سید شہزاد ناصر
محفلین
برصغیر کے معروف سلسلہ ہائے تصوف میں سہروردیہ آمد کے اعتبار سے چشتیہ کے بعد دوسرا اہم سلسلہ ہے۔ اس کا آغاز ملتان سے حضرت بہاؤالدین زکریاؒ (م 1262 / 661) کی ذات گرامی سے ہوا جن کی ٹھوس علمی و مذہبی خدمات کے نتیجے میں موجودہ پاکستان میں شامل بڑے علاقے بالخصوص جنوبی پنجاب اور سندھ میں لوگ حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ آپ کے فرزند ، صدرالدین عارفؒ اور پوتے حضرت شاہ رکن عالم ؒ بھی اپنی کاوشوں کے با وصف صوفیائے ہندوستان کے ممتاز ترین اولیاء کی صف میں شمار ہوتے ہیں۔
ملتان کے ساتھ ساتھ اوچ بھی سہروردی مشائخ کا ایک بڑا مرکز رہا۔ حضرت بہاؤالدین زکریاؒ کے مرید، خلیفہ اور ہندوستان میں سادات بخاری کے مورث اعلیٰ حضرت جلال الدین سر خپوش بخاریؒ نے بھی اپنے مرشد ذی وقار کی طرح بڑے پیمانے پر لوگوں کو اسلام قبول کرنے پر مائل کیا۔ آپ کے بعد آپ کے فرزند احمد کبیرؒ اور پوتے مخدوم جہانیاں جہاں گشت ؒ اور صدرالدین راجن قتالؒ نے ہندوستان کے قرن ہائے وسطیٰ میں سیاسی مراکز سے دور تبلیغ و تعلیم اور تعمیرِ سیرت کا جو فریضہ ادا کیا اس نے عوام و خواص کی باطنی اصلاح اور قلبی طہارت کے حوالے سے تاریخ تصوف میں نہ مٹنے والے نقوش ثبت کر دیے۔ عہد سلاطین دہلی کے اوچ میں اگرچہ بہت سی شخصیات نے سیاسی ، علمی ، ثقافتی اور مذہبی پس منظر میں معاشرے پر اپنے اثرات مرتب کئے لیکن مخدوم جہانیاں جہاں گشت ؒ کی ذات گرامی اپنی ہمہ جہتی کی وجہ سے اُس دور کی نمایاں ترین شخصیت قرار دی جا سکتی ہے۔ اُن کی ولادت باسعادت 14 شعبان المعظم 707 ھ بمطابق 19 جنوری 1308 ء بروز جمعرات اوچ میں ہوئی۔ نام نامی ان کے جد امجد کے اسم گرامی پر جلال الدین رکھا گیا لیکن عام طور پر ’’مخدوم جہانیاں جہاں گشت ‘‘ کے نام سے معروف ہیں۔ علوم ظاہری کے حصول کے بعد آپ نے راہ سلوک میں قدم رکھا ۔ پہلے اپنے والد احمد کبیرؒ سے خرقہ خلافت حاصل کیا۔ دوسرا خرقہ حضرت شیخ رکن الدین ؒ سے پایا ۔ ان خرقہ ہائے خلافت کے علاوہ بھی آپ نے بہت سے بزرگوں سے خرقہ حاصل کرنے کا ذکر کیا ہے جن میں شیخ قوام الدینؒ ، شیخ قطب الدین منورؒ ، شیخ نصیر الدین چراغ دہلی ؒ ، شیخ عبداللہ یافعیؒ ، شیخ عبداللہ مطریؒ ، شیخ ابواسحق گازرونی ؒ ، شیخ امام الدین ؒ ، سید حمید حسنیؒ ، شیخ شرف الدین محمود شاہ تستریؒ ، سید احمد کبیر رفاعیؒ ، شیخ نجم الدین صنعانی ؒ ، شیخ نجم الدین کبریؒ ، شیخ اوحد الدین حسینی ؒ اور شیخ نور الدین ؒ ؒ شامل ہیں۔ حضرت مخدوم نے سیرو سیاحت بہت فرمائی اور تقریباً تمام ممالک اسلامی میں گھوم پھر کر علمائے عظام اور صوفیائے کرام سے فیوض و برکات حاصل کیے۔ اسی لیے جہاں گشت کے لقب سے مشہور ہوئے۔ انہیں اس تمام سفر میں کم وبیش دس بارہ سال لگے ہوں گے کیونکہ وہ سات سال مکہ معظمہ اور دو سال مدینہ منورہ میں رہے۔ جن شہروں اور علاقوں میں آپ کا جانا ثابت ہے ان میں مکہ معظمہ ، مدینہ منورہ ، یمن ، عدن، دمشق ، لبنان، مد ائن ، شوکارہ، بصرہ، کوفہ، شیراز ، تبریز، خراسان، بلخ ، نیشاپور، سمرقند، گازرون، احساء، قطیف، بحرین، غزنی، ملتان، بکھر، الور، ٹھٹھہ اور دہلی وغیرہ شامل ہیں۔
