مختلف کتابوں سے پسندیدہ اقتباس

ناعمہ عزیز

لائبریرین
اس وقت مجھے وہ سہ پہر یاد آ رہی ہے جب شہاب کا بازو کھینچ کر اسے اٹھانے کی کوشش کی تھی کہ چلو اصحاب صفہ کے چبوترے پر تم بھی جا کر نفل ادا کرلو -
میں وہاں بڑی مشکل سے جگہ بنا کر آیا ہوں - اور ایک عرب صوفی کو اپنے پاکستانی صوفی ہونے کا یقین دلا کے آیا ہوں کہ ابھی میں اپنے بڑے بھائی کو لاتا ہوں -

لیکن شہاب نے یہ کہ کر اپنا بازو چھڑا لیا کہ اتنے بڑے مقام پر اور اتنی اونچی جگہ پر بیٹھ کر میں نفل نہیں ادا کر سکتا -
میں یہیں ٹھیک ہوں بلکہ یہ بھی کسی کے کرم سے رعایت ملی ہوئی ہے کہ میں یہاں بیٹھا ہوں -

مجھے اس کی بات پر غصہ بھی آیا ور کفران نعمت پر افسوس بھی ہوا - لیکن وہ ایسا ہی تھا -

صبح بھی جب میں نے اس کو بتایا کہ چلو حضور کے محراب میں لوگ نفل ادا کر رہے ہیں تم بھی میرے ساتھ چلو میں جگہ بنوا دوں گا اور ایک دو دھکے لگا کر محراب خالی کروا دونگا لیکن وہ نہیں مانا اور شرمندہ سا ہو کر کہنے لگا

" یار حضور کے محراب میں کھڑے ہو کر نفل پڑھنا بڑے دل گردے کا کام ہے وہاں تو حضرت ابو بکر کو بھی تھرتھری آ گئی تھی میرا کیا منہ ہے جو اس جگہ کے قریب بھی جاؤں -
میری شکل دیکھتے ہو یہ اس محراب میں کھڑے ہونے کے قابل ہے تم جاؤ اور وہاں جا کر نماز پڑھو اس مسجد کی بہاریں جتنی بھی لوٹ سکتے ہو لوٹ لو - ایسا موقع بار بار ہاتھ نہیں آتا -
ہر ہر مصلے سے ، ہرکونے سے ، اور ہر صف سے ، جہاں جہاں موقع ملے اپنا حصہ بٹور لو ، اور جو حصہ تمہارا نہیں بھی ہے وہ بھی ہتھیا لو - ایسا چانس روز نہیں ملا کرتا - "

از اشفاق احمد بابا صاحبا
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
میں نے محسوس کیا کہ مرشد ایک بہت ہے سمجھدار ، عقلمند اور زیرک بابا ہوتا ہے - وہ تم کو دانش سے قائل نہیں کرتا کیونکہ دانش کی ایک حد ہوتی ہے -
اور دانش تم کو دور نہیں لے جا سکتی - تمہارا سارا سامان اٹھا کر پہاڑ کےدامن تک جا سکتی ہے اس سے آگے کام نہیں دیتی -

چوٹی تک پہنچنے کے لئے پہلے ٹٹو سے کام لینا پڑتا ہے ، پھر پیدل چلنا پڑتا ہے - ایک مقام ایسا بھی آتا ہے کہ پیدل چلنے کا راستہ بھی مسدود ہو جاتا ہے پھر کمند پھینک کر اور کیلیں ٹھونک ٹھونک کر اوپر اٹھنا پڑتا ہے -

پھر ان کو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دانش اور عقل کی باتوں سے تو تم سمجھ ہی جاؤ گے کیونکہ اس میدان کے تم پرانے شہسوار ہو اور اس معاملے میں تمہاری کافی پریکٹس ہے -
علم سے تو تم قائل ہو ہی جاؤ گے لیکن یہ قائل ہونا تمہارے اندر کوئی تبدیلی پیدا نہیں کر سکے گا -
تم عقلی طور پر معقول ہو جاؤ گے لیکن اصلی طور پر نہیں -

ایک روز جب بابا جی جب وضوکرنے کی غرض سے مسجد کی تپنی پر بیٹھے تھے میں نے ڈرتے ڈرتے ان سے پوچھا

" حضور! باطن کا سفرمرشد کی معیت کے بغیر بھی کیا جا سکتا ہے ؟

وہ تھوڑی دیر خاموش رہے اور میرے رسیونگ سنٹر کے ٹیون ہونے کا انتظار کرتے رہے اپنے مخصوص انداز میں مسکرا کر بولے
کیا جا سکتا ہے لیکن وہ صرف ایک راستہ ہے

" وہ راستہ ہے عاجزی کا اور انکساری کا - حضرت آدم کی اس سنت کا جب وہ شرمندگی سے سر جھکائے اور عجز کے ہاتھ سینے پر باندھے الله کے حضور میں حاضر ہو کر بولے مجھ سے بڑی بھول ہو گئی "

بابا جے نے کہا ! بس یہی ایک طریقہ ہے اور رویہ ہے جسے اپنا کر مرشد کے بغیر باطن کا سفر کیا جا سکتا ہے -

" پھر آپ درختوں سے ، پرندوں سے ، پہاڑوں سے ، دریاؤں سے درس لے سکتے ہیں - پتھروں سے بادلوں سے ٹھوکروں سے گیان حاصل کر سکتے ہیں - پھر تو ساری دنیا آپ کو سبق دے سکتی ہے - ساری کائنات آپ کو رمز آشنا بنا سکتی ہے - "

