مدارس، علامہ اقبال کی نگاہ میں
جدید ذہن کےحوالےسےقدیم نصاب کےحامل مدارس اور مکاتب کی اصلاح اور ان کی جدید ترتیب و تعمیر کےسلسلےمیں آئےدن بہت سی باتیں اور سجھاو, تحریر و تقریر میں نظر آرہی ہیں ۔ ترمیم اور نظر ثانی کی یہ باتیں اس قدر تواتر اور اصرار کےساتھ منظر عام پر آرہی ہیں کہ ہمارےمدارس کےذمہ دار بھی مرعوب ہو کر یا تو دفاعی پوزیشن میں آگئےہیں یا پھر ان کےذہن و فکر نےنظر ثانی اور تبدیلیوں کی بات قبول کرلی ہےجو یہ خوش آئند نہیں ہے۔مدرسوں کےتئیں علامہ اقبال کےچونکا دینےوالےخیالات و احساسات ، ملاحظہ ہوں جو انہوں نےایک مستشیر کی بات سن کر درد بھری آواز میں کہےتھی۔
"جب میں تمہاری طرح جوان تھا تو میرےقلب کی کیفیت بھی ایسی ہی تھی۔ میں بھی وہی کچھ چاہتا تھا، جو تم چاہتےہو، انقلاب، ایک ایسا انقلاب جو ہندوستان کےمسلمانوں کو مغرب کی مہذب اور متمدن قوموں کےدوش بدوش کھڑا کردے، لیکن یورپ کو دیکھنےکےبعد میری رائےبدل گئی، ان مکتبوں کو اسی حال میں رہنےدو، غریب مسلمانوں کےبچوں کو ان ہی مکتبوں میں پڑھنےدو، اگر یہ ملا اور درویش نہ رہےتو جانتےہو کیا ہوگا ؟ جو کچھ ہوگا اسےمیں اپنی آنکھوں سےدیکھ آیا ہوں، اگر ہندوستان کےمسلمان مکتبوں کےاثرسےمحروم ہو گئےتو بالکل اسی طرح جس طرح ہسپانیہ (اسپین) میں مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکومت کےباوجود آج غرناطہ اور قرطبہ کےکھنڈر اور الحمراءاور باب الاخوتین کےسوا اسلام کےپیرواں اور اسلامی تہذیب کےآثار کا کوئی نقش نہیں ملتا، ہندوستان میں بھی آگرہ کےتاج محل اور دہلی کےلال قلعہ کےسِوا مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکومت اور تہذیب کا کوئی نشان نہیں ملےگا۔
کل ایک شوریدہ بارگاہِ نبی پہ رُورُو کےکہہ رہا تھا : کہ مصروہندوستان کےمسلم بِنائےملت مٹارہےہیں
غضب ہےیہ رہبران خودبیں خدا تری قوم کو بچائے: مسافرانِ رہِ حرم کو رہِ کلیسا دکھا رہےہیں
حوالہ :
http://www.geocities.com/uloomulquran/madaisiqbal.htm
جدید ذہن کےحوالےسےقدیم نصاب کےحامل مدارس اور مکاتب کی اصلاح اور ان کی جدید ترتیب و تعمیر کےسلسلےمیں آئےدن بہت سی باتیں اور سجھاو, تحریر و تقریر میں نظر آرہی ہیں ۔ ترمیم اور نظر ثانی کی یہ باتیں اس قدر تواتر اور اصرار کےساتھ منظر عام پر آرہی ہیں کہ ہمارےمدارس کےذمہ دار بھی مرعوب ہو کر یا تو دفاعی پوزیشن میں آگئےہیں یا پھر ان کےذہن و فکر نےنظر ثانی اور تبدیلیوں کی بات قبول کرلی ہےجو یہ خوش آئند نہیں ہے۔مدرسوں کےتئیں علامہ اقبال کےچونکا دینےوالےخیالات و احساسات ، ملاحظہ ہوں جو انہوں نےایک مستشیر کی بات سن کر درد بھری آواز میں کہےتھی۔
"جب میں تمہاری طرح جوان تھا تو میرےقلب کی کیفیت بھی ایسی ہی تھی۔ میں بھی وہی کچھ چاہتا تھا، جو تم چاہتےہو، انقلاب، ایک ایسا انقلاب جو ہندوستان کےمسلمانوں کو مغرب کی مہذب اور متمدن قوموں کےدوش بدوش کھڑا کردے، لیکن یورپ کو دیکھنےکےبعد میری رائےبدل گئی، ان مکتبوں کو اسی حال میں رہنےدو، غریب مسلمانوں کےبچوں کو ان ہی مکتبوں میں پڑھنےدو، اگر یہ ملا اور درویش نہ رہےتو جانتےہو کیا ہوگا ؟ جو کچھ ہوگا اسےمیں اپنی آنکھوں سےدیکھ آیا ہوں، اگر ہندوستان کےمسلمان مکتبوں کےاثرسےمحروم ہو گئےتو بالکل اسی طرح جس طرح ہسپانیہ (اسپین) میں مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکومت کےباوجود آج غرناطہ اور قرطبہ کےکھنڈر اور الحمراءاور باب الاخوتین کےسوا اسلام کےپیرواں اور اسلامی تہذیب کےآثار کا کوئی نقش نہیں ملتا، ہندوستان میں بھی آگرہ کےتاج محل اور دہلی کےلال قلعہ کےسِوا مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکومت اور تہذیب کا کوئی نشان نہیں ملےگا۔
کل ایک شوریدہ بارگاہِ نبی پہ رُورُو کےکہہ رہا تھا : کہ مصروہندوستان کےمسلم بِنائےملت مٹارہےہیں
غضب ہےیہ رہبران خودبیں خدا تری قوم کو بچائے: مسافرانِ رہِ حرم کو رہِ کلیسا دکھا رہےہیں
حوالہ :
http://www.geocities.com/uloomulquran/madaisiqbal.htm