مخدوم و محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی نظر بندی


باری تعالی : مخدوم و محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو صحتِ کاملہ عطا فرما

کینسر جیسے موذی مرض کے کراچی میں آپریشن کے بعد ڈاکٹر عبدالقدیر خان اب اسلام آباد میں اپنے گھر میں مسلسل نظر بندی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ پوری طرح صحت یاب نہیں ہوئے اور ابھی تک مسائل سے دوچار ہیں۔
گزشتہ دنوں ان کی شریانوں میں خون منجمد ہوگیا لہذا ہسپتال میں ان کے ٹیسٹ وغیرہ لیے گئے۔
ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالی ڈاکٹر صاحب کو جلد صحت کاملہ عطا فرمائے۔ ہماری یہ بھی دعا ہے کہ صحت یابی کے بعد انہیں آزادانہ طور پر زندگی گزارنے کا موقع میسر آئے اور وہ پھر سے اپنی قوم کے سامنے آئیں جو اپنے اس محسن کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے قرار ہے۔ پوری قوم ان کی صحت یابی کیلیے دعائیں کر رہی ہے۔ انہیں فورا رہا کرکے ملک کو باعزت اور باوقار اسلامی جمہوریہ پاکستان ثابت کرنا چاہیے۔

ان کی نظر بندی کو آج 1247 دن ہوگئے ہیں۔




یہ پیغام 1247 دن سے مسلسل روزنامہ نوائے وقت میں آرہا ہے اور ہماری بے حسی کو مسلسل للکار رہا ہے۔

کیا ہم بے حس ہی رہیں گے۔


 
ڈاکٹر صاحب بھی فوج کے ہاتھوں نشانہ بنے ہیں ۔ چیف جسٹس اور ڈاکٹر صاحب کے معاملے میں‌ایک واضح فرق یہ نظر ارہا ہے کہ ان کے پاس وکلا اور بار کے ادارے کی سپورٹ نہیں‌ہے۔ سائنس دانوں‌کی پاکستان میں‌کوئی عزت ہی نہیں ہے۔ انھیں‌تو گلی میں‌کھڑا پولیس کانسٹبل ہی جھڑک دیتا ہے اور وہ بے چارے اپنا سا منہ لے کر رہ جاتے ہیں۔ سائنس دانو‌ں کی بے توقیری کسی بھی معاشرے کے تنزلی کی بے حد واضح نشانی ہے۔ ہوشیار پرندے اس نشانی کو دیکھ کر دوسرے اشیانے کی طرف کوچ کرجاتے ہیں۔ فوجی کمانڈروں‌کی معاشرے کے ہر طبقے پر حکمرانی اس تنزلی کا عروج اور تباہی کا نقطہ اغاز نظر اتا ہے۔ اگر پاکستانی قوم بے دار نہ ہو تو خدا نہ خواستہ انجام اچھا نہیں‌ہے۔

ڈاکٹر صاحب کے معاملے میں‌قوم کے نوجوانوں کو منظم اواز اٹھانی چاہیے۔ سیاسی وابستگیوں کے بالا ایک نقطہ پر منظم ہونا پڑے گا۔ کم ازکم قوم کے پڑھے لکھے نوجوانوں‌کو ضرور اس پر سوچنا چاہیے۔

مگر اس تمام معاملات کاحل معاشرے پر فوجی بالادستی کا خاتمہ ہی ہے۔
 
یہ مسئلہ اب اٹھایا جانا چاہیے کیونکہ اب مشرف صاحب کے جانے کے دن قریب ہیں اور اے پی سی میں بھی اسے شامل کیا گیا تھا۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
یہ ہمارا المیہ ہے کہ ہم اپنے ہیروز کے ساتھ اکثر ایسا سلوک کر جاتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگوں کے خیال میں واقعی ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کوئی قابلِ گرفت غلطی کی ہو ( جس کو اکثریت شاید غلطی مانتی ہی نہیں۔۔) لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ ان کو بنیادی شہری حقوق سے بھی محروم کر دیا جائے۔۔آج ر پاکستان بین الاقوامی اور اسلامی برادری میں جو مقام رکھتا ہے اس کی ایک وجہ ایک ایٹمی طاقت ہونا بھی ہے اور اس کے لئے ساری قوم ڈاکٹر صاحب کی مقروض ہے۔۔ایک محسن کے ساتھ ایسا ناروا سلوک ایک زندہ قوم کو زیب نہیں دیتا (پتہ نہیں ہم زندہ قوم ہیں بھی یا نہیں)۔۔
اگر ایک فوجی جرنیل (ایڈمرل منصور الحق) کو کرپشن ثابت ہونے کے بعد بھی تمام سہولتیں دی جا سکتی ہیں تو قوم کے محسن کے ساتھ ایسا سلوک سمجھ سے باہر ہے۔۔
 
