مختصر مختصر: دل کے ارماں آنسوؤں میں بہہ گئے...

پورا پلان تیار تھا.
مردم شماری والے آئیں گے.
ان کو بیٹھک میں بٹھانا ہے.
چائے پانی پوچھنا ہے.
گرمی زیادہ ہے تو شربت پلانا ہے.
روح افزاء بھی لے آیا تھا.
اگر دوپہر کے وقت آئیں گے تو کھانا بھی پوچھنا ہے.
مگر...
مردم شماری والے آئے.
صبح صبح آئے.
ایک پتلی سے چیپی ابو کو پکڑائی.
اس پر صرف پرفارما کے عنوانات درج تھے.
کہا کہ کسی کاغذ پر گھر کے تمام افراد کی یہ انفارمیشن لکھ کر رکھیں.
ہم بعد میں لے جائیں گے.
اور پانی پوچھنے سے بھی پہلے یہ جا وہ جا.
ابو نے خود ایک کاغذ پر حاشیے لگائے
اور ہم سب سے انفارمیشن لے کر فِل کی.

اور ہمدردی کے سارے
دل کے ارماں آنسوؤں میں بہہ گئے...
 
kaleem_ullah_696x522.jpg

نارتھ کراچی میں قرضوں میں ڈوبے شخص نے مردم شماری ٹیم کیساتھ پولیس اہلکاروں کو دیکھ کر تیسری منزل سے چھلانگ لگا دی ۔
تفصیلات کے مطابق نارتھ کراچی کا رہائشی کلیم اللہ ٹرانسپورٹ کا کاروبار کرتا تھا اورکچھ عرصے سے اس کا کاروبار خسارے کا شکار تھا اور اس نے کچھ لوگوں نسے قرضہ بھی لیا ہوا تھا۔ کچھ عرصہ قبل کلیم اللہ نے دوسری شادی بھی کر لی تھی جس کی وجہ سے آئے روز گھر میں بھی جھگڑے چل رہے تھے۔آج صبح کلیم کی چند لوگوں سے لڑائی بھی ہوئے تھی۔ اس لئے جب مردم شماری کی ٹیم کو اپنے علاقے میں دیکھا جس میں پولیس اہلکار بھی تھے تو اس نے خوفزدہ وہ کر اپنے گھر کی تیسری منزل سے چھلانگ لگا دی۔ اہل علاقہ نے اسے فوری ہسپتال منتقل کیا جہاں وہ خالق حقیقی سے جا ملا۔
 
دو ہفتے پہلے ہمارے گھر میں بھی آئے تھے مردم شماری والے ۔
باہر صحن میں درخت کے سائے میں کُرسیاں لگوا دی تھیں ۔ ایک ماسٹر صاحب تھے ۔ دو آرمی کے جوان ۔ اور ایک پولیس والا ۔
آرمی کے جوان نے ہی باقاعدہ سب گھر والوں کی انفارمیشن لی ۔ شناختی کارڈ ،اسناد چیک کیں اور مردم شماری والے خاص فارم پہ ساری چیزیں لکھ کے نوٹ کر لیں ۔ بمعہ گھر کے افراد کی تفصیل ، بچوں کی تفصیل ، بچوں کی کلاسز کی تفصیل ، کمروں کی تفصیل ، کچن اور واش روم کی تفصیل ۔
انہیں پانی بھی پلایا جو کہ کافی منتوں کے بعد قبول کیا انہوں نے ۔ کافی خوش اخلاق لوگ تھے۔ کھانے کی آفر نہیں مانی ۔ مجموعی طور پہ بہت اچھا تجربہ تھا ۔
 
کراچی میں 4 افراد پر مشتمل ٹیم نے مردم شماری کا کام انجام دیا ہے۔1 بری فوج کا سپاہی،1 نیوی فوج کاسپاہی،1 سندھ پالیس کا سپاہی اور 1 کسی بھی سرکاری اسکول کا استاد پر مشتمل ٹیم نے اپنا کام سر انجام دیا۔
 

زیک

مسافر
پاکستان میں کوئی مردم شماری یاد نہیں کہ صرف 1972 والی کے دوران پاکستان میں تھا اور عمر کچھ چھوٹی تھی۔ یہاں دو مردم شماریاں دیکھی ہیں۔ دونوں بار فارم بذریعہ ڈاک گھر آیا اور اسے مکمل کر کے ڈاک میں واپس بھیج دیا
 