از اشفاق احمد بابا صاحبا
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
دوسروں کا احتساب تو ہم بہت کر لیتے ہیں - اخباروں میں کالموں میں ، اداریوں میں - لیکن میری بھی تو ایک شخصیت ہے ، میں بھی تو چاہوں گا کہ میں اپنے آپ سے پوچھوں کہ ایسا کیوں ہے -

اگر ایسا ممکن ہوگیا تو پھر خفیہ طور پر ، اس کا کوئی اعلان نہیں کرنا ہے - یہ بھی الله کی بڑی مہربانی ہے کہ اس نے ایک راستہ رکھا ہوا ہے توبہ کا -

کئی آدمی تو کہتے ہیں نفل پڑھیں ، ورد وظیفہ کریں ، لیکن یہ اس وقت تک نہیں چلے گا جب تک آپ نے اس کیے ہوئے برے کام سے توبہ نہیں کر لی - توبہ ضروری ہے -

جیسے آپ کاغذ لے کے نہیں جاتے" ٹھپہ " لگوانے کے لئے - کوئی ٹھپہ لگا کے دستخط کر دیگا تو آپ کا کام ہو جاتا ہے -

اسی طرح توبہ وہ ٹھپہ ہے جو لگ جاتا ہے اور بڑی آسانی سے لگ جاتا ہے -

اگر آپ تنہائی میں دروازہ بند کر کے بیٹھیں اور الله تعالیٰ سے کہیں کہ :

" الله تعالیٰ پتا نہیں مجھے کیا ہوگیا تھا ، مجھ سے یہ غلطی ، گناہ ہوگیا اور میں اس پر شرمندہ ہوں -
( میں یہ ریزن نہیں دیتا کہ ہیومن بینگ کمزور ہوتا ہے یہ انسانی کمزوری ہے ، یہ بڑی فضول بات ہے ایسی بات کرنی ہی نہیں چاہئے )

بس یہ کہے کہ مجھ سے یہ کوتاہی ہوئی ہے اور میں اے خداوند تعالیٰ آپ سے اس کی معافی چاہتا ہوں ، اور میں یہ کسی کو بتا بھی نہیں سکتا - بس آپ سے معافی مانگتا ہوں -

اس طرح سے پھر زندگی کا نیا کامیاب ، اور شاندار راستہ چل نکلتا ہے -

از اشفاق احمد زاویہ ٢ ماضی کا البم
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین


تمہارے رتبے اور مرتبے ، ان لوگوں میں خوف پیدا کرتے ہیں ، جو ان مراتب کے خواہاں ہوں۔
ہمارے خوف کی وجہ سے وہ دل ہی دل میں ہمیں نا پسند کرتے ہیں اور پھر یہی ناپسندیدگی ان کے چہروں پر سوالات لکھتی ہے اور ان سوالات کو پڑھ کر ہم خوف زدہ ہو جاتے ہیں۔

امیر آدمی جب غریبوں کو ناراض دیکھتا ہے تو اسے ان سے خوف محسوس ہوتا ہے کہ یہ گونگا خطرہ اگر زبان کھول دے تو جانے کیا ہو جائے۔
ہر ظالم کو مظلوم سے خوف محسوس ہوتا رہتا ہے۔ڈرنے والا ہی ڈرانے والا بن جاتا ہے۔
ہم جس دشمن سے ڈرتے ہیں وہ بھی تو ہم سے ڈرتا ہے۔
بارڈر کے پاس ہمارا خوف پرورش پاتا رہتا ہے۔
جس نے ہمارا سکون برباد کیا ، اس کو کب چین نصیب ہوسکتا ہے۔یہ قانون فطرت ہے۔اندھیرا اجالا ایک دوسرے سے ڈرتے ہی رہتے ہیں۔
پیسے گننے اور جمع کرنے والا غریب ہو جانے کے ڈر سے سو نہیں سکتا۔باغی لوگ حکومت سے ڈرتے ہیں۔ حکومتیں بغاوتوں سے ڈرتی ہیں اور ڈرنا بھی چاہیے۔ طلبہ اساتذہ سے ڈرتے ہیں اور اساتذہ طلبہ سے ڈرتے ہیں۔ڈرانے والا بہرحال ڈرتا ہے۔خوف ایک حد تک تو خیر جائز ہے۔ خوف احتیاط پیدا کرتا ہے اور احتیاط زندگی کے تیز سفر میں ایک موزوں اور مناسب عمل ہے۔لیکن ایک حد سے زیادہ خوف ہو تو انسان کا سارا تشخص ، اس کی ساری سائیکی psyche،اس کا باطنی وجود ، سب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔خوف خون کی رنگت اور ہڈیوں کا گودا ختم کر دیتا ہے۔
حضرت واصف علی واصف رح کی تصنیف ”دل دریا سمندر “ سے انتخاب
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین


یہاں کھڑے ہوکر تجھ سے انبیاء دعا مانگا کرتے تھے۔۔ان کی دعاؤں اور میری دعاؤں میں بہت فرق ہے۔۔۔ میں نبی ہوتا'تو نبیوں جیسی دعا کرتا۔۔ مگر میں تو عام بشر ہوں۔۔ گنہگاربشر۔۔ میری خواہشات،میری آرزوئیں سب عام ہیں، یہاں کھڑے ہوکر کوئی کبھی کسی عورت کے لیے نہیں رویا ہوگا، میری ذلت اور پستی کی اسے زیادہ انتہا اور کیا ہوگی کہ میں یہاں کھڑا۔۔۔ حرم پاک میں کھڑا۔۔۔ایک عورت کے لیے گڑگڑا رہا ہوں۔۔۔۔
مگر مجھ کو اپنے دل پر اختیار ہے نہ اپنے آنسوؤں پر، یہ میں نہیں تھا جس نے اس عورت کو اپنے دل میں جگہ دی۔۔یہ تونے کیا۔۔کیوں میرے دل میں اس عورت کے لیے اتنی محبت ڈال دی کہ میں تیرے سامنے کھڑا بھی اس کو یاد کر رہا ہوں؟ میں وہ بشر ہوں جس کو تونے تمام خامیوں کے ساتھ بنایا۔۔جس کو تیرے سوا کوئی رستہ دکھانے والا نہیں، اور وہ عورت میری زندگی کے ہر رستے پہ کھڑی ہے۔۔ مجھے کہیں جانے نہیں دے رہی ۔۔۔یا تو اس کی محبت کو میرے دل سے اس طرح نکال دے کہ مجھے کبھی اس کا خیال تک نہ آئے۔یا پھر اسے مجھے دے دے۔۔وہ نہیں ملے گی تو میں ساری زندگی اس کے لیے روتا رہوں گا، وہ مل جائے گی تو تیرے علاوہ میں کسی کے لیے آنسو نہیں بہا سکوں گا، میرے آنسوؤں کو خالص ہونے دے۔۔ میں یہاں کھڑا تجھ سے پاک عورتوں میں سے ایک کو مانگتا ہوں ۔


عمیرہ احمد کے ناول "پیر کامل" سے اقتباس

 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
بابا جی خدا کیا ہے ؟

خدا نہ جانا جاتا ہے نہ جانا جا سکتا ہے - اس کے بارے میں تمہارا ہر خیال حقیقت کے خلاف ہے -

تو پھر آپ ہر وقت خدا کی باتیں کیوں کرتے رہتے ہیں ؟

پرندہ ہر وقت گاتا کیوں رہتا ہے ؟ پرندہ اس لیے نہیں گاتا کہ اس کے پاس کوئی اعلان ہوتا ہے - کوئی خبر ہوتی ہے ، کوئی دو پہر کا ضمیمہ ہوتا ہے - وہ اس لیے گاتا ہے کہ اس کے پاس ایک گیت ہوتا ہے -

کوئی ایسا فارمولا بتائیے جس سے خدا کی محبت پیدا ہو ؟

اپنے ہاتھ آپس میں رگڑو شاباش ، دونوں ہتھیلیاں ................... کیا کوئی گرمی پیدا ہوئی -
جی بہت -

بس اسی طرح رگڑتے رگڑتے گرمی محبت بھی پیدا ہوجاتی ہے کام میں لگنا ضروری ہے پوچھتے رہنا نہیں -

جو نہ دیکھا جا سکے نہ سمجھا جا سکے نہ تصور میں لایا جا سکے اس کو ماننے والے صاحب ایمان لوگ سمجھے جاتے ہیں - تصور میں بھی لے آتے ہیں اور دیکھ بھی لیتے ہیں صحیح اور سچی زندگی خدا پر ایمان رکھنے سے حاصل ہوتی ہے - اور خدا پر ایمان رکھنا اسی کو جاننا اور اسی کی جے جے کار کرنا ہے -

روح تو ایک سوکھی پیاسی اسفنج کا ایک ٹکڑا ہوتی ہے - خدا کا تعلق ہی اس کو سرشار اور شرابور کرتی ہے ورنہ یہ سوکھی پیاسی ہی ختم ہو جاتی ہے -

از اشفاق احمد بابا صاحبا
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
دنیا کے اندر سکون دو گے تو سکون ملے گا ورنہ سکون نہیں ملے گا۔ یہ جنت کا طریقہ ہے۔ کیا طریقہ ہے؟ کہ اس کو سکون دو جس سے ٓاپ کو سکون نہیں ملا اور معاف اُسے کرو جس نے ٓاپ کو معاف نہیں کیا، پھر دیکھو کہانی کیسی بنتی ہے، اگر اپ نے کہانی بنانی ہو تو، ورنہ تو پھر مشکل ہے۔

(حضرت واصف علی واصف رحمۃ اللہ علیہ)
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
ہمارے گھر میں میری بڑی آپا کے مضمون "تہذیب نسواں" اور "عصمت " میں شائع ہونے لگے تھے اور اماں گرمیوں کی لمبی دوپہریں صرف کر کے ان مضامین کو بڑی مشکل سے اٹھاتی تھیں-

آپا نے کئی مرتبہ کہا کہ اماں یہ آپ کے پڑھنے کی چیزیں نہیں ہیں کہ ان میں عورتوں کے مشکل مسائل کی نشان دہی کی گئی ہے لیکن وہ آپا کی بات کا جواب دئے بغیر بڑی کاوش سے ان پرچوں کو ڈھونڈ تیں اور اپنی بیٹی کے مضامین کا مطالعہ کر کے خوش ہوتیں -

آپا کو ہندوستان کے دور دراز شہروں سے تعریفی خط آنے شروع ہو گئے تھے اور ہم سب بڑے فخر کے ساتھ ان خطوں کو باجماعت پڑھا کرتے تھے.اماں بھی گھومتے پھرتے، کام کاج کرتے، بہانے بہانے ہمارے پاس رک کر خطوں کی عبارت سنا کرتیں اور دل ہی دل میں اترایا کرتیں -
ایک روز جب بڑی آپا نے ابا جی کی موجودگی میں اعلان کیا کہ اس وقت ہندوستان کے سبھی پڑھے لکھے لوگ میری تعریف کرتے ہیں اور میرا مان بڑھاتے ہیں -
تو اماں نے واشگاف الفاظ میں کہا !

