیں۔ تب اللہ تعالیٰ اس کو اس درخت کے نزدیک کر دے گا، وہ اس کے سائے میں رہے گا اور وہاں کا پانی پئے گا۔ پھر اس کو ایک درخت دکھائی دے گا جو جنت کے دروازے پر ہو گا اور وہ پہلے کے دونوں درختوں سے بہتر ہو گا۔ وہ کہے گا کہ اے میرے رب! مجھے اس درخت کے پاس پہنچا دے تاکہ میں اس کے نیچے سایہ میں رہوں اور وہاں کا پانی پیوں، اب میں اور کچھ سوال نہ کروں گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے آدم کے بیٹے! کیا تو اقرار نہ کر چکا تھا کہ اب میں اور کچھ سوال نہ کروں گا؟ وہ کہے گا کہ بیشک میں اقرار کر چکا تھا، لیکن اب میرا یہ سوال پورا کر دے، پھر میں اور کچھ سوال نہ کروں گا۔ اللہ تعالیٰ اس کو معذور رکھے گا اس لئے کہ وہ ان نعمتوں کو دیکھے گا جن پر وہ صبر نہیں کر سکتا۔آخر اللہ تعالیٰ اس کو اس درخت کے پاس کر دے گا۔ جب وہ اس درخت کے پاس جائے گا تو جنت والوں کی آوازیں سنے گا اور کہے گا کہ اے میرے رب! مجھے جنت کے اندر پہنچا دے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے آدم کے بیٹے! تیرے سوال کو کون سی چیز پوراکرے گی؟ (یعنی تیری خواہش کب موقوف ہوگی اور یہ بار بار سوال کرنا کیسے بند ہو گا) بھلا تو اس پر راضی ہے کہ میں تجھے ساری دنیا کے برابر دے کر اتنا ہی اور دوں؟ وہ کہے گا کہ اے میرے رب! تو سارے جہاں کا مالک ہو کر مجھ سے مذاق کرتا ہے؟ پھر سیدنا عبداللہ بن مسعود (ر) ہنسنے لگے اور لوگوں سے کہا کہ تم مجھ سے پوچھتے نہیں کہ میں کیوں ہنستا ہوں؟ لوگوں نے پوچھا کہ تم کیوں ہنستے ہو؟ تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ]بھی (اس حدیث کو بیان کر کے) اسی طرح ہنسے تھے۔ لوگوں نے پوچھا کہ یارسول اللہ (ص)! آپ کیوں ہنستے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا کہ رب العالمین کے ہنسنے سے، میں بھی ہنستا ہوں جب وہ بندہ یہ کہے گا کہ تو سارے جہان کا مالک ہو کر مجھ سے مذاق کرتا ہے؟ تو پرودرگار ہنس دے گا (اس کی نادانی اور بیوقوفی پر) اور اللہ فرمائے گا کہ میں تجھ سے مذاق نہیں کرتا (مذاق کرنا میرے لائق نہیں وہ بندوں کے لائق ہے) بلکہ میں جو چاہتا ہوں کر سکتا ہوں۔
89: ابوالزبیر نے سیدنا جابر بن عبداللہ (ر) سے روایت کی ہے کہ سیدنا جابر بن عبداللہ (ر) سے قیامت کے دن لوگوں کے آنے کے حال کے بارے میں پوچھا گیا؟ تو انہوں نے کہا کہ ہم قیامت کے دن اس طرح سے آئیں گے یعنی یہ اوپر سب آدمیوں کے۔ پھر سب امتیں اپنے اپنے بتوں اور معبودوں کیساتھ پکاری جائیں گی۔ پہلی امت، پھر دوسری امت۔ اس کے بعد ہمارا پروردگار آئے گا اور فرمائے گا کہ تم کس کاانتظار کر رہے ہو؟ (یعنی امتِ محمدی (ص) سے مخاطب ہو کر ارشاد فرمائے گا) وہ کہیں گے کہ ہم اپنے پرودرگار کا انتظار کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں تمہارا مالک ہوں، وہ کہیں گے ہم تجھ کو دیکھیں گے تو تب(معلوم ہوگا) پھر اللہ ان کو ہنستا ہوا دکھائی دے گا اور ان کیساتھ چلے گا اور سب لوگ اس کے پیچھے ہوں گے اور ہرا یک آدمی کوخواہ وہ منافق ہو یا مومن، ایک نور ملے گا۔ لوگ اس کیساتھ ہوں گے اور جہنم کے پل پر آنکڑے اور کانٹے ہوں گے، وہ پکڑ لیں گے جن کو اللہ چاہے گا۔ اس کے بعد منافقوں کا نور بجھ جائے گا اور مومن نجات پائیں گے۔ تو پہلا گروہ مومنوں کا (جو ہو گا) ان کے منہ چودھویں رات کے چاند کے سے ہوں گے (وہ گروہ) ستر ہزار آدمیوں کا ہو گا جن سے حساب و کتاب نہ ہوگا۔ ان کے بعد گروہ خوب چمکتے ستارے کی طرح ہوں گے۔ پھر ان کے بعد کا ان سے کم، یہاں تک کہ شفاعت کا وقت آجائے گا اور لوگ شفاعت کریں گے اور جہنم سے وہ شخص بھی نکالا جائے گا جس نے لا الٰہ الا اللہ کہا تھا اور اس کے دل میں ایک جو کے برابر بھی نیکی اور بہتری تھی۔ یہ لوگ جنت کے صحن میں ڈال دئیے جائیں گے اور جنتی لوگ ان پر پانی چھڑکیں گے (جس سے) وہ اس طرح اگیں گے جیسے جھاڑ پانی کے بہاؤ میں اگتا ہے۔ اور ان کی سوز جلن بالکل جاتی رہے گی۔ پھر وہ اللہ سے سوال کریں گے اور ہر ایک کو اتنا ملے گا جیسے ساری دنیا بلکہ اس کے ساتھ دس گنا اور بھی۔
90: یزید بن صہیب فقیر سے روایت ہے کہتے ہیں کہ میرے دل میں خارجیوں کی ایک بات کھب گئی تھی (اور وہ یہ کہ کبیرہ گناہ کرنے والا ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور جو جہنم میں جائے گا وہ پھر وہاں سے نہ نکلے گا)، تو ہم ایک بڑی جماعت کیساتھ اس ارادے سے نکلے کہ حج کریں۔ پھر خارجیوں کا مذہب پھیلائیں گے۔ جب ہم مدینے میں پہنچے تو دیکھا کہ سیدنا جابر بن عبداللہ (ر) ایک ستون کے پاس بیٹھے ہوئے لوگوں کو رسول اللہ (ص) کی حدیثیں سنا رہے ہیں۔ یکایک انہوں نے دوزخیوں کا ذکر کیا تو میں نے کہا کہ اے صحابی رسول اللہ (ص) ! تم کیا حدیث بیان کرتے ہو؟ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ ”اے ہمارے پالنے والے! تو جسے جہنم میں ڈالے، یقینا تو نے اسے رسوا کیا“ ( آلِ عمران: 192) نیز ”جب کبھی اس سے باہر نکلنا چاہیں گے تو اسی میں لوٹا دئیے جائیں گے“ (السجدہ : 20)۔ اور اب یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟انہوں نے کہا کہ تو نے قرآن پڑھا ہے؟ میں نے کہا ہاں۔ انہوں نے پھر کہا کہ کیا تو نے رسول اللہ (ص) کا مقام سنا ہے (یعنی وہ مقام جو اللہ تعالیٰ قیامت کے روز عنایت فرمائے گا)؟ میں نے کہا جی ہاں! میں نے سنا ہے۔ انہوں نے کہا یہ ہی محمد (ص) کے لئے ہے، جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جنہیں چاہے گا، جہنم سے نکالے گا۔ پھر انہوں نے پل صراط کا حال اور اس پل پر سے لوگوں کے گزرنے کا حال بیان کیا اور اور مجھے ڈر ہے کہ شاید مجھے یاد نہ رہا ہو مگر انہوں نے یہ کہا کہ کچھ لوگ دوزخ میں جانے کے بعد اس میں سے نکالے جائیں گے اور وہ اس طرح نکلیں گے جیسے آبنوس کی لکڑیاں (سیاہ جل بھن کر)۔ پھر جنت کی ایک نہر میں جائیں گے اور وہاں غسل کریں گے اور کاغذ کی طرح سفید ہو کر نکلیں گے۔ یہ سن کر ہم لوٹے اور ہم نے کہا کہ تمہاری خرابی ہو! کیا یہ بوڑھا رسول اللہ (ص) پر جھوٹ باندھتا ہے؟ (یعنی وہ ہرگز جھوٹ نہیں بولتا، پھر تمہارا مذہب غلط نکلا)۔ اور ہم سب اپنے مذہب سے پھر گئے مگر ایک شخص نہ پھرا۔ یا جیسا ابو نعیم فضل بن دکین (امام مسلم کے استاذ کے استاذ) نے بیان کیا۔
 

مہوش علی

لائبریرین
91: سیدنا انس بن مالک (ر) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا: دوزخ سے چار آدمی نکالے جائیں گے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے سامنے کئے جائیں گے۔ ان میں سے ایک جہنم کی طرف دیکھ کر کہے گا کہ اے میرے مالک! جب تو نے مجھے اس (جہنم) سے نجات دی ہے، تو اب پھر اس میں مت لے جانا۔ اللہ تعالیٰ اس کو جہنم سے نجات دیدے گا۔
کتاب: شفاعت کا بیان۔
92: سیدنا ابوہریرہ (ر) کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ (ص) کے پاس گوشت لایا گیا تو دستی کا گوشت آپ (ص) کو دیا گیا، وہ آپ (ص) کو بہت پسند تھا۔ آپ (ص) نے اس کو دانتوں سے نوچا اور فرمانے لگے کہ میں قیامت کے دن سب آدمیوں کا سردار ہوں گا۔اور کیا تم جانتے ہو کہ کس وجہ سے؟ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تمام اگلوں پچھلوں کوایک ہی میدان میں اکٹھا کرے گا، یہاں تک کہ پکارنے والے کی آواز ان سب کوسنائی دے گی اور دیکھنے والے کی نگاہ ان سب پر پہنچے گی، اور سورج قریب ہو جائے گا، اور لوگوں پر ایسی مصیبت اور سختی ہو گی کہ اس کو وہ سہہ نہ سکیں گے۔ آخر آپس میں ایک دوسرے سے کہیں گے کہ دیکھو کیسی تکلیف ہو رہی ہے؟ کیا کوئی سفارشی ، شفیع نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ کے پاس تمہاری کچھ سفارش کرے؟ بعض کہیں گے کہ آدم 6کے پاس چلو، تو سب کے سب آدم 6کے پاس آئیں گے اور ان سے کہیں گے کہ آپ تمام آدمیوں کے باپ ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا، اپنی طرف سے روح آپ میں پھونکی اور فرشتوں کو حکم کیا تو انہوں نے آپ کو سجدہ کیا، آپ پروردگار سے ہماری شفاعت کیجئے۔ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ ہم کس حال میں ہیں؟ اور کس قدر تکلیف میں ہیں۔ آدم 6کہیں گے کہ آج میرا رب اپنے غصہ میں ہے کہ نہ تو اس سے پہلے کبھی ایسا غصہ ہوا تھا اور نہ اس کے بعد کبھی ہو گا اور اس نے مجھے اس درخت (کے پھل) سے منع کیا تھا، لیکن میں نے (کھا لیا اور) اب مجھے خود اپنی فکر ہے ، تم کسی اور کے پاس جاؤ، نوح 6 کے پاس جاؤ۔ پھر لوگ نوح 6 کے پاس جائیں گے اور کہیں گے کہ اے نوح! 6 تم سب پیغمبروں سے پہلے زمین پر آئے، اللہ نے تمہارا نام عبداً شکوراً (شکر گزار بندہ) رکھا ہے، تم اپنے رب کے پاس ہماری سفارش کرو، کیا تم نہیں دیکھتے ہم جس حال میں ہیں؟ اور جو مصیبت ہم پر آئی ہے؟ وہ کہیں گے کہ آج اللہ تعالیٰ اتنا غصے میں ہے کہ نہ تو ایسا پہلے کبھی ہوا اور نہ اس کے بعد ہو گا اور میرے واسطے ایک دعا کا حکم تھا (کہ وہ مقبول ہو گی)، وہ میں اپنی امت کے خلاف مانگ چکا ( وہ مقبول دعا اپنی قوم پر بددعا کی شکل میں کر چکا ہوں جس سے وہ ہلاک ہو گئی تھی)، اس لئے مجھے اپنی فکر ہے، تم ابراہیم 6 کے پاس جاؤ۔ پھر سب ابراہیم 6 کے پاس آئیں گے اور کہیں گے کہ آپ اللہ کے نبی اور ساری زمین والوں میں اس کے دوست ہیں، آپ اپنے پروردگار کے ہاں ہماری سفارش کیجئے، کیا آپ نہیں دیکھتے جس حال میں ہم ہیں؟ اور جو مصیبت ہم پر پڑی ہے؟ وہ کہیں گے کہ میرا پروردگار آج بہت غصے میں ہے اتنا غصے میں کہ نہ تو اس سے پہلے کبھی ایسا ہوا اور نہ اس کے بعد کبھی ہو گا اور وہ اپنی جھوٹ باتوں کو بیان کریں گے (جو انہوں نے تین بار جھوٹ بولا تھا جو کہ دراصل توریہ تھا) اس لئے مجھے خود اپنی فکر ہے، تم میرے علاوہ کسی دوسرے کے پاس جاؤ، موسیٰ کے پاس جاؤ۔ وہ لوگ موسیٰ 6 کے پاس جائیں گے اور کہیں گے کہ اے موسیٰ 6 ! آپ اللہ کے رسول ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے پیام (رسالت) اور کلام سے تمام لوگوں پر فضیلت و بزرگی دی ہے، آپ اپنے پروردگار سے ہماری سفارش کیجئے، کیا آپ نہیں دیکھتے ہم جس حال میں ہیں؟ اور جو مصیبت ہم پر پڑی ہے؟ موسیٰ 6 ان سے کہیں گے کہ آج میرا رب ایسے غصے میں ہے کہ اتنا غصے میں نہ اس سے پہلے کبھی ہوا اور نہ اس کے بعد کبھی ہو گا، اور میں نے دنیا میں ایک شخص کو قتل کیا تھا، جس کا مجھے حکم نہ تھا، اس لئے مجھے اپنی فکر پڑی ہے، تم عیسیٰ (6) کے پاس جاؤ۔ وہ عیسیٰ 6 کے پاس آئیں گے اور کہیں گے اے عیسیٰ! آپ اللہ کے رسول ہیں آپ نے (ماں کی) گود میں لوگوں سے باتیں کیں، اور اس کا وہ کلمہ ہیں جس کو اس نے مریم کی طرف ڈالا تھا اور اس کی طرف سے روح ہیں، آپ اپنے رب سے ہماری سفارش کیجئے کیا آپ نہیں دیکھتے ہم جس حال میں ہیں اور جو مصیبت ہم پر پڑی ہے؟ عیسیٰ 6 ان سے کہیں گے کہ آج میرا رب بہت غصے میں ہے، اتنا غصے میں کہ نہ اس سے پہلے کبھی ہوا اورنہ اس کے بعد کبھی ہو گا (اور ان کا کوئی گناہ بیان نہیں کیا) مجھے تو خود اپنی فکر ہے تم اور کسی کے پاس جاؤ ، محمد ((ص)) کے پاس جاؤ۔ تو وہ لوگ میرے (محمد]) کے پاس آئیں گے اور عرض کریں گے کہ اے محمد((ص))! آپ اللہ کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں، اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے پچھلے سب گناہ بخش دئیے ہیں، آپ اپنے رب سے ہماری سفارش کیجئے، کیا آپ ہمارا حال نہیں دیکھتے کیا آپ نہیں دیکھتے کہ ہم کس مصیبت میں ہیں؟ پس میں یہ سنتے ہی (میدانِ حشر سے) چلوں گا اور عرش کے نیچے آ کر اپنے پرودرگار کو سجدہ کروں گا، پھر اللہ تعالیٰ میرا دل کھول دے گا اور اپنی وہ وہ تعریفیں اور خوبیاں بتلائے گا، جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں بتلائیں، (میں اس کی خوب تعریف اور حمد کروں گا) پھر (اللہ تعالیٰ) کہے گا کہ اے محمد((ص)) ! سر اٹھا اور مانگ، جو مانگے گا، دیا جائے گا، سفارش کر، قبول کی جائے گی۔ میں سر اٹھاؤں گا اور عرض کروں گا اے میرے رب میری امت پر رحم فرما، اے میرے رب میری امت پر رحم فرما۔ حکم ہو گا کہ اے محمد ((ص))! اپنی امت میں سے جن لوگوں سے کوئی حساب کتاب نہیں ہو گا ان کو جنت کے داہنے دروازے سے داخل کرو اور وہ جنت کے باقی دوسرے دروازوں میں بھی دوسرے لوگوں کے شریک ہیں (یعنی ان دروازوں میں سے بھی جا سکتے ہیں لیکن یہ دروازہ ان کیلئے مخصوص ہے) (آپ] نے فرمایا کہ) قسم اس کی جس کے ہاتھ میں محمد ((ص)) کی جان ہے! کہ جنت کے ایک دروازے کی چوڑائی ایسی ہے، جیسے مکہ اور حجر(بحرین کے ایک شہر کا نام ہے) کے درمیان کا فاصلہ یا مکہ اور بصریٰ (ملک شام کا شہر) کے درمیان کا فاصلہ۔ (راوی کو شک ہے)۔
کتاب: نبی (ص) کا فرمان کہ میں سب سے پہلے جنت کے متعلق سفارش کروں گا اور دیگر انبیاء سے میرے متبعین زیادہ ہوں گے۔
93: سیدنا انس بن مالک (ر) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا: میں سب سے پہلے جنت (کے بارے) میں سفارش کروں گا اور کسی پیغمبر کو اتنے لوگوں نے نہیں مانا (پیروی نہیں کی) جتنے لوگوں نے مجھے مانا (میری پیروی کی) اور کوئی پیغمبر تو ایسا ہے کہ اس کا ماننے والا (ایمان لانے والا) ایک ہی شخص تھا۔
کتاب: نبی (ص) کا جنت کا دروازہ کھلوانا۔
94: سیدنا انس بن مالک (ر) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا : میں قیامت کے دن جنت کے دروازے پر آؤں گا اور دروازہ کھلواؤں گا۔ چوکیدار پوچھے گا کہ تم کون ہو؟ میں کہوں گا کہ میں محمد ((ص)) ہوں۔ وہ کہے گا کہ مجھے آپ ہی کے واسطے حکم ہوا تھا کہ آپ سے پہلے کسی کیلئے دروازہ نہ کھولوں۔
کتاب: نبی (ص) کا فرمان کہ ہر نبی کی ایک دعا قبول کی گئی ہے۔
95: سیدنا ابوہریرہ (ر) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا : ہر نبی کی ایک دعا ہے جو ضرور قبول ہوتی ہے اور ہر نبی نے جلدی کر کے وہ دعا (دنیا ہی میں) مانگ لی اور میں اپنی دعا کو قیامت کے دن کیلئے ، اپنی امت کی شفاعت کیلئے چھپا کر رکھتا ہوں اور اللہ کے حکم سے (میری) شفاعت ہر اس امتی کیلئے ہو گی جو حال میں فوت ہوا کہ اس نے اللہ کے ساتھ شرک نہیں کیا ۔
کتاب: نبی (ص) کا اپنی امت کیلئے دعا فرمانا۔
96: سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص (ر) سے روایت ہے کہ نبی (ص) نے ابراہیم 6 کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے اس قول کی تلاوت فرمائی کہ ”اے میرے پالنے والے (معبود) انہوں نے بہت سے لوگوں کو راہ سے بھٹکا دیا ہے، پس میری تابعداری کرنے والا میرا ہے اور جو میری نافرمانی کرے، تو تو بہت ہی معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے“ (ابراہیم: 36) اور عیسیٰ 6 کا قول (جو کہ قرآن پاک میں منقول ہے) کہ ”اگر تو ان کو سزا دے، تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو ان کو معاف فرما دے، تو تو زبردست ہے حکمت والا ہے“۔ پھر نبی (ص) نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور کہا کہ اے میرے رب! میری امت ، میری امت۔ اور رونے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے جبرئیل! تم محمد ((ص)) کے پاس جاؤ اور تیرا رب خوب جانتا ہے لیکن تم جا کر ان سے پوچھو کہ وہ کیوں روتے ہیں؟ جبرئیل 6 آپ (ص) کے پاس آئے اور پوچھا کہ آپ کیوں روتے ہیں؟ آپ (ص) نے سب حال بیان کیا۔ جبرئیل نے اللہ تعالیٰ سے جا کر عرض کیا، حالانکہ وہ تو خود خوب جانتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے جبرئیل! محمد ((ص)) کے پاس جا اور کہہ کہ ہم تمہیں تمہاری امت کے بارے میں خوش کر دیں گے اور ناراض نہیں کریں گے۔
97: سیدنا جابر (ر) سے روایت ہے کہ طفیل بن عمرو دوسی (ر) رسول اللہ (ص) کے پاس آئے (مکہ میں ہجرت سے پہلے) اور عرض کیا کہ یارسول اللہ (ص)! آپ ایک مضبوط قلعہ اور لشکر چاہتے ہیں؟ (اس قلعہ کیلئے کہا جو کہ جاہلیت کے زمانہ میں دوس کا تھا) آپ (ص) نے اس وجہ سے قبول نہ کیا کہ اللہ تعالیٰ نے انصار کے حصے میں یہ بات لکھ دی تھی کہ (رسول اللہ (ص) ان کے پاس ان کی حمایت اور حفاظت میں رہیں گے) پھر جب رسول اللہ (ص) نے مدینہ کی طرف ہجرت کی، تو سیدنا طفیل بن عمرو (ر) نے بھی ہجرت کی اور ان کیساتھ ان کی قوم کے ایک شخص نے بھی ہجرت کی۔ پھر مدینہ کی ہوا ان کو ناموافق ہوئی (اور ان کے پیٹ میں عارضہ پیدا ہوا) تو وہ شخص جو سیدنا طفیل (ر) کیساتھ آیا تھا، بیمار ہو گیا اور تکلیف کے مارے اس نے اپنی انگلیوں کے جوڑ کاٹ ڈالے تو اس کے دونوں ہاتھوں سے خون بہنا شروع ہوگیا۔ دونوں ہاتھوں سے، یہاں تک کہ وہ مر گیا۔ پھر سیدنا طفیل صنے اسے خواب میں دیکھا اور ا س کی حالت اچھی تھی مگر اپنے دونوں ہاتھوں کو چھپائے ہوئے تھا۔ سیدنا طفیل صنے پوچھا کہ تیرے رب نے تیرے ساتھ کیا سلوک کیا؟ اس نے کہا :مجھے اس لئے بخش دیا کہ میں نے اس کے پیغمبرکی طرف ہجرت کی تھی۔ سیدنا طفیل صنے کہاکہ کیا وجہ ہے کہ میں دیکھتا ہوں کہ تو اپنے دونوں ہاتھ چھپائے ہوئے ہے؟ وہ بولا کہ مجھے حکم ہوا ہے کہ ہم اس کو نہیں سنواریں گے جس کو تو نے خود بخود بگاڑا ہے۔ پھر یہ خواب سیدنا طفیل صنے رسول اللہ (ص) سے بیان کیا، تو آپ (ص) نے فرمایا کہ اے اللہ! اس کے دونوں ہاتھوں کو بھی بخش دے جیسے تو نے اس کے سارے بدن پر کرم کیا ہے (اس کے دونوں ہاتھوں کو بھی درست کر دے)۔