حضرت مخدوم جہانیاں ؒ نے سات بادشاہوں کا دور حکومت دیکھا جن میں علاؤالدین خلجی، شہاب الدین خلجی، قطب الدین مبارک شاہ، ناصر الدین خسرو، غیاث الدین تغلق، محمد تغلق اور فیروز شاہ تغلق شامل ہیں۔ محمد تغلق کے عہد میں آپ شیخ الاسلام بھی مقرر ہوئے اور سیوستان کے علاقے میں چالیس خانقاہوں کا نظام آپ کے سپرد کیا گیا۔ البتہ مخدوم جہانیاںؒ جلد ہی شیخ الاسلام کے عہدے سے سبکدوش ہو گئے اور شیخ رکن الدین ؒ کی خواب میں زیارت اور نصیحت پر عمل کرتے ہوئے حج پر تشریف لے گئے۔ فیروز شاہ تغلق سے البتہ آپ کے تعلقات بہت اچھے تھے۔ سندھ کے معاملات اور ٹھٹھہ کی مہم کے دوران حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشتؒ نے فیروز شاہ ، جام جونہ اور بانبھیہ کے درمیان مصالحانہ کوششوں کے حوالے سے اہم کردار ادا کیا۔ حضرت مخدوم ہر دوسرے تیسرے سال دہلی تشریف لے کر جاتے اور وہاں خاصے دن قیام فرماتے۔ الدر المنظوم سے ان کے دہلی کے قیام سے متعلق کئی معلومات ہم تک پہنچتی ہیں۔ حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت ؒ کی تمام زندگی رشد وہدایت سے عبارت تھی۔ سفر و حضر میں تبلیغ و ارشاد کا سلسلہ جاری رہتا۔ اوچ کی خانقاہ میں مریدین و طالبین کا کثیر مجمع ہوتا۔ دور دور سے طالبانِ علم و نظر اکتساب فیض کے لیے حاضر ہوتے۔ علماء دین، مفتیان شرع اور مشائخ کرام بھی آپ کے تبحر علمی کے پیش نظر مختلف مسائل شریعت و تصوف کا حل آپ سے کراتے۔ مخدوم جہانیاں جہاں گشتؒ پیروی شریعت و سنت کی ہمیشہ تلقین فرماتے ۔ خود اتباع سنت میں شدت سے عمل پیرا رہتے۔ فرماتے کہ جو شخص گفتار و کردار و رفتار میں متبع سنت نہیں وہ ولی نہیں ہو سکتا۔ فرماتے تھے کہ سنت کی احتیاط ایسی کرنی چاہیے کہ موت کی حالت میں بھی سنت کی اتباع میں کمی نہ ہو۔ آپ روحانی ارتقاء کے لیے تین ضابطوں یعنی شریعت ، طریقت اور حقیقت کا تعین کرتے تھے۔ شریعت کا تعلق نفس کی اصلاح سے ہے۔ طریقت روح کے لیے فیض بخش ہے اور حقیقت فرد کے اعلیٰ ترین روحانی جوہر کی تہذیب کرتی ہے۔ آپ کے نزدیک ایمان کے بھی تین درجے ہیں۔ ایمان تقلیدی، ایما ن استدلالی اور ایمان مشاہداتی۔ ایمان تقلیدی ایمان کی پست ترین سطح ہے۔ اس کی بنیاد بچپن کی پال پوس، ماحول کے اثرات اور خانگی و سماجی وراثت پر ہے۔ اس درجے پر انسان دوسروں سے ملنے والے عقائد کو قبول کئے ہوئے ہوتا ہے۔ ان عقائد کا اور اس کا تعلق میکانکی ہوتا ہے اور وہ عقائد اس کی زندگی کو متاثر نہیں کرتے۔ ایمان کے دوسرے درجے پر فرد تقلیدی عقائد کو عقل و حکمت کی روشنی میں پرکھتا ہے۔ اپنے معتقدات کا تجزیہ کرتا ہے۔ اُن کی تشکیل نو کرتا ہے اور اس طرح اپنی زندگی کے لیے لائحہ عمل کا تعین کرتا ہے۔ مخدوم جہانیاںؒ ایمان کے اس درجے کو بھی غیر کامل قرار دیتے ہیں اور بالآخر اسے مسترد کر دیتے ہیں۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ ایمانِ اِستدلالی کے درجے پر فرد کا حقیقت مطلقہ کے ساتھ بلاواسطہ رابطہ قائم نہیں ہوتا لہٰذافرد حقیقت مطلقہ کو پوری طرح گرفت میں لینے سے عاجز رہتا ہے۔ یہی عاجزی فرد کو روحانی ارتقاء کے اُس اعلیٰ تر درجے تک رسائی حاصل کرنے کی تحریک دیتی ہے جو مشاہداتی ایمان کا درجہ ہے ۔ یہاں فرد حقیقت مطلقہ سے شخصی رشتہ قائم کرتا ہے اور یہ وجودِ مصدقہ کا درجہ ہے۔ آپ کے مطابق ایمان تقلیدی کی سطح پر شریعت ، ایمانِ اِستدلالی کے درجے پر طریقت اور ایمان مشاہداتی کے مقام پر حقیقت کے ضابطے رہنما اصول بنتے ہیں ۔ سالک کو چاہیے کہ آغاز میں شریعت کا مکمل اتباع کرے۔ اس کے بعد اسے طریقت کا راستہ ملے گا اس پر کامیابی اور دل جمعی سے چلتے ہوئے وہ بالاخر حقیقت کی منزل پر پہنچ جائے گا۔ حضرت مخدوم جہانیاںؒ نے شیخ کامل ، سالک ، سلوک اور صفات مرید پر بھی نہایت تفصیل سے بحث کی ہے۔ اس کے علاوہ اور بے شمار علمی موضوعات ایسے ہیں جن کو ان ملفوظات میں موضوع سخن بنایا گیا ہے جو آپ کے مریدین نے مرتب کئے۔ ان میں خلاصتہ الاالفاظ جامع العلوم، سراج الہدایہ، خزانہ جلالی، جواہر جلالی ، مظہر جلالی اور مناقب مخدوم جہانیاں شامل ہیں۔ آپ کے مکتوبات بھی خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ انہیں مقرر نامہ کے نام سے محفوظ کیا گیا۔ آپ نے رسالہ مکیہ ، جو تصوف کے موضوع پر شیخ قطب الدین دمشقی ؒ کی مختصر مگر جامع تحریر ہے ، کا ترجمہ فارسی میں کیا اور اسے درس میں شامل کیا ۔ آپ کی مرتب شدہ ایک تحریر اربعین صوفیہ کے نام سے بھی ہے جس کے حوالے تصوف کی کتابوں میں ملتے ہیں۔ قرآن پاک کے کچھ تراجم بھی آپ سے منسوب کئے جاتے ہیں۔ ایک سفرنامہ بھی آپ سے موسوم ہے لیکن اس کے وضعی اور جعلی ہونے میں کوئی کلام نہیں۔ حضرت مخدوم جہانیاں جہان گشت ؒ کا سلسلہ بیعت و ارشاد بہت وسیع تھا۔ صاحب ثمرات القدس کے مطابق ان کے ایک لاکھ ستر ہزار دو سو چھیاسی مرید تھے ۔ وہ حنفی مذہب رکھتے تھے اور ان کے تمام مرید بھی اسی مذہب کے پیرو تھے۔ حضرت مخدوم کے بعض مریدین و خلفاء کے اسمائے گرامی ان کے ملفوظات میں ملتے ہیں۔
جوخانقاہ میں رہ کرسلوک کی منازل طے کرتے اور خرقہ خلافت و اجازت حاصل کر کے سلسلہ کی اشاعت میں مشغول ہو جاتے۔ اس طریقہ کار کے توسط سے حضرت مخدوم کے خلفاء اورپھر ان کے فیض یافتگان پنجاب ، سندھ ، یو۔ پی، بہار، بنگال، گجرات، کاٹھیا واڑ، دکن، مدراس وغیرہ میں پھیل گئے ۔علاوہ ازیں اکثر مقامات پر حضرت مخدوم کی اولاد کا سلسلہ بھی پھیلا۔ حضرت مخدوم کسی شخص کے اسلام لانے کے بعد اس کی باحسن وجوہ تربیت فرماتے تھے تاکہ اس شخص کی تبلیغ سے اس کا پورا قبیلہ یا پوری قوم مسلمان ہو جائے۔ آپ کے دست حق پرست پر اسلام قبول کرنے والوں میں پنجاب کے بعض اہم قبائل مثلاً نون اور کھرل خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔ حضرت مخدوم کی عمر78 برس کی ہوئی۔ سال وفات 785/1384 ہے ۔ (10 ذی الحجہ) 3فروری کا دن تھا ۔ عید قربان چہار شنبہ تھی ۔ نماز دوگانہ ادا کرنے کے بعد طبیعت زیادہ خراب ہو گئی اور غروب آفتاب کے ساتھ رشد و ہدایت ، فلاح و خیر اور علم و فضل کا یہ آفتاب ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ آپ کا مزار اوچ میں واقع ہے۔
ربط
http://www.sindhsagar.com/index.php/personalities/31-2013-08-08-03-28-57