" جب سبھی لوگ کسی شخص کی تعریف کرنے لگ جائیں تو اس شخص کو آپ ہی شرم آنی چاہیے کہ یہ کیا ہو رہا ہے. جب سب لوگ تمہاری تعریف و توصیف اور قدر افزائی پر یکجا ہو جائیں تو تمہیں چوکنے ہو جانا چاہیے. یہ بہت ہی بری بات ہے."

از اشفاق احمد ، صبحانے فسانے ،عنوان اماں سردار بیگم
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
متقی

وہ اپنی داڑھی میں انگلیوں سے کنگھی کرتے ہوئے کہ رہا تھا -

" میں جانتا ہوں اسلم ساجد تمہارا اچھا دوست ہے - لیکن وہ مجھے ایک پل نہیں بھاتا - وہ نہایت بدتمیز جھوٹا ، مطلب پرست اور فریبی ہے -

ہمیشہ دوسروں کی برائیاں گنواتا رہتا ہے - کیا وہ نہیں جانتا کسی کی پیٹھ پیچھے اس کی برائیاں بیان کرنا اپنے بھائی کا کچا گوشت کھانے کے مترادف ہے -

مجھے دیکھو میں تو کسی کی برائی نہیں کرتا

از ڈاکٹر اشفاق احمد ایک زخم اور سہی صفحہ
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
بابا جی نے بتایا کہ اگلے وقتوں میں لوگ گدائی کر کے اور اپنے علائقے کے گھروں پر جا کر ، صدا لگا کر رسد اکٹھی کر کے لاتے تھے اور لنگر میں شامل کرتے تھے -

ان میں ہر طرح کے لوگ ہوتے تھے -

معزز سردار ، تعلقدار ، سرکاری ملازم ، مزدور ، منشی ، مقدی ، مدرسی ، پیشہ ور -

گدائی کرنے سے ان کے تکبر میں کمی آتی تھی - اور وہ ابلیس کی جماعت سے نکل کر سجدہ کرنے والوں کے " جیش " ٹولے میں شامل ہو جاتے تھے -

اب بھی لوگ خواجہ اجمیری کی درگاہ پر بڑی دیگ میں رسد ڈالنے کے لیے گھروں سے سودے لے کر آتے ہیں -

ایک روز بیٹھے بیٹھے میرے ذہن میں خیال آیا کہ میں گدائی کر کے کچھ رسد لے کر ڈیرے پر جاؤنگا - اور لنگر میں شامل کرونگا تاکہ پرانی رسم کا اعادہ ہو -
گھر کے پھاٹک سے باہر نکل کر جب میں نے ادھر ادھر دیکھا تو میرا حوصلہ نہ پڑا -

میں اتنا بڑا آدمی ایک معزز اور مشہور ادیب کس طرح کسی کے گھر کی گھنٹی بجا کر یہ کہ سکتا ہوں کہ میں مانگنے آیا ہوں - میں چپ چاپ واپس آ کر اپنی کرسی پر بیٹھ کر اخبار پڑھنے لگا -

لیکن چونکہ یہ خیال میرے ذہن میں جاگزیں ہو چکا تھا اس لیے میں پھر اپنی جگہ سے اٹھا اور اپنی بیوی کے پاس جا کر کہا !

" مجھے الله کے نام پر کچھ خیرات دو گی "

وہ میری بات نہ سمجھی اور حیرانی سے میرا چہرہ تکنے لگی -

میں نے کہا مجھے الله کے نام پر کچھ آٹا خیرات دو -

اس نے تعجب سے پوچھا تو میں نے کہا بابا جی کے لنگر میں ڈالنا ہے -
کہنے لگی ٹھہرئیے میں کوئی مضبوط سا شاپر تلاش کرتی ہوں - میں نے کہا شاپر نہیں میری جھولی میں ڈال دو - کیونکہ ایسے ہی مانگا جاتا ہے - وہ پھر نہیں سمجھی -

جب میں نے ضد کی تو وہ آٹے کا ایک بڑا پیالہ بھر لائی میں نے اپنے کرتے کی جھولی اس کے آگے کر دی -

اس نے آٹا میری جھولی میں ڈالتے ہوئے سر جھکا لیا اور آبدیدہ ہو گئی - پھر وہ مجھ سے نظریں ملائے بغیر واپس باورچی خانے میں چلی گئی -

وہاں سے دو بڑے بینگن اور چھوٹا سا کدو لے کر کر آئے اور انھیں آٹے پر رکھ دیا -

ہم دونوں کے شرمندہ شرمندہ اور غمناک چہروں کو ہمارا چھوٹا بیٹا دیکھ رہا تھا -
اس کے ہاتھ میں اس کا محبوب لیمن ڈراپ تھا - اور وہ اس سے چپکا ہوا کاغذ اتار رہا تھا جب اس نے باپ کو جھولی پھیلائے دیکھا تو اس نے اپنا لیمن ڈراپ میری جھولی میں ڈال دیا -