کتاب: اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے متعلق کہ ”(اے محمد (ص) ) اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرایئے“۔
98: سیدنا ابوہریرہ (ر) کہتے ہیں کہ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی کہ ”اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے“ (الشعراء: 214) تو رسول اللہ (ص) نے قریش کے لوگوں کو بلایا، وہ سب اکٹھے ہوئے تو آپ (ص) نے (پہلے) سب کو بالعموم ڈرایا اور پھر خاص کیا (یعنی نام لے کر ان لوگوں کو) اور فرمایا کہ اے کعب بن لوء ی کے بیٹو! اپنے آپ کو جہنم سے بچاؤ۔ اے مرہ بن کعب کے بیٹو! اپنے آپ کو جہنم سے بچاؤ۔ اے عبد شمس کے بیٹو! اپنے آپ کو جہنم سے بچاؤ۔ اے ہاشم کے بیٹو! اپنے آپ کو جہنم سے چھڑاؤ۔ اے عبدالمطلب کے بیٹو! اپنے آپ کو جہنم سے بچاؤ۔ اے فاطمہ(رضی اللہ عنہا)! اپنے آپ کو جہنم سے بچاؤ، اس لئے کہ میں اللہ کے سامنے کچھ اختیار نہیں رکھتا (یعنی اگر وہ عذاب کرنا چاہے تو میں بچا نہیں سکتا) البتہ تم جو ناتا مجھ سے رکھتے ہو، اس کو میں جوڑتا رہوں گا (یعنی دنیا میں تمہارے ساتھ احسان کرتا رہوں گا)۔
کتاب: کیا نبی (ص) ابو طالب کو کوئی فائدہ پہنچا سکے؟
99: سیدنا عباس بن عبدالمطلب (ر) سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا یارسول اللہ (ص)! کیا آپ نے ابوطالب کو بھی کچھ فائدہ پہنچایا؟ وہ آپ کی حفاظت کرتے تھے اور آپ کے واسطے غصہ ہوتے تھے (یعنی جو کوئی آپ کو ستاتا تو اس پر غصہ ہوتے تھے)۔ رسول اللہ (ص) نے فرمایا ”ہاں“ وہ جہنم کے اوپر کے درجہ میں ہیں اور اگر میں نہ ہوتا (یعنی میں ان کیلئے دعا نہ کرتا)، تو وہ جہنم کے نیچے کے درجے میں ہوتے (جہاں عذاب بہت سخت ہے)۔
100: سیدنا ابن عباس (ر) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا : سب سے ہلکا عذاب ابو طالب کو ہو گا، وہ دو ایسی جوتیاں پہنے ہوگا کہ جن سے اس کا دماغ کھولے گا (جیسے ہنڈیا میں پانی کھولتا ہے)۔
 

مہوش علی

لائبریرین
کتاب: نبی (ص) کا فرمان کہ میری امت میں سے ستر ہزار افراد بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے۔
101: سیدنا حصین بن عبدالرحمن (ر) کہتے ہیں کہ میں سیدنا سعید بن جبیر (ر) کے پاس تھا انہوں نے کہا کہ تم میں سے کس نے اس ستارہ کو دیکھا جو کل رات کو ٹوٹا تھا؟ میں نے کہا کہ میں نے دیکھا کہ میں کچھ نماز میں مشغول نہ تھا (اس سے یہ غرض ہے کہ کوئی مجھے عابد، شب بیدار نہ خیال کرے) بلکہ مجھے بچھو نے ڈنگ مارا تھا (تو میں سو نہ سکا اور تارا ٹوٹتے ہوئے دیکھا) سیدنا سعید (ر) نے کہاکہ پھر تو نے کیا کیا؟ میں نے کہاکہ میں نے دم کروایا۔ انہوں نے کہا کہ تو نے دم کیوں کرایا؟ میں نے کہاکہ اس حدیث کی وجہ سے جو شعبی نے ہم سے بیان کی۔ انہوں نے کہا کہ شعبی نے کونسی حدیث بیان کی؟ میں نے کہا کہ انہوں نے ہم سے سیدنا بریدہ بن حصیب ا سلمی (ر) کی حدیث بیان کی۔ انہوں نے کہا کہ دَم فائدہ نہیں دیتا مگر نظر کیلئے یا ڈنگ کیلئے (یعنی بد نظر کے اثر کو دُور کرنے کیلئے یا بچھو اور سانپ وغیرہ کے کاٹے کیلئے مفید ہے) سیدنا سعید (ر) نے کہا کہ جس نے سنا اور اس پر عمل کیا تو اچھا کیا لیکن ہم سے تو سیدنا عبداللہ بن عباس (ر) نے حدیث بیان کی، انہوں نے رسول اللہ (ص) سے سنا، آپ (ص) فرماتے تھے کہ میرے سامنے پیغمبروں کی امتیں لائی گئیں۔ بعض پیغمبر ایسا تھا کہ اس کی امت کے لوگ دس سے بھی کم تھے اور بعض پیغمبر کیساتھ ایک یا دو ہی آدمی تھے اور بعض کیساتھ ایک بھی نہ تھا۔ اتنے میں ایک بڑی امت آئی۔ میں سمجھا کہ یہ میری امت ہے۔ مجھ سے کہا گیا کہ یہ موسیٰ 6 اور ان کی امت ہے، تم آسمان کے کنارے کو دیکھو۔ میں نے دیکھا تو ایک اور بڑا گروہ ہے۔ پھر مجھ سے کہا گیا کہ اب دوسرے کنارے کی طرف دیکھو میں نے دیکھا تو ایک اور بڑا گروہ ہے، مجھ سے کہا کیا کہ یہ تمہاری امت ہے اور ان لوگوں میں ستر ہزار آدمی ایسے ہیں کہ جو بغیر حساب اور عذاب کے جنت میں جائیں گے۔ پھر آپ (ص) کھڑے ہو گئے اور اپنے گھر تشریف لے گئے تو لوگوں نے ان لوگوں کے بارے میں گفتگو کی جو بغیر حساب اور عذاب کے جنت میں جائیں گے۔ بعضوں نے کہا کہ شاید وہ لوگ ہیں جو رسول اللہ (ص) کی صحبت میں رہے۔ بعض نے کہا نہیں شاید وہ لوگ ہیں جو اسلام کی حالت میں پیدا ہوئے اور انہوں نے اللہ کیساتھ کسی کوشریک نہیں کیا۔ بعض نے کچھ اور کہا۔ اتنے میں رسول اللہ (ص) باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ تم لوگ کس چیز میں بحث کر رہے ہو؟ا نہوں نے آپ ]کو خبر دی تو آپ (ص) نے فرمایا کہ وہ لوگ ہیں جو نہ دَم کرتے ہیں اور نہ دَم رکھتے ہیں نہ دَم کراتے ہیں اور نہ بدشگون لیتے ہیں اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں۔ یہ سن کر عکاشہ بن محصن (ر) کھڑے ہوئے اور کہا کہ آپ (ص) اللہ سے دعا کیجئے کہ وہ مجھے ان لوگوں میں سے کر دے۔ آپ (ص) نے فرمایا کہ تو انہی لوگوں میں سے ہے۔ پھر ایک اور شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ میرے لئے بھی دعا کیجئے کہ اللہ مجھے بھی انہی لوگوں میں کرے، تو آپ (ص) نے فرمایا کہ عکاشہ (ر) تجھ سے پہلے یہ کام کر چکا۔
کتاب: نبی (ص) کا فرمان کہ میں امید کرتا ہوں کہ جنت والوں میں آدھے تم ہو گے (یعنی مسلمان)۔
102: سیدنا عبداللہ بن مسعود (ر) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ (ص) کیساتھ ایک خیمہ میں تھے جس میں تقریبا چالیس آدمی ہوں گے۔ آپ (ص) نے فرمایا کہ کیا تم اس بات سے خوش ہو کہ اہل جنت کے چوتھائی تم لوگ ہو؟ ہم نے کہا ہاں۔ پھر آپ (ص) نے فرمایا کہ تم اس بات سے خوش ہو کہ اہل جنت کے ایک تہائی تم ہو؟ ہم نے کہا ہاں۔ آپ (ص) نے فرمایا کہ قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد (ص) کی جان ہے، مجھے امید ہے کہ تم جنتیوں کے آدھے ہو نگے اور یہ اس لئے کہ جنت میں وہی جائے گا جو مسلمان ہے اور مسلمان مشرکوں کے اندر ایسے ہیں جیسے ایک سفید بال سیاہ بیل کی کھال میں ہو یا ایک سرخ بیل کی کھال میں ایک سیاہ بال ہو۔
کتاب: اللہ عزوجل کا آدم 6 کو یہ فرمانا کہ ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے افراد جہنم کیلئے نکالو۔
103: سیدنا ابو سعید خدری (ر) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے آدم! وہ کہیں گے کہ حاضر ہوں تیری خدمت میں اور تیری اطاعت میں اور سب بھلائی تیرے ہاتھ میں ہے۔ حکم ہو گا کہ دوزخیوں کی جماعت نکالو۔ وہ عرض کریں گے کہ دوزخیوں کی کیسی جماعت؟ حکم ہو گا کہ ہر ہزار آدمیوں میں سے نو سو ننانوے آدمی جہنم کیلئے نکالو (اور ایک آدمی فی ہزار جنت میں جائے گا) آپ (ص) نے فرمایا کہ یہی تو وقت ہے جب بچہ بوڑھا ہو جائے گا (بوجہ ہول اور خوف کے یا اس دن کی درازی کی وجہ سے) ”اور ہر ایک پیٹ والی عورت اپنا پیٹ ڈال دے گی اور تو لوگوں کو دیکھے گا کہ جیسے نشہ میں مست ہیں اور وہ مست نہ ہوں گے لیکن اللہ کا عذاب بہت سخت ہے“ (الحج : 2) صحابہ 'اس امر کے سننے سے بہت پریشان ہوئے اور کہنے لگے کہ یارسول اللہ]! دیکھئے اس ہزار میں سے ایک آدمی (جو جنتی ہے) ہم میں سے کون نکلتا ہے؟ آپ (ص) نے فرمایا کہ تم خوش ہو جاؤ کہ یاجوج ماجوج کے کافر اس قدر ہیں کہ اگر ان کا حساب کرو تو تم میں سے ایک آدمی اور ان میں سے ہزارآدمی پڑیں۔ پھر آ پ] نے فرمایا کہ قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، مجھے امید ہے کہ جنت کے ایک چوتھائی آدمی تم میں سے ہوں گے، اس پر ہم نے اللہ کی تعریف کی اور تکبیر کہی۔پھر آپ (ص) نے فرمایا کہ قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، مجھے امید ہے کہ جنت کے تہائی آدمی تم میں سے ہوں گے۔ اس پر ہم نے اللہ تعالیٰ کی تعریف کی اور کبریائی بیان کی۔ پھر آپ (ص) نے فرمایا کہ قسم ہے مجھے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! مجھے امید ہے کہ جنت کے آدھے آدمی تم میں سے ہوں گے۔ تمہاری مثال اور امتوں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک سفید بال سیاہ بیل کی کھال میں ہو یا ایک نشان گدھے کے پاؤں میں۔

/SK

6
کتاب وضو کے مسائل
کتاب: اللہ تعالیٰ کوئی نماز وضو کے بغیر قبول نہیں کرتا۔
104: مصعب بن سعد سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر (ر) ابن عامر کے پاس عیادت کو آئے کیونکہ ابن عامر بیمار تھے۔ ابن عامر نے کہا کہ اے ابن عمر ((ر)) تم میرے لئے دعا نہیں کرتے؟ انہوں نے کہاکہ میں نے رسول اللہ (ص) سے سنا ہے، آپ (ص) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بغیر طہارت کے نماز قبول نہیں کرتا اور اس مالِ غنیمت میں سے دئیے گئے صدقے کو بھی قبول نہیں کرتا جو تقسیم سے پہلے اڑا لیا جائے اور تم تو بصریٰ کے حاکم رہ چکے ہو۔