فہد اشرف

محفلین
مردم شماری والے انور مسعود کے گھر بھی گئے تھے اور کچھ ایسی حرکت کر آئے ہیں جسے "پاک ٹی ہاؤس" والے ادبی ظرافت کہہ رہے ہیں۔ کوئی ہمیں بھی سمجھائے یہ کیا ہے
18486028_1306745612773110_7810192120189357156_n.jpg
 
مردم شماری والے انور مسعود کے گھر بھی گئے تھے اور کچھ ایسی حرکت کر آئے ہیں جسے "پاک ٹی ہاؤس" والے ادبی ظرافت کہہ رہے ہیں۔ کوئی ہمیں بھی سمجھائے یہ کیا ہے
18486028_1306745612773110_7810192120189357156_n.jpg
مردم شماری کی تفصیل کے نیچے انور مسعود کی مشہور پنجابی نظم کا پہلا مصرع لکھا ہے
بنَین لَین جاندے او
 

فہد اشرف

محفلین
اچھا میں نے بھی پوسٹ دھیان سے نہیں پڑھا یہ آپ کی تحریر کا اثر ہے کہ مجھے پولیو والے بھی مردم شماری والے لگے:ROFLMAO::p
اب اس مصرعے کا ترجمہ بھی پیش کر دیجیے
خالی اس مصرع کے ترجمہ کا مزا نہیں آئے گا.
بنیان لینے جاتے ہو
 

فہد اشرف

محفلین
خالی اس مصرع کے ترجمہ کا مزا نہیں آئے گا.
بنیان لینے جاتے ہو
تب ہم عبدالقیوم چوہدری چوہدری بھائی سے گذارش کریں گے کہ پوری نظم مع اردو ترجمہ محفل میں ارسال کی جائے۔
نوٹ: دوسرے پنجابی داں محفلین بھی یہ کار خیر انجام دے سکتے ہیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
نوٹ: دوسرے پنجابی داں محفلین بھی یہ کار خیر انجام دے سکتے ہیں۔
ارے فہد! کبھی بھی اس کا ترجمہ نہیں ہو سکتا، ہاں، اگر آپ پنجابی کلچر سے واقف ہوں تو اس کا لطف اٹھا سکتے ہیں۔ تاہم، ٹوٹے پھوٹے معانی حاضر ہیں؛ خود پڑھ کر ذرا مزا نہیں آیا تاہم بھارت سے تعلق رکھنے والے دوست کی فرمائش کیسے ٹالی جائے؟ :)


بنیان لینے جاتے ہو
بنیان لے کے آتے ہو
پہننے لگو تو پہننے ہوتی نہیں، جو پہن لو تو پھر کسی طور اترتی نہیں
اور اگر اتر جائے تو پھر اس قابل نہیں رہتی کہ دوسری بار پہنی جا سکے
تاہم، جو بنیان میں آپ کو دوں گا
وہ پہنو گے تو پہنی جائے گی، اتارو گے تو بہ سہولت اترے گی
اتر گئی تو پھر بھی اس قابل رہے گی کہ دوسری بار پہننے کے قابل رہے
یہ بنیان ودھیا ہے،، یہ ٹاپ کلاس ہے
بڑوں کو بھی پوری آئے گی، گو کہ چھوٹوں کے ناپ کی بھی کہی جا سکتی ہے
چیز اگر اصلی ہو تو منہ سے خود بول اٹھتی ہے
اسے رسی پر ڈالا جائے تو دھوپ سے زیادہ سفید لگتی ہے
جتنی بار چاہیں آپ سے بدل بدل کر پہن لیں
اور اگر تنگ آ جائیں تو اسے بچوں کا جانگیا بنا لیں