ضیائے حرم ایک ماہنامہ ہے اور لاہور سے چھپتا ہے ۔ اس بار انہوں نے محسن ملت ڈاکٹر عبدالقدیر نمبر نکالا ہے جس کے سرورق پر یہ شعر قوم کی بے حسی اور بے دردی کی داستان سنا رہا ہے

گزر تو گئی ہے حیات تیری اے قدیر
مگر ستم ظریف بے درد کوفیوں میں گزری

اس نمبر میں تقریبا پچیس کالم ہیں ڈاکٹر صاحب پر اور مختلف کالم نویسوں نے ڈاکٹر صاحب اور ان کے کارہائے نمایاں پر روشنی ڈالی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کتنے مشکل حالات اور کتنی جدوجہد اور تگ و دو کے بعد انہوں نے قوم کو ناقابل تسخیر دفاع کا تحفہ دیا۔ یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ ان کے مخالفین نے کیسے ان کے کام کی قدر گھٹانے کی کوشش کی اور کس طرح ان کی کردار کشی کی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ چند کالم اور کالم نویسوں کے نام مندرجہ ذیل ہیں؛

بیسوی صدی عیسوی کا عظیم ترین مسلم سائنسدان
از ڈاکٹر ظہور احمد اظہر

یوم تکبیر ؛ محسن پاکستان اور جرات مند وزیر اعظم
از ڈاکٹر خواجہ عابد نظامی

محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان
از ڈاکٹر حسین احمد پراچہ

ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ایٹمی پروگرام
از ڈاکٹر شاہد مسعود
 

باسم

محفلین
انٹرویو پڑھنے کے لائق ہے

محسن پاکستان
ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کی قوم سے معافی کے بارے میں کچھ حقائق بیان کیے ہیں
story1.gif
 

الف نظامی

لائبریرین
شیرِ پاکستان محسن پاکستان پاکستانی عوام کے درمیان موجود ہیں۔ اللہ کا شکر ہے۔
وہ جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم
دریاوں کے دل جس سے دھل جائیں وہ طوفان
 

arifkarim

معطل
شیرِ پاکستان محسن پاکستان پاکستانی عوام کے درمیان موجود ہیں۔ اللہ کا شکر ہے۔
وہ جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم
دریاوں کے دل جس سے دھل جائیں وہ طوفان

اللہ کا شکر ہے انکی نظر بندی ختم ہوئی۔ اب اندر خانے کیا ڈیل ہوئی تھی۔ واللہ اعلم!
 

باسم

محفلین
باہر والوں کو کہتے ہیں عدالت کا فیصلہ ہے ہم کچھ نہیں کرسکتے اور ہمیں کہتے ہیں ڈیل ہوئی ہے۔
 

طالوت

محفلین
الحمد للہ ! نظر بندی تو ختم ہوئی ۔۔
مگر حکومت اس تیر سے کئی شکار کر رہی ہے ۔۔ عوام میں موجودہ عدالتوں کا اچھا تاثر ، بیرونی دنیا کا عدلیہ کے حوالے سے دباؤ کم کرنے کی کوشش اور ایک چھوٹی سی "تڑی" بھی کہ ہم اپنے فیصلے خود بھی کر سکتے ہیں ۔۔ بہرحال وجہ کچھ بھی رہی ہو دیر سے ہی سہی ایک احسن اقدام ہے ۔۔۔۔۔۔ کہ ہمارے یہاں کی سیاست کچھ اس طرح سے ہی چلتی ہے ۔۔
وسلام
 

طارق راحیل

محفلین
اے وطن تو نے پکارا تو لہو کھول اٹھا
تیرے بیٹے تیرے جانباز چلے آتے ہیں

نعرہ تکبیر سے خود سری کا سر توڑتے ہیں
ہم ہیں وہ شیر جو طوفانوں کا رخ موڑتے ہیں
اینٹ کا جواب ہم پتھر سے دیا کرتے ہیں
ہم اپنی ذات پر کہاں کوئی قرض چھوڑتے ہیں

ہر اینٹ کا جواب پتھر ہے
ایٹمی طاقت ہمارا نعرہ و تدبیر ہے
اب ہماری دعا میں آچکی تاثیر ہے
اللہ اکبر ہمارا نعرہ تکبیر ہے

اللہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کو صحت تندرست اور پاکستان کے لئے مزید کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے
آمین ثما مین
یوم تکبیر زندہ باد
 
Top