کتاب: نیند سے جاگتے وقت، برتن میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے ہاتھوں کو دھونے کیا بیان۔
105: سیدنا ابو ہریرہ (ر) سے روایت ہے کہ نبی (ص) نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی نیند سے جاگے تو اپنا ہاتھ برتن میں داخل کرنے سے پہلے تین بار دھوئے اس لئے کہ اس کو نہیں معلوم کہ اس کا ہاتھ رات کو کہاں رہا۔
کتاب: راستہ میں اور سایہ میں پاخانہ پھرنے کی ممانعت ۔
106: سیدنا ابوہریرہ (ر) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا: تم لعنت کے دو کاموں سے بچو (یعنی جن کی وجہ سے لوگ تم پر لعنت کریں) لوگوں نے کہا کہ وہ لعنت کے دو کام کونسے ہیں؟ آپ (ص) نے فرمایا کہ ایک تو راہ میں (جہاں سے لوگ آتے جاتے ہوں) پائخانہ پھرنا اور دوسری سایہ دار جگہ (جہاں لوگ بیٹھ کر آرام کر لیتے ہوں) پائخانہ پھرنا (ان دونوں کاموں سے لوگوں کو تکلیف ہو گی اور وہ بُرا کہیں گے لعنت کریں گے)۔
کتاب: پیشاب کرتے وقت ستر کو چھپانا ۔
107: سیدنا عبداللہ بن جعفر (ر) کہتے ہیں کہ مجھے ایک دفعہ رسول اللہ (ص) نے سواری پر اپنے پیچھے بٹھا لیا، پھر میرے کان میں ایک بات کہی وہ بات کسی سے بیان نہ کروں گا اور آپ کو حاجت کے وقت ٹیلے کی یا کھجور کے درختوں کی آڑ پسند تھی (تاکہ ستر کو کوئی نہ دیکھے)۔ ابن اسماء نے ایک حدیث میں ”حائش نخل“ کی بجائے ”حآئط نخل“ کہا۔
کتاب: جب بیت الخلاء میں داخل ہوتو کیا پڑھے؟
108: سیدنا انس (ر) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) جب بیت الخلاء میں داخل ہوتے تو کہتے کہ ”اے اللہ! میں پناہ مانگتا ہوں تیری، ناپاک شیطانوں اور شیطاننیوں سے یا پلیدی یا نجاستوں سے یا شیاطین اور معاصی سے“۔
کتاب: پاخانہ یا پیشاب کرتے وقت قبلہ کی طرف منہ نہ کیا جائے۔
109: سیدنا ابو ایوب (ر) سے روایت ہے کہ نبی (ص) نے فرمایا: جب تم پاخانے کو جاؤ تو پیشاب یا پاخانہ کرنے میں قبلہ کی طرف منہ نہ کرو نہ پیٹھ کرو، بلکہ مشرق یا مغرب کی طرف منہ کرو۔(اس سے مراد ان علاقوں کے لوگ ہیں جن کا قبلہ شمال یا جنوب کی سمت ہو۔ جنکی سمت قبلہ مشرق یا مغرب میں ہے، وہ مشرق یا مغرب کی بجائے شمال یا جنوب کی منہ کرینگے) سیدنا ابو ایوب صنے کہا کہ پھر ہم شام کے ملک میں آئے اور دیکھا تو لیٹرینیں (بیت الخلاء) قبلہ کی طرف بنی ہوئی ہیں، ہم ان پر سے منہ پھیر لیتے تھے اور اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتے تھے۔
کتاب: بنے ہوئے بیت الخلاء میں اس بات کی رخصت۔
110: واسع بن حبان کہتے ہیں کہ میں مسجد میں نماز پڑھ رہا تھا اور سیدنا عبداللہ بن عمر (ر) اپنی پیٹھ قبلہ کی طرف لگائے ہوئے بیٹھے تھے۔ جب میں نماز پڑھ چکا تو ایک طرف سے ان کے پاس مڑا۔ سیدنا عبداللہ (ر) نے کہاکہ لوگ کہتے ہیں کہ جب حاجت کو بیٹھو تو قبلہ اوربیت المقدس کی طرف منہ نہ کرو۔ (ایک دفعہ جب) میں چھت پر چڑھا تو رسول اللہ (ص) کو دو اینٹوں پر قضاء حاجت کے لئے بیت المقدس کی طرف منہ کئے ہوئے بیٹھے دیکھا (یعنی جب بیت المقدس کی طرف منہ ہو گا تو قبلہ کی طرف پیٹھ ہو گی)۔
کتاب: پانی میں پیشاب کرنے کی ممانعت کہ پھر اس سے غسل بھی کیا جائے
 

مہوش علی

لائبریرین
کتاب: پانی میں پیشاب کرنے کی ممانعت کہ پھر اس سے غسل بھی کیا جائے
111: سیدنا ابوہریرہ (ر) نبی (ص) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ (ص) نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب نہ کرے( اور یہ بھی نہ کرے کہ پیشاب کر کے) پھر اسی پانی سے غسل کرے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ تو ایسا مت کر کہ تھمے ہوئے پانی میں پیشاب کرے جوبہتا نہیں ہے اور پھر اسی پانی سے غسل کرے۔
کتاب: پیشاب سے بچنے اور پردہ کرنے کا بیان۔
112: سیدنا ابن عباس (ر) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) دو قبروں پر سے گزرے تو فرمایا کہ ان دونوں قبر والوں پر عذاب ہو رہا ہے اور کچھ بڑے گناہ پر نہیں۔ ایک تو ان میں سے چغل خوری کرتا تھا (یعنی ایک کی بات دوسرے سے کرنا اور لڑائی کے لئے) اور دوسرا اپنے پیشاب سے بچنے میں احتیاط نہ کرتا۔ پھر آپ (ص) نے کھجور کی ہری ٹہنی منگوائی اور چیر کر اس کو دو کیا اور ہر ایک قبر پر ایک ایک گاڑ دی اور فرمایا کہ شاید جب تک یہ ٹہنیاں نہ سوکھیں اس وقت تک ان کا عذاب ہلکا ہو جائے۔
کتاب: دائیں ہاتھ سے استنجاء کرنے کی ممانعت ۔
113: عبداللہ بن ابی قتادہ اپنے والد (ابو قتادہ) (ر) سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ کوئی تم میں سے اپنا ذکر پیشاب کرنے میں داہنے ہاتھ سے نہ تھامے اور نہ پاخانہ کے بعد داہنے ہاتھ سے استنجا کرے اور نہ برتن میں پھونک مارے۔
کتاب: پیشاب یا پاخانے سے فارغ ہو کر پانی سے استنجاء کرنا۔
114: سیدنا انس بن مالک (ر) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) ایک باغ کے اندر گئے اور آپ کے پیچھے ایک لڑکا گیا، اس کے پاس ایک لوٹا تھا، وہ لڑکا ہم میں سب سے چھوٹا تھا۔ اس نے لوٹا ایک بیری کے پاس رکھ دیا اورپھر رسول اللہ (ص) اپنی حاجت سے فارغ ہوئے اور پانی سے استنجا کر کے باہر نکلے۔
کتاب: طاق ڈھیلے استعمال کرنے کا بیان۔
115: سیدنا ابوہریرہ (ر) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی پاخانہ کی جگہ کو ڈھیلوں سے صاف کرے تو طاق ڈھیلوں سے صاف کرے اور جب تم میں سے کوئی وضو کرے تو ناک میں پانی ڈالے پھر ناک جھاڑے۔
کتاب: پتھر سے استنجاء کرنے کا بیان اور گوبر یا ہڈی سے استنجاء کرنے کی ممانعت۔
116: سیدنا سلمان (ر) کہتے ہیں کہ ان سے پوچھا گیا کہ تمہارے نبی (ص) نے تم کو ہر ایک بات سکھائی۔ یہاں تک کہ پاخانہ اور پیشاب کی بھی تعلیم دی، انہوں نے کہا ہاں۔ آپ (ص) نے ہمیں قبلہ کی طرف منہ کر کے پیشاب اور پاخانہ کرنے سے منع کیا اور اس بات سے بھی منع کیا کہ داہنے ہاتھ سے یا تین سے کم پتھروں سے یا گوبر اور ہڈی سے استنجا کریں۔
کتاب: مردہ جانور کی کھال سے فائدہ حاصل کرنا۔
117: سیدنا ابن عباس (ر) کہتے ہیں کہ اُمّ المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کی کسی لونڈی کو ایک بکری صدقہ میں دی گئی تھی، وہ مر گئی۔ اور رسول اللہ (ص) نے اس کو پڑا ہوا دیکھا تو فرمایا کہ تم نے اس کی کھال کیوں نہ اتار لی؟ رنگ کر کام میں لاتے۔ تو لوگوں نے کہا کہ یارسول اللہ (ص)! وہ مردار تھی۔ آپ (ص) نے فرمایا کہ مردار کا کھانا حرام ہے۔
کتاب: جب چمڑا رنگ لیا جائے تو وہ پاک ہوجاتا ہے۔
118: یزید بن ابی حبیب سے روایت ہے کہ ابوالخیر نے ان سے بیان کیا کہ میں نے ابن وعلہ السبئی کو ایک پوستین پہنے دیکھا۔ میں نے اس کو چھوا، انہوں نے کہا کہ ابن وعلہ کیوں چھوتے ہو (کیا اس کو نجس جانتے ہو)؟ میں نے سیدنا عبداللہ صسے کہا کہ ہم مغرب کے ملک میں رہتے ہیں وہاں بربر کے کافر اور آتش پرست بہت ہیں وہ مینڈھا ذبح کرکے لاتے ہیں۔ ہم تو ان کا ذبح کیا ہوا جانور نہیں کھاتے اور مشکیں لاتے ہیں، ان میں چربی ڈال کر۔ سیدنا ابن عباس (ر) نے کہا کہ ہم نے رسول اللہ (ص) سے پوچھا تو آپ (ص) نے فرمایا کہ کھال رنگنے سے پاک ہو جاتی ہے (یعنی کھال رنگنے سے پاک ہوجاتی ہے اگرچہ کافر نے رنگی ہو)۔
کتاب: جب کتا تمہارے برتن میں منہ ڈال دے تو اس برتن کو سات مرتبہ دھونا چاہیئے۔
119: سیدنا عبداللہ بن مغفل (ر) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) نے کتوں کو مار ڈالنے کا حکم کیا۔ پھر فرمایا کہ ان لوگوں اور کتوں کا کیا حال ہے؟ پھر شکار کیلئے اور مویشیوں کی حفاظت کے لئے کتا پالنے کی اجازت دی (یعنی بکریوں کی حفاظت کیلئے) اور فرمایا کہ جب کتا برتن میں منہ ڈال کر پئے تو اس کو سات بار دھوؤ اور آٹھویں بار مٹی سے مانجھو۔ اور یحییٰ بن سعید کی روایت میں ہے کہ نبی (ص) نے شکار، بکریوں اور کھیتی کی حفاظت کیلئے کتے کی اجازت دی۔
کتاب: وضو کی فضیلت کا بیان۔
120: سیدنا ابو مالک اشعری (ر) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا: طہارت آدھے ایمان کے برابر ہے اور الحمد للہ ترازو کو بھر دے گا۔ (یعنی اس قدر اس کا ثواب عظیم ہے کہ اعمال تولنے کا ترازو اس کے اجر سے بھر جائے گا) اور سبحان اللہ اور الحمدللہ دونوں آسمانوں اور زمین کے بیچ کی جگہ کو بھر دیں کے اور نماز نور ہے اور صدقہ دلیل ہے اور صبر روشنی ہے اور قرآن تیرے لئے دلیل ہوگا یا تیرے خلاف دلیل ہوگا (اگر قرآن پر عمل ہو گا تو دلیل بن جائے گا ورنہ وبال بن جائیگا)۔ہر ایک آدمی (بھلا ہو یا برا)صبح کو اٹھتا ہے یا تو اپنے آپ کو (نیک کام کر کے اللہ کے عذاب سے) آزاد کرتا ہے یا (بُرے کام کر کے) اپنے آپ کو تباہ کرتا ہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