ہم دونوں میاں بیوی کے ایک ساتھ چیخ نکل گئی -

جب کوئی گدائے کرتا ہے تو بھکاری اور داتا کے درمیان ایک نہ سنائی دینے والی چیخ ضرور ابھرتی ہے -

بھکاری اپنی دریوزہ گری پر پشیمان ہوتا ہے اور داتا اپنی بے حقیقتی اور نا شدنی پر شرمندہ ہوتا ہے -

میں کھلی جھولی میں آٹا ڈالے آھستہ آھستہ کار چلاتا ڈیرے پر پہنچ گیا
بابا جی کھڑے تھے میری جھولی دیکھ کر زور کا نعرہ لگایا

" رحمتاں برکتاں والے آ گئے - نور والے آگئے - منگتے آگئے منگتے آگئے - "

از اشفاق احمد بابا صاحبا صفحہ
 

شمشاد

لائبریرین
متقی

وہ اپنی داڑھی میں انگلیوں سے کنگھی کرتے ہوئے کہ رہا تھا -

" میں جانتا ہوں اسلم ساجد تمہارا اچھا دوست ہے - لیکن وہ مجھے ایک پل نہیں بھاتا - وہ نہایت بدتمیز جھوٹا ، مطلب پرست اور فریبی ہے -

ہمیشہ دوسروں کی برائیاں گنواتا رہتا ہے - کیا وہ نہیں جانتا کسی کی پیٹھ پیچھے اس کی برائیاں بیان کرنا اپنے بھائی کا کچا گوشت کھانے کے مترادف ہے -

مجھے دیکھو میں تو کسی کی برائی نہیں کرتا

از ڈاکٹر اشفاق احمد ایک زخم اور سہی صفحہ

ہاہاہاہا بہت خوب۔
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
جب انسان ایک ہی وقت میں خود ہی ظالم خود ہی مظلوم اور خود ہی مجبور بنا کھڑا ہو تو اس کی حمایت کو کوئی نہیں آتا -

ساری شخصیت جذامی ہو جاتی ہے - اور زخموں کے اندر سے سفید سفید مادہ ہر وقت رستا رہتا ہے -

کسی اور کو یہ مادہ نظر نہ آئے - بو نہ آئے - گھن نہ آئے دوسری بات ہے لیکن اپنے آپ کو یہ کوڑھ ہر وقت دکھائی دیتا رہتا ہے -

اور ستم کی بات یہ ہے کہ اس کوڑھ پر کوئی ترس کھا کر خیرات بھی نہیں دیتا -

از اشفاق احمد بابا صاحبا
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
انسان کی زندگی میں ایسے لمحات آہی جایا کرتے ہیں۔ جو وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتے۔ ان کو بسر کرنے کے لئے سب سے اچھا طریقہ یہی ہے کہ ان کو گزر جانے دیا جائے۔

اقتباس: سعادت حسن منٹو کی کتاب "یزید" کے افسانے "ممی" سے
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
ایمان کے شیشے پر کتنی ہی گرد اور مٹی کیوں نہ ہو اسے صاف کیا جاسکتا ہے- بس ہاتھ پھیرنا پڑتا ہے اور شیشے میں سے عکس نظر آنا شروع ہوجاتا ہے – - -اور پھر ہر ہاتھ کے ساتھ عکس پہلے سے زیادہ صاف اور چمکدار ہوتا جاتا ہے ۔ ۔ اور وہ ہاتھ اس محبت کا ہوتا ہے جو ایمان سے ہوتی ہے۔۔

ایمان امید اور محبت سے اقتباس
 
اس وقت مجھے وہ سہ پہر یاد آ رہی ہے جب شہاب کا بازو کھینچ کر اسے اٹھانے کی کوشش کی تھی کہ چلو اصحاب صفہ کے چبوترے پر تم بھی جا کر نفل ادا کرلو -
میں وہاں بڑی مشکل سے جگہ بنا کر آیا ہوں - اور ایک عرب صوفی کو اپنے پاکستانی صوفی ہونے کا یقین دلا کے آیا ہوں کہ ابھی میں اپنے بڑے بھائی کو لاتا ہوں -

لیکن شہاب نے یہ کہ کر اپنا بازو چھڑا لیا کہ اتنے بڑے مقام پر اور اتنی اونچی جگہ پر بیٹھ کر میں نفل نہیں ادا کر سکتا -
میں یہیں ٹھیک ہوں بلکہ یہ بھی کسی کے کرم سے رعایت ملی ہوئی ہے کہ میں یہاں بیٹھا ہوں -

مجھے اس کی بات پر غصہ بھی آیا ور کفران نعمت پر افسوس بھی ہوا - لیکن وہ ایسا ہی تھا -

صبح بھی جب میں نے اس کو بتایا کہ چلو حضور کے محراب میں لوگ نفل ادا کر رہے ہیں تم بھی میرے ساتھ چلو میں جگہ بنوا دوں گا اور ایک دو دھکے لگا کر محراب خالی کروا دونگا لیکن وہ نہیں مانا اور شرمندہ سا ہو کر کہنے لگا



محبت کی بنا ادب ہے۔ مذہبی ذوق میں غرق ہو کر جن لوگوں کو ادب کی توفیق ملتی ہے وہ واقعی ایسے عظیم مقامات پر قدم رکھنے سے بھی ڈرتے ہیں۔

