حسان خان
لائبریرین
مخمس بر غزلِ جناب استادی نجم الدولہ دبیر الملک مرزا اسد اللہ خان غالب نظام جنگ
میں کون ہوں جو یہ کہوں مجھ سے نباہ ہو
ہو جس پہ لطف اُس پہ کرم کی نگاہ ہو
ملیے اُسی سے آپ کا جو نیک خواہ ہو
تم جانو تم کو غیر سے گر رسم و راہ ہو
مجھ کو بھی پوچھتے رہو تو کیا گناہ ہو
کہتا نہیں ہے خوف سے کچھ کوئی آپ کے
پر ماجرائے قتل مرا سب ہیں جانتے
کیا ہے جو دار و گیر سے دنیا میں بچ گئے
بچتے نہیں مؤاخذۂ روزِ حشر سے
قاتل اگر رقیب ہے تو تم گواہ ہو
ان بدگمانیوں کی نہ حد ہے نہ کچھ شمار
دیکھے کوئی اُنہیں یہ نہایت ہے ناگوار
اس رشک سے اُٹھاؤں گا صدمہ ہزار بار
اُبھرا ہوا نقاب میں ہے اُن کے ایک تار
مرتا ہوں میں کہ یہ نہ کسی کی نگاہ ہو
باتیں جو کر رہے ہو یہ دور از قیاس ہیں
دعوے جو کر رہے ہو دلیلیں بھی پاس ہیں؟
کیا وہ کسی کے مرجعِ امید و یاس ہیں
کیا وہ بھی بے گنہ کش و حق ناشناس ہیں
مانا کہ تم بشر نہیں خورشید و ماہ ہو
دل ہی نہیں بچا تو پھر اب کیا جگہ کی قید
چھوٹے بس آشنا تو پھر اب کیا جگہ کی قید
سب سے ہوا جدا تو پھر اب کیا جگہ کی قید
جب میکدہ چھٹا تو پھر اب کیا جگہ کی قید
مسجد ہو مدرسہ ہو کوئی خانقاہ ہو
تقریر زاہدوں کی سمجھتے ہیں کب درست
ہر ایک جہاں کہنے لگا سن کے جب درست
اس اجتہاد پر نہ یقیں کیوں ہو اب درست
سنتے ہیں جو بہشت کی تعریف سب درست
لیکن خدا کرے وہ ترا جلوہ گاہ ہو
غرقاب سطحِ خاک اگر ہو تو ڈر نہیں
گر جائے آسماں بھی تو اتنا خطر نہیں
حاجت کسی کی دیر میں سالکؔ اگر نہیں
غالبؔ بھی گر نہ ہو تو کچھ ایسا ضرر نہیں
دنیا ہو یا رب اور مرا بادشاہ ہو
(مرزا قربان علی بیگ خان سالک)