کتاب: وضو کے ساتھ گناہوں کا دور ہونا۔
121: سیدنا ابو ہریرہ (ر) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ جب بندہ مسلمان یا مومن (یہ شک ہے راوی کا) وضو کرتا ہے اور منہ دھوتا ہے تو اس کے منہ سے وہ سب گناہ (صغیرہ) نکل جاتے ہیں جو اس نے آنکھوں سے کئے۔ پانی کے ساتھ یا آخری قطرہ کے ساتھ (جو منہ سے گرتا ہے یہ بھی شک ہے راوی کا) ۔ پھر جب ہاتھ دھوتا ہے تو اس کے ہاتھوں میں سے ہر ایک گناہ جو ہاتھ سے کیا تھا ، پانی کے ساتھ یا آخری قطرہ کے ساتھ نکل جاتا ہے ۔ پھر جب پاؤں دھوتا ہے تو ہر ایک گناہ جس کو اس نے پاؤں سے چل کر کیا تھا ، پانی کے ساتھ یا آخری قطرہ کے ساتھ نکل جاتا ہے یہاں تک کہ سب گناہوں سے پاک صاف ہو کر نکلتا ہے ۔
کتاب: وضو کے وقت مسواک کرنا۔
122: سیدنا ابن عباس (ر) سے روایت ہے کہ وہ ایک رات رسول اللہ (ص) کے پاس رہے تو پچھلی رات کو آپ (ص) اٹھے اور باہر نکل کر آسمان کی طرف دیکھا۔ پھر یہ آیت پڑھی جو سوئہ آل عمران میں ہے ﴿اِنَّ فِی خَلْقِ السَّمَواتِ والاَرض وَاخْتِلاف الیل …﴾ سے ﴿فَقِنَا عَذَابَ النَّار﴾ تک ۔ پھر لوٹ کر اندر آئے اور مسواک کی اور وضو کیا اور کھڑے ہو کر نماز پڑھی۔ پھر لیٹ گئے پھر اٹھے اور باہر نکلے اور آسمان کی طرف دیکھا اور یہی آیت پڑھی۔ پھر لوٹ کر اندر آئے اور مسواک کی اور وضو کیا اور پھر کھڑے ہو کر نماز پڑھی۔
123: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) جب گھر میں آتے تو پہلے مسواک کرتے ۔
کتاب: وضو یا دیگر کاموں میں دائیں طرف سے شروع کرنا۔
124: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ بیشک رسول اللہ (ص) طہارت میں، کنگھی کرنے میں جوتا پہننے میں داہنی طرف کو بہت پسند کرتے تھے۔
کتاب: رسول اللہ (ص) کے وضو کا طریقہ۔
125: سیدنا عبداللہ بن زید بن عاصم انصاری (ر) سے روایت ہے، اور وہ صحابی تھے ، کہ ان سے لوگوں نے کہا کہ ہمیں رسول اللہ (ص) کی طرح وضو کر کے بتلائیے۔ چنانچہ انہوں نے ایک برتن (پانی کا) منگوایا ، اس کو جھکا کر پہلے دونوں ہاتھوں پر پانی ڈالا ۔ (اس سے معلوم ہوا کہ وضو شروع کرتے وقت دونوں ہاتھوں کا انگلیوں سمیت دھونا مستحب ہے، پانی میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے) اور انہیں تین بار دھویا۔ پھر ہاتھ برتن کے اندر ڈالا اور باہر نکالا اور ایک ہی چلو سے کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا ۔ پھر تین بار ایسے ہی کیا۔ پھر ہاتھ ڈالا اور باہر نکالا اور منہ کو تین بار دھویا (بخاری کی روایت میں ہے کہ دونوں چلو ملا کر پانی لیا اور تین بار منہ دھویا) پھر برتن میں ہاتھ ڈالا اور باہر نکالا اور اپنے دونوں ہاتھ کہنیوں تک دو دو بار دھوئے ۔ پھر برتن میں ہاتھ ڈالا اور باہر نکالا اور سر پر مسح کیا ، پہلے دونوں ہاتھوں کو سامنے سے پیچھے لے گئے پھر پیچھے سے آگے کی طرف لے آئے (یعنی پیشانی تک واپس لائے) پھر دونوں پاؤں ٹخنوں سمیت دھوئے ۔ اس کے بعد کہا کہ رسول اللہ (ص) اسی طرح وضو کیا کرتے تھے ۔
کتاب: ناک میں پانی ڈال کر جھاڑنا۔
126: سیدنا ابو ہریرہ (ر) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ جو شخص وضو کرے تو ناک میں پانی ڈالے پھر ناک جھاڑے ۔ سیدنا ابوہریرہ (ر) سے روایت ہے کہ نبی اکرم] نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی شخص نیند سے بیدار ہو تو تین مرتبہ ناک کو جھاڑے کیونکہ شیطان ناک کی چوٹی یا ناک کے بیچ والی رگوں میں رات گزارتا ہے۔
کتاب: پیشانیوں اور ہاتھ پاؤں کی چمک پوراوضو کرنے سے ہوگی۔
127: نعیم بن عبداللہ مجمر سے روایت ہے کہ میں نے سیدنا ابوہریرہ (ر) کو دیکھا کہ وضو کرتے ہوئے انہوں نے منہ دھویا تو اس کو پورا دھویا۔ پھر داہنا ہاتھ دھویا یہاں تک کہ بازو کا ایک حصہ بھی دھویا۔ پھر بایاں ہاتھ دھویا یہاں تک کہ بازو کا ایک حصہ بھی دھویا۔ پھر سر کا مسح کیا۔ پھر سیدھا پاؤں دھویا تو پنڈلی کا بھی ایک حصہ دھویا۔ پھر بایاں پاؤں دھویا یہاں تک کہ پنڈلی کا بھی ایک حصہ دھویا۔ پھر کہا کہ میں نے رسول اللہ (ص) کو ایسا ہی وضو کرتے ہوئے دیکھا ہے اور کہا کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ قیامت کے دن پورا وضو کرنے کی وجہ سے تمہاری پیشانیاں اور ہاتھ پاؤں سفید (نورانی) ہوں گے۔ لہٰذا تم میں سے جو کوئی اپنی چمک کو بڑھانا چاہے تو بڑھائے۔ (یعنی اپنے اعضاء کو خوب آگے تک دھوئے)۔
128: سیدنا ابو ہریرہ (ر) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) قبرستان میں تشریف لائے تو فرمایا ”سلام ہے تم پر یہ گھر ہے مسلمانوں کا اور اللہ نے چاہا تو ہم بھی تم سے ملنے والے ہیں۔ میری آرزو ہے کہ ہم اپنے بھائیوں کو دیکھیں“ (اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نیک بات کی آرزو کرنا درست ہے جیسے علماء اور فضلاء سے ملنے کی) صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا کہ یار سول اللہ (ص)! کیا ہم آپ ((ص)) کے بھائی نہیں ہیں ؟ تو آپ (ص) نے فرمایا کہ تم تو میرے اصحاب ہو اور بھائی ہمارے وہ لوگ ہیں جو ابھی دنیا میں نہیں آئے۔ صحابہ 'نے عرض کیا کہ یارسول اللہ (ص) آپ اپنی امت کے ان لوگوں کو کیسے پہچانیں گے جن کو آپ ]نے دیکھا ہی نہیں؟ تو آپ (ص) نے فرمایا بھلا تم میں سے کسی کے سفید پیشانی، سفید ہاتھ پاؤں والے گھوڑے سیاہ مشکی گھوڑوں میں مل جائیں، تو وہ اپنے گھوڑے نہیں پہچانے گا ؟ صحابہ 'نے عرض کیا کہ بیشک وہ تو پہچان لے گا۔ آپ (ص) نے فرمایا کہ قیامت کے دن وضو کی وجہ سے میری امت کے لوگ سفید منہ اور سفید ہاتھ پاؤں رکھتے ہوں گے اور حوض کوثر پر میں ان کا پیش خیمہ ہوں گا۔ خبردار رہو کہ بعض لوگ میرے حوض پر سے ہٹائے جائیں گے جیسے بھٹکا ہوا اونٹ ہنکایا جاتا ہے ۔ میں ان کو پکاروں گا آؤ آؤ۔ اس وقت کہا جائے گا کہ ان لوگوں نے آپ (ص) کے بعد رد و بدل کر لیا تھا (یا ان کی حالت بدل گئی تھی، بدعت اور ظلم میں گرفتار ہو گئے تھے) ۔ تب میں کہوں گا کہ جاؤ دور ہو جاؤ ۔ جاؤ دور ہو جاؤ۔
کتاب: جس نے بہترین انداز سے وضو کیا۔
129: حمران سے روایت ہے جو سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام تھے، انہوں نے کہا کہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے وضو کا پانی منگوایا اور وضو کیا تو پہلے دونوں ہاتھ کلائیوں تک تین بار دھوئے، پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا۔ پھر تین بار منہ دھویا، پھر داہنا ہاتھ دھویا کہنی تک پھر تین بار بایاں ہاتھ دھویا پھر مسح کیا سر پر۔ پھر داہنا پاؤں دھویا تین بار پھر بایاں پاؤں دھویا تین بار۔ اس کے بعد کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح وضو کیا جیسے میں نے اب وضو کیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص میرے وضو کی طرح وضو کرے پھر کھڑے ہو کر دو رکعتیں پڑھے اور ان (کے پڑھنے) میں اور کسی خیال میں غرق نہ ہو تو اس کے اگلے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔ ابن شہاب نے کہا کہ ہمارے علماء کہتے تھے کہ یہ وضو سب وضوؤں میں سے پورا ہے جو نماز کے لئے کیا جائے ۔
130: حمران سے روایت ہے کہ سیدناعثمان (ر) نے کہا کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا: جس نے مکمل وضو کیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے حکم دیا ہے، تو فرض نمازیں اس کے ان تمام گناہوں کا کفارہ بن جائیں گی جو ان نمازوں کے درمیان ہوں گے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
131۔ سیدنا عثمان (بن عفان) (ر) سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ (ص) سے سنا ، آپ (ص) فرماتے تھے کہ جو شخص نماز کیلئے پورا وضو کرے، پھر فرض نماز کیلئے (مسجد کو) چلے اور لوگوں کیساتھ یا جماعت سے یا مسجد میں نماز پڑھے، تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہ بخش دے گا ۔
کتاب: مجبوری میں (بھی) کامل وضو کرنے کی فضیلت۔
132: سیدنا ابوہریرہ (ر) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا: کیا میں تمہیں وہ باتیں نہ بتلاؤں کہ جن سے گناہ مٹ جائیں (یعنی معاف ہو جائیں یا لکھنے والوں کے دفتر سے مٹ جائیں) اور (جنت میں)درجے بلند ہوں؟ لوگوں نے کہا کہ کیوں نہیں یارسول اللہ (ص)! بتلائیے۔ آپ (ص) نے فرمایا کہ وضو کا پورا (اچھی طرح) کرنا سختی میں (جیسے سردی کی شدت میں یا بیماری میں) اور مسجدوں کی طرف قدموں کا بہت زیادہ ہونا (اس طرح کہ گھر مسجد سے دور ہو اور بار بار جائے) اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا۔ یہی رباط ہے (یعنی نفس کا روکنا عبادت کیلئے)۔