" یار حضور کے محراب میں کھڑے ہو کر نفل پڑھنا بڑے دل گردے کا کام ہے وہاں تو حضرت ابو بکر کو بھی تھرتھری آ گئی تھی میرا کیا منہ ہے جو اس جگہ کے قریب بھی جاؤں -
میری شکل دیکھتے ہو یہ اس محراب میں کھڑے ہونے کے قابل ہے تم جاؤ اور وہاں جا کر نماز پڑھو اس مسجد کی بہاریں جتنی بھی لوٹ سکتے ہو لوٹ لو - ایسا موقع بار بار ہاتھ نہیں آتا -
ہر ہر مصلے سے ، ہرکونے سے ، اور ہر صف سے ، جہاں جہاں موقع ملے اپنا حصہ بٹور لو ، اور جو حصہ تمہارا نہیں بھی ہے وہ بھی ہتھیا لو - ایسا چانس روز نہیں ملا کرتا - "

از اشفاق احمد بابا صاحبا
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
اورنگزیب عالمگیر کے دربار میں ایک بہروپیا آیا اور اس نے کہا :
" باوجود اس کے کہ آپ رنگ و رامش ، گانے بجانے کو برا سمجھتے ہیں -
شہنشاہ معظم ! لیکن میں فنکار ہوں اور ایک فنکار کی حیثیت سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں اور میں بہروپیا ہوں - میرا نام کندن بہروپیا ہے -

اور میں ایسا بہروپ بدل سکتا ہوں آپ کو جو اپنے علم پر بڑا ناز ہے کو دھوکہ دے سکتا ہوں اور میں غچہ دے کر بڑی کامیابی کے ساتھ نکل جاتا ہوں -

اورنگزیب عالمگیر نے کہا : تمھاری بات وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے - میں تو شکار کو بھی بیکار کام سمجھتا ہوں یہ جو تم میرے سامنے دعوہ کر رہے ہو اس کو میں کوئی اہمیت نہیں دیتا - "

اس نے کہا : " ہاتھ کنگن کو آرسی کیا - آپ اتنے بڑے شہنشاہ ہیں اور دانش میں اپنا جواب نہیں رکھتے - میں بھیس بدلونگا آپ پہچان کر دکھائیے - "

تو انھوں نے کہا ! " منظور ہے "
اس نے کہا حضور آپ وقت کے شہنشاہ ہیں - اگر تو آپ نے مجھے پہچان لیا تو میں آپ کے دینے دار ہوں -
لیکن اگر آپ مجھے پہچان نہ سکے اور میں نے ایسا بھیس بدلہ تو آپ سے پانچ سو روپیہ لونگا -

شہنشاہ نے کہا شرط منظور ہے -

اسے پتا چلا کے اگلے سال شہنشاہ مرہٹوں پر حملہ کریگا چانچہ وہ وہاں سے پا پیادہ سفر کرتا ہوا اس مقام پر پہنچ گیا -

ایک سال کے بعد جب اپنا لاؤ لشکر لے کر اورنگزیب عالمگیر ساؤتھ انڈیا پہنچا اور پڑاؤ ڈالا تو تھوڑا سا وہ خوفزدہ تھا -

اور جب اس نے مرہٹوں پر حملہ کیا تو وہ اتنی مضبوطی کے ساتھ قلعہ بند تھے کہ اس کی فوجیں وہ قلعہ توڑ نہ سکیں -

لوگوں نے کہا یہاں ایک درویش ولی الله رہتے ہیں ان کی خدمت میں حاضر ہوں - پھر دعا کریں پھر ٹوٹ پڑیں -

شہنشاہ پریشان تھا بیچارہ بھاگا بھاگا گیا ان کے پاس - سلام کیا اور کہا ؛ " حضور میں آپ کی خدمت میں ذرا ............ "

انھوں نے کہا ! " ہم فقیر آدمی ہیں ہمیں ایسی چیزوں سے کیا لینا دینا - "

شہنشاہ نے کہا ! " نہیں عالم اسلام پر بڑا مشکل وقت ہے ( جیسے انسان بہانے کرتا ہے ) آپ ہماری مدد کریں میں کل اس قلعے پر حملہ کرنا چاہتا ہوں - "
تو فقیر نے فرمایا ! " نہیں کل مت کریں ، پرسوں کریں اور پرسوں بعد نماز ظہر - "

اورنگزیب نے کہا جی بہت اچھا ! چانچہ اس نے بعد نماز ظہر جو حملہ کیا ایسا زور کا کیا اور ایسے جذبے سے کیا اور پیچھے فقیر کی دعا تھی ، اور ایسی دعا کہ قلعہ ٹوٹ گیا اور فتح ہو گئی - مفتوح جو تھے پاؤں پڑ گئے -

بادشاہ مرہٹوں کے پیشوا پر فتح مند کامران ہونے کے بعد سیدھا درویش کی خدمت میں حاضر ہوا - باوجود اس کے کہ وہ ٹوپیاں سی کے اور قران پاک لکھ کے گزارا کرتا تھا لیکن سبز رنگ کا بڑا سا عمامہ پہنتا تھا بڑے زمرد اور جواہر لگے ہوتے تھے - اس نے جا کر عمامہ اتارا اور کھڑا ہوگیا دست بستہ کہ حضور یہ سب آپ ہی کی بدولت ہوا ہے -

اس فقیر نے کہا : " نہیں جو کچھ کیا الله ہی نے کیا "