پنجابی ورژن
بنَین لَین جاندے ہو
بنَین لے کے آندے ہو
پاندے ہو تے پیندی نئیں، پے جائے تے لہندی نئیں
لہہ جائے تے دوجی واری پان جوگی رہندی نئیں
بنَین میں دیاں‌گا
پاؤ گے تے پے جائے، لاہو گے تے لہہ جائے
لہہ جائے تے دوجی واری پان جوگی رہ جائے
بنَین میری ودھیا، بنَین میری ٹاپ دی
وڈیاں نوں پوری آوے، نِکیاں دے ناپ دی
چیز ہووے اصلی تے مونہوں پئی بولدی
دھُپ نالوں گوری لگے رسی اُتے ڈولدی
جِنّے ورہے چاہو تُسی ایس نوں ہنڈا لئو
فیر بھانویں بچیاں دا جانگیا بنا لئو

تاہم، عرض کرتا چلوں کہ پنجابی زبان میں جس رِدہم اور آہنگ کے ساتھ یہ لکھی گئی ہے اس کا مزہ اپنا ہے تاہم اس نظم کا تھیم یہی ہے کہ بنیان فروش اپنی تھکی ہوئی چیز کو بھی ودھیا اور ٹاپ کلاس کہہ کر فروخت کرتا ہے ۔۔۔!!!
 
آخری تدوین:
کراچی میں بہت سے لوگوں کو یہ شکایت کرتے سنا ہے کہ مردم شماری والے مردم بیزاری کرگئے ... یعنی آئے ہی نہیں
 
ارے فہد! کبھی بھی اس کا ترجمہ نہیں ہو سکتا، ہاں، اگر آپ پنجابی کلچر سے واقف ہوں تو اس کا لطف اٹھا سکتے ہیں۔ تاہم، ترجمہ حاضر ہے؛ خود پڑھ کر ذرا مزا نہیں آیا تاہم بھارت سے تعلق رکھنے والے دوست کی فرمائش کیسے ٹالی جائے؟ :)


بنیان لینے جاتے ہو
بنیان لے کے آتے ہو
پہننے لگو تو پہننے ہوتی نہیں، جو پہن لو تو پھر کسی طور اترتی نہیں
اور اگر اتر جائے تو پھر اس قابل نہیں رہتی کہ دوسری بار پہنی جا سکے
تاہم، جو بنیان میں آپ کو دوں گا
وہ پہنو گے تو پہنی جائے گی، اتارو گے تو بہ سہولت اترے گی
اتر گئی تو پھر بھی اس قابل رہے گی کہ دوسری بار پہننے کے قابل رہے
یہ بنیان ودھیا ہے،، یہ ٹاپ کلاس ہے
بڑوں کو بھی پوری آئے گی، گو کہ چھوٹوں کے ناپ کی بھی کہی جا سکتی ہے
چیز اگر اصلی ہو تو منہ سے خود بول اٹھتی ہے
اسے رسی پر ڈالا جائے تو دھوپ سے زیادہ سفید لگتی ہے
جتنی بار چاہیں آپ سے بدل بدل کر پہن لیں
اور اگر تنگ آ جائیں تو اسے بچوں کا جانگیا بنا لیں

پنجابی ورژن
بنَین لَین جاندے ہو
بنَین لے کے آندے ہو
پاندے ہو تے پیندی نئیں، پے جائے تے لہندی نئیں
لہہ جائے تے دوجی واری پان جوگی رہندی نئیں
بنَین میں دیاں‌گا
پاؤ گے تے پے جائے، لاہو گے تے لہہ جائے
لہہ جائے تے دوجی واری پان جوگی رہ جائے
بنَین میری ودھیا، بنَین میری ٹاپ دی
وڈیاں نوں پوری آوے، نِکیاں دے ناپ دی
چیز ہووے اصلی تے مونہوں پئی بولدی
دھُپ نالوں گوری لگے رسی اُتے ڈولدی
جِنّے ورہے چاہو تُسی ایس نوں ہنڈا لئو
فیر بھانویں بچیاں دا جانگیا بنا لئو

تاہم، عرض کرتا چلوں کہ پنجابی زبان میں جس رِدہم اور آہنگ کے ساتھ یہ لکھی گئی ہے اس کا مزہ اپنا ہے تاہم اس نظم کا تھیم یہی ہے کہ بنیان فروش اپنی تھکی ہوئی چیز کو بھی ودھیا اور ٹاپ کلاس کہہ کر فروخت کرتا ہے ۔۔۔!!!
میں نے بعد میں دیکھا کہ آپ یہاں ترجمہ کر چکے ہیں. :)
 
Top