کتاب: (جنت میں) زیور وہاں تک پہنچے گا، جہاں تک وضو کا پانی پہنچے گا۔
133۔ ابو حازم سے روایت ہے کہ میں سیدنا ابو ہریرہ (ر) کے پیچھے تھا ، وہ نماز کیلئے وضو کر رہے تھے اور اپنے ہاتھ کو اتنا لمبا کر کے دھوتے تھے، یہاں تک کہ بغل تک دھوتے تھے۔ میں نے کہا کہ اے ابو ہریرہ ((ر) ) یہ کیسا وضو ہے ؟ تو انہوں نے کہا ”اے فروخ کی اولاد (فروخ ابراہیم علیہ السلام کے ایک بیٹے کا نام ہے، جس کی اولاد میں عجم کے لوگ ہیں اور ابو حازم بھی عجمی تھے) تم یہاں موجود ہو؟ اگر میں جانتا کہ تم یہاں موجود ہو تو میں اس طرح وضو نہ کرتا ۔ میں نے اپنے دوست (رسول اللہ (ص)) سے سنا ، آپ (ص) فرماتے تھے کہ قیامت کے دن مومن کو وہاں تک زیور پہنایا جائے گا، جہاں تک اس کا وضو پہنچتا ہوگا ۔
کتاب: جو وضو کی جگہوں کو کچھ چھوڑ دے، وہ اسے دھوئے اور نماز لوٹائے۔
134: سیدنا جابر (ر) سے روایت ہے کہ مجھ سے سیدنا عمر بن خطاب (ر) نے بیان کیا کہ ایک شخص نے وضو کیا اور ناخن برابر اپنے پاؤں میں کسی جگہ کو سوکھا چھوڑ دیا تو رسول اللہ (ص) نے اس کو دیکھا تو فرمایا کہ جا اور اچھی طرح وضو کر کے آ ۔ چنانچہ وہ لوٹ گیا ، پھر آ کر نماز پڑھی ۔
کتاب: غسل اور وضو میں کتنا پانی کافی ہے؟۔
135: سیدنا انس (ر) کہتے ہیں کہ نبی (ص) ایک مُد سے وضو کرتے اور ایک صاع سے لے کر پانچ مُد تک غسل کرتے تھے۔ (ایک صاع اڑھائی کلو کا ہوتا ہے اور ”مد“ ایک صاع کا چوتھا حصہ ہے)۔
کتاب: موزوں پر مسح کرنے کا بیان۔
136: ہمام سے روایت ہے کہ سیدنا جریر (ر) نے پیشاب کیا، پھر وضو کیا اور موزوں پر مسح کیا ۔ لوگوں نے کہا کہ تم ایسا کرتے ہو ؟ انہوں نے کہا ہاں ، میں نے رسول اللہ (ص) کو دیکھا کہ آپ (ص) نے پیشاب کیا، پھر وضو کیا اور دونوں موزوں پر مسح کیا۔ اعمش نے کہا کہ ابراہیم نے کہا کہ لوگوں کو یہ حدیث بہت بھلی معلوم ہوتی تھی کیونکہ جریر سورئہ مائدہ (جس میں وضو میں پاؤں دھونے کا بیان ہے) کے اترنے کے بعد مسلمان ہوئے تھے۔
137۔ سیدنا ابووائل (ر) سے روایت ہے کہ ابو موسیٰ (ر) پیشاب کے معاملہ میں نہایت سختی کرتے تھے حتی کہ شیشی میں پیشاب کیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ بنی اسرائیل میں جب کسی کے بدن کو پیشاب لگ جاتا تو وہ (قینچیوں سے) کھال کترتا تھا۔ سیدنا حذیفہ (ر) نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ ابو موسیٰ (ر) ایسی سختی نہ کرتے تو بہتر تھا(کیونکہ) میں رسول اللہ (ص) کے ساتھ چل رہا تھا ، آپ (ص) ایک قوم کے گھورے (یعنی کوڑے کرکٹ کی جگہ) پر آئے اور دیوار کے پیچھے آپ (ص) کھڑے ہوئے جس طرح تم میں سے کوئی کھڑا ہوتا ہے، پھر پیشاب کیا ۔ میں دور ہٹا تو آپ (ص) نے اشارہ فرمایا کہ میرے پاس آ، یہاں تک کہ میں آپ (ص) کی ایڑیوں کے پاس کھڑا رہا، جب تک کہ آپ (ص) پیشاب سے فارغ نہ ہوئے ۔ ایک روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ پھر وضو کیا اور دونوں موزوں پر مسح کیا۔
138: سیدنا مغیرہ بن شعبہ (ر) سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ (ص) کے ساتھ ایک سفر میں تھا، آپ (ص) نے دریافت فرمایا کہ کیا تمہارے پاس پانی ہے ؟ میں نے کہا جی ہاں ہے۔ آپ (ص) سواری پر سے اتر ے اور چلے یہاں تک کہ اندھیری رات میں نظروں سے چھپ گئے۔ پھر لوٹ کر آئے تو میں نے ڈول سے پانی ڈالا ۔ آپ (ص) نے منہ دھویا۔ آپ (ص) نے اون کا جبہ پہن رکھا تھا، آپ ]کیلئے ہاتھ آستینوں سے باہر نکالنا مشکل ہو گیا توآپ (ص) نے نیچے سے ہاتھوں کو باہر نکال کر دھویا اور سر پر مسح کیا۔ پھر میں ، آپ (ص) کے موزے اتارنے کیلئے جھکا، تو آ پ (ص) نے فرمایا: رہنے دو۔ میں نے ان کو طہارت پر پہنا ہے اور ان دونوں پر بھی مسح کیا۔
کتاب: موزوں پر مسح کرنے کی مدت کا بیان۔
139: شریح بن ہانی سے روایت ہے کہ میں اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ، ان سے موزوں پر مسح کے بارے میں پوچھنے آیا تو انہوں نے کہا کہ تم ابو طالب کے بیٹے (یعنی علی (ر)) سے پوچھو (اس لئے کہ) وہ رسول اللہ (ص) کیساتھ سفر کیا کرتے تھے۔ ہم نے ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ (ص) نے مسافر کیلئے مسح کی مدت تین دن تین رات مقرر فرمائی اور مقیم کیلئے ایک دن رات۔
کتاب: پیشانی اور دستار (عمامہ) پر مسح کرنا ۔
140: سیدنا مغیرہ بن شعبہ (ر) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) سفر میں پیچھے رہ گئے اور میں بھی آپ (ص) کے ساتھ پیچھے رہ گیا۔ جب آپ (ص) حاجت سے فارغ ہوئے تو دریافت فرمایا کہ کیا تمہارے پاس پانی ہے ؟ چنانچہ میں پانی کا ایک لوٹا لے آیا۔ آپ (ص) نے دونوں ہاتھ دھوئے اور منہ دھویا ۔ پھر بازو آستینو ں سے نکالنا چاہے تو آستین تنگ ہوگئی( یعنی نہ نکال سکے) چنانچہ آپ (ص) نے نیچے سے ہاتھ کو نکالا اور جبہ کو اپنے مونڈھوں پر ڈال دیا اور دونوں ہاتھ دھوئے اور پیشانی، عمامہ اور موزوں پر مسح کیا ۔ پھر سوار ہوئے تو میں بھی سوار ہوا۔ جب اپنے لوگوں میں پہنچے، تو وہ نماز پڑھ رہے تھے ۔ سیدنا عبدالرحمن بن عوف (ر) ان کو نماز پڑھا رہے تھے اور وہ ایک رکعت پڑھ چکے تھے ۔ ان کو جب معلوم ہوا کہ رسول اللہ (ص) تشریف لائے ہیں، تو وہ پیچھے ہٹنے لگے۔ آپ (ص) نے اشارہ فرمایا کہ اپنی جگہ پر رہو۔ پھر انہوں نے نماز پڑھائی ۔ جب سلام پھیرا تو رسول اللہ (ص) کھڑے ہوئے اور میں بھی کھڑا ہوا اور ایک رکعت جو ہم سے پہلے ہوچکی تھی پڑھ لی۔
 

مہوش علی

لائبریرین
کتاب: پگڑی (دستار یا عمامہ) پر مسح کرنا۔
141: سیدنا بلال (ر) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) نے موزوں اور عمامہ پر مسح کیا ۔
کتاب: ایک وضو سے کئی نمازیں پڑھنا۔
142: سیدنا بریدہ (ر) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فتح مکہ کے دن ایک وضو سے کئی نمازیں پڑھیں اور موزوں پر مسح کیا۔ سیدنا عمر فاروق (ر) نے کہا کہ یا رسول اللہ (ص) آپ نے آج وہ کام کیا جو کبھی نہیں کیا تھا، آپ (ص) نے فرمایا کہ میں نے قصداً ایسا کیا ہے۔
کتاب: وضو کے بعد کیا کہا جائے۔
143: سیدنا عقبہ بن عامر (ر) سے روایت ہے کہ ہم لوگوں کو اونٹ چرانے کا کام تھا، میری باری آئی تو میں اونٹوں کو چرا کر شام کو ان کے رہنے کی جگہ لے کر آیا تو میں نے دیکھا کہ رسول اللہ (ص) کھڑے ہوئے لوگوں کو وعظ سنا رہے ہیں ۔ آپ (ص) نے فرمایا کہ جو مسلمان اچھی طرح وضو کرے، پھر کھڑا ہو کر دو رکعتیں پڑھے ، اپنے دل کو اور منہ کو لگا کر (یعنی ظاہراً اور باطناً متوجہ رہے ، نہ دل میں دنیا کا خیال لائے نہ منہ ادھر اُدھر پھرائے) اس کیلئے جنت واجب ہو جائے گی۔ میں نے کہا آپ (ص) نے کیا عمدہ بات فرمائی (جس کا ثواب اس قدر بڑا ہے اور محنت بہت کم ہے)۔ اس پر ایک کہنے والا میرے سامنے کہہ رہا تھا کہ پہلی بات اس سے بھی عمدہ تھی ۔ میں نے غور سے دیکھا تو وہ سیدنا عمر فاروق (ر) تھے ۔ انہوں نے کہا کہ میں تجھے دیکھ رہا تھا کہ تو ابھی ابھی آیا ہے ۔ (لہٰذا یہ بھی سن لے کہ) آپ (ص) نے فرمایا تھا کہ جو کوئی تم میں سے اچھی طرح ، پورا وضو کرے ، پھر کہے (ترجمہ)”میں گواہی دیتا ہوں کہ کوئی عبادت کے لائق نہیں سوائے اللہ کے اور محمد ((ص)) اس کے بندے اور بھیجے ہوئے ہیں“۔ تو اس کیلئے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیئے جائیں گے کہ جس دروازے سے چاہے (جنت میں) داخل ہو جائے۔
کتاب: مذی کو دھونا اور اس کی وجہ سے وضو کرنا۔
144: سیدنا علی (ر) کہتے ہیں کہ میں زیادہ مذی والا آدمی تھا اور (مذی سے مراد سفید پانی ہے جو شہوت کے وقت منی سے پہلے نکلتا ہے۔ اس سے غسل واجب نہیں ہوتا مگر اس کے نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے) میں نے رسول اللہ (ص) سے پوچھنے میں شرم کی کیونکہ آپ (ص) کی صاحبزادی میرے نکاح میں تھیں، تو میں نے سیدنا مقداد بن اسود (ر) سے (پوچھنے کو) کہا ، انہوں نے پوچھا تو آپ (ص) نے فرمایا کہ اپنی شرمگاہ کو دھو ڈالے اور وضو کرے۔
کتاب: بیٹھنے والے کی نیند وضو نہیں توڑتی۔
145: سیدنا انس (ر) سے روایت ہے کہ (ایک مرتبہ) نماز کے لئے اقامت کہی گئی اور رسول اللہ (ص) ایک آدمی سے سرگوشی کر رفرما رہے تھے۔ عبد الوارث کی حدیث کے الفاظ ہیں کہ نبی (ص) ایک آدمی سے سرگوشی کر رہے تھے تو آپ (ص) نماز کیلئے کھڑے نہیں ہوئے حتی کہ قوم (بیٹھی بیٹھی) سو گئی۔ اور شعبہ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ (ص) سرگوشی میں مصروف رہے یہاں تک کہ صحابہ (بیٹھے بیٹھے) سو گئے۔ پھر آپ (ص) آئے اور انہیں نماز پڑھائی (نیا وضو بنانے کا حکم نہیں دیا)۔