انھوں نے کہا کہ آپ کی خدمت میں کچھ پیش کرنا چاہتا ہوں
درویش نے کہا : " نہیں ہم فقیر لوگ ہیں - '

اورنگزیب نے کہا دو پرگنے یعنی دو بڑے بڑے قصبے - اتنے بڑے جتنے آپ کے اوکاڑہ اور پتوکی ہیں - وہ آپ کو دیتا ہوں اور اور آئندہ پانچ سات پشتون کے لئے ہر طرح کی معافی ہے -
اس نے کہا : " بابا ہمارے کس کام کی ہیں یہ ساری چیزیں - ہم تو فقیر لوگ ہیں تیری بڑی مہربانی - "

اورنگزیب نے بڑا زور لگایا لیکن وہ نہیں مانا اور بادشاہ مایوس ہو کے واپس آگیا -

اور اورنگزیب اپنے تخت پر آ کر بیٹھ گیا جب وہ ایک فرمان جاری کر رہا تھا عین اس وقت کندن بہروپیا اسی طرح منکے پہنے آیا -
تو شہنشاہ نے کہا : " حضور آپ یہاں کیوں تشریف لائے مجھے حکم دیتے میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا - "
کندن نے کہا ! " نہیں شہنشاہ معظم ! اب یہ ہمارا فرض تھا ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے تو جناب عالی میں کندن بہروپیا ہوں - میرے پانچ سو روپے مجھے عنایت فرمائیں - "

اس نے کہا : " تم وہ ہو -
کندن نے کہا ہاں وہی ہوں - جو آج سے ڈیڑھ برس پہلے آپ سے وعدہ کر کے گیا تھا -
اورنگزیب نے کہا : " مجھے پانچ سو روپے دینے میں کوئی اعتراض نہیں ہے - میں آپ سے یہ پوچھتا ہوں جب میں نے آپ کو دو پرگنے اور دو قصبے کی معافی دی جب آپ کے نام اتنی زمین کر دی جب میں نے آپ کی سات پشتون کو یہ رعایت دی کہ اس میری ملکیت میں جہاں چاہیں جس طرح چاہیں رہیں - آپ نے اس وقت کیوں انکار کر دیا ؟
یہ پانچ سو روپیہ تو کچھ بھی نہیں -
اس نے کہا : " حضور بات یہ ہے کہ جن کا روپ دھارا تھا ، ان کی عزت مقصود تھی - وہ سچے لوگ ہیں ہم جھوٹے لوگ ہیں - یہ میں نہیں کر سکتا کہ روپ سچوں کا دھاروں اور پھر بے ایمانی کروں - "

از اشفاق احمد زاویہ ١ بہروپ
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
میری مثال اس قیدی پرندے کی سی ہے جس نے خود کو باور کرا دیا ہے کہ اس کے پر ہی نہیں ہیں کہ وہ اڑ سکے۔ اسی لئے وہ اپنے سالم پروں کو پھڑپھڑانے کا رسک نہیں لے سکتا۔ مبادا ایسا کرنے سے لمبی اڑان بھرنے کو اس کا جی مچل اٹھے اور وہ بے قابو ہو جائے۔ ۔ ۔۔
انسان جب تک صبر کرتا ہے، سکھ میں رہتا ہے۔ صبر چھوڑ دو تو ایسی تڑپ جاگ اٹھتی ہے کہ ایک ایک لمحہ عذآب بن جاتا ہے اور میں اس عذاب میں خود کو مبتلا نہیں کرنا چاہتا۔"۔
"جب اتنا سمجھتے ہو تو یہ بھی مان لو کہ انسان ڈوبے یا تیرے، اسے رسک تو بہرحال لینا ہی پڑتا ہے۔ بھلا کنارے پر کھڑے ہوکر کب تک دریا کا بہاؤ دیکھتے رہو گے۔ لہریں گنتے رہو گے۔"۔
"آپ مجھے یہ سہانی نصیحتیں مت کریں۔ زندگی کے بارے میں سوچنا اور خوش کن زاویے سے دیکھنا آپ کے لئے آسان ہے مگر میرے لئے ازحد مشکل ہے۔ آپ کا دماغ آزاد ہے، میری سوچیں بندھی ہوئی ہیں۔ آپ کے خیالوں پہ کسی کا پہرہ نہیں، میری ہر سانس مشروط ہے۔"

شازیہ چوہدری کے ناول سے اقتباس
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
معلوم ہوا کہ ہدایت جہاں سے ملنی ہوتی ہے ، وہیں سے ملتی ہے ۔ جہاں کسی پہنچے ہوئے بزرگ کی نگاہ کام نہیں کرتی وہاں کسی انتہائی گنہگار ، بدکار اور برے انسان کی بات بول کام کر جاتے ہیں ۔

ماں باپ کہتے کہتے تھک ، ہار، عاجز آ جاتے ہیں مگر وہی بات کوئی سجن بیلی کہہ دیتا ہے تو فوراً مان لی جاتی ہے ۔

بڑے بڑے قابل اور کوالیفائیڈ ڈاکٹروں ، معالجوں سے افاقہ نہیں ملتا اور فٹ پا تھ پہ بیٹھنے والے عطائی حکیم سے شفا نصیب ہو جاتی ہے ۔

میں نے پڑھا ہے اور بار بار میرے تجربے مشاہدے میں آیا ہے کہ اچھوں ، نیکوں اور حاجیوں نمازیوں سے کہیں زیادہ گنہگا روں ، خطا کاروں اور بروں کی بات میں اثر ہوتا ہے وہ زیادہ دلپذ یر اور دلنشین ہوتی ہیں ۔