کتاب: اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد وضو کرنا۔
146: سیدنا جابر بن سمرہ (ر) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ (ص) سے پوچھا کہ کیا میں بکری کا گوشت کھا کر وضو کروں؟ آپ (ص) نے فرمایا کہ چاہے تو کر اور چاہے تو نہ کر۔ پھر اس نے پوچھا کہ اونٹ کا گوشت کھا کر وضو کروں؟ آپ (ص) نے فرمایا ہاں! اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو کر۔ اس نے کہا کہ کیا بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھوں؟ آپ (ص) نے فرمایا کہ ہاں۔ اس نے کہا کہ اونٹوں کے باڑے میں نماز پڑھوں؟ آپ (ص) نے فرمایا کہ نہیں
کتاب: ہر اس چیز سے وضو کرنا جس کو آگ نے چھوا ہو۔
147: عمر بن عبدالعزیز سے روایت ہے کہ عبداللہ بن ابراہیم بن قارظ نے انہیں اس بات کی خبر دی کہ انہوں نے سیدنا ابوہریرہ (ر) کو مسجد میں وضو کرتے ہوئے دیکھا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے پنیر کے ٹکڑے کھائے ہیں اس لئے وضو کرتا ہوں، کیونکہ میں نے رسول اللہ (ص) سے سنا، آپ (ص) فرماتے تھے کہ اس چیز کے کھانے سے وضو کرو جو آگ پر پکی ہو۔
کتاب: آگ سے پکی ہوئی چیز سے وضو کا حکم منسوخ ہے۔
148: جعفر بن عمرو بن امیہ الضمری اپنے والد سیدنا عمرو بن امیہ الضمری (ر) سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ (ص) کو دیکھا کہ ایک بکری کا شانہ چھری سے کاٹ کر کھا رہے تھے۔ اتنے میں نماز کیلئے بلائے گئے تو آپ (ص) نے چھری رکھ دی اور نماز پڑھی اور وضو نہیں کیا۔
149: سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ پیا۔ پھر پانی منگوایا اور کلی کی اور فرمایا کہ دودھ سے منہ چکنا ہو جاتا ہے۔
کتاب: اس آدمی کا بیان جسے نماز میں (ہوا نکلنے) کا خیال آئے۔
150: سیدنا ابوہریرہ (ر) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ جب تم میں سے کسی کو (دوران نماز) اپنے پیٹ میں خلش معلوم ہو، پھر اس کو شک ہو کہ (پیٹ سے) کچھ نکلا یا نہیں یعنی ہوا خارج ہوئی یا نہیں تو مسجد سے نہ نکلے، جب تک کہ آواز نہ سنے یا بو نہ سونگھے (یعنی حدث ہونے کا یقین نہ ہو)۔
 

مہوش علی

لائبریرین
غسل کے مسائل
کتاب: ”اِنَّمَا الْمَاءُ مِنَ الْمَاءِ“ کے متعلق ۔
151: سیدنا عبدالرحمن بن ابی سعید خدری اپنے والد سیدنا ابوسعید خدری (ر) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میں پیر کے دن رسول اللہ (ص) کے ساتھ مسجد ِ قبا کی طرف نکلا۔ جب ہم بنی سالم کے محلے میں پہنچے، تو رسول اللہ (ص) نے سیدنا عتبان بن مالک (ر) کے دروازے پر کھڑے ہوکر اس کو آواز دی تو وہ اپنی ازار گھسیٹتے ہوئے نکلے۔ آپ (ص) نے فرمایا کہ ہم نے اس کو جلدی میں مبتلا کر دیا ۔ سیدنا عتبان (ر) نے کہا کہ یارسول اللہ (ص)! اگر کوئی شخص جلدی اپنی عورت سے الگ ہو جائے اور منی نہ نکلے، تو اس کا کیا حکم ہے (یعنی غسل کرے یا نہیں)؟ تو آپ (ص) نے فرمایا کہ پانی کا استعمال پانی نکلنے سے ہے (یعنی منی نکلنے سے غسل واجب ہوتا ہے)۔
کتاب: منی کے نکلنے ہی سے غسل واجب ہونے کا حکم منسوخ ہے اور شرمگاہوں کے ملنے سے غسل واجب ہونے کا بیان۔
152: سیدنا ابوموسیٰ (ر) کہتے ہیں کہ (وجوب غسل کے) اس مسئلہ میں مہاجرین اور انصار کی ایک جماعت نے اختلاف کیا۔ انصار نے کہا کہ غسل جب ہی واجب ہوتا ہے کہ منی کود کر نکلے اور انزال ہو، جبکہ مہاجرین نے کہا کہ جب مرد عورت سے صحبت کرے، تو غسل واجب ہے۔ سیدنا ابوموسیٰ (ر) نے کہا کہ میں تمہاری تسلی کئے دیتا ہوں۔ میں اٹھا اور اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے مکان پر جا کر ان سے اجازت مانگی۔ انہوں نے اجازت دی، تو میں نے کہا کہ اے اُمّ المؤمنین میں آپ سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں، لیکن مجھے شرم آتی ہے۔ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ تو اس بات کے پوچھنے میں مت شرم کر جو اپنی سگی ماں سے پوچھ سکتا ہے جس نے تجھے جنم دیا ہے۔ میں بھی تو تیری ماں ہوں (کیونکہ رسول اللہ (ص) کی بیویاں مومنین کی مائیں ہیں) میں نے کہا کہ غسل کس سے واجب ہوتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ تو نے اچھے واقف کار سے پوچھا، رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ جب مرد عورت کے چاروں کونوں میں بیٹھے اور ختنہ ختنہ سے مل جائے (یعنی ذکر فرج میں داخل ہو جائے) تو غسل واجب ہو گیا۔
153: سیدنا جابر بن عبداللہ (ر) نے اُمّ کلثوم رضی اللہ عنہا سے روایت کی اور انہوں نے اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے کہ آپ نے کہا کہ ایک شخص نے رسول اللہ (ص) سے پوچھا کہ اگر کوئی مرد اپنی عورت سے جماع کرے، پھر انزال نہ کر سکے تو کیا دونوں پر غسل واجب ہے؟ آپ (ص) نے فرمایا کہ میں اور یہ (یعنی اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا) ایسا کرتے ہیں، پھر غسل کرتے ہیں۔
کتاب: جو عورت نیند میں وہ چیز دیکھے جو کچھ مرد دیکھتا ہے تو وہ عورت بھی غسل کرے گی۔
154: اسحاق بن ابی طلحہ سے روایت ہے کہ سیدنا انس (ر) نے کہا کہ سیدہ اُمّ سلیم رضی اللہ عنہا (اور وہ راوی حدیث اسحاق بن ابی طلحہ کی دادی تھیں رسول اللہ (ص) کے پاس آئیں اور وہاں اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بھی بیٹھی تھیں، انہوں نے کہا کہ یارسول اللہ (ص)! عورت اگر سوتے میں ایسا دیکھے، جیسا کہ مرد دیکھتا ہے (یعنی منی کو تو کیا حکم ہے)؟ یہ سن کر اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اے اُمّ سلیم! تو نے عورتوں کو رسوا کر دیا (اس وجہ سے کہ احتلام اسی عورت کو ہو گا جو بہت پرشہوت ہو اور منی بھی اسی کی نکلے گی) تیرے ہاتھ میں مٹی لگے (اور یہ انہوں نے نیک بات کہی) آپ (ص) نے فرمایا کہ اے عائشہ! تیرے ہاتھ میں مٹی لگے اور اُمّ سلیم سے فرمایا کہ اے اُمّ سلیم! جب عورت ایسا دیکھے تو اس صورت میں غسل کرے۔
کتاب: غسل جنابت کا طریقہ۔
155: اُمّ المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں، میں نے رسول اللہ (ص) کے لئے غسل جنابت کے واسطے پانی رکھا۔ آپ (ص) نے پہلے دو بار یا تین بار دونوں ہاتھ دھوئے، پھر ہاتھ برتن میں ڈالا اور شرمگاہ پر پانی ڈال کر بائیں ہاتھ سے دھویا، پھر بائیں ہاتھ کو زمین پر زور سے رگڑ کر دھویا پھر وضو کیا جیسے نماز کیلئے کرتے تھے، پھر اپنے سر پر تین چلو بھر کر ڈالے، پھر سارے بدن کو دھویا، پھر اس جگہ سے ہٹ کر اور پاؤں دھوئے۔ پھر میں بدن پوچھنے کو رومال (تولیہ) لے کر آئی تو آپ (ص) نے نہ لیا۔
کتاب: کتنے پانی سے غسل جنابت کیا جا سکتا ہے۔
156: ابوسلمہ بن عبدالرحمن (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے رضاعی بھانجے) کہتے ہیں کہ میں اور اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا رضاعی بھائی (عبداللہ بن یزید) ان کے پاس گئے اور رسول اللہ (ص) کے غسل جنابت کے متعلق پوچھا؟ انہوں نے ایک برتن منگوایا جس میں صاع بھر پانی آتا تھا اور ہمارے اور اپنے درمیان پردے کی آڑ سے غسل کیا اور انہوں نے اپنے سر پر تین بار پانی ڈالا۔ ابو سلمہ نے کہا کہ رسول اللہ (ص) کی بیویاں اپنے بال کتراتی تھیں اور کانوں تک بال رکھتی تھیں۔ (ازواجِ مطہرات نے آپ (ص) کی رحلت کے بعد زینت ختم کرنے کے لئے ایسا کیا تھا کیونکہ بال عورت کی زینت ہیں)۔
کتاب: غسل کرنے والے کا کپڑے سے پردہ کرنا۔
157: سیدہ ام ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جس سال مکہ فتح ہوا، وہ رسول اللہ (ص) کے پاس آئیں اور آپ (ص) مکہ کے بلند جانب میں تھے۔ آپ (ص) غسل کرنے کیلئے اٹھے، تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ایک کپڑے کی آڑ آپ] پر کی، پھر آپ (ص) نے اپنا کپڑا لے کر لپیٹا اور پھر آٹھ رکعتیں چاشت کی پڑھیں۔
کتاب: اکیلے آدمی کا غسل جنابت کرنا اور پردہ کرنا۔