بظاہر برے ، بدمعاش ، اجڑے ہوئے اور شرابی کبابی لوگ اچھوں ، نیکوں سے کہیں بڑھ کر وفادار اور وقت پہ کام آنے والے ہوتے ہیں ۔ اکثر اچھوں اور نیکوں کے ہاں اپنی پاک طینتی اور دین داری کا زعم و مان ہوتا ہے اور بروں ، بد کاروں ، گنہگاروں کے ہاں عجز ہی عجز ، شرمندگی ہی شرمندگی اور ہر وقت خود پہ لعن طعن اور توبہ استغفار ہوتی ہے ۔

بس یہی شرم اور خود کو مٹ مٹی سمجھنا ہی میرے اللہ کو پسند ہے ۔ کہتے ہیں کہ اتنے خالی پیٹ والے بیمار نہیں ہوتے جتنے کہ خوب بھرے ہوئے پیٹ والے بیمار ہوتے یا مرتے ہیں ۔ اس طرح کبھی کسی کو اپنے سے کمتر نہ سمجھو ۔ خود کو نیک ، اچھا ، عبادت گزار، ولی اللہ اور دوسروں کو برا نہ کہو کہ کون جانے ، کوئی آج کیا ہے اور کل کیا ہو گا ؟ بقول شخصے ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں ۔

(اقتباس: محمد یحیٰی خان کی کتاب "پیا رنگ کالا" کے صفحہ نمبر "565" سے)
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
میں یہ عرض کر رہا تھا کہ بابے وہ ہوتے ہیں جن میں تخصیص نہیں ہوتی - اگر آپ زندگی میں کبھی کسی شخص کو آسانی عطا کر رہے ہیں تو آپ بابے ہیں -
اگر آپ آسانی نہیں عطا کر رہے تو پھر آپ اپنی ذات کے ہیں - بابوں میں نہ جنس کی قید ہوتی ہے نہ عمر کی -

میری چھوٹی پوتی نے اس دفعہ گرمیوں کی چھٹیوں میں ایک عجیب و غریب بات کی جو میں تو نہیں کر سکا - اس نے اسکول کی تھرماس لے کے اس میں سکنجبین بنائی -
بہت اچھی ، ٹھنڈی اور برف ڈالی اور اس کو جہاں ہمارا لیٹر باکس لگا ہے ، درخت کے ساتھ ہے ، اس درخت کی کھوہ میں رکھ دیا - اور ایک خط لکھ کے پن کر دیا اس کے ساتھ -

اس نے لکھا ، " انکل پوسٹ مین ! آپ گرمی میں خط دینے آتے ہیں تو آپ بائیسکل چلاتے ہو ، بڑی تکلیف ہوتی ہے - میں نے آپ کے لئے یہ سکنجبین بنائی ہے - یہ آپ پی لیں - میں آپ کی بڑی شکر گزار ہونگی - "

ہاں جی تو دوپہر کو ہم روز زبردستی سلا دیتے تھے بچوں کو -

شام کو جب جاگی تو وہ لے آئی تھرماس ، دیکھا تو وہ خط تھا اس کا -

اس کے اوپر ہرکارے نے لکھا تھا ! " پیاری بیٹی تیرا بہت شکریہ ....... میں نے سکنجبین کے دو گلاس پیے اور اب میری رفتار اتنی تیز ہو گئی ہے کہ میں ایک پیڈل مارتا ہوں تو دو کوٹھیاں آسانی سے سے گزر جاتا ہوں - تو جیتی رہ - الله تجھے خوش رکھے - کل جو بنائے گی اس میں چینی کے دو چمچ زیادہ ڈال دینا - "

یہ اس کی محبّت ہے نہ - یہ بچی جو ہے چھوٹی سی خواتین و حضرات اس نے بابا کی طرح آسانی دی تھی - اس نے ایک تعلق محسوس کیا تھا اس سے -

از اشفاق احمد زاویہ ١ بابا کی تعریف
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین


ہر انسان چالیس کے لگ بھگ پہنچ کرmidlife کے (crisis) اور اس سے جنم لینی والی تبدیلیوں کا شکار ہو جاتا ہے - اس عمر کو پختگی کی عمر کہہ لیجئے - لیکن یہی عمر ہے جب عام آدمی بڑی بڑی غلطیاں کرتا ہے - اور عمل میں نا پختگی کا ثبوت دیتا ہے -

تبدیلی کو خاموشی سے قبول نہ کرنے کی وجہ سے کئی بار انسان کا (image) سوسائٹی میں بلکل برباد ہو جاتا ہے -

پے در پے شادیاں ، معاشقے ، معیار زندگی کو بلند کرنے کے لیے دربدر کی ٹھوکریں ، ماں باپ سے ہیجانی تصادم ، اولاد سے بے توازن رابطہ غرضیکہ اس عہد کی تبدیلی میں زلزلے کی سی کیفیت ہوتی ہے

آخری تبدیلی عموماً بڑھاپے کے ساتھ آتی ہے - جب نہ اشیاء سے لگاؤ رہتا ہے نہ انسانی رشتے ہی با معنی رہتے ہیں - اب اطمینان قلب صرف ذکر الٰہی سے حاصل ہوتا ہے - لیکن یہ بھی نصیب کی بات ہے -

از بانو قدسیہ راہ رواں
 
Top