158: سیدنا ابوہریرہ (ر) محمد رسول اللہ (ص) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ بنی اسرائیل کے لوگ ننگے نہایا کرتے اور ایک دوسرے کے ستر کو دیکھا کرتے تھے۔ اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام اکیلے نہاتے تھے۔ لوگوں نے کہا کہ موسیٰ علیہ السلام ہمارے ساتھ مل کر اس لئے نہیں نہاتے کہ ان کو تو فتق کی بیماری ہے (یعنی خصیے بڑھ جانے کی)۔ ایک دفعہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نہانے کو گئے اور کپڑے اتار کر ایک پتھر پر رکھے، تو پتھر (خود بخود اللہ کے حکم سے) ان کے کپڑے لیکر بھاگ کھڑا ہوا۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام اس کے پیچھے دوڑے اور کہتے جاتے کہ اے پتھر میرے کپڑے دے، اے پتھر میرے کپڑے دے! یہاں تک کہ بنی اسرائیل نے ان کا ستر دیکھ لیا اور کہنے لگے کہ اللہ کی قسم! ان کو تو کوئی بیماری نہیں ہے۔ اس وقت پتھر کھڑا ہو گیا اور انہیں خوب دیکھا گیا۔ پھر انہوں نے اپنے کپڑے اٹھائے اور (غصے سے) پتھر کو مارنا شروع کیا۔ سیدنا ابوہریرہ (ر) کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم! اس پتھر پر سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی چھ یا سات ماروں کا نشان ہے۔
کتاب: مرد یا عورت کے ستر دیکھنے کی ممانعت۔
159: سیدنا ابوسعید خدری (ر) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا: ایک مرد دوسرے مرد کے ستر کو (یعنی وہ حصہ جس کا چھپانا فرض ہے) نہ دیکھے اور نہ عورت دوسری عورت کے ستر کو دیکھے اور نہ مرد دوسرے مرد کے ساتھ ایک کپڑے میں لیٹے اور نہ عورت دوسری عورت کے ساتھ ایک کپڑے میں لیٹے۔
کتاب: شرمگاہ کو چھپانا اور انسان ننگا نظر نہیں آنا چاہیئے۔
160: سیدنا جابر بن عبداللہ (ر) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) لوگوں کے ساتھ تعمیر کعبہ کیلئے پتھر ڈھو رہے تھے اور آپ (ص) تہبند باندھے ہوئے تھے کہ سیدنا عباس (ر) جو آپ (ص) کے چچا تھے، نے کہا کہ اے میرے بھتیجے! تم اپنی ازار اتار کر کندھے پر ڈال لو تو اچھا ہے۔ آپ (ص) نے ازار کھول کر کندھے پر ڈال لی تو اسی وقت غش کھا کر گر پڑے۔ پھر اس دن سے آپ (ص) کو ننگا نہیں دیکھا گیا۔
کتاب: میاں بیوی کا ایک ہی برتن سے غسل جنابت کرنا۔
161: سیدہ معاذہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں اور رسول اللہ (ص) ایک ہی برتن سے غسل کرتے تھے، جو میرے اور آپ (ص) کے درمیان میں ہوتا تھا۔ آپ (ص) جلدی جلدی پانی لیتے، یہاں تک کہ میں کہتی کہ تھوڑا پانی میرے لئے چھوڑ دو (سیدہ معاذہ) راویہ حدیث کہتی ہیں:اور دونوں جنابت سے ہوتے تھے۔
کتاب: جنبی جب سونے یا کھانے پینے کا ارادہ کرے، تو پہلے وضو کر ے۔
162: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ (ص) جب جنبی ہوتے اور کھانا یا سونا چاہتے تو وضو کر لیتے جیسے نماز کے لئے کرتے تھے۔
کتاب: جنبی، غسل کرنے سے پہلے سو سکتا ہے۔
163: سیدنا عبداللہ بن ابی قیس سے روایت ہے کہ میں نے اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ (ص) کے وتر کے بارے میں پوچھا پھر حدیث (وتر کے متعلق) بیان کی۔ میں نے کہا آپ (ص) جنابت میں کیا کیا کرتے تھے؟ کیا آپ (ص) سونے سے پہلے غسل کرتے تھے یا غسل سے پہلے سو جاتے تھے؟ انہوں نے کہا کہ آپ (ص) دونوں طرح کرتے تھے، کبھی غسل کر لیتے، پھر سوتے اور کبھی وضو کر کے سو رہتے۔ میں نے کہا کہ اللہ کا شکر ہے جس نے اس امر میں گنجائش رکھی۔
کتاب: جو کوئی اپنی بیوی کے پاس دوبارہ جانا چاہے تو وضو کر لے۔
164: سیدنا ابو سعید خدری (ر) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی اپنی عورت سے صحبت کرے، پھر دوبارہ صحبت کرنا چاہے، تو وضو کر لے (پھر صحبت کرے)۔
کتاب: تیمم کے بارہ میں جو کچھ بیان ہوا ہے۔
165: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ (ص) کے ساتھ سفر میں نکلے، جب بیداء یا ذات الجیش میں پہنچے (بیداء اور ذات الجیش خیبر اور مدینہ کے درمیان مقام کے نام ہیں) تو میرے گلے کا ہار ٹوٹ کر گر گیا اور رسول اللہ (ص) اس کے ڈھونڈھنے کے لئے ٹھہر گئے۔ لوگ بھی ٹھہر گئے۔ وہاں پانی نہ تھا اور نہ لوگوں کے پاس پانی تھا۔ لوگ سیدنا ابوبکر (ر) کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ تم دیکھتے نہیں کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کیا کیا ہے؟ رسول اللہ (ص) کو ٹھہرایا ہے اور لوگوں کو بھی، جہاں پانی نہیں اور نہ ان کے پاس پانی ہے۔ یہ سن کر سیدنا ابوبکر (ر) آئے اور رسول اللہ (ص) اپنا سر میری ران پر رکھے سو گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ تو نے رسول اللہ (ص) کو روک رکھا ہے اور لوگوں کو جہاں نہ پانی ہے اور نہ لوگوں کے پاس پانی ہے اور انہوں نے غصہ کیا اور جو اللہ نے چاہا وہ کہہ ڈالا اور میری کوکھ میں ہاتھ سے گھونسے مارنے لگے۔ میں ضرور ہلتی مگر رسول اللہ (ص) کا سر میری ران پر تھا، اس وجہ سے میں نہ ہلی۔ پھر آپ (ص) سوتے رہے یہاں تک کہ صبح ہو گئی اور پانی بالکل نہ تھا تب اللہ تعالیٰ نے تیمم کی آیت اتاری تو سب نے تیمم کیا۔ سیدنا اسید بن حضیر (ر) جو نقیبوں میں سے تھے، نے کہا کہ اے ابوبکر کی اولاد! یہ تمہاری کچھ پہلی برکت نہیں ہے (یعنی تمہاری وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ مسلمانوں کو فائدہ دیا ہے، یہ بھی ایک نعمت تمہارے سبب سے ملی) اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ پھر ہم نے اس اونٹ کو اٹھا یا جس پر میں سوار تھی ، تو ہار اس کے نیچے سے مل گیا۔
کتاب: جنابت سے تیمم کرنا۔
166: شقیق کہتے ہیں کہ میں سیدنا عبداللہ (بن مسعود ) اور سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہما کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ سیدنا ابوموسیٰ (ر) نے کہا کہ اے ابوعبدالرحمن (یہ کنیت ہے ابن مسعود (ر) کی) اگر کسی شخص کو جنابت ہو اور ایک مہینے تک پانی نہ ملے تو وہ نماز کا کیا کرے؟ سیدنا عبداللہ نے کہا کہ اسے ایک مہینہ تک بھی پانی نہ ملے تو بھی تیمم نہ کرے۔ سیدنا ابوموسیٰ (ر) نے کہا کہ پھر سورئہ مائدہ میں یہ جو آیت ہے کہ ”پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی سے تیمم کرو“ اس کا کیا حکم ہے؟ سیدنا عبداللہ نے کہا کہ اگر اس آیت سے ان کو جنابت میں تیمم کرنے کی اجازت دی گی تو وہ رفتہ رفتہ پانی ٹھنڈا ہونے کی صورت میں بھی تیمم کرنے لگ جائیں گے۔ سیدنا ابوموسیٰ (ر) نے کہا کہ تم نے سیدنا عمار (ر) کی حدیث نہیں سنی کہ رسول اللہ (ص) نے مجھے ایک کام کو بھیجا، وہاں میں جنبی ہو گیا اور پانی نہ ملا تو میں خاک میں اس طرح سے لیٹا جیسے جانور لیٹتا ہے۔ اس کے بعد رسول اللہ (ص) کے پاس آیا اور آپ (ص) سے بیان کیا تو آپ (ص) نے فرمایا کہ تجھے دونوں ہاتھوں سے اس طرح کرنا کافی تھا۔ پھر آپ نے دونوں ہاتھ زمین پر ایک بار مارے اور بائیں ہاتھ کو داہنے ہاتھ پر مارا۔ پھر ہتھیلیوں کی پشت اور منہ پر مسح کیا۔ سیدنا عبداللہ (ر) نے کہا کہ تم جانتے ہو کہ سیدنا عمر (ر) نے سیدنا عمار (ر) کی حدیث پر قناعت نہیں کی۔ (سیدنا ابن مسعود اور عمر رضی اللہ عنہما کا خیال تھا کہ جنابت سے تیمم کافی نہیں ہے۔ لیکن احادیث سے ثابت ہے کہ انہوں نے اپنے اس موقف سے رجوع کر لیا تھا)
کتاب: سلام کا جواب دینے کیلئے تیمم کرنا۔
167: سیدنا عمیر مولیٰ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں اور عبدالرحمن بن یسار جو اُمّ المؤمنین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی میمونہ رضی اللہ عنہا کے مولیٰ تھے ابوالجہم بن حارث کے پاس گئے۔ ابوالجہم نے کہا کہ رسول اللہ (ص) بئر جمل (مدینہ کے قریب ایک مقام ہے) کی طرف سے آئے، راہ میں ایک شخص ملا، اس نے آپ (ص) کو سلام کیا ۔ آپ (ص) نے جوا ب نہیں دیا یہاں تک کہ ایک دیوار کے پاس آئے اور منہ اور دونوں ہاتھوں پر مسح کیا اور پھر سلام کا جواب دیا۔
کتاب: مومن نجس نہیں ہوتا ۔
168: سیدنا ابوہریرہ (ر) سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ (ص) کو مدینہ کے ایک راستے میں ملے اور وہ جنبی تھے، تو کھسک گئے اور جا کر غسل کیا۔ رسول اللہ (ص) نے انہیں گم پایا، جب وہ آئے تو پوچھا کہ کہاں تھے؟ انہوں نے کہا کہ یارسول اللہ (ص)! جس وقت آپ مجھ سے ملے میں جنبی تھا، میں نے غسل کئے بغیر آپ ]کے پاس بیٹھنا ناپسند کیا۔ رسول اللہ (ص) نے فرمایا سبحان اللہ! مومن کہیں نجس ہوتا ہے؟
کتاب: ہر وقت اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا۔
169: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ (ص) ہر وقت ہر حال میں اللہ کی یاد میں مشغول رہتے تھے۔
کتاب: مُحدِث آدمی کھا پی سکتا ہے اگرچہ اس نے وضو نہ کیا ہو۔
170: سیدنا ابن عباس (ر) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) بیت الخلا سے نکلے اور کھانا لایا گیا۔ لوگوں نے آپ کو وضو یاد دلایا تو آپ (ص) نے فرمایا کہ کیا میں نماز پڑھنے لگا ہوں جو وضو کروں